Saturday 1 October 2016

حسد کی دو قسمیں

فرمایا کہ حسد کی برائیاں سننے کے بعد بعض اوقات دل میں یہ خیال آتا ہے کہ یہ بیماری تو ایسی ہے جو بعض اوقات غیر اختیاری طور پہ پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً اپنے ہم عمر، ہم پیشہ لوگوں میں سے کسی کو آگے بڑھتا ہوا اور ترقّی کرتا ہوا دیکھا تو دل میں یہ خیال آیا کہ یہ تو ہم سے آگے بڑھ گیا، اور پھر دل میں غیر اختیاری طور پہ اس کی طرف سے کدورت اور میل آ گیا۔ اب نہ تو دوسرے کی برائ کا ارادہ کیا تھا، نہ اپنے اختیار سے دل میں یہ خیال لائے تھے۔ کیا یہ بھی گناہ ہے، اور اگر ہے تو انسان اس سے کیسے بچے؟

خوب سمجھ لیں کہ حسد کا ایک درجہ تو یہ ہے کہ انسان کے دل میں یہ خیال آئے کہ فلاں شخص کو جو نعمت حاصل ہے اس سے وہ نعمت چھن جائے۔ لیکن اس خیال کے ساتھ ساتھ حسد کرنے والا اپنے قول اور فعل سے بھی اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے، مثلاً مجلس میں بیٹھ کر اس کی برائیاں بیان کر رہا ہے اور اس کی غیبت کر رہا ہے، یا یہ کوشش کر رہا ہے کہ اس سے وہ نعمت چھن جائے۔ یہ حسد تو بالکل حرام ہے اور اس کے حرام ہونے میں کوئ شبہ نہیں۔ 

لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دوسرے کو نعمت حاصل ہونے کہ وجہ سے اس کا دل دکھا، اور یہ خیال آیا کہ اس کو یہ نعمت کیوں ملی لیکن وہ شخص اپنے کسی قول یا فعل سے اس حسد کو کسی دوسرے پر ظاہر نہیں کرتا۔ نہ اس کی  غیبت کرتا ہے، نہ اس کی بدخواہی کرتا ہے، اور نہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اس سے یہ نعمت چھن جائے۔ بس دل میں ایک خاموش دکھ اور اور کڑھن ہے کہ اس کو یہ نعمت کیوں ملی۔ حقیقت میں تو یہ بھی حسد ہے اور گناہ ہے، لیکن اس کا علاج آسان ہے اور ذرا سی کوشش سے اس گناہ سے بچ سکتا ہے۔ 

اس کا علاج یہ ہے کہ جب کبھی دل میں کسی دوسرے کے لئے یہ کڑھن اور جلن پیدا ہو تو فوراً دل میں اس بات کا تصوّر کرے کہ یہ حسد کتنی بری چیز ہے، اور اس سے استغفار کرے، اور یہ سوچے کہ مجھے نفس اور شیطان بہکا ریے ہیں۔ جب حسد کے خیال کے ساتھ ساتھ اس حسد کی برائ بھی دل میں لے آیا تو اس حسد کا گناہ انشاءالله ختم ہو جائے گا۔

بزرگوں نے مزید لکھا ہے کہ جب دل میں دوسرے کی نعمت دیکھ کر حسد اور جلن پیدا ہو تو اس کا ایک علاج یہ ہے کہ تنہائ میں بیٹھ کر اس کے حق میں دعا کرے کہ یا الله، یہ نعمت جو آپ نے اس کو عطا فرمائ ہے، اور زیادہ عطا فرما۔ اور جس وقت یہ دعا کرے گا اس وقت دل پر آرے چلیں گے اور یہ دعا کرنا دل پر بہت شاق اور گراں گزرے گا، لیکن زبردستی یہ دعا کرے کہ یا الله! اس کو اور ترقّی عطا فرما، اس کی نعمت میں اور برکت عطا فرما۔ اور ساتھ ساتھ اپنے حق میں بھی دعا کرے کہ یا الله! میرے دل میں اس کی نعمت کی وجہ سے جو کڑھن اور جلن پیدا ہو رہی ہے اپنے فضل اور رحمت سے اس کو ختم فرما۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ تین کام کرے۔ ایک یہ اپنے دل میں جو کڑھن پیدا ہو رہی ہے، اور اس کی نعمت کے زوال کا جو خیال آ رہا ہے، اس کو دل سے برا سمجھے۔ دوسرے یہ کہ اس کے حق میں دعائے خیر اور اس کی نعمتوں میں اضافے کی دعا کرے۔ تیسرے یہ کہ اپنے حق میں دعا کرے کہ یا الله! میرے دل سے اس برے خیال کو ختم فرما۔ ان تین کاموں کے کرنے کے بعد بھی اگر دل میں غیر اختیاری طور پہ یہ خیال آ رہا ہے تو امید ہے کہ الله تعالیٰ کے ہاں اس پر مواخذہ نہیں ہو گا۔ 

ماخوذ از بیان "حسد ایک مہلک بیماری" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment