Saturday 17 September 2016

ایک مرتبہ سید احمد کبیر رفاعی رحمتہ الله علیہ، جو بڑے اونچے درجے کے اولیاءالله میں سے تھے، بازار میں تشریف لے جا رہے تھے۔ انہوں نے سڑک پر ایک بیمار کتّا دیکھا جس سے بیماری کی وجہ سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔ آپ کو اس کتّے پہ ترس اور رحم آیا اور آپ اس کو اٹھا کر گھر لے آئے۔ پھر ڈاکٹر کو بلا کر اس کا علاج کروایا، اور روزانہ اس کی مرہم پٹی کرتے رہے۔ جب الله تعالیٰ نے اس کو تندرست کر دیا تو آپ نے اپنے کسی ساتھی سے کہا کہ اگر کوئ شخص روزانہ اس کو کھلانے پلانے کا ذمّہ لے تو اس کو لے جائے، ورنہ پھر میں ہی اس کو رکھتا ہوں اور اس کو کھلاؤں گا۔ اس طرح آپ نے اس کتّے کی پرورش کی۔ 

اس واقعے کے کچھ عرصے بعد ایک روز سید احمد کبیر رفاعی ؒ کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ بارش کا موسم تھا۔ کھیتوں کے درمیان جو پگڈنڈی ہوتی ہے اس پر سے گزر رہے تھے۔ دونوں طرف کیچڑ تھی۔ سامنے سے ایک کتّا آ گیا۔ وہ پگڈنڈی اتنی پتلی تھی کہ ایک وقت میں یا تو وہ گزر سکتے تھے، یا کتّا گزر سکتا تھا۔ دونوں میں سے ایک کو کیچڑ میں اترنا پڑتا۔ 

اس وقت سید احمد کبیر رفاعی ؒ کا اس کتّے سے مکالمہ ہوا۔ اب یہ الله ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ مکالمہ کس طرح ہوا لیکن روایت میں اس مکالمے کی تفصیل کچھ اس طرح آتی ہے۔ حضرت سید احمد کبیر ؒ نے کتّے سے کہا کہ تم نیچے اتر جاؤ تا کہ میں پگڈنڈی کے اوپر سے گزر جاؤں۔ کتّے نے جواب میں کہا، میں نیچے کیوں اتروں؟ تم تو بڑے درویش اور الله کے ولی بنے پھرتے ہو، اور الله کے ولیوں کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ وہ ایثار کے پیکر ہوتے ہیں، دوسروں کے لئے قربانی دیتے ہیں۔ تم کیسے الله کے ولی ہو کہ مجھے نیچے اترنے کا حکم دے رہے ہو، خود کیوں نہیں اتر جاتے؟

حضرت شیخ نے جواب میں فرمایا کہ بات دراصل یہ ہے کہ میں مکلّف ہوں اور تو مکلّف نہیں۔ مجھے نماز پڑھنی ہے، تجھے نہیں پڑھنی۔ اگر نیچے اترنے کی وجہ سے تیرا جسم گندا ہو گیا تو تجھے غسل اور طہارت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اگر میں اتر گیا تو میرے کپڑے ناپاک ہو جائیں گے اور میری نماز میں خلل آئے گا۔

کتّے نے جواب میں کہا، اگر آپ کے کپڑے گندے ہو گئے تو ان کا علاج یہ ہے کہ انہیں اتار کر دھو لینا، وہ پاک ہو جائیں گے۔ لیکن اگر میں نیچے اتر گیا تو تمہارا دل ناپاک ہو جائے گا۔ وہ اس لئے کہ تمہارے دل میں یہ خیال آجائے گا کہ میں اس کتّے سے افضل ہوں، میں انسان ہوں اور یہ کتّا ہے، اور اس خیال کی وجہ سے تمہارا دل ایسا ناپاک ہو جائے گا کہ اس کی پاکی کا کوئ ذریعہ نہیں۔ یہ سن کر حضرت شیخ کے دل پہ ایسا اثر ہوا کہ وہ کیچڑ میں اتر گئے اور کتّے کو راستہ دے دیا۔ 

اس کے بعد الله تعالیٰ کی طرف سے حضرت سید احمد کبیر رفاعی ؒ کو الہام ہوا کہ اے احمد کبیر! آج ہم نے تم کو ایک ایسے علم کی دولت سے نوازا کہ سارے علوم ایک طرف اور یہ علم ایک طرف۔ اور یہ درحقیقت تمہارے اس عمل کا انعام اور بدلہ ہے کہ تم نے چند روز پہلے ایک کتّے پہ ترس کھا کر اس کا علاج اور دیکھ بھال کی تھی، اور اسی لئے ہم نے تمہیں اسی کے ہم قوم کے ذریعے یہ علم عطا کیا۔ وہ علم یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو کتّے سے بھی افضل نہ سمجھے اور کتّے کو بھی اپنے مقابلے میں حقیر خیال نہ کرے۔ 

ماخوذ از بیان "تواضع رفعت اور بلندی کا ذریعہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment