Tuesday 9 August 2016

غیبت کرنا کن صورتوں میں جائز ہے؟

شریعت نے ہر چیز کی رعایت کی ہے، انسان کی فطرت کی بھی رعایت کی ہے اور اور اس کی جائز ضرورتوں کا بھی خیال رکھا ہے، لہذا غیبت سے چند صورتوں کو مستنثیٰ کر دیا ہے۔ اگرچہ صورتاً وہ غیبت ہیں لیکن شرعاً جائز ہیں۔ 

۱۔ دوسرے کے شر سے بچانے کے لئے غیبت کرنا
اگر کوئ شخص ایسے کام کرتا ہو جس سے دوسروں کو نقصان پہنچتا ہو، تو ایسے کسی انجان آدمی کو جس کو اس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، اس کے بارے میں بتا دینا کہ فلاں ںشخص سے ہوشیار رہیں، جائز ہے۔ کسی شخص کو کسی دوسرے کے ظلم سے بچانے کے لئے اگر اس کے پیٹھ پیچھے اس نقصان پہنچانے والے کے بارے میں بتا دیا جائے تو یہ غیبت میں داخل نہیں، ایسا کرنا جائز ہے۔

۲۔ اگر کسی کی جان کوخطرہ ہو 
اگر آپ کو کسی کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ کسی دوسرے پر حملہ کرنے اور اس کی جان لینے کی تیّاری  کر رہا ہے تو ایسے صورت میں اس دوسرے شخص کو بتانا کہ تمہاری جان کو خطرہ ہے تا کہ وہ اپنی جان کا تحفّظ کر سکے، جائز ہی نہیں بلکہ شرعاً واجب ہے۔

۳۔ ظالم کے ظلم کا تذکرہ غیبت نہیں
اگر ایک شخص نے کسی دوسرے پر ظلم کیا ہو اور وہ اس ظلم کا تذکرہ کسی دوسرے کے سامنے کرے کہ میرے ساتھ فلاں شخص نے یہ ظلم کیا ہے یا یہ زیادتی کی ہے، ایسا کہنا غیبت میں داخل نہیں، چاہے جس کے سامنے یہ کہا جائے وہ اس ظلم کا تدارک کر سکتا ہو یا نہ کر سکتا ہو۔

قرآن کریم میں الّٰلہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ترجمہ: "الّٰلہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی برائ علانیہ زبان پر لائ جائے، الّا یہ کہ کسی پہ ظلم ہوا ہو۔۔۔" (سورة النساء:۱۴۸)

ماخوذ از بیان "غیبت ایک عظیم گناہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment