Wednesday 10 August 2016

کسی بڑے سے بڑے گناہگار کی غیبت کرنا بھی جائز نہیں

حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک مجلس میں حضرت عبدالّٰلہ ابن عمر ؓ موجود تھے۔ اسی مجلس میں کسی شخص نے حجّاج بن یوسف کی برائیاں شروع کر دیں تو حضرت عبدالّٰلہ ابن عمر ؓ نے ٹوکا اور فرمایا کہ "دیکھو یہ جو تم ان کی برائیاں بیان کر رہے ہو، یہ غیبت ہے۔ اور یہ مت سمجھنا کہ اگر حجّاج بن یوسف کی گردن پر سینکڑوں انسانوں کا خون ہے تو اب اس کی غیبت حلال ہو گئی، حالانکہ اس کی غیبت حلال نہیں ہوئ بلکہ جہاں الّٰلہ تعالیٰ حجّاج بن یوسف سے ان سینکڑوں انسانوں کے خون کا حساب لیں گے جو اس کی گردن پر ہیں، تو وہاں تم سے اس غیبت کا حساب بھی لیں گے جو تم اس کے پیچھے کر رہے ہو۔"

ماخوذ از بیان "غیبت ۔ ایک عظیم گناہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

حضرت تھانوی ؒ نے ایک اور موقع پر فرمایا کہ ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ کیا یزید کی غیبت جائز ہے؟ انہوں نے فرایا کہ اس کے لئے جائز ہے جس کو یقین ہو کہ اس کا خاتمہ یزید سے اچھا ہو گا۔ یہ اس لئے کہ اعتبار صرف خاتمے کا ہے، اور خاتمے کا اعتبار نہیں۔

No comments:

Post a Comment