Sunday 4 December 2016

خشوع کی حقیقت

"الا علے الخشعین"

قرآن و سنّت میں جہاں خشوع کی ترغیب مذکور ہے اس سے مراد وہ قلبی سکون و انکساری ہے جو الله کی عظمت اور اس کے سامنے اپنے حقیر ہونے کے علم سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں طاعت آسان ہو جاتی ہے۔  کبھی اس کے آثار بدن پر بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں کہ وہ با ادب، متواضع اور شکستہ قلب نظر آتا ہے۔ لیکن اگر دل میں خوف ِ خدا اور تواضع نہ ہو تو خواہ وہ ظاہر میں کتنا ہی با ادب اور متواضع نظر آئے وہ خشوع کا حامل نہیں۔ 

خشوع کے ساتھ ایک دوسرا لفظ خضوع بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ دونوں لفظ تقریباً ہم معنی ہیں، لیکن خشوع کا لفظ آواز اور نگاہ کی پستی اور تذلّل کے لئے بولا جاتا ہے، جب کہ وہ مصنوعی نہ ہو بلکہ قلبی خوف اور تواضع کا نتیجہ ہو۔ اور خضوع کا لفظ بدن کی تواضع اور انکساری کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ 

رسول الله ﷺ کا ارشاد ہے، "نماز تو صرف تمسکن اور تواضع ہی ہے۔"

ایک اور حدیث میں ہے، "جس کی نماز اسے بے حیائ اور برائیوں سے نہ روک سکے وہ الله سے دور ہی ہوتا جاتا ہے،" اور غافل کی نماز بے حیائ سے اور برائیوں سے نہیں روکتی۔ (احیاء العلوم)

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرہ، از مفتی محمد شفیعؒ

No comments:

Post a Comment