Saturday 6 August 2016

والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کے بارے میں کچھ احادیث

حضرت عبدالّٰلہ بن عمروالعاص ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول الّٰلہ، میں آپ کے پاس دو چیزوں پر بیعت کرنے آیا ہوں۔ ایک ہجرت پر اور ایک جہاد پر، اور میں اپنے الّٰلہ تعالیٰ سے اجرو ثواب کا طلب گار ہوں۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے والدین میں سے کوئ زندہ ہے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ ہاں بلکہ والد اور والدہ دونوں زندہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم واقعی ثواب چاہتے ہو؟ اس نے جواب دیا، جی ہاں یا رسول الّٰلہ۔ آپ نے جواب دیا کہ میرے ساتھ جہاد کرنے کے بجائے تم اپنے والدین کے پاس واپس جاؤ اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ جہاد کی تیّاری ہو رہی تھی۔ ایک صاحب حضورِ اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول الّٰلہ ! میں جہاد میں شریک ہونے کے لیے آیا ہوں، اور فخر کے طور پر بیان کیا کہ میں جہاد میں شرکت کرنے کا اتنا سچّا طالب ہوں کہ جہاد میں شرکت کے لئے اپنے والدین کو روتا چھوڑ کر آیاہوں۔ مطلب یہ تھا کہ میرے والدین مجھے نہیں چھوڑ رہے تھے اور مجھے جہاد میں شرکت کی اجازت نہیں دے رہے تھے، لیکن اس کے باوجود میں ان کو اس حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ وہ میری جدائ کی وجہ سے رو رہے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے اس شخص سے فرمایا کہ واپس جاؤ، اور ان کو جس طرح روتا چھوڑا تھا، اب جا کر ان کو ہنساؤ اور ان کو راضی کرو۔ تمہیں میرے ساتھ جہاد پر جانے کی اجازت نہیں۔

ماخوذ از بیان "والدین کی خدمت" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment