Sunday 21 August 2016

کتنے لمحات باقی رہ گئے ہیں؟

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمةالّٰلہ علیہ کے ایک استاد حضرت میاں سیّد اصغر حسین صاحب قدس سرہ بڑے اونچے درجے کے بزرگوں میں سے تھے۔ مفتی شفیع صاحبؒ ان کی خدمت میں کثرت سے جایا کرتے تھے۔ ایک دن مفتی شفیع صاحبؒ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا، دیکھو مولوی شفیع صاحب، آج ہم دونوں اردو میں بات نہیں کریں گے، عربی میں بات کریں گے۔ حضرت مفتی شفیع صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے اس پہ بڑی حیرانی ہوئ کہ پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا۔ خیر حسبِ ارشاد دونوں عربی میں بات کرتے رہے۔ حضرت مفتی شفیع صاحب فرماتے ہیں کہ عربی پہ اردو جیسی قدرت تو تھی نہیں۔ ضروری ضروری نپی تلی باتیں ہوئیں اور پھر بات ختم ہوگئ۔ آخر بہت پوچھنے پہ حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ بات اصل میں یہ ہے کہ میں نے دیکھا ہے کہ ہم دونوں مل کے بیٹھتے ہیں تو بہت ادھر ادھر کی گفتگو شروع ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں بعض اوقات ہم لوگوں فضول باتوں کے اندر مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اگر عربی میں بات کریں گے تو عربی پوری روانی کے ساتھ نہ تمہیں آتی ہے اور نہ مجھے۔ سوچ سمجھ کر بات کریں گے، اور پھر بلا ضرورت فضول کی گفتگو نہیں ہو گی۔ صرف ضروری باتیں ہوں گی۔ 

پھر حضرت میاں صاحب ؒ نے فرمایا کہ بھائ دیکھو۔ ہماری مثال اس شخص کی سی ہے جو گھر سے بہت ساری اشرفیاں لے کر سفر پہ نکلا تھا۔ ابھی وہ راستے میں ہی تھا کہ اس کی بیشتر اشرفیاں ختم ہو گئیں اور کچھ ہی اشرفیاں باقی رہ گئیں۔ اب وہ ان اشرفیوں کو سنبھال سنبھال کے اور بہت زیادہ ضرورت کے موقع پہ خرچ کرتا ہے کہ کہیں وہ منزل پہ پہنچنے سے پہلے ہی ختم نہ ہو جائیں۔ 

پھر فرمایا کہ ہم نے اپنی اکثر عمر گزار دی اور اور یہ جو عمر کے قیمتی لمحات الّٰلہ تعالیٰ نے عطا فرمائے تھے یہ سب منزل تک پہنچنے کے لیے مال و دولت اور اشرفیاں تھیں۔ اگر ان کو صحیح طور پر استعمال کرتے تو منزل تک پہنچنا آسان ہو جاتا لیکن ہم نے یہ قیمتی لمحات نہ جانے کن فضول باتوں میں، مجلس آرائ میں اور محض گپ شپ میں خرچ کر دیے۔ اب پتہ نہیں کتنے لمحات رہ گئے ہیں اس لیے دل چاہتا ہے کہ ان کو بہت احتیاط کے ساتھ صرف ان کاموں اور باتوں میں خرچ کریں جن سے آگے کی منزل آسان ہو جائے۔ 

ماخوذ از بیان "زبان کی حفاظت کیجئے" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment