Thursday 1 December 2016

بے عمل واعظ کی مذمّت

"کیا تم (دوسرے) لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو، اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو! کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں؟" (سورہ البقرہ:۴۴)

اس آیت میں خطاب اگرچہ اس زمانے کے علمائے یہود سے ہے لیکن معنی کے اعتبار سے ہر اس شخص کی مذمّت ہے جو دوسروں کو تو نیکی اور بھلائ کی ترغیب دے مگر خود عمل نہ کرے۔ دوسروں کو خدا سے ڈرائے مگر خود نہ ڈرے۔ ایسے شخص کے بارے میں حدیث میں بڑی ہولناک وعیدیں آئ ہیں۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شبِ معراج میرا گذر کچھ لوگوں پر ہوا جن کے ہونٹ اور زبانیں آگ کی قینچیوں سے کترے جا رہے تھے۔ میں نے جرئیلؑ سے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرئیل نے بتایا کہ یہ آپﷺ کی امّت کے دنیا دار واعظ ہیں جو لوگوں کو تو نیکی کا حکم کرتے تھے مگر اپنی خبر نہ لیتے تھے۔ (ابنِ کثیر)

ابنِ عساکر ؒ نے ذکر کیا ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بعض جنّتی بعض دوزخیوں کو آگ میں دیکھ کر پوچھیں گے کہ تم آگ میں کیونکر پہنچ گئے؟ حالانکہ ہم تو بخدا انہی نیک اعمال کی بدولت جنّت میں داخل ہوئے ہیں جو ہم نے تم سے سیکھے تھے۔ اہلِ دوزخ کہیں گے: "ہم زبان سے کہتے ضرور تھے لیکن خود عمل نہیں کرتے تھے۔" (ابنِ کثیر)

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment