Sunday 27 November 2016

حضرت ابو حازم ؒ اور سلیمان عبدالملک کے درمیان مکالمہ۔ حصہٴ چہارم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

سلیمان نے پھر سوال کیا، "اچھا اب ہمارے درست ہونے کا کیا طریقہ ہے؟" حضرت ابو حازمؒ نے فرمایا، "تکبّر چھوڑو، مروّت اختیار کرو، اور حقوق والوں کو ان کے حقوق انصاف کے ساتھ تقسیم کرو۔"

سلیمان نے کہا، "ابو حازم! کیا یہ ہو سکتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ رہیں؟" فرمایا، "خدا کی پناہ!" سلیمان نے پوچھا یہ کیوں؟ فرمایا کہ اس لئے کہ مجھے خطرہ یہ ہے کہ میں تمہارے مال و دولت اور عزّت و جاہ کی طرف کچھ مائل ہو جاؤں جس کے نتیجے میں مجھے عذاب بھگتنا پڑے۔

سلیمان نے کہا کہ اچھا آپ کی کوئ حاجت ہو تو بتلائیے کہ ہم اس کو پورا کریں۔ فرمایا،" ہاں ایک حاجت ہے کہ مجھے جہنّم سے نجات دلا دو اور جنّت میں داخل کر دو۔" سلیمان نے کہا کہ یہ تو میرے اختیار میں نہیں۔ فرمایا کہ پھر مجھے آپ سے اور کوئ حاجت مطلوب نہیں۔ 

آخر میں سلیمان نے کہا کہ اچھا میرے لئے دعا کیجئے، تو ابو حازم ؒ نے یہ دعا کی، یا الله اگر سلیمان آپ کا پسندیدہ ہے تو اس کے لئے دنیا و آخرت کی بہتری کو آسان بنا دے، اور اگر وہ آپ کا دشمن ہے تو اس کے بال پکڑ کر اپنی مرضی اور محبوب کاموں کی طرف لے آ۔

سلیمان نے کہا کہ مجھے کچھ وصیّت فرما دیں۔ ارشاد فرمایا کہ مختصر یہ ہے کہ اپنے رب کی عظمت و جلال کو اس درجے میں رکھو کہ وہ تمہیں اس مقام پرنہ دیکھے جس سے منع کیا ہے، اور اس مقام سے غیر حاضر  نہ پائے جس کی طرف آنے کا اس نے حکم دیا ہے۔

سلیمان نے اس مجلس سے فارغ ہونے کے بعد سو گنّیاں بطورِ ہدیہ کے ابو حازم کے پاس بھیجیں۔ ابو حازمؒ نے ایک خط کے ساتھ ان کو واپس کر دیا۔ خط میں لکھا تھا کہ اگر یہ سو دینار میرے کلمات کا معاوضہ ہیں تو میرے نزدیک خون اور خنزیر کا گوشت اس سے بہتر ہے، اور اگر اس لئے بھیجا ہے کہ بیت المال میں میرا حق ہے تو مجھ جیسے ہزاروں علماء اور دین کی خدمت کرنے والے ہیں۔ اگر سب کو آپ نے اتنا ہی دیا ہے تو میں بھی لے سکتا ہوں، رونہ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔

ختم شد

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورةٴ البقرہ، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

No comments:

Post a Comment