Sunday 7 August 2016

غیبت ۲

بعض لوگ غیبت کو جائز ثابت کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ میں غیبت تھوڑا ہی کر رہا ہوں۔ میں تو اس کے منہ پہ یہ بات کہہ سکتا ہوں، اور اس سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب میں اس کے منہ پہ یہ بات کہہ سکتا ہوں تو یہ غیبت نہیں ہوئ۔ یاد رکھیے ہر وہ بات جو کسی کے پیٹھ پیچھے کہی جائے، جو وہ سنے تو اس کو ناگوار ہو، وہ غیبت ہے۔ اس کا منہ پہ کہہ سکنے یا نہ کہہ سکنے سے کوئ تعلق نہیں۔ 

غیبت گناہِ کبیرہ ہے اور ایسا ہی گناہِ کبیرہ ہے جیسے شراب پینا، ڈاکہ ڈالنا، بدکاری کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ دونوں میں کوئ فرق نہیں۔ بلکہ غیبت کا گناہ اس لحاظ سے ان گناہوں سے زیادہ سنگین ہے کہ غیبت کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اور حقوق العباد کی پامالی توبہ کرنے کے باوجود اس وقت تک معاف نہیں ہوتی جب تک وہ انسان معاف نہ کردے جس کے حقوق پامال کیے گئے ہوں۔ اس لیے اس کا اہتمام کریں کہ نہ غیبت کریں، نہ غیبت سنیں۔ جس محفل میں غیبت ہو رہی ہو اس میں گفتگو کا رخ بدلنے کی کوشش کریں، کوئ دوسرا موضوع چھیڑ دیں۔ اگر گفتگو کا رخ نہیں بدل سکتے تو پھر اس مجلس سے اٹھ کر چلے آئیں، اس لئے کہ غیبت کرنا بھی حرام ہے اور سننا بھی حرام ہے۔

ماخوذ از بیان "غیبت ۔ ایک عظیم گناہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment