Tuesday 16 August 2016

جی پی (پراویڈنٹ) فنڈ کی رقم لینا جائز ہے

(عام طور سے میں فقہ کے مسائل لکھنے سے بہت شدید پرہیز کرتا ہوں ایک تو میں عالمِ دین نہیں، اور دوسرے یہ  کہ تبلیغ اصول کی ہوتی ہے، فروع کی نہیں۔ اس پوسٹ کے لکھنے کی ایک خاص وجہ ہوئ اور وہ یہ کہ میں بعض ایسے بہت اچھے، بہت نیک دوستوں کو جانتا ہوں جو اپنی رائے میں پراویڈنٹ فنڈ کو سود سمجھتے ہیں اور اس لیے نہیں لیتے۔ اس پوسٹ کے لکھنے کا اصل مقصد صرف یہ اصول بتانا ہے کہ جس طرح حرام کو حلال قرار دے لینا گناہ ہے، بالکل اسی طرح حلال کو اپنی رائے سے حرام قرار دے لینا اور اس کو نیکی سمجھنا بھی اتنا ہی بڑا گناہ ہے۔ جس انسان کو حرام حلال کی فکر ہو لیکن وہ خود علم نہ رکھتا ہو، اس کی عافیت اسی میں ہے کہ خودرائ کے بجائے کسی ایسے عالم سے پوچھ کر عمل کرے جو علم میں بھی کمال رکھتا ہو اور ایمانداری میں بھی کامل ہو۔) 

کسی نے مولانا اشرف علی تھانویؒ سے سوال کیا کہ یہ جو گورنمنٹ ملازمین کی تنخواہ میں سے نوکری کے دوران ہر ماہ کچھ رقم کاٹ کے، بعد ملازمت ختم ہونے کے وہ جمع شدہ رقم اور اس میں سے کچھہ اپنی طرف سے اضافہ کر کے دیتی ہے، اس کو بعض لوگ سود سمجھتے ہیں۔ کیا اس کا لینا جائز ہے؟

حضرت نے فرمایا کہ جائز ہے اور وہ اضافہ کا روپیہ لینا بھی جائز ہے۔ کیونکہ سود تو جب ہو جب کوئ اپنی ملکیت کا روپیہ کسی کو ادھار دے اور جب واپس لے تو زیادہ کر کے واپس لے۔ یہاں ایسا نہیں کیونکہ جب تک ملازم کی تنخواہ اس کے پاس نہیں آتی اس وقت تک وہ روپیہ اس کے قبضہ میں نہیں آیا اور اس کی ملکیت میں داخل نہیں ہوا۔ جتنا روپیہ اس کو مہینہ پورا ہونے پہ اس کو ملا وہ تو اس کی ملکیت ہے، اور جو کاٹ لیا گیا وہ اس کی ملکیت نہیں۔ جب اس کو ملے گا اس وقت اس کی ملکیت ہو گا۔ اس لیے جتنا کاٹا گیا اس سے جتنا زیادہ اس کو ملے گا وہ ایک طرح کا تحفہ ہو گا۔ ہاں اگر روپیہ اس کے قبضے میں آ جائے، پھر خود اس کو جمع کرائے اور واپس لیتے ہوئے زیادہ واپس لے تو پھر یہ سود ہو گا۔

ماخوذ از ملفوظاتِ اشرفیہ

No comments:

Post a Comment