Friday 2 December 2016

کیا گناہگار کے لئے وعظ و نصیحت کرنا جائز نہیں؟

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

اس آیت کا (جس کا بیان پچھلی پوسٹ میں ہوا) یہ مطلب نہیں کہ بے عمل یا گناہگار کے لئے دوسروں کو وعظ و نصیحت کرنا جائز نہیں، اور جو شخص کسی گناہ میں مبتلا ہو وہ دوسروں کو اس گناہ سے باز رہنے کی تلقین نہیں کر سکتا۔ کوئ اچھا عمل کرنا الگ نیکی ہے، اور دوسروں کو اس اچھے عمل کی نصیحت کرنا دوسری مستقل نیکی ہے، اور ظاہر ہے کہ ایک نیکی کو چھوڑنے سے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ دوسری نیکی بھی چھوڑ دی جائے۔ 

امام مالکؒ نے حضرت سعید بن جبیر ؓ کا یہ قول نقل کیا ہے اگر ہر ایک شخص یہ سوچ کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دے کہ میں خود گناہگار ہوں، جب گناہوں سے خود پاک ہو جاؤں گا تو لوگوں کو تبلیغ کروں گا، تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ دنیا میں کوئ بھی تبلیغ کرنے والا باقی نہیں رہے گا، کیونکہ کون ایسا ہے جو گناہوں سے بالکل پاک ہو؟ حضرت حسن بصریؒ کا ارشاد ہے کہ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ لوگ اسی غلط خیال میں پڑ کر تبلیغ کا فریضہ چھوڑ بیٹھیں۔ (قرطبی) بلکہ مولانا اشرف علی تھانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ جب مجھے اپنی کسی بری عادت کا علم ہوتا ہے تو میں اس عادت کی مذمّت اپنے مواعظ میں خاص طور سے بیان کرتا ہوں تا کہ وعظ کی برکت سے یہ عادت جاتی رہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ آیت "اتا مرون الناس بالبرّ و تنسون انفسکم" کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بے عمل آدمی کو وعظ کہنا جائز نہیں، بلکہ یہ ہے کہ واعظ کو بے عمل ہونا جائز نہیں۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورةٴ البقرہ، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment