Sunday 16 October 2016

ایذاٴ کا بدلہ لینا جائز ہے مگر صبر بہتر ہے

"اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے نصیحت کر کے دعوت دو، اور (اگر بحث کی نوبت آئے تو) ان سے بحث بھی ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو۔۔۔ (۱۲۵) اور اگر تم لوگ (کسی کے ظلم کا) بدلہ لو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنی زیادتی تمہارے ساتھ کی گئ تھی۔ اور اگر صبر ہی کر لو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہت بہتر ہے۔ (۱۲۶) سورة نحل

سورة نحل کی ان آیتوں میں داعیانِ حق کے لئے ایک اہم ہدایت ہے کہ، وہ یہ کہ حق بات کو پہنچانے میں بعض اوقات ایسے سخت دل لوگوں سے بھی سابقہ پڑتا ہے کہ ان کو کتنی ہی نرمی اور خیر خواہی سے بات سمجھائ جائے وہ اس پر بھی مشتعل ہو جاتے ہیں، زبان درازی کر کے ایذاء پہنچاتے ہیں، اور بعض اوقات اس سے بھی تجاوز کر کے ان کو جسمانی تکلیف پہونچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایسے حالات میں دعوتِ حق دینے والوں کو کیا کرنا چاہئے؟

اس کے لئے "وَ اِن عَاقَبتُم الخ" میں ایک تو ان حضرات کو قانونی حق دیا گیا کہ جو آپ پر ظلم کرے آپ کو بھی اس سے اپنا بدلہ لینا جائز ہے،  مگر اس شرط کے ساتھ کہ بدلہ لینے میں مقدار ظلم سے تجاوز نہ ہو۔ جتنا ظلم اس نے کیا ہے، اتنا ہی بدلہ لیا جائے۔ اس میں زیادتی نہ ہونے پائے۔

اور آخر آیت میں مشورہ دیا کہ اگر چہ آپ کو انتقام لینے کاحق ہے، لیکن صبر کریں اور انتقام نہ لیں تو یہ بہتر ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة نحل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ

No comments:

Post a Comment