Monday 31 October 2016

"اور اگر کبھی تمہیں ان (رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں) سے اس لئے منہ پھیرنا پڑے کہ تمہیں الله کی متوقّع رحمت کا انتظار ہو تو ایسے میں ان کے ساتھ نرمی سے بات کر لیا کرو۔" (سورہٴ بنی اسرائیل:۲۸)

اس آیت میں رسول کریم ﷺ اور ان کے واسطے سے پوری امّت کی عجیب اخلاقی تربیت کی گئ ہے کہ اگر کسی وقت ضرورت مند لوگ سوال کریں اور آپ کے پاس ان کو دینے کے لئے کچھ نہ ہو اس لئے ان لوگوں سے معذرت کرنے پر مجبور ہو تو ایسے وقت بھی آپ کی یہ معذرت مخاطب کے لئے توہین آمیز نہ ہونی چاہئے بلکہ یہ پہلو تہی کرنا اپنے عجز و مجبوری کے اظہار کے ساتھ ہونا چاہئے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہٴ بنی اسرائیل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Sunday 30 October 2016

فضول خرچی کی ممانعت

فضول خرچی کے معنی کو قرآن حکیم نے دو لفظوں سے تعبیر فرمایا ہے ایک تبذیر اور دوسرے اسراف۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ دونوں لفظ ہم معنی ہیں، کسی معصیت میں یا بے موقع بے محل خرچ کرنے کو تبذیر و اسراف کہا جاتا ہے۔ بعض حضرات نے یہ تفصیل کی ہے کہ کسی گناہ میں یا بالکل بے موقع بے محل خرچ کرنے کو تبذیر کہتے ہیں، اور جہاں خرچ کرنے کا موقع تو ہو مگر ضرورت سے زائد خرچ کیا جائے اس کو اسراف کہتے ہیں۔ 

امام قرطبیؒ نے فرمایا کہ حرام و ناجائز کام میں تو ایک درہم خرچ کرنا بھی تبذیر ہے، اور جائز و مباح خواہشات میں حد سے زیادہ خرچ کرنا جس سے آئندہ محتاج فقیر ہو جانے کا خطرہ ہو جائے یہ بھی تبذیر میں شامل ہے۔ ہاں اگر کوئ شخص اصل راس المال کو محفوظ رکھتے ہوئے اسکے منافع کو اپنی جائز خواہشات میں وسعت کے ساتھ خرچ کرتا ہے تو وہ تبذیر میں داخل نہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہٴ بنی اسرائیل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Thursday 27 October 2016

عام رشتہ داروں کے حقوق

"اور رشتہ دار کو اس کا حق دو، اور مسکین اور مسافر کو (ان کا حق)، اور اپنے مال کو بے ہودہ کاموں میں مت اڑاؤ۔ یقین جانو کہ جو لوگ بے ہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں، وہ شیطانوں کے بھائ ہیں، اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔" (سورہٴ بنی اسرائیل:۲۶۔۲۷)

اس آیت سے اتنی بات تو ثابت ہو گئ کہ ہر شخص پہ اسکے عام رشتہ داروں اور عزیزوں کا بھی حق ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک اس فرمان کے تحت جو رشتہ دار ذی رحم محرم ہو اگر وہ عورت یا بچّہ ہے جس کے پاس اپنے گذارے کا سامان نہیں اور کمانے پہ بھی قدرت نہیں، اسی طرح جو رشتہ دار ذی رحم محرم اپاہج یا اندھا ہو اور اس کی ملک میں اتنا مال نہیں جس سے اس کا گذارہ ہو سکے، تو ان کے جن رشتہ داروں میں اتنی وسعت ہے کہ وہ ان کی مدد کر سکتے ہوں، ان پر ان سب کا نفقہ فرض ہے۔ اگر ایک ہی درجہ کے کئ رشتہ دار صاحبِ وسعت ہوں تو ان سب پر تقسیم کر کے ان کا گذارہ نفقہ دیا جائے گا۔ 

اس آیت میں اہلِ قرابت اور مسکین و مسافر کو مالی مدد دینے اور صلہ رحمی کرنے کو ان کا حق فرما کر اس طرف اشارہ کر دیا کہ دینے والے کو ان پہ احسان جتانے کا کوئ موقع نہیں کیونکہ ان کا حق اس کے ذمّہ فرض ہے۔ دینے والا اپنا فرض ادا کر رہا ہے، کسی پر احسان نہیں کر رہا۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہٴ بنی اسرائیل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Tuesday 25 October 2016

والدین کے حقوق۔ حصہ ہفتم

حضرت عبد الله ابنِ عمر رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا، "باپ کے ساتھ بڑا سلوک یہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔"

حضرت ابو اسید بدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری شخص نے رسول الله ﷺ سے سوال کیا، "یا رسول الله! ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کا کوئ حق میرے ذمہ باقی ہے؟" آپؐ نے فرمایا، "ہاں! ان کے لئے دعا اور استغفار کرنا، جو عہد انہوں نے کسی سے کیا تھا اس کو پورا کرنا، ان کے دوستوں کا اکرام و احترام کرنا، اور ان کے ایسے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا برتاؤ کرنا جنکا رشتہ قرابت صرف انہیں کے واسطے سے ہے۔ والدین کے یہ حقوق ہیں جو ان کے بعد بھی تمہارے ذمّہ باقی ہیں۔"

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورةٴ بنی اسرائیل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Monday 24 October 2016

والدین کے حقوق۔ حصہ ششم

حضرت اسماء ؓ نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ میری والدہ جو مشرک ہے مجھ سے ملنے کے لئے آتی ہے۔ کیا میرے لئے جائز ہے کہ اس کی خاطر مدارات کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا، "صِلِی ا’مَّکِ (یعنی اپنی ماں کی صلہ رحمی اور خاطر مدارات کرو)۔" اور غیر مسلم ماں باپ کے بارے میں خود قرآن کریم کا یہ ارشاد موجود ہے، "و صاحبھما فی الدنیا معروفا"، ترجمہ: جس کے ماں باپ غیر مسلم ہوں اور اسے بھی اسلام چھوڑنے کا حکم دیں تو ان کا اس معاملے میں حکم ماننا تو جائز نہیں مگر دنیا میں ان کے ساتھ معروف طریقے کا برتاؤ کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ معروف طریقہ سے یہی مراد ہے کہ ان کے ساتھ مدارات کا معاملہ کریں۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہٴ بنی اسرائیل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

والدین کے حقوق۔ حصہ پنجم

بیہقی نے شعب الایمان  میں بروایت ابی بکرہ نقل کیا ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ اور سب گناہوں کی سزا تو الله تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں قیامت تک موٴخّر کر دیتے ہیں بجز والدین کی حق تلفی اور نافرمانی کے کہ اس کی سزا آخرت سے پہلے دنیا میں بھی دی جاتی ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہٴ بنی اسرائیل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Sunday 23 October 2016

والدین کے حقوق، حصہ چہارم

حضرت ابنِ عبّاس ؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ جو خدمت گذار بیٹا اپنے والدین پر رحمت و شفقت سے نظر ڈالتا ہے تو ہر نظر کے بدلے میں ایک حج مقبول کا ثواب پاتا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اگر وہ دن میں سو مرتبہ اس طرح نظر کرے؟ آپؐ نے فرمایا، "ہاں سو مرتبہ بھی (ہر نظر پر یہی ثواب ملتا رہے گا)، الله تعالیٰ بڑا ہے۔ (اس کے خزانے میں کوئ کمی نہیں آتی)"

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیر سورہٴ بنی اسرائیل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ

والدین کے حقوق۔ حصہ سوئم

حضرت ابنِ عبّاس ؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا، "جو شخص الله کے لئے اپنے ماں باپ کا فرمانبردار رہا اس کے لئے جنّت کے دو دروازے کھلے رہیں گے، اورجو ان کا نافرمان ہوا اس کے لئے جہنّم کے دو دروازے کھلے رہیں گے۔ اور اگر ماں باپ میں سے کوئ ایک ہی تھا تو ایک دروازہ (جنّت یا دوزخ کا) کھلا رہے گا۔ اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا یہ (جہنّم کی وعید) اس صورت میں بھی ہے کہ ماں باپ نے اس شخص پر ظلم کیا ہو؟ آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا،  "وَ اِن ظَلَمَا وَ اِن ظَلَمَا وَ اِن ظَلَمَا۔" (یعنی ماں باپ کی نافرمانی اور ان کو ایذاء رسانی پر جہنّم کی وعید ہے خواہ ماں باپ نے اولاد پر ظلم ہی کیا ہو جس کا حاصل یہ ہے کہ اولاد کو ماں باپ سے انتقام لینے کا حق نہیں کہ انہوں نے ظلم کیا تو یہ بھی ان کی خدمت و اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیں۔)

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة بنی اسرائیل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ

Saturday 22 October 2016

والدین کے حقوق۔ حصہ دوئم

امام قرطبی ؒ فرماتے ہیں کہ اس (جو پچھلی پوسٹ میں آئی)  آیت میں حق تعالیٰ نے والدین کے ادب و احترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر واجب فرمایا ہے جیسا کہ سورة لقمان میں اپنے شکر کے ساتھ والدین کے شکر کو ملا کر لازم فرمایا ہے اَنِ اشکر لیِ وَلِوَ الِدَیکَ۔ (یعنی میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ الله جل شانہ کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم، اور الله تعالیٰ کے شکر کی طرح والدین کا شکر گزار ہونا واجب ہے۔ صحیح بخاری کی یہ حدیث بھی اسی پر شاہد ہے کہ جس میں ہے کہ رسول الله ﷺ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ "الله کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کیا ہے؟" آپﷺ نے فرمایا کہ "نماز اپنے وقت (مستحب) میں۔" اس نے پھر دریافت کیا کہ اس کے بعد کونسا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے تو آپؐ نے فرمایا، "والدین کے ساتھ اچھا سلوک۔"

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة بنی اسرائیل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

والدین کے حقوق۔ حصّہ اوّل

اور تمہارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو، اور نہ انہیں جھڑکو، بلکہ ان سے عزّت کے ساتھ بات کیا کرو، اور ان کے ساتھ محبّت کا برتاؤ کرتے ہوئے ان کے سامنے اپنے آپ کو انکساری سے جھکاؤ، اور یہ دعا کرو کہ :"یا رب! جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں مجھے پالا ہے، آپ بھی ان کے ساتھ رحمت کا معاملہ کیجئے"۔ (سورة بنی اسرائیل: ۲۳۔۲۴)

Wednesday 19 October 2016

حضرت ابو امامہ رضی الله عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز بعض لوگوں کا نامہٴ اعمال جب ان کے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ دیکھے گا کہ اس کے بعض اعمالِ صالحہ اس میں لکھے ہوئے نہیں ہیں تو عرض کرے گا کہ میرے پروردگار اس میں میرے فلاں فلاں عمل درج نہیں ہیں تو حق تعالیٰ کی طرف سے جواب ملے گا کہ ہم نے ان اعمال کو اس لئے مٹا دیا کہ تم لوگوں کی غیبت کرتے تھے۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة بنی اسرائیل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Tuesday 18 October 2016

بنی اسرائیل کے متعلّق الله تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرما دیا تھا کہ جب تک وہ الله تعالیٰ کی اطاعت کریں گے دین و دنیا میں فائز المرام اور کامیاب رہیں گے، اور جب کبھی دین سے انحراف کریں گے ذلیل و خوار کئے جائیں گے اور دشمنوں کافروں کے ہاتھوں ان پر مار ڈالی جائے گی۔۔۔

۔۔۔بنی اسرائیل کے یہ واقعات قرآن کریم میں بیان کرنے اور مسلمانوں کو سنانے سے بظاہر مقصد یہی ہے کہ مسلمان بھی اس ضابطہٴ الہیّہ سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ دنیا و دین میں ان کی عزّت وشوکت اور مال و دولت اطاعت خداوندی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ جب وہ الله و رسول الله ﷺ کی اطاعت سے انحراف کریں گے تو ان کے دشمنوں اور کافروں کو ان پر غالب اور مسلّط کر دیا جائے گا جن کے ہاتھوں ان کے معابد و مساجد کی بے حرمتی بھی ہو گی۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة نحل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ

Monday 17 October 2016

"یقین رکھو کہ الله ان لوگوں کا ساتھی ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں، اور جو احسان پہ عمل پیرا ہیں۔" (سورة نحل:۱۲۸)

اس کا حاصل یہ ہے کہ الله تعالیٰ کی مدد ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو دو صفتوں کے حامل ہوں، ایک تقویٰ، دوسرے احسان۔ تقویٰ کا حاصل ہے نیک عمل کرنا اور احسان کا مفہوم اس جگہ خلقِ خدا تعالیٰ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ہے۔ یعنی جو لوگ شریعت کے تابع اعمالِ صالحہ کے پابند ہوں اور دوسروں کے ساتھ احسان کا معاملہ کرتے ہوں، حق تعالیٰ ان کے ساتھ ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة نحل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ

Sunday 16 October 2016

ایذاٴ کا بدلہ لینا جائز ہے مگر صبر بہتر ہے

"اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے نصیحت کر کے دعوت دو، اور (اگر بحث کی نوبت آئے تو) ان سے بحث بھی ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو۔۔۔ (۱۲۵) اور اگر تم لوگ (کسی کے ظلم کا) بدلہ لو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنی زیادتی تمہارے ساتھ کی گئ تھی۔ اور اگر صبر ہی کر لو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہت بہتر ہے۔ (۱۲۶) سورة نحل

سورة نحل کی ان آیتوں میں داعیانِ حق کے لئے ایک اہم ہدایت ہے کہ، وہ یہ کہ حق بات کو پہنچانے میں بعض اوقات ایسے سخت دل لوگوں سے بھی سابقہ پڑتا ہے کہ ان کو کتنی ہی نرمی اور خیر خواہی سے بات سمجھائ جائے وہ اس پر بھی مشتعل ہو جاتے ہیں، زبان درازی کر کے ایذاء پہنچاتے ہیں، اور بعض اوقات اس سے بھی تجاوز کر کے ان کو جسمانی تکلیف پہونچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایسے حالات میں دعوتِ حق دینے والوں کو کیا کرنا چاہئے؟

اس کے لئے "وَ اِن عَاقَبتُم الخ" میں ایک تو ان حضرات کو قانونی حق دیا گیا کہ جو آپ پر ظلم کرے آپ کو بھی اس سے اپنا بدلہ لینا جائز ہے،  مگر اس شرط کے ساتھ کہ بدلہ لینے میں مقدار ظلم سے تجاوز نہ ہو۔ جتنا ظلم اس نے کیا ہے، اتنا ہی بدلہ لیا جائے۔ اس میں زیادتی نہ ہونے پائے۔

اور آخر آیت میں مشورہ دیا کہ اگر چہ آپ کو انتقام لینے کاحق ہے، لیکن صبر کریں اور انتقام نہ لیں تو یہ بہتر ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة نحل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ

نصیحت اکیلے میں کی جانی چاہیے

امام شافعیؒ نے فرمایا: 

"جس شخص کو کسی غلطی پہ متنبّہ کرنا ہے، اگر تم نے اس کو تنہائ میں نرمی کے ساتھ سمجھایا تو یہ نصیحت ہے، اور اگر علانیہ لوگوں کے سامنے اس کو رسوا کیا تو یہ فضیحت ہے۔"

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة نحل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Saturday 15 October 2016

دینی بحث مباحثے کے نقصانات

امام غزالی ؒ نے فرمایا کہ جس طرح شراب امّ الخبائث ہے کہ خود بھی بڑا گناہ ہے اور دوسرے بڑے بڑے جسمانی گناہوں کا ذریعہ بھی ہے، اسی طرح بحث و مباحثے میں جب مقصود مخاطب پر غلبہ پانا اور اپنا علمی تفوّق لوگوں پر ظاہر کرنا ہو جائے تو وہ بھی باطن کے لئے امّ الخبائث ہے جس کے نتیجے میں بہت سے روحانی جرائم پیدا ہوتے ہیں، مثلاً حسد، بغض، تکبّر، غیبت، دوسرے کے عیوب کا تجسّس، اس کی برائ سے خوش اور بھلائ سے رنجیدہ ہونا، قبولِ حق سے استکبار، اور دوسرے کے قول پہ انصاف و اعتدال کے ساتھ غور کرنے کے بجائے جواب دہی کی فکر، خواہ اس میں قرآن و سنّت میں کیسی ہی  تاویلات کرنا پڑیں۔ 

امام مالک ؒ نے فرمایا کہ علم میں جھگڑا اور جدال نورِ علم کو انسان کے قلب سے نکال دیتا ہے۔ کسی نے عرض کیا کہ ایک شخص جس کو سنّت کا علم ہو کیا وہ حفاظتِ سنّت کے لئے جدال کر سکتا ہے؟ فرمایا، "نہیں! بلکہ اس کو چاہئے کہ مخاطب کو صحیح بات سے آگاہ کر دے۔ پھر وہ قبول کر لے تو بہتر ورنہ سکوت اختیار کرے۔"

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة نحل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ

دعوت الی الله کے پیغمبرانہ آداب۔ حصہ چہارم

رسول الله  ﷺ کو دعوت و اصلاح کے کام میں اس کا بھی بڑا اہتمام تھا کہ مخاطب کی سبکی یا رسوائ نہ ہو، اسی لئے جب کسی شخص کو دیکھتے کہ کسی غلط اور برے کام میں مبتلا ہے تو اس کو براہِ راست خطاب کرنے کے بجائے مجمع عام کو خطاب فرماتے تھے: 
"لوگوں کو کیا ہو گیا کہ فلاں کام کرتے ہیں۔"
اس عام خطاب میں جس کو سنانا اصل مقصود ہوتا وہ بھی سن لیتا، اور دل میں شرمندہ ہو کے اس کے چھوڑنے کی فکر میں لگ جاتا تھا۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة نحل، تالیف مفتی محمد شفیع ؒ

Thursday 13 October 2016

دعوت الی الله کے پیغمبرانہ آداب۔ حصہ سوئم

حضرت عبدالله ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ تمہیں چاہئے کہ ربّانی حکماء، علماء اور فقہاء بنو۔ صحیح بخاری میں یہ قول نقل کر کے لفظ ربّانی کی یہ تفسیر فرمائ کہ جو شخص دعوت و تبلیغ اور تعلیم میں تربیت کے اصول کو ملحوظ رکھ کر پہلے آسان آسان باتیں بتلائے، اور جب لوگ اس کے عادی ہو جائیں تو اس وقت دوسرے احکام بتلائے جو ابتدائ مرحلے میں مشکل ہوتے، وہ عالمِ ربّانی ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة نحل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ

Wednesday 12 October 2016

دعوت الی الله کے پیغمبرانہ آداب۔ حصہ دوم

رسول کریم ﷺ کو دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت میں اس کا بڑا لحاظ رہتا تھا کہ مخاطب پہ بار نہ ہونے پائے۔ صحابہء کرام جیسے عشّاقِ رسول  جن سے کسی وقت بھی اس کا احتمال نہ تھا کہ وہ آپ کی باتیں سننے سے اکتا جائیں گے ان کے لئے بھی آپ کی عادت یہ تھی کہ وعظ و نصیحت روزانہ نہیں بلکہ ہفتے کے بعض دنوں میں فرماتے تھے تا کہ لوگوں کے کاروبار کا حرج اور ان کی طبیعت پہ بار نہ ہو۔ 

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ: "لوگوں پہ آسانی کرو، دشواری نہ پیدا کرو، اور ان کو الله کی رحمت کی خوشخبری سناؤ، مایوس یا متنفّر نہ کرو۔"

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة نحل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ

دعوت الی الله کے پیغمبرانہ آداب۔ حصہ اوّل

دعوتِ پیغمبرانہ کے اصول میں جو ہدایت قرآنِ کریم میں حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام  کے لئے نقل کی گئ ہے، "فقو لا لہ۔۔۔"یعنی فرعون سے نرم بات کرو شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے"، یہ ہر داعی حق کو ہر وقت سامنے رکھنا ضروری ہے کہ فرعون جیسا سرکش کافر جس کی موت بھی علمِ الہی میں کفر ہی پر ہونے والی تھی،  اس کی طرف بھی جب الله تعالیٰ اپنے داعی کو بھیجتے ہیں تو نرم گفتار کی ہدایت کے ساتھ بھیجتے ہیں۔ آج ہم جن لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ فرعون سے زیادہ گمراہ نہیں، اور ہم میں سے کوئ  موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے برابر ہادی و داعی نہیں، تو جو حق الله تعالیٰ نے اپنے دونوں پیغمبروں کو نہیں دیا کہ مخاطب سے سخت کلامی کریں، اس پہ فقرے کسیں، اس کی توہین کریں، وہ حق ہمیں کہاں سے حاصل ہو گیا۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة نحل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Saturday 8 October 2016

رشوت لینا بھی الله کا عہد توڑنے میں شامل ہے

ابنِ عطیہ رحمتہ الله علیہ نے فرمایا کہ جس کام کا پورا کرنا کسی شخص کے ذمّہ واجب ہو وہ الله کا عہد اس کے ذمّہ ہے۔ اس کے پورا کرنے پہ کسی سے معاوضہ لینا اور بغیر لئے نہ کرنا الله کا عہد توڑنا ہے۔  اسی طرح جس کام کا نہ رکنا کسی کے ذمّہ واجب ہے کسی سے معاوضہ لے کر اس کو کر دینا یہ بھی الله کا عہد توڑنا ہے۔ 

اس سے معلوم ہوا کہ رشوت کی مروجّہ قسمیں سب حرام ہیں۔ جب کوئ سرکاری ملازم کسی کام کی تنخواہ حکومت سے پاتا ہے تو اس نے الله  سے عہد کر لیا ہے کہ یہ تنخواہ لے کر فلاں خدمت پوری کروں گا۔ اب اگر وہ اس کے کرنے پر کسی سے معاوضہ مانگے، اور بغیر معاوضہ اس کا کام نہ کرے، تو یہ عہدِالله کو توڑ رہا ہے۔ اسی طرح جس کام کا اس کو محکمہ کی طرف سے اختیار نہیں اس کو رشوت لے کر کر ڈالنا بھی الله سے عہد شکنی ہے۔ (بحرِ محیط)

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة نحل، تالیف مفی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ

Friday 7 October 2016

عہد شکنی حرام ہے

 لفظ عہد میں وہ تمام معاملات و معاہدات شامل ہیں جن کا زبان سے وعدہ کر لیا جائے یعنی اس کی ذمّہ داری لے لی جائے، خواہ اس پہ قسم کھائے یا نہ کھائے، اور خواہ وہ کسی کام کو کرنے سے متعلّق ہو یا نہ کرنے سے۔

کسی سے عہد معاہدہ کر نے کے بعد عہد شکنی کرنا بڑا گناہ ہے، مگر اس کے توڑنے پہ کوئ کفّارہ مقرّر نہیں، بلکہ آخرت کا عذاب ہے۔ حدیث میں رسول الله ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت کے روز عہد شکنی کرنے والے کی پشت پر ایک جھنڈا نصب کر دیا جائے گا جو میدانِ حشر میں اس کی رسوائ کا سبب بنے گا۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة نحل، تالیف مفتی محمد شفیع عثمانی رحمتہ الله علیہ

عدل اور احسان

ترجمہ: بیشک الله انصاف کا، احسان کا، اور رشتہ داروں  کو (ان کے حقوق) دینے کا حکم دیتا ہے۔۔۔ (سورة النحل:۹۰)

اس آیت میں پہلے عدل کا حکم دیا گیا ہے اور پھر احسان کا۔ اس کی تفسیر میں بعض مفسّرین نے فرمایا کہ عدل تو یہ ہے کہ دوسرے کا حق پورا پورا اس کو دیدے اور اپنا حق پورا وصول کر لے، نہ کم نہ زیادہ۔ اگر کوئ تمہیں تکلیف پہنچائے تو ٹھیک اتنی ہی تکلیف تم ا سکو جواب میں پہنچا سکتے ہو، اس سے زیادہ نہیں۔ اور احسان یہ ہے کہ دوسرے کو اس کے اصل حق سے زیادہ دو، اور خود اپنے حق میں چشم پوشی سے کام لو کہ کچھ کم ہو جائے تو بخوشی قبول کر لو۔ اسی طرح دوسرا کوئ تمہیں ہاتھ یا زبان سے ایذا پہنچائے تو تم برابر کا انتقام لینے کے بجائے اس کو معاف کر دو، بلکہ برائ کا بدلہ بھلائ سے دو۔ اس طرح عدل کا حکم تو فرض و واجب کے درجے میں ہوا، اور احسان کا حکم نفل کے طور پر ہوا۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة نحل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ

Thursday 6 October 2016

امام قرطبیؒ نے فرمایا کہ جس شخص کے گھر میں اس کی بلّی کو اس کی خوراک اور ضروریات نہ ملیں اور جس کے پنجرے میں بند پرندوں کی پوری خبر گیری نہ ہوتی ہو وہ کتنی ہی عبادت کرے محسنین میں شمار نہیں ہو گا۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة نحل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ

Wednesday 5 October 2016

حسد۔ حق العبد یا حق الله؟

یہ بات پہلے بھی کئ دفعہ آ چکی ہے کہ جن گناہوں کا تعلّق حقوق الله  سے ہے، ان گناہوں کا علاج تو آسان ہے کہ انسان توبہ اور استغفار کر لے۔ وہ گناہ معاف ہو جائے گا۔ لیکن جن گناہوں اور کوتاہیوں کا تعلّق حقوق العباد سے ہے وہ صرف توبہ کرنے سے معاف نہیں ہوتے جب تک صاحبِ حق معاف نہ کر دے۔

حسد کا معاملہ یہ ہے کہ اگر حسد دل ہی دل میں رہا، انسان نے زبان سے اس شخص کی برائ اور غیبت کا کوئ لفظ نہیں نکالا جس سے وہ حسد کرتا ہے، اور اس کی نعمت کے چھن جانے کے لئے کوئ عملی قدم نہیں اٹھایا، تو اس صورت میں حسد کے اس درجے کا تعلّق حقوق الله سے ہے، لہذا یہ گناہ اس شخص سے معافی مانگے بغیر صرف توبہ سے معاف ہو جائے گا۔ لیکن اگر حسد کے نتیجے میں کسی کی غیبت کر لی، یا اس کو نقصان پہنچانے کے لئے کوئ عملی کوشش کر لی، تو اس صورت میں اس حسد کا تعلّق حقوق العباد سے ہو جائے گا، اور جب تک وہ شخص معاف نہیں کرے گا یہ گناہ توبہ سے بھی معاف نہیں ہو گا۔ 

ماخوذ از بیان "حسد ایک مہلک بیماری" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Saturday 1 October 2016

حسد کی دو قسمیں

فرمایا کہ حسد کی برائیاں سننے کے بعد بعض اوقات دل میں یہ خیال آتا ہے کہ یہ بیماری تو ایسی ہے جو بعض اوقات غیر اختیاری طور پہ پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً اپنے ہم عمر، ہم پیشہ لوگوں میں سے کسی کو آگے بڑھتا ہوا اور ترقّی کرتا ہوا دیکھا تو دل میں یہ خیال آیا کہ یہ تو ہم سے آگے بڑھ گیا، اور پھر دل میں غیر اختیاری طور پہ اس کی طرف سے کدورت اور میل آ گیا۔ اب نہ تو دوسرے کی برائ کا ارادہ کیا تھا، نہ اپنے اختیار سے دل میں یہ خیال لائے تھے۔ کیا یہ بھی گناہ ہے، اور اگر ہے تو انسان اس سے کیسے بچے؟

خوب سمجھ لیں کہ حسد کا ایک درجہ تو یہ ہے کہ انسان کے دل میں یہ خیال آئے کہ فلاں شخص کو جو نعمت حاصل ہے اس سے وہ نعمت چھن جائے۔ لیکن اس خیال کے ساتھ ساتھ حسد کرنے والا اپنے قول اور فعل سے بھی اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے، مثلاً مجلس میں بیٹھ کر اس کی برائیاں بیان کر رہا ہے اور اس کی غیبت کر رہا ہے، یا یہ کوشش کر رہا ہے کہ اس سے وہ نعمت چھن جائے۔ یہ حسد تو بالکل حرام ہے اور اس کے حرام ہونے میں کوئ شبہ نہیں۔ 

لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دوسرے کو نعمت حاصل ہونے کہ وجہ سے اس کا دل دکھا، اور یہ خیال آیا کہ اس کو یہ نعمت کیوں ملی لیکن وہ شخص اپنے کسی قول یا فعل سے اس حسد کو کسی دوسرے پر ظاہر نہیں کرتا۔ نہ اس کی  غیبت کرتا ہے، نہ اس کی بدخواہی کرتا ہے، اور نہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اس سے یہ نعمت چھن جائے۔ بس دل میں ایک خاموش دکھ اور اور کڑھن ہے کہ اس کو یہ نعمت کیوں ملی۔ حقیقت میں تو یہ بھی حسد ہے اور گناہ ہے، لیکن اس کا علاج آسان ہے اور ذرا سی کوشش سے اس گناہ سے بچ سکتا ہے۔ 

اس کا علاج یہ ہے کہ جب کبھی دل میں کسی دوسرے کے لئے یہ کڑھن اور جلن پیدا ہو تو فوراً دل میں اس بات کا تصوّر کرے کہ یہ حسد کتنی بری چیز ہے، اور اس سے استغفار کرے، اور یہ سوچے کہ مجھے نفس اور شیطان بہکا ریے ہیں۔ جب حسد کے خیال کے ساتھ ساتھ اس حسد کی برائ بھی دل میں لے آیا تو اس حسد کا گناہ انشاءالله ختم ہو جائے گا۔

بزرگوں نے مزید لکھا ہے کہ جب دل میں دوسرے کی نعمت دیکھ کر حسد اور جلن پیدا ہو تو اس کا ایک علاج یہ ہے کہ تنہائ میں بیٹھ کر اس کے حق میں دعا کرے کہ یا الله، یہ نعمت جو آپ نے اس کو عطا فرمائ ہے، اور زیادہ عطا فرما۔ اور جس وقت یہ دعا کرے گا اس وقت دل پر آرے چلیں گے اور یہ دعا کرنا دل پر بہت شاق اور گراں گزرے گا، لیکن زبردستی یہ دعا کرے کہ یا الله! اس کو اور ترقّی عطا فرما، اس کی نعمت میں اور برکت عطا فرما۔ اور ساتھ ساتھ اپنے حق میں بھی دعا کرے کہ یا الله! میرے دل میں اس کی نعمت کی وجہ سے جو کڑھن اور جلن پیدا ہو رہی ہے اپنے فضل اور رحمت سے اس کو ختم فرما۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ تین کام کرے۔ ایک یہ اپنے دل میں جو کڑھن پیدا ہو رہی ہے، اور اس کی نعمت کے زوال کا جو خیال آ رہا ہے، اس کو دل سے برا سمجھے۔ دوسرے یہ کہ اس کے حق میں دعائے خیر اور اس کی نعمتوں میں اضافے کی دعا کرے۔ تیسرے یہ کہ اپنے حق میں دعا کرے کہ یا الله! میرے دل سے اس برے خیال کو ختم فرما۔ ان تین کاموں کے کرنے کے بعد بھی اگر دل میں غیر اختیاری طور پہ یہ خیال آ رہا ہے تو امید ہے کہ الله تعالیٰ کے ہاں اس پر مواخذہ نہیں ہو گا۔ 

ماخوذ از بیان "حسد ایک مہلک بیماری" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم