Sunday 4 September 2016

اسلام اور انسانی حقوق: ۴۔ معاش کا تحفّظ

حدیث شریف میں ہے: "معیشت کو حلال طریقے سے حاصل کرنا انسان کے فرائض کے بعد دوسرے درجے کا اہم فریضہ ہے۔"

دنیا میں انسان کو زندہ رہنے لئے معاش کی ضرورت ہے، روزگار کی ضرورت ہے، اس لئے اسلام میں معاش کی تلاش انسان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے اور اس کی حفاظت کی گئ ہے۔ اس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کسی انسان کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی  کہ وہ اپنی دولت کے بل بوتے پہ دوسروں کے لئے معاش کے دروازے بند کرے۔ 

ویسے تو اسلام کی معاشی تعلیمات کے بارے میں پوری پوری کتابیں لکھی گئ ہیں، لیکن مختصراً اسلام میں اور سرمایہ دارانہ نظام میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلام میں معاہدے کی آزادی (Freedom of contract) کو مادر پدر آزاد نہیں چھوڑا گیا اور اس کے بارے میں فرمایا گیا کہ ہر وہ معاہدہ جس کے نتیجے میں معاشرے میں خرابی آتی ہو، اور جس کے نتیجے میں دوسرے آدمی پر رزق کا دروازہ بند ہوتا ہو، وہ حرام ہے۔  رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو چھوڑ دو کہ الّٰلہ تعالیٰ ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعے رزق عطا فرمائیں گے۔

اسلام میں منافع کمانے کی آزادی پر تین طرح کی پابندیاں عائد کی گئ ہیں لیکن ان کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism) یا اشتراکیت (Communism) کے برعکس اسلام صرف ایک معاشی نظام نہیں ہے، بلکہ ایک مکمّل ضابطہء حیات ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کامیابی کا واحد معیار پیسہ ہے۔ جو لاکھ روپے کما رہا ہے، اس کی زندگی اس سے زیادہ کامیاب ہے جو ہزار روپے کماتا ہے، جو کروڑ روپے کماتا ہے اس کی زندگی اس سے زیادہ کامیاب ہے جو لاکھ روپے کماتا ہے۔ لیکن اسلام میں کامیابی کا اصل معیار یہ ہے کہ انسان نے اپنے وقت کو، اپنی صحت کو، اور اپنی دولت کو اپنی آخرت اور عاقبت کو اچھی بنانے کے لئے کس طرح استعمال کیا۔ جس کا خاتمہ اچھا ہوا اس کی زندگی کامیاب ہوئ چاہے وہ کتنا ہی غریب ہو۔ جس کا خاتمہ برا ہوا، اس کی زندگی ناکام ہوئ چاہے اس نے اپنے اکاؤنٹ میں کتنے ہی اربوں کھربوں چھوڑے ہوں۔ 

دوسری طرف یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام میں رہبانیت کی تعلیم نہیں دی گئ۔ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایماندار تاجر آخرت میں انبیاء، صدّیقین اور شہداء کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ فقہ کی مشہور کتاب "ہدایہ" کی چار جلدیں ہیں جن میں سے آخری دو جلدیں تمام تر معاشی تعلیمات پر مشتمل ہیں۔ حکم یہ ہے کہ دنیا میں رہنا بھی جائز ہے، اس کو برتنا بھی جائز ہے، اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، اس سے لطف اندوز ہونا بھی جائز ہے، لیکن اس کے لطف اور مزے کو ہی اپنی تمام تر کوششوں کا محور سمجھ لینا اور اپنی تمام توانائیاں اور تمام وقت اس میں صرف کر دینا جائز نہیں۔

اس بنیادی بات کو سمجھنے کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام نے کسبِ معاش کی کوششوں پہ کس طرح کی پابندیاں عائد کی ہیں۔

۱۔ شرعی یا دینی پابندی
الّٰلہ تعالی اور رسول الّٰلہ ﷺ کا حکم ہے کہ رزق کمانےاور نفع کمانے کے لئے دو انسان آپس میں جس طرح کا معاہدہ چاہے کر سکتے ہیں لیکن بعض صورتیں ایسی ہیں جس میں دونوں کی مکمّل رضامندی سے بھی معاہدہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔

اس کی آج کے دور میں سب سے بڑی مثال سود ہے جس کی آمدنی کو الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلانِ جنگ قرار دیا گیا ہے۔ سود کی حرمت کے بارے میں پوری کتابیں لکھی گئ ہیں لیکن مختصراً سود کے نظریئے کی بنیاد اس بات پہ ہے کہ ایک شخص کی آمدنی یقینی اور دوسرے کی غیر یقینی ہے۔ اس کے برعکس شریعت کا حکم یہ ہے کہ ادھار دینے والا اور لینے والا دونوں منافع اور نقصان دونوں میں شراکت دار ہوں اور شراکت داری کی شرح اصل رقم پر نہیں بلکہ منافع یا نقصان کی شرح پر طے ہو۔ مثلاً یہ کہ اگر منافع ہوا تو اس منافع کا پچیس فیصد ایک اور پچھتر فیصد دوسرے کو ملے گا۔ اس کے برعکس اگر نقصان ہوا تو دونوں اسی شرح سے نقصان برداشت کریں گے۔ اس طرح سے دولت معاشرے میں تقسیم ہوتی ہے اور محض چند ہاتھوں میں مرتکز نہیں ہوتی۔

اسی طرح اسلام نے قمار (جوا) کو حرام قرار دیا ہے۔ قمار اس کو کہا جاتا ہے کہ انسان محض پیسہ جیتنے کی امید پر پیسہ لگائے۔ اس میں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک یا چند آدمی تو بہت بڑی رقم جیت جاتے ہیں لیکن لیکن لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی جمع پونجی سے محروم ہو جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ پھر وہی نکلتا ہے کہ دولت بہت سارے لوگوں کے ہاتھ سے نکل کر کچھ لوگوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔ 

شریعت نے "احتکار (ذخیرہ اندوزی) سے منع فرمایا ہے۔ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئ شہری کسی دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے۔ مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ ان دونوں کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ اس سے معاشرے میں گرانی بڑھتی ہے اور عام آدمی کی مشکلات اور بڑھ جاتی ہیں۔ اس طرح شریعت نے "اکتناز" (پیسہ اس طرح جوڑ جوڑ کر رکھنا کہ انسان پہ جو مالی فرائض مثلاً زکوةٰ اور دوسرے جو مالی حقوق عائد ہیں ان کو بھی ادا نہ کرے) کو حرام اور ناجائز قرار دیا ہے۔ 

اوپر درج کی گئ تمام صورتیں وہ ہیں جن میں بیشک معاہدہ کرنے والوں کی رضامندی شامل بھی ہو، تب بھی وہ شریعت میں حرام قرار دی گئ ہیں۔ 

۲۔ اخلاقی پابندی
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا اسلام میں کامیابی اور ناکامی کا دارومدار صرف اس پر نہیں کہ کس نے زیادہ پیسہ کمایا، بلکہ اس پہ ہے کہ کس نے الّٰلہ تعالیٰ کو زیادہ راضی کیا۔ اسی لئے اسلام میں بہت جگہ ایسے مصارف میں پیسہ خرچ کرنے کی ترغیب دی گئ ہےجس سے الّٰلہ کی مخلوق کا فاہدہ ہو ار اس کو آرام ملے۔ ایسے کاموں سے بیشک دنیاوی منافع تو کم ملتا ہے مگر اخروی منافع بہت زیادہ ملے گا۔ مثلاً ایک شخص دیکھتا ہے کہ میں فلاں کارخانہ لگاؤں گا تو اس میں مجھے بہت منافع ہو گا، لیکن اس وقت رہائشی ضرورت کے لئے کم آمدنی والے لوگوں کو مکانات کی ضرورت ہے۔ اس وقت اگر وہ ان لوگوں کے لئے مکانات بنائے گا تو بیشک دنیاوی منافع تو کم ہو گا لیکن شریعت کی اس اخلاقی پابندی پہ عمل کرنے کی وجہ سے وہ بہت زیادہ اخروی منافع کا حقدار ہوگا۔ 

۳۔ قانونی پابندی
اسلام نے اسلامی حکومت کو یہ اختیار دیا ہے کہ اگر کسی مرحلے پہ حکومت یہ محسوس کرے کہ معاشرے کو کسی خاص سمت پہ ڈالنے کے لئے کوئ خاص پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے تو ایسے وقت میں حکومت وہ حکم جاری کر سکتی ہے اور وہ حکم اس مملکت میں رہنے والے تمام لوگوں کے لئے قابلِ احترام ہو گا۔

ماخوذ از بیان "اسلالم اور انسانی حقوق" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment