Saturday 26 March 2016

ایمان بھی الّٰلہ تعالیٰ سے مانگو

ایک صاحب نے ایک دفعہ حضرت سے عرض کیا، "حضرت! مجھے لگتا تو ہے کہ کوئ اس کائنات کا بنانے والا اور چلانے والا ہے لیکن مجھے اس کا یقین نہیں ہوتا۔ کیا ایسے دلائل موجود ہیں جن سے کسی کو یقین دلایا جا سکے کہ الّٰلہ تعا؛یٰ واقعی میں موجود ہیں؟" حضرت نے فرمایا، "ایسے دلائل بالکل موجود ہیں جن سے کسی کو سو فیصد یقین دلایا جا سکے کہ الّٰلہ تعالیٰ موجود ہیں۔ لیکن ان دلالئل کو سمجھنے کے لیے ان کے بعض مقدمات کا سمجھنا ضروری ہے۔ اچھا یہ بتائیے کہ کیا آپ نے منطق پڑھی ہے؟" ان صاحب  نے اقرار کیا کہ انہوں نے باقاعدہ منطق نہیں پڑھی۔ حضرت نے کچھ دیر سوچنے کے بعد  فرمایا، "اچھّا اس کو رہنے دیجیے۔ ایسا کیجیے کہ میں آپ کو کچھ الفاظ بتاتا ہوں۔ آپ صبح یا رات میں کوئ ایک وقت مقرّر کر لیجیے اور ان الفاظ کو کچھ دفعہ ادا کیا کیجیے۔ وہ الفاظ یہ ہیں۔ ’اے وہ ذات جسے لوگ خدا کہتے ہیں۔ اگر آپ ہیں تو مجھے اپنے ہونے کا یقین دلا دیجیے۔‘" پھر حضرت نے ہنس کر فرمایا، "ان الفاظ کے ادا کرنے میں تو آپ پر کوئ جبر نہیں کیا جا رہا۔ آپ سے یہ بھی نہیں کہا جا رہا کہ خدا سے دعا مانگیں۔ آپ سے تو بس یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ کہیں کہ اے وہ ذات جسے دوسرے لوگ خدا کہتے ہیں۔ اس معمول کو کچھ عرصے تک پابندی سے ادا کرتے رہیے۔ اگر وہ ہوں گے تو آپ کو اپنے ہونے کا یقین دلا دیں گے۔ نہیں تو آپ سے جو ہو سکتا تھا وہ آپ نے کر لیا۔"

از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Wednesday 23 March 2016

سفارش کے احکام

حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جب کوئ حاجت مند اپنی ضرورت لے کر آتا اور اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے کوئ درخواست کرتا تو اس وقت آنحضرت ﷺ کی مجلس میں جو لوگ بیٹھے ہوتے تھے، آپ ان کی طرف متوجّہ ہو کر فرماتے کہ تم اس حاجت مند کی مجھ سے سفارش کر دو کہ "آپ اس کی حاجت پوری کر دیں" تا کہ تمہیں بھی سفارش کا اجر و ثواب مل جائے۔ البتّہ فیصلہ الّٰلہ تعالیٰ اپنے نبی کی زبان پر وہی کرائے گا جس کو اّٰللہ تعالیٰ پسند فرمائیں گے۔

لیکن سفارش کرنے کے کچھ احکام ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ سفارش ہمیشہ ایسے کام کی ہونی چاہیے جو جائز اور برحق ہو۔ اس لیے کہ سفارش جس طرح اس شخص کی حاجت براری کا ایک ذریعہ ہے، وہاں ساتھ ساتھ ایک شہادت اور گواہی بھی ہے۔ جب آپ کسی شخص کے حق میں سفارش کرتے ہیں تو آپ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ میری نظر میں یہ شخص اس کام کے کرنے کا اہل ہے لہذا میں آپ سے سفارش کرتا ہوں کہ اس کو یہ کام دے دیا جائے۔ تو یہ ایک گواہی ہے، اور گواہی کے اندر اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ وہ واقعہ کے خلاف نہ ہو۔ اگر حقیقت میں وہ نااہل ہے تو یہ گواہی حرام ہوئ اور باعثِ ثواب ہونے کے بجائے الٹا باعثِ گناہ بن گئ۔

دوسری بات یہ ہے کہ سفارش ایسے کام کے لیے ہونی چاہیے جو کام شرعاً جائز ہو، لہذا ناجائز کام کرانے کے لیے سفارش کرنا کسی حال میں جائز نہیں۔ حضرت حکیم الامّت قدس الّٰلہ سرّہ نے یہی بات چندےکے بارے میں بیان فرمائ کہ اگر مجمع کے اندر چندہ کا اعلان کر دیا تو اب جس شخص کا چندہ دینے کا دل نہیں بھی چاہ رہا ہے اس نے شرما شرمی میں چندہ دے دیا کہ اگر نہیں دیا تو ناک کٹ جائے گی۔ اور حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ "کسی مسلمان کا مال اس کی خوش دلی کے بغیر حلال نہیں۔" لہذا اس طریقے سے چندہ کرنا جائز نہیں۔

تیسری بات یہ ہے کہ سفارش ایک مشورہ ہے، دباؤ ڈالنا نہیں ہے۔ حضور اقدس ﷺ نے مشورہ کے بارے میں فرمایا کہ "جس شخص سے مشورہ لیا جائے وہ امانت دار ہے۔" یعنی اس کا فرض ہے کہ اپنی دیانت اور امانت کے لحاظ سے جس بات کو بہتر سے بہتر سمجھتا ہو وہ مشورہ لینے والے کو بتا دے۔ پھر جس کو مشورہ دیا گیا ہے وہ اس بات کا پابند نہیں ہے کہ آپ کے مشورے کو ضرور قبول کرے۔ اگر وہ رد بھی کردے تو اس کو اختیار ہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ اگر مشورہ اور سفارش نہ مانی جائے تو اس پر کوئ ناراضگی اور ناگواری نہ ہونی چاہیے۔

اگر ان چار چیزوں کی رعایت کے ساتھ سفارش کی جائے گی تو اس کی وجہ سے کوئ فساد برپا نہیں ہو سکتا۔

ماخوذ از وعظ "سفارش" از مفتی مولانا محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Monday 21 March 2016

کس چیز کا انتظار ہے؟

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سات چیزوں کے آنے سے پہلے جلد از جلد اچھے اعمال کر لو، جس کے بعد اچھا عمل کرنے کا موقع نہ ملے گا۔ اور پھر ان سات چیزوں کو ایک دوسرے انداز سے بیان فرمایا۔

  • کیا تم ایسے فقروفاقے کا انتظار کر رہے ہو جو بھلا دینے والا ہو؟
  • یا تم ایسی مالداری کا انتظار کر رہے ہو جو انسان کو سرکش بنا دے؟
  • یا ایسی بیماری کا انتظار کر رہے ہو جو تمہاری صحت کو خراب کردے؟
  • یا تم سٹھیا دینے والے بڑھاپے کا انتظار کر رہے ہو؟
  • یا تم اس موت کا انتظار کر رہے جو اچانک آ جائے؟
  • کیا تم دجّال کا اتنظار کر رہے ہو؟
  • یا پھر قیامت کا انتظار کر رہے ہو؟

تو سن رکھو کہ قیامت جب آئے گی تو اتنی مصیبت کی چیز ہو گی کہ اس مصیبت کا کوئ علاج انسان کے پاس نہیں ہو گا۔ 

ماخوذ از وعظ "نیک کام میں دیر نہ کیجیے"، از مفتی مولانا محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Sunday 20 March 2016

سب سے زیادہ ثواب والا صدقہ

ماخوذ از وعظ "نیک کام میں دیر نہ کیجیے"، اصلاحی خطبات جلد اوّل، مفتی مولانا محمد تقی عثمانی ؒ

حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک صاحب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے اور پوچھا، "سب سے زیادہ ثواب والا صدقہ کون سا ہے؟" آپ ﷺ نے فرمایا، "سب سے اعلیٰ درجہ کا صدقہ یہ ہے کہ تم اپنی صحت کی حالت میں صدقہ کرو، اور ایسے وقت میں صدقہ کرو جب تمہارے دل میں مال کی محبّت ہو، اور دل میں یہ خیال ہو کہ یہ مال ایسی چیز نہیں ہے کہ اسے یونہی لٹا دیا جائے، اور مال خرچ کرنے میں تکلیف بھی ہو رہی ہو، اور یہ بھی اندیشہ ہو کہ اس صدقہ کرنے کے نتیجے میں بعد میں فقر کا شکار ہو جاؤں گا، اور بعد میں معلوم نہیں کیا حالات ہوں گے؟ اس وقت جو صدقہ کرو گے وہ بڑا اجر والا ہوگا۔" اس کے بعد فرمایا کہ صدقہ دینے کا دل میں خیال آیا ہے تو ا سکو ٹالو نہیں۔

رسول الّٰلہ ﷺ کا گھر میں طرزِعمل

ماخوذ از وعظ "نیک کام میں دیر نہ کیجیے"از مفتی مولانا محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

حضرت عائشہ ؓ سے ایک صحابی نے پوچھا کہ "امّ المومنین! سرکارِ دو عالم ﷺ گھر کے باہر جو ارشادات فرماتے ہیں اور گھر کے باہر جیسی زندگی گزارتے ہیں وہ تو ہم سب کو پتہ ہے، لیکن یہ بتائیے کہ گھر میں کیا عمل کرتے ہیں؟" حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ "جب آپ گھر میں تشریف لاتے ہیں تو ہمارے ساتھ ہمارے گھر کے کاموں میں ہاتھ بھی بٹاتے ہیں، اور ہمارا دکھ درد بھی سنتے ہیں، ہمارے ساتھ خوش طبعی کی باتیں بھی کرتے ہیں، ہمارے ساتھ گھلے ملے رہتے ہیں۔ البتّہ ایک بات ہے کہ جب اذان کی آواز کان میں پڑتی ہے تو اس طرح اٹھ کر چلے جاتے ہیں جس طرح ہمیں پہچانتے بھی نہیں۔"

Saturday 19 March 2016

"دنیا کے معاملے میں ہمیشہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھو، اور اپنے سے کمتر حیثیت والوں کے ساتھ رہو، ان کی صحبت اختیار کرو، اور ان کے حالات کو دیکھو۔ اور دین کے معاملے میں ہمیشہ اپنے سے اونچے آدمی کو دیکھو، اور ان کی صحبت اختیار کرو۔"حدیثِ نبوی ﷺ

حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مبارک فرماتے ہیں کہ:
 میں نے اپنی زندگی کا ابتدائ حصّہ مالداروں کے ساتھ گزارا (وہ خود بھی مالدار تھے)۔ صبح سے شام تک مالداروں کے ساتھ رہتا تھا، لیکن جب تک مالداروں کی صحبت میں رہا مجھ سے زیادہ غمگین انسان کوئ نہیں تھا، کیوں کہ جہاں جاتا یہ دیکھتا کہ اس کا گھر میرے گھر سے اچھا ہے، اس کی سواری میری سواری سے اچھی ہے، اس کا کپڑا میرے کپڑے سے اچھا ہے۔ ان چیزوں کو دیکھ دیکھ کر میرے دل میں کڑھن پیدا ہوتی تھی کہ مجھے تو ملا نہیں اور اس کو مل گیا۔ لیکن بعد میں دنیاوی حیثیت سے جو کم مال والے تھے، ان کی صحبت اختیار کی اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگا، تو فرماتے ہیں کہ "فاسترحت" یعنی میں راحت میں آ گیا، اس واسطے کہ جس کو بھی دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ میں تو بہت خوشحال ہوں۔ میرا کھانا بھی اس کے کھانے سے اچھا ہے، میرا کپڑا بھی اس کے کپڑے سے اچھا ہے، میرا گھر بھی اس کے گھر سے اچھا ہے، میری سواری بھی اس کی سواری سے اچھی ہے، اس واسطے میں اب الحمدالّٰلہ راحت میں آ گیا ہوں۔


روایت از" نیک کام میں دیر نہ کیجیے"، اصلاحی خطبات، جلد اوّل، مفتی مولانا محمّد تقی عثمانی ؒ


بہت لوگوں کو معلوم ہے کہ ایک عالمِ دین نے حضرت تھانوی ؒ کے لیے کفر کا فتوی دیا تھا۔ جب  ان کے انتقال کی خبر آئ تو حضرت تھانوی ؒ نے خبر سنتے ہی دعائے مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ جو لوگ سامنے بیٹھے تھے ان میں کسی نے حیران ہو کر پوچھا، "حضرت، وہ ساری عمر آپ کو کافر کہتے رہے اور آپ ان کے لیے مغفرت کی دعا کر رہے ہیں؟" حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا، "ہاں بھئ، یہ تو صحیح ہے کہ وہ مجھے کافر کہتے رہے مگر مجھے یہ خیال آتا ہے کہ قیامت کے روز جب اللہ تعالی کے سامنے حاضری ہو گی اس وقت اگر اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ وہ تمہیں کافر کہتے تھے اور غلط کہتے تھے لیکن انہوں نے جو کچھ بھی کہا ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کہا، اس لیے ہم نے انہیں معاف کیا، اس وقت میرے پاس کیا جواب ہو گا؟"

اپنے کو مٹانا چاہیے

سید سلیمان ندوی ؒ ایک دفعہ حضرت تھانوی ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رخصت ہوتے ہوئے انہوں نے حضرت تھانوی ؒ سے کہا کہ حضرت کوئ نصیحت کیجیے۔ حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ اتنے بڑے علامہ کو کیا نصیحت کروں۔ پھر اللہ تعالی نے میرے دل میں ڈالا اور میں نے ان سے کہا کہ اس طریق کا حاصل یہ ہے کہ اپنے کو مٹانا چاہیے۔  علامہ سید سلیمان ندوی ؒ رونے لگے۔ 

دین اتّباع کا نام ہے

۔۔۔ سارے دین کا خلاصہ "اتّباع" میں ہے کہ ہمارا حکم مانو۔ نہ روزہ رکھنے میں کچھ رکھا ہے، نہ افطار کرنے میں کچھ رکھا ہے اور نہ نماز پڑھنے میں کچھ رکھا ہے۔ جب ہ کہیں کہ نماز پڑھو تو نماز پڑھنا عبادت ہے، اور جب ہم کہیں کہ نماز نہ پڑھو تو نماز نہ پڑھنا عبادت ہے۔ جب ہم کہیں کہ روزہ رکھو تو روزہ رکھنا عبادت ہے اور جب ہم کہیں کہ روزہ نہ رکھو تو روزہ نہ رکھنا عبادت ہے۔ اگر اس وقت روزہ رکھو  گے تو یہ دین کے خلاف ہو گا۔ تو دین کا سارا کھیل "اتّباع میں ہے۔۔۔

ماخوذ از بیان "ماہِ رجب" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

اسلام کے احکام کے تین حصّے

ماخوذ از "عقل کا دائرہ کار"، اصلاحی خطبات، جلد اوّل

ایک سوال جو اکثر ہمارے پڑھے لکھے طبقے کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ صاحب! آج سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ساری دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کر رہی ہےلیکن ہمارا قرآن اور ہماری حدیث سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں کوئ فارمولا ہمیں نہیں بتاتاکہ کس طرح ایٹم بم بنائیں، کس طرح ہائیڈروجن بم بنائیں۔ اس کا کوئ فارمولا ہمیں نہ تو قرآن کریم میں ملتا ہے اور نہ حدیثﷺ میں ملتا ہے۔ اس کی وجہ سے بعض لوگ احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں کہ صاحب! دنیا چاند اور مرّیخ پر پہنچ رہی ہے اور ہمارا قرآن ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں بتاتا کہ چاند پہ کیسے پہنچیں؟ 

اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارا قرآن ہمیں یہ باتیں ا س لیے نہیں بتاتا کہ وہ دائرہ عقل کا ہے۔ وہ تجربہ کا دائرہ ہے۔ وہ ذاتی محنت اور کوشش کا دائرہ ہے۔ الّٰلہ تعالیٰ نے اس کو انسان کے ذاتی تجربے، عقل اور کوشش پر چھوڑا ہے کہ جو شخص جتنی کوشش کرے گا اور عقل کو استعمال کرے گا، تجربے کو استعمال کرے گا، اس میں آگے بڑھتا جائے گا۔۔۔

۔۔۔اسلام نے اپنے احکام کے تین حصّے کیے ہیں۔ ایک حصّہ وہ ہے جس میں قرآن و سنّت کی نصِ قطعی موجود ہے۔ جس میں قیامِ قیامت تک آنے والے حالات کہ وجہ سے کوئ تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یہ اصول غیر متبدل ہیں۔ زمانہ کیسا ہی بدل جائے لیکن اس میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔ دوسرا حصّہ وہ ہے جس میں اجتہاد اور استنباط کی گنجائش رکھی گئ ہے، اور اس میں اس درجہ کی نصوصِ قطعیہ موجود نہیں ہیں جو زمانے کے حال پر اپلائ کریں۔ اس میں اسلامی احکام کی لچک  (elasticity) موجود ہے۔ اور احکام کا تیسرا حصّہ وہ ہے جس کے بارے میں قرآن و سنّت خاموش ہیں۔ جن کے بارے میں کوئ ہدایت اور کوئ رہنمائ نہیں کی گئ۔ جن کے بارے میں قرآن و سنّت نے کوئ حکم نہیں دیا۔ حکم کیوں نہیں دیا؟ اس لیے کہ اس کو ہماری عقل پر چھوڑ دیا ہے۔ اور اس کا اتنا وسیع دائرہ ہے کہ ہر دور میں انسان اپنی عقل اور تجربہ کو استعمال کر کے اس خالی میدان میں ترقی کر سکتا ہے اور ہر دور کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔۔۔
اپنی نفلی عبادت کے لیے کسی دوسرے کو تکلیف پہنچانا شریعت کے مطابق نہیں۔

Thursday 17 March 2016

جب نکاح کے دو بول پڑھ لینے کے بعد شوہر سے تعلق قائم ہو گیا تو اس لڑکی نے اس دو بول کی ایسی لاج رکھی کہ ماں کو اس نے چھوڑا، باپ کو اس نے چھوڑا، بہن بھائیوں کو اس نے چھوڑا، اپنے گھر بار کو چھوڑا، پورے کنبے کو چھوڑا اور شوہر کی ہو گئ۔ اب اس کے لیے اجنبی ماحول ہے، اجنبی گھر ہے، اور ایک اجنبی آدمی کے ساتھ زندگی بھر نباہ کے لیے وہ عورت مقیّد ہو گئ۔ کیا تم اس قربانی کا لحاظ نہیں کرو گے؟ اگر بالفرض معاملہ برعکس ہوتا اور تم سے کہا جاتا کہ شادی کے بعد تمہیں اپنا خاندان چھوڑنا ہو گا، ماں باپ چھوڑنے ہوں گے، اس وقت تمہارے لیے کتنا مشکل کام ہوتا۔ اس کی اس قربانی کالحاظ کرو اور ا سکے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

ماخوذ از بیوی کے حقوق، اصلاحی خطبات ، جلد دوم

Sunday 13 March 2016

"الّٰلہ تعالیٰ بدن کو امیر رکھے اور دل کو فقیر۔" دعا از حضرت عبدالرحیم رائیپوری ؒ

از اشرف السوانح


محقّق اپنے عمل کے لیے تو سخت ہوتا ہے لیکن دوسروں کے لیے نرم۔

از اشرف السوانح
ایک مرتبہ ایک طالبِعلم حضرت تھانویؒ کی زیارت کے لیے تھانہ بھون آئے ہوئے تھےمگر حضرت والا سفر میں تشریف لے جا رہے تھے۔ لہذا اسٹیشن پر ملاقات ہوئ۔ چونکہ وقت بہت تنگ تھا اس لیے وہ طالب علم گارڈ سے کہہ کر بلا ٹکٹ سوار ہوئے۔ دوسرے اسٹیشن یعنی نانوتہ پر ٹکٹ لیا گیا۔ جب وہ نانوتہ تک کا کرایہ گارڈ کو دینے لگے تو اس نے کہا کہ تم غریب آدمی ہو، یہاں تک کے ٹکٹ کی ضرورت نہیں۔ جاؤ۔ جب حضرت والا سے آ کر انہوں نے یہ واقعہ نقل کیا تو فرمایا کہ گارڈ ریلوے کمپنی کا ملازم ہے مالک نہیں۔ اس لیے یہاں تک کا کرایہ بہر حال تمہارے ذمّہ واجب الادا ہے۔ اب یہ کرنا کہ اتنے داموں کا کوئ ٹکٹ اسی لائن کا خرید کر پھاڑ دینا۔ اس طرح دام کمپنی کو پہنچ جائیں گے اور تم حق العباد سے بری الذمّہ ہو جاؤ گے۔

ماخوذ از اشرف السوانح
مولانا تھانویؒ ایک دفعہ سہارنپور سے کانپور تشریف لے جا رہے تھے۔ کچھ گنّے ساتھ تھے۔ بغرضِ ادائیگیِ محصول ان کو اسٹیشن پر تلوانا چاہا تو کسی نے تولے نہیں بلکہ ازراہِ عقیدت غیر مسلم ملازمینِ ریلوے نے بھی یہ کہدیا کہ آپ یوں ہی لے جائیے، تلوانے کی ضرورت نہیں۔ ہم گارڈ سے کہہ دیں گے۔ حضرت والا نے فرمایا یہ گارڈ کہاں تک جائے گا؟ کہا گیا کہ غازی آباد تک۔ فرمایا غازی آباد سے آگے کیا ہوگا؟ کہا گیا یہ گارڈ دوسرے گارڈ سے کہہ دے گا۔ حضرت والا نے فرمایا، پھر آگے کیا ہوگا؟ کہا بس وہ کانپور تک پہنچا دیگا اور وہاں آپ کا سفر ختم ہو جائے گا۔ حضرت والا نے اسپر فرمایا کہ نہیں وہاں سفر ختم نہیں ہوگا بلکہ آگے ایک اور سفر آخرت کا بھی ہے، وہاں کا انتظام کیا ہوگا؟

ماخوذ از اشرف السوانح
فرمایا کہ سب سے خوش قسمت انسان وہ ہے جس کو اپنے ہی شہر میں معاش مل جائے۔
ایک خادم نے عرض کیا کہ میں بہنوں سے کہتا ہوں کہ جو کوئ میرے ساتھ کہیں جائے گا وہ چادر اوڑھ کر جائے گا۔ یہ کہنا مناسب ہے کہ نہیں؟" فرمایا، "بالکل کہہ سکتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں تھوڑا زور بھی دے سکتے ہیں۔ اور انشاألّٰلہ جب بہنیں دیکھیں گی کہ بھائ کی نظر میں اس چیز کی اتنی اہمیت ہے تو وہ خود خیال کرنے لگیں گی اور ان کے دل میں اس کی اہمیت پیدا ہو جائے گی۔"

کونڈے

ایک خادم نے عرض کیا کہ کونڈے وغیرہ میں احقر خود تو شرکت نہیں کرتا لیکن اس کا کھانا گھر پہ بعض دفعہ آ جاتا ہے۔ اس کو کھانا چاہیے کہ نہیں؟" فرمایا، "کونڈے وغیرہ میں شرکت تو بالکل نہ کرنا چاہیے البتّہ اس کا کھانا اگر گھر پر آجائے تو اس کا کھانا حرام نہیں جب تک کہ یہ معلوم نہ ہو کہ اس پر غیر الّٰلہ کا نام لیا گیا ہے۔ البتّہ اگر اس پر غیر الّٰلہ کا نام لیا گیا ہو تو پھر وہ کھانا حرام ہے اور اسے کھانا جائز نہیں۔"

نکاح کے بعد کھانا

ایک صاحب نے سوال کیا، "نکاح کے بعد جو کھانا ہوتا ہے، یہ سنّت تو ہے نہیں۔ اس میں جانا جائز ہے کہ ناجائز؟" حضرت نے فرمایا، "بتائیے اگر آپ کے گھر مہمان آتے ہیں تو آپ ان کو کھانا کھلاتے ہیں کہ نہیں؟" پھر فرمایا، "یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہر وہ کام جو سنّت نہ ہو خود بخود ناجائز نہیں ہو جاتا، جب تک کہ اس کے ناجائز ہونے کی کوئ اور وجہ نہ ہو۔ مثلاً یہ کہ شادی کے دن لڑکی والے جو کھانا کھلاتے ہیں اس کو عام طور سے کوئ بھی شرعاً ضروری یا سنّت نہیں سمجھتا۔ ہاں اگر کوئ یہ سمجھنے لگے کہ یہ شرعاً ضروری ہے یا سنّت ہے تو پھر یہ بدعت ہو جائے گی۔"
ایک خادم نے عرض کیا کہ الحمدالّٰلہ امتحان میں پاس ہونے کا سننے کے بعد کثرت سے شکر ادا کرنے کی توفیق ہوئ۔ حضرت یہ سن کر خوش ہوئے اور ہنس کر فرمایا کہ اس شکر ادا کرنے کی توفیق عطا ہونے پر بھی شکر ادا کرنا چاہیے۔

(حضرت مد ظلّہ کے ملفوظات قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کر نے کے کچھ زمانے بعد احقر مزید تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا گیا تھا اس لیے کچھ ملفوظات پر حضرت سے نظرِ ثانی نہیں کروا سکا۔ یہ ملفوظ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ احقر کی کوشش تو یہی تھی کہ حضرت کے الفاظ بعینہ اسی طرح سے قلم بند کر لے لیکن اگر پھر بھی نا دانستہ کوئ غلطی ہوئ ہو تو الٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ آمین)
ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ الّٰلہ تعالیٰ کی نعمتوں کا حقیقی شکر یہ ہے کہ انسان گناہوں کو چھوڑ دے۔

(حضرت مد ظلّہ کے ملفوظات قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کر نے کے کچھ زمانے بعد احقر مزید تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا گیا تھا اس لیے کچھ ملفوظات پر حضرت سے نظرِ ثانی نہیں کروا سکا۔ یہ ملفوظ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ احقر کی کوشش تو یہی تھی کہ حضرت کے الفاظ بعینہ اسی طرح سے قلم بند کر لے لیکن اگر پھر بھی نا دانستہ کوئ غلطی ہوئ ہو تو الٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ آمین)

Saturday 12 March 2016

فرمایا، "ہمارا دل تو یہ چاہتا ہے کہ جو شخص دینی رجحان رکھتا ہو الّٰلہ تعالیٰ اس کو دنیا میں بھی امتیاز عطا فرما دیں۔" پھر کچھ دیر کے بعد فرمایا، "عام طور سے یہی دیکھا ہے کہ چاہے وقتی طور پر کچھ آزمائش ہو جائے اور مسائل پیش آ جائیں لیکن جو بھی شخص دین کی طرف رجحان رکھتا ہے الّٰلہ تعالیٰ اس کو بالآخر دنیا میں بھی امتیاز عطا فرما دیتے ہیں۔"

(حضرت مد ظلّہ کے ملفوظات قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کر نے کے کچھ زمانے بعد احقر مزید تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا گیا تھا اس لیے کچھ ملفوظات پر حضرت سے نظرِ ثانی نہیں کروا سکا۔ یہ ملفوظ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ احقر کی کوشش تو یہی تھی کہ حضرت کے الفاظ بعینہ اسی طرح سے قلم بند کر لے لیکن اگر پھر بھی نا دانستہ کوئ غلطی ہوئ ہو تو الٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ آمین)

رجوع الی الّٰلہ

(حضرت مد ظلّہ کے ملفوظات قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کر نے کے کچھ زمانے بعد احقر مزید تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا گیا تھا اس لیے کچھ ملفوظات پر حضرت سے نظرِ ثانی نہیں کروا سکا۔ یہ ملفوظ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ احقر کی کوشش تو یہی تھی کہ حضرت کے الفاظ بعینہ اسی طرح سے قلم بند کر لے لیکن اگر پھر بھی نا دانستہ کوئ غلطی ہوئ ہو تو الٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ آمین)

ایک طالب سے جو مزید تعلیم کے لیے امریکہ جا رہے تھے فرمایا، "جب آپ امریکہ جائیں تو اس بات کی عادت ڈالیں کہ ہر ہر بات میں الّٰلہ تعالیٰ سے رجوع کریں، ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی انہیں سے مانگیں، ہر پریشانی پہ ان سے دعا کریں۔ بس نہیں آ رہی، وہ بھی الّٰلہ تعالیٰ سے مانگیں۔ امّی یاد آ رہی ہیں اس کے لیے بھی الّٰلہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ ہر ہر حال میں الّٰلہ تعالیٰ سے ہی رجوع کرتے رہیں۔"

صبر کی حقیقت

(حضرت مد ظلّہ کے ملفوظات قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کر نے کے کچھ زمانے بعد احقر مزید تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا گیا تھا اس لیے کچھ ملفوظات پر حضرت سے نظرِ ثانی نہیں کروا سکا۔ یہ ملفوظ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ احقر کی کوشش تو یہی تھی کہ حضرت کے الفاظ بعینہ اسی طرح سے قلم بند کر لے لیکن اگر پھر بھی نا دانستہ کوئ غلطی ہوئ ہو تو الٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ آمین)

ایک خادم نے جو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جا رہے تھے عرض کیا کہ "مجھے امّی وغیرہ اور سب گھر والوں کو چھوڑ کر جانے کا بڑا صدمہ ہے۔" فرمایا، "ہاں بھئ، وہ طبعی صدمہ تو اپنی جگہ ہے۔" پھر ہنس کر فرمایا، "وہ نہ ہو تو پریشانی کی بات ہے۔ اس کا ہونا پریشانی کی بات نہیں۔ البتّہ یہ سمجھنا چاہیے کہ سب سے زیادہ ترقی جو ہوتی ہےوہ صبر کی حالت میں ہوتی ہے۔ اگر آدمی پر مشکلات پیش آئیں اور ان پر اچھی طرح صبر کرے تو جتنی ترقی اس سے ہوتی ہے کسی عمل سے نہیں ہوتی۔"  

اس پر ایک اور خادم نے پوچھا، "حضرت صبر کیسے کیا جاتا ہے؟ مطلب یہ کہ اگر مشکل پیش آتی ہے تو آدمی اس کو کسی نہ کسی طرح برداشت کرتا ہی ہے۔یہ کیسے پتہ چلے کہ صبر ہوا کہ نہیں؟" فرمایا، "صبر کا طریقہ یہ ہے کہ جب کوئ مشکل پیش آئے تو آدمی اس بات کا مراقبہ کرے کہ ’ہاں بھئ۔ بیشک اس بات کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی، اور اس کے ہونے سے مجھے تکلیف بھی بہت ہو رہی ہے، لیکن الحمد الّٰلہ میں دل سے اس پر راضی ہوں۔ مجھے الّٰلہ تعالیٰ سے کوئ شکوہ نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ جو کچھ ہے میرے ہی فائدے کے لیے ہے، چاہے مجھے اس کا فائدہ سمجھ آئے کہ نہ آئے۔‘ بس اسی کا مراقبہ کرتا رہے۔ یہی صبر ہے۔"



ایک خادم نے حضرت کے دو اور متعلقین کے امریکہ جانے پر افسوس کرتے ہوئے ہوئے عرض کیا کہ "ان کی وجہ سے میرے دین کی بڑی حفاظت تھی کہ جتنی دیر ان کے ساتھ رہتا تھا غیر شرعی باتوں اور حرکتوں سے بچا رہتا تھا۔" حضرت نے فرمایا، "ہاں بھئ۔ واقعی یہ بہت بڑی نعمت ہے کہ ہم مزاج دوست مل جائیں۔" پھر مزید فرمایا کہ "یہ الگ ہونا وغیرہ سب الّٰلہ تعالیٰ کے دکھانے کے طریقے ہیں کہ سب تعلق فنا ہونے والے ہیں۔ باقی رہنے والا صرف اور صرف ایک ہی تعلق ہے۔ اس لیے اسی کو بڑھانے کی فکر کرنا چاہیے۔"


(حضرت مد ظلّہ کے ملفوظات قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کر نے کے کچھ زمانے بعد احقر مزید تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا گیا تھا اس لیے کچھ ملفوظات پر حضرت سے نظرِ ثانی نہیں کروا سکا۔ یہ ملفوظ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ احقر کی کوشش تو یہی تھی کہ حضرت کے الفاظ بعینہ اسی طرح سے قلم بند کر لے لیکن اگر پھر بھی نا دانستہ کوئ غلطی ہوئ ہو تو الٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ آمین)

عجب کی حقیقت


(حضرت مد ظلّہ کے ملفوظات قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کر نے کے کچھ زمانے بعد احقر مزید تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا گیا تھا اس لیے کچھ ملفوظات پر حضرت سے نظرِ ثانی نہیں کروا سکا۔ یہ ملفوظ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ احقر کی کوشش تو یہی تھی کہ حضرت کے الفاظ بعینہ اسی طرح سے قلم بند کر لے لیکن اگر پھر بھی نا دانستہ کوئ غلطی ہوئ ہو تو الٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ آمین)

ایک خادم نے سوال کیا کہ "اگر دماغ میں خود سے خیال آئے کہ الحمدالّٰلہ میں نماز پڑھتا ہوں اور دوسرا نماز نہیں پڑھتا تو کیا یہ بھی عجب ہے؟" فرمایا، "ایک واقعی حقیقت کا خیال آنا مثلاً یہ کہ اہک آدمی نماز پڑھتا ہے اور ایک نہیں پڑھتا، یہ بالکل بھی عجب نہیں۔ عجب یہ ہے کہ آدمی یہ سمجھے کہ میں اپنے کسی کمال یا عمل کی وجہ سے عند الّٰلہ زیادہ افضل ہوں، الّٰلہ تعالیٰ سے زیادہ قریب ہوں۔ کیوں کہ کچھ پتہ نہیں کہ ایک آدمی جو نماز نہیں پڑھ رہا لیکن اس کا کون سا ایسا عمل ہو جو الّٰلہ تعالیٰ کو پسند ہو ۔ اور جو آدمی نماز پڑھ رہا ہے اس کا کون سا ایسا عمل ہو جو الّٰلہ تعالیٰ کو ناپسند ہو، ناگوار ہو۔ وہاں کچھ پتہ نہیں کہ کس کا عمل مقبول ہے اور کس کا عمل مقبول نہیں۔ اس لیے واقعے کی حقیقت کو سمجھنا یعنی اپنے آپ کو اکمل سمجھنا جائز ہے لیکن اپنے آپ کو افضل سمجھنا یعنی عندالّٰلہ افضل سمجھنا جائز نہیں۔ مطلب یہ کہ یہ تو سمجھ سکتا ہے کہ مجھ میں فلاں خوبی ہے جو دوسرے میں نہیں لیکن اس کی وجہ سے اپنے آپ کو الّٰلہ تعالیٰ کے نزدیک دوسرے سے افضل نہ سمجھے۔"

ہم مزاج دوست ملنا



(حضرت مد ظلّہ کے ملفوظات قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کر نے کے کچھ زمانے بعد احقر مزید تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا گیا تھا اس لیے کچھ ملفوظات پر حضرت سے نظرِ ثانی نہیں کروا سکا۔ یہ ملفوظ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ احقر کی کوشش تو یہی تھی کہ حضرت کے الفاظ بعینہ اسی طرح سے قلم بند کر لے لیکن اگر پھر بھی نا دانستہ کوئ غلطی ہوئ ہو تو الٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ آمین)

فرمایا کہ یہ الّٰلہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے کہ آدمی کو ہم مزاج اور ہم مزاق دوست مل جائیں۔ پھر ہنس کر فرمایا کہ میرے تو کبھی اتنے دوست رہے نہیں، البتّہ بھائ صاحب وغیرہ کے بڑے دوست ہوتے تھے۔ والد صاحب کبھی ان سے پوچھتے کہ کہاں سے آ رہے ہو کہتے کہ دوست کے پاس سے آ رہا ہوں۔ کبھی پوچھتے کہ کہاں جا رہے تو کہتے کہ دوست کے پاس جا رہا ہوں۔اس پر والد صاحب فرماتے کہ بھئ تم لوگوں کو اتنے دوست کہاں سے مل جاتے ہیں۔ ہمیں تو ساری عمر میں صرف ڈیڑھ دوست ملا۔ ایک پورا اور ایک آدھا۔

تواضع



(حضرت مد ظلّہ کے ملفوظات قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کر نے کے کچھ زمانے بعد احقر مزید تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا گیا تھا اس لیے کچھ ملفوظات پر حضرت سے نظرِ ثانی نہیں کروا سکا۔ یہ ملفوظ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ احقر کی کوشش تو یہی تھی کہ حضرت کے الفاظ بعینہ اسی طرح سے قلم بند کر لے لیکن اگر پھر بھی نا دانستہ کوئ غلطی ہوئ ہو تو الٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ آمین)

فرمایا، "انسان کو اپنے حالات پر غور کرنا چاہیے کہ پہلے سے گناہوں یا نیک اعمال میں کمی ہے یا زیادتی ہے۔ اور یہ سمجھنا کہ الحمدالّٰلہ، اب گناہوں میں پہلے سے کمی ہو گئ ہے، اعمال پہلے سے زیادہ ہونے لگے ہیں، شکر الحمدالّٰلہ پہلے سے زیادہ کرنے لگا ہوں، یہ بالکل بھی تواضع کے خلاف نہیں۔ ان سب پر انسان شکر ادا کرے اور یہ سوچے کہ ابھی تو تھوڑا سا راستہ چلا ہوں، ابھی تو بہت راستہ چلنا باقی ہے۔ ابھی تو چلنا شروع کیا ہے۔ یہ سب سوچنا تواضع کے منافی نہیں۔"

حبّ ِ جاہ کی تعریف


(حضرت مد ظلّہ کے ملفوظات قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کر نے کے کچھ زمانے بعد احقر مزید تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا گیا تھا اس لیے کچھ ملفوظات پر حضرت سے نظرِ ثانی نہیں کروا سکا۔ یہ ملفوظ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ احقر کی کوشش تو یہی تھی کہ حضرت کے الفاظ بعینہ اسی طرح سے قلم بند کر لے لیکن اگر پھر بھی نا دانستہ کوئ غلطی ہوئ ہو تو الٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ آمین)

ایک خادم نے پوچھا، "حضرت! حبّ ِ جاہ کیا ہوتی ہے؟ مہربانی فرما کر مثال کے ساتھ سمجھا دیں۔" فرمایا، "حبّ ِ جاہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے دلوں پر اس طرح میرا قبضہ ہو جائے، لوگوں کے قلوب اس طرح میرے لیے مسخّر ہو جائیں کہ میں ان سے جو جائز، ناجائز کام چاہوں کروا سکوں۔" انہوں نے سوال کیا، "حضرت! اگر کسی میں یہ شوق ہو کہ لوگ میری تعریف کریں، کام نکلوانے یا نہ نکلوانے کی فکر نہ ہو تو کیا یہ بھی گناہ ہے؟" فرمایا، "یہ بھی مذموم ہے۔ اگر ایسا خیال آئے تو آدمی یہ سوچے کہ اگر کوئ دوسرا میری تعریف کر بھی دے تو کیا حاصل۔ اس نے جو بات کہی وہ تو ہوا میں اڑ گئ۔ اب تو یہی ہو سکتا ہے کہ آدمی یا تو اس سے بار بار کہے کہ جناب، ایک دفعہ پھر سے یہ الفاظ دہرا دیجیے۔ یا پھر اس کی باتوں کو دل ہی دل میں سوچ کر مزا لیتا رہے۔ اس سے حاصل کیا ہوا؟ دوسرے کی تعریف میں رکھا ہی کیا ہے؟"

تعلق مع الّٰلہ کے آثار



(حضرت مد ظلّہ کے ملفوظات قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کر نے کے کچھ زمانے بعد احقر مزید تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا گیا تھا اس لیے کچھ ملفوظات پر حضرت سے نظرِ ثانی نہیں کروا سکا۔ یہ ملفوظ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ احقر کی کوشش تو یہی تھی کہ حضرت کے الفاظ بعینہ اسی طرح سے قلم بند کر لے لیکن اگر پھر بھی نا دانستہ کوئ غلطی ہوئ ہو تو الٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ آمین)

ایک خادم نے سوال کیا، "حضرت! ہم لوگوں کو بعض دفعہ شبہ ہوتا ہے کہ ہم لوگ دین ے میدان میں آگے بڑھ بھی رہے ہیں کہ نہیں۔ کہیں ترقیٴ معکوس تو نہیں ہو رہی؟ ہم لوگ ریورس گیئر میں تو نہیں چل رہے؟ کیا تعلق مع الّٰلہ کے کچھ آثار بھی ہوتے ہیں جس سے آدمی اندازہ لگا سکے کہ میرے الّٰلہ تعالیٰ سے تعلق میں کچھ اضافہ ہو رہا ہے کہ نہیں؟" حضرت نے ہنس کر فرمایا، "اس بات کی پریشانی ہونا کہ خدانخواستہ کہیں میرا تعلق پہلے کے مقابلے میں گھٹ تو نہیں رہا۔ یہی اس بات کی نشانی ہے کہ الحمدالّٰلہ کچھ نہ کچھ تعلق ہے۔ ورنہ معاذالّٰلہ جس کو الّٰلہ تعالیٰ سے کچھ تعلق نہیں ہوتا اس کو اس بات کی کبھی پریشانی نہیں ہوتی کہ میرا تعلق بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے۔ البتّہ اس میں مزید دو باتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ تعلق بڑھ رہا ہےکہ نہیں؟ دوسرے یہ کہ اگر بڑھ رہا ہے تو کس رفتار سے بڑھ رہا ہے؟ پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ یہ دیکھے کہ پہلے جتنے گناہوں میں مبتلا تھا اب گناہ اس سے کم ہوتے ہیں یا زیادہ ہوتے ہیں۔ اور یہ کہ پہلے جو نیک اعمال کرتا تھا اب ان میں پہلے سے زیادہ پابندی ہے، پہلے سے زیادہ تعداد میں کرنے لگا ہے، یا کم ہو گئے ہیں۔ اگر گناہ بھی پہلے سے کم ہو گئے ہیں، اعمال بھی پہلے سے زیادہ ہو گئے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ الحمد الّٰلہ تعلق مع الّٰلہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور اگر گناہوں کا بالکل وہی حال ہے جو پہلے تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہیں کھڑا ہوا ہے۔ اور اگر خدا نخواستہ گناہ بھی پہلے سے بڑھ گئے ہیں اور فرائض وغیرہ بھی چھوٹنے لگے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلق میں پہلے سے کمی ہے۔ جہاں تک رہی دوسری بات کہ تعلق کس رفتار سے بڑھ رہا ہے تو اس چکر میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ کس رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ بس بات چلتی رہے۔ جب تک چلتی رہے تب تک خیر ہے۔"

دین میں مقابلہ


(حضرت مد ظلّہ کے ملفوظات قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کر نے کے کچھ زمانے بعد احقر مزید تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا گیا تھا اس لیے کچھ ملفوظات پر حضرت سے نظرِ ثانی نہیں کروا سکا۔ یہ ملفوظ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ احقر کی کوشش تو یہی تھی کہ حضرت کے الفاظ بعینہ اسی طرح سے قلم بند کر لے لیکن اگر پھر بھی نا دانستہ کوئ غلطی ہوئ ہو تو الٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ آمین)

ایک خادم نے سوال کیا کہ "حضرت! اپنے بعض ساتھیوں کو، جو ماشاألّٰلہ دین میں بہت بڑھے ہوئے ہیں، دیکھ کر یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمارے ساتھ کے یہ لوگ اتنا کچھ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے۔ ہمیں بھی کرنا چاہیے۔ یہ کوئ خراب بات تو نہیں؟" فرمایا، "نہیں بھئ۔ یہ بالکل بھی خراب نہیں بلکہ اسکا تو قرآن میں حکم ہے۔ (ترجمہ: خیر میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرو۔) یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آدمی اس کی فکر کرے اور دوسروں سے مقابلہ کرے کہ میں دین کے کاموں میں  دوسروں سے آگے بڑھ جاؤں۔"

جہیز کی شرعی حیثیت



(حضرت مد ظلّہ کے ملفوظات قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کر نے کے کچھ زمانے بعد احقر مزید تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا گیا تھا اس لیے کچھ ملفوظات پر حضرت سے نظرِ ثانی نہیں کروا سکا۔ یہ ملفوظ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ احقر کی کوشش تو یہی تھی کہ حضرت کے الفاظ بعینہ اسی طرح سے قلم بند کر لے لیکن اگر پھر بھی نا دانستہ کوئ غلطی ہوئ ہو تو الٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ آمین)

ایک خادم نے، جن کی شادی ہونے والی تھی ، پوچھا، "حضرت! لڑکی والوں نے مجھ سے پوچھا ہے کہ آپ کو جہیز میں کیا کیا چاہیے۔ میں نے سوچا کہ ان سے کہہ دوں گا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے خصوصاً فرنیچر وغیرہ تو بالکل نہ دیں کیونکہ ان کو امریکہ کون لے جائے گا مگر مسئلہ یہ ہے کہ پھر لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ کیش مانگ رہے ہیں۔" فرمایا، "جہیز لڑکی کاحق ہے اور والدین کا اپنی بیٹی کو تحفہ ہے۔ وہ جو کچھ دینا چاہیں اپنی بیٹی کو دیں۔ نہ اس میں شوہر کو کچھ مطالبہ کرنے کا حق ہے اور نہ سسرال والوں کو۔ البتّہ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ایسی کوئ بھاری چیز نہ دیں جو امریکہ لے جانا مشکل ہو۔"

والدین کی یاد اور تعلق مع الّٰلہ



(حضرت مد ظلّہ کے ملفوظات قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کر نے کے کچھ زمانے بعد احقر مزید تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا گیا تھا اس لیے کچھ ملفوظات پر حضرت سے نظرِ ثانی نہیں کروا سکا۔ یہ ملفوظ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ احقر کی کوشش تو یہی تھی کہ حضرت کے الفاظ بعینہ اسی طرح سے قلم بند کر لے لیکن اگر پھر بھی نا دانستہ کوئ غلطی ہوئ ہو تو الٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ آمین)

ایک خادم نے جو اعلیٰ تعلیم  کے لیے امریکہ جا رہے تھے، پوچھا، "حضرت! آپ نے فرمایا تھا کہ جب وہاں والدہ کی یاد آئے تو اسے بھی تعلق مع الّٰلہ میں اضافے کا ذریعہ بنا لینا چاہیے۔ تو ایسے وقت میں کیا کرنا چاہیے؟" فرمایا "اس وقت یہ کرنا چاہیے کہ آدمی یہ خیال کرے کہ میں یہاں کس لیے آیا ہوں۔ میں یہاں بھی الّٰلہ ہی کے لیے آیا ہوں تا کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے لوگوں کی خدمت کر سکوں۔ میں گھر سے دور رہ کر جو کچھ تکلیفیں برداشت کر رہا ہوں الّٰلہ ہی کے لیے کر رہا ہوں۔ اور اس وقت تلاوت کرنا چاہیے اور ذکر کرنا چاہیے جتنا زیادہ سے زیادہ ہو سکے۔"


اپنے کام میں کمال حاصل کرنا

(حضرت مد ظلّہ کے ملفوظات قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کر نے کے کچھ زمانے بعد احقر مزید تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا گیا تھا اس لیے کچھ ملفوظات پر حضرت سے نظرِ ثانی نہیں کروا سکا۔ یہ ملفوظ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ احقر کی کوشش تو یہی تھی کہ حضرت کے الفاظ بعینہ اسی طرح سے قلم بند کر لے لیکن اگر پھر بھی نا دانستہ کوئ غلطی ہوئ ہو تو الٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ آمین)

ایک خادم نے عرض کیا کہ "حضرت! ہم لوگوں کا مزاج یہ ہے آدمی جو کام کرے اس میں اونچا مقام حاصل کرے۔ مثلاً یہ کہ ڈاکٹری کرے تو اس میں بہت زیادہ ماہر ہو اور کمال حاصل کرے۔ یہ حبِّ جاہ میں داخل تو نہیں؟" فرمایا، "نہیں بھئ! یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آدمی جو کام کرے صحیح طریقے سے کرے۔ اس میں بھی مختلف نیّتیں ہیں اور مختلف درجات ہیں۔ مثال کے طور پر آدمی یہ سوچے کہ اگر میں بہت زیادہ علم حاصل کروں گا اور بہت زیادہ اچھا ڈاکٹر بنوں گا تو میں لوگوں کی خدمت زیادہ اچھے طریقے سے کر سکوں گا، اور جن بیماریوں کا علاج دوسرے لوگ نہیں کر سکیں گے ان کا علاج میں کروں گا، تو یہ نیّت باعثِ اجر ہے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ آدمی یہ سوچے کہ میں جتنا اچھا ڈاکٹر بنوں گا اتنے لوگ میرے پاس زیادہ آئیں گے، میری معاش میں اتنا اضافہ ہو گا اور میں آرام سے رہوں گا۔ یہ نیّت جائز ہے گناہ نہیں، لیکن اس میں ثواب بھی نہیں ہے۔ تیسرا درجہ یہ ہے آدمی یہ سوچے کہ میں بہت زیادہ مشہور ہو جاؤں، سب سے بڑا ہو جاؤں اور اوروں سے آگے بڑھ جاؤں۔ پھر پیسے کی ہوس ہو جائے کہ میں سب سے زیادہ کماؤں، یہ ناجائز ہے۔"

بزرگوں کے کسی مستند سلسلے سے وابستہ ہونے کی برکت

(حضرت مد ظلّہ کے ملفوظات قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کر نے کے کچھ زمانے بعد احقر مزید تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا گیا تھا اس لیے کچھ ملفوظات پر حضرت سے نظرِ ثانی نہیں کروا سکا۔ یہ ملفوظ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ احقر کی کوشش تو یہی تھی کہ حضرت کے الفاظ بعینہ اسی طرح سے قلم بند کر لے لیکن اگر پھر بھی نا دانستہ کوئ غلطی ہوئ ہو تو الٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ آمین)

ایک دفعہ بزرگوں کے کسی مستند سلسلے سے وابستہ ہو جانے کی برکت کاذکر کرتے ہوئے فرمایا، "گو کہ واسطہ خود کسی کو اپنی مرضی سے کوئ فیض نہیں پہنچا سکتا لیکن الّٰلہ تعالیٰ کی سنّت یہی ہے کہ وہ کسی واسطے کے ذریعے سے ہی دیتے ہیں۔ اس حساب سے واسطے کی بھی بڑی اہمیت ہے اور بزرگوں کے کسی سلسلے سے منسلک ہوجانا بھی بڑی برکت کی بات ہے۔ الّٰلہ تعالیٰ کی مہربانی سے ایک ایک آدمی کر کے سلسلہ آخر میں رسول الّٰلہ ﷺ تک پہنچ جاتا ہے اور بیچ میں رابطہ کہیں منقطع نہیں ہوتا۔ ان سب کی برکات انشاٴالّٰلہ آپ لوگوں تک پہنچیں گی۔"

Monday 7 March 2016

تورات و انجیل میں رسول الّٰلہ ﷺ کی صفات اور علامات

"۔۔۔ نہ وہ سخت مزاج ہوں گے نہ سخت بات کرنے والے، نہ بازاروں میں شور کرنے والے، ۔۔۔"

"۔۔۔ نہ سخت مزاج ہیں نہ بیہودہ گو، نہ بازاروں میں شور کرنے والے، بدی کا بدلہ بدی سے نہیں دیتے بلکہ معاف فرما دیتے ہیں اور درگزر کرتے ہیں۔۔۔"

"۔۔۔نہ آپ سخت مزاج ہیں اور نہ جھگڑالو اور نہ بازاروں میں شور کرنے والے، برائ کا بدلہ برائ سے نہیں دیتے بلکہ معاف کر دیتے ہیں اور درگزر کرتے ہیں،۔۔۔"


 بیہقی نے بروایت ِ حضرت علی مرتضیٰؓ نقل کیا ہے کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم کو اوّلین و آخرین کے اخلاق سے بہتر اخلاق کی تعلیم دیتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ جو شخص تم کو محروم کرے تم اس پر بخشش کرو، جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کر دو، جو تم سے قطع تعلق کرے تم اس سے بھی ملا کرو۔

جب یہ آیت (سورةاعراف ۷:۲۰۲  ) نازل ہوئ تو آنحضرت ﷺ نے جبریلِ امین سے اس کا مطلب پوچھا، جبریلِ امین نے الّٰلہ تعالیٰ سے دریافت کرنے کے بعد یہ مطلب بتایا کہ اس آیت میں آپ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جو شخص آپ پر ظلم کرے آپ اس کو معاف کر دیں، اور جو آپ کو کچھ نہ دے آپ اس پر بخشش کریں اور جو آپ سے قطع تعلق کرے آپ اس سے بھی ملا کریں۔

از معارف القرآن؛ تالیف حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ

Sunday 6 March 2016

ایک صاحب نے سوال کیا کہ "الحمدالّٰلہ میں ویسے تو نماز پڑھتا ہوں لیکن اگر کسی میٹنگ وغیرہ میں ہوں اور نماز کا وقت آ جائے تو عموماً اٹھنے میں سستی ہوتی ہے اور نماز قضا ہو جاتی ہے۔ اس سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟" فرمایا، "چلتے پھرتے جب فارغ ہوں تو کلمہ طیبّہ کا ورد کرتے رہیں اور جب یاد رہے اس سلسلے میں دعا کرتے رہیں۔"
"نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، آپ نیک برتاؤ سے ٹال دیا کریں، پھر یکایک آپ میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہو جاوے گا جیسا کوئ دلی دوست ہوتا ہے، اور یہ بات انہیں لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے مستقل مزاج ہیں، اور یہ بات اسی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑا صاحبِ نصیب ہے۔۔۔" سورة حم سجدہ، ترجمہ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع ؒ

Wednesday 2 March 2016

ایک خادم نے عرض کیا، "حضرت! عام طور سے تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے حضرت سے سنی ہوئ باتیں بھول گئ ہوں لیکن الحمدالّٰلہ جیسے ہی عمل کا موقع آتا ہے فوراً یاد آ جاتی ہیں۔" فرمایا، "بس بھئ۔ اصل مقصود یہی ہے کہ بات وقت پر یاد آ جائے۔ کوئ رٹنا مقصود تھوڑا ہی ہے۔"
فرمایا، " شیخ سے تعلق ہونے کا اتنا بڑا فائدہ ہوتا ہے کہ بالکل ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک پہریدار بیٹھا ہوا ہو۔ جیسے ہی کسی گناہ کی طرف میلان ہو تا ہے وہ پہریدار اس کو روک لیتا ہے جیسے لگام کھینچ لی گئ ہو۔ اس لیے اپنے شیخ سے زیادہ سے زیادہ تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔" ایک خادم نے عرض کیا، "حضرت! اس تعلق میں اضافہ کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟" حضرت نے ہنس کر سامنے بیٹھے ہوئے خدّام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، "بس ’ایسے‘ ہی بڑھ جاتا ہے۔" (مطلب یہ کہ جتنا زیادہ خدمت میں حاضر ہوتا رہے گا اتنا ہی تعلق بڑھتا جائے گا۔)
ایک خادم نے سوال کیا، "حضرت! یہ تعلق مع الّٰلہ قائم کیسے ہوتا ہے؟" فرمایا، "دو چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک ذکر اور دوسری فکر۔ شروع میں تو یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنا زیادہ سے زیادہ فارغ وقت ذکر میں اور قرآن کریم کی تلاوت میں لگائے اور دین کے کسی نہ کسی کام میں لگا رہے۔ پھر آہستہ آہستہ فکر پیدا ہونے لگتی ہے اور آدمی کا دھیان اس طرف لگا رہتا ہے کہ کس طرح الّٰلہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کروں اور کس طرح اسے زیادہ سے زیادہ بڑھاؤں۔ ہم لوگوں کو اس وقت جب کبھی فارغ وقت ہوتا ہے تو کیا خیالات آتے ہیں؟ یہی نا کہ کبھی کوئ چیز پسند ہے تو اس کا خیال آ گیا، کبھی جو چیز چاہیے اس کا خیال آ گیا۔ لیکن جب فکر پیدا ہو جاتی یے تو ان سب چیزوں کے خیالات نہیں آتے، پھر الّٰلہ تعالیٰ ہی کا خیال آتا ہے۔"
ایک طالب اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جا رہے تھے۔ اسی سلسلے میں ایک گفتگو میں فرمایا، "امریکہ جانے میں بعض فائدے بھی ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ شروع میں نئی جگہ جا کر انسان کے تعلقات بہت کم ہوتے ہیں۔ اس لیے انسان اگر چاہے تو وہاں حقیقی تعلق جو ہے وہ استوار کر سکتا ہے، یعنی تعلق مع الّٰلہ۔ اس فارغ وقت ہونے کا ایک نقصان بھی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر انسان غلط تعلقات میں پڑ جائے تو بہت سے غلط تعلقات میں بھی پڑ سکتا ہے۔ کم تعلقات ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان بیوی بچوں، والدین یا دوست احباب کو چھوڑ دے۔ یہ سارے تعلقات حقوق العباد میں شامل ہیں اور بہت ضروری ہیں اور تعلق مع الّٰلہ میں معین ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ان تعلقات میں بہت زیادہ منہمک نہ ہو جائے اور ہر وقت انہی میں نہ لگا رہے اور انہی کے بارے میں نہ سوچتا رہے، بلکہ اپنا فاضل وقت الّٰلہ تعالیٰ کے ذکر میں اور ان کی یاد میں لگائے اور ان سے زیادہ سے زیادہ تعلق پیدا کرنے کی فکر کرے۔"
فرمایا، "جب ایک شخص الّٰلہ تعالیٰ سے تعلق قائم کر لیتا ہے تو اس کی طبیعت اور عقل دونوں شریعت کے موافق اور اس کے تابع ہو جاتے ہیں۔ تینوں میں کوئ فرق نہیں رہتا۔ 
فرمایا، "سب سے خوش قسمت انسان وہ ہے جس کو اپنے شہر میں معاش مل جائے۔