Saturday 31 December 2016

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ٱتَّبِعُواْ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ قَالُواْ بَلۡ نَتَّبِعُ مَآ أَلۡفَيۡنَا عَلَيۡهِ ءَابَآءَنَآ‌ۗ أَوَلَوۡ كَانَ ءَابَآؤُهُمۡ لَا يَعۡقِلُونَ شَيۡـًٔ۬ا وَلَا يَهۡتَدُونَ O (سورة البقرة:۱۷۰)

"اور جب ان (کافروں) سے کہا جاتا ہے کہ اس کلام کی پیروی کرو جو الله نے اتارا ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں! ہم تو ان باتوں کی پیروی کریں گے جن پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے۔ بھلا کیا اس صورت میں  بھی جب ان کے باپ دادے ذرا بھی سمجھ نہ رکھتے ہوں، اور انہوں نے کوئ ہدایت بھی حاصل نہ کی ہو؟" (سورة البقرة:۱۷۰)

اس آیت سے جس طرح باپ دادوں کی اندھی تقلید و اتّباع کی مذمّت ثابت ہوئ اسی طرح جائز تقلید و اتّباع کے شرائط اور ایک ضابطہ بھی معلوم ہو گیا جس کی طرف دو لفظوں میں اشارہ فرمایا ہے لَا يَعۡقِلُونَ اور لَا يَهۡتَدُونَ، کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ ان آباؤ اجداد کی تقلید کو اس لئے منع کیا گیا ہے کہ انہیں نہ عقل تھی اور نہ ہدایت۔ ہدایت سے مراد وہ احکام ہیں جو الله تعالیٰ کی طرف سے صریح طور پر نازل کئے گئے، اور عقل سے مراد وہ جو بذریعہ اجتہاد نصوصِ شرعیہ سے استنباط کئے گئے۔ تو وجہ ان کے اتّباع و تقلید کے عدم جواز کی یہ ہوئی کہ نہ ان کے پاس الله تعالیٰ کی طرف سے نازل کئے ہوئے احکام ہیں اور نہ اس کی صلاحیت کہ الله تعالیٰ کے فرمان سے احکام نکال سکیں۔ اس میں اشارہ پایا گیا کہ جس عالم کے متعلّق یہ اطمینان ہو جائے کہ اس کے پاس قرآن و سّت کا علم ہے، اور اس کو درجہٴ اجتہاد بھی حاصل ہے کہ جو احکام قرآن و سنّت میں صراحتہًً نہ ہوں ان کو نصوص، قرآن و سنّت سے بذریعہ قیاس نکال سکتا ہے، تو ایسے عالم مجتہد کی تقلید و اتّباع جائز ہے۔ یہ اس لئے نہیں کہ اس کا حکم ماننا مقصود ہے، بلکہ حکم تو الله ہی کا ماننا مقصود ہے لیکن جس انسان کے پاس نہ الله کے احکام کا براہِ راست علم ہو، اور نہ ہی اس میں اس بات کی اہلیت ہو کہ الله تعالیٰ کے کلام سے خود احکامات نکال سکے، اس کے پاس سوائے کسی معتبر عالم مجتہد کے اتّباع کے اور چارہ ہی کیا ہے۔ 

امام قرطبیؒ نے اسی آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اس آیت میں آباء کی تقلید کے ممنوع ہونے کا جو ذکر ہے اس سے مراد باطل عقائد و اعمال میں آباء و اجداد کی تقلید کرنا ہے۔ صحیح عقائد اور اعمال ِِ صالحہ میں تقلید کی ممانعت اس آیت کے مفہوم میں داخل نہیں، جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے کلام میں ان دونوں باتوں کی وضاحت سورہٴ یوسف میں اس طرح آئ ہے:

إِنِّى تَرَكۡتُ مِلَّةَ قَوۡمٍ۬ لَّا يُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ وَهُم بِٱلۡأَخِرَةِ هُمۡ كَـٰفِرُونَ O وَٱتَّبَعۡتُ مِلَّةَ ءَابَآءِىٓ إِبۡرَٲهِيمَ وَإِسۡحَـٰقَ وَيَعۡقُوبَ‌ۚ
"میں نے ان لوگوں کی ملّت و مذہب کو چھوڑ دیا جو الله پر ایمان نہیں رکھتے، اور جو آخرت کے منکر ہیں، اور میں نے اتّباع کیا اپنے آباء ابراہیمؑ، اسحٰقؑ اور یعقوبؑ کا "

اس میں پوری وضاحت سے ثابت ہو گیا کہ آباء کی تقلید باطل میں حرام ہے لیکن حق میں جائز بلکہ مستحسن ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

Friday 30 December 2016

گناہ کا اندیشہ عزم کے منافی نہیں

ایک دفعہ بابا نجم احسن صاحبؒ توبہ پر بیان فرما رہے تھے۔ ایک آزاد منش نوجوان اس مجلس میں آگیا۔ بابا صاحب اس نوجوان سے فرمانے لگے کہ میاں! لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ دین بڑا مشکل ہے۔ ارے یہ دین کچھ بھی مشکل نہیں۔ بس رات کو بیٹھ کر الله تعالیٰ سے توبہ کر لیا کرو۔ بس یہی سارا دین ہے۔ 

جب وہ نوجوان چلا گیا تو میں (مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم) نے کہا کہ حضرت! یہ توبہ واقعی بڑی عجیب و غریب چیز ہے۔ لیکن دل میں ایک سوال رہتا ہے جس کی وجہ سے بے چینی رہتی ہے۔ فرمانے لگے کہ کیا؟ میں نے کہا کہ حضرت! توبہ کی تین شرطیں ہیں۔ ایک یہ دل میں ندامت ہو۔ دوسرے یہ کہ فوراً اس گناہ کو چھوڑ دے۔ تیسرے یہ کہ آئندہ کے لئے عزم کر لے کہ آئندہ یہ گناہ کبھی نہیں کروں گا۔ ان میں سے پہلی دو باتوں پر تو عمل کرنا آسان ہے کہ گناہ پر ندامت بھی ہو جاتی ہے اور اس گناہ کو اس وقت چھوڑ بھی دیا جاتا ہے۔ لیکن تیسری شرط یہ کہ پختہ عزم کرنا کہ آئندہ یہ گناہ نہیں کروں گا، یہ بڑا مشکل معلوم ہوتا ہے اور پتہ نہیں چلتا کہ یہ پختہ عزم صحیح ہوا کہ نہیں۔ اور جب عزم صحیح نہیں ہوا تو توبہ بھی صحیح نہیں ہوئ، اور جب توبہ صحیح نہیں ہوئ تو اس گناہ کے باقی رہنے اور اس کے معاف نہ ہونے کی پریشانی رہتی ہے۔ 

جواب میں حضرت بابا نجم احسنؒ نے فرمایا، "جاؤ میاں، تم تو عزم کا مطلب بھی نہیں سمجھتے۔ عزم کا مطلب یہ ہے کہ اپنی طرف سے یہ ارادہ کر لو کہ آئندہ یہ گناہ نہیں کروں گا۔ اب اگر یہ ارادہ کرتے وقت دل میں یہ دھڑکہ اور اندیشہ لگا ہوا ہے کہ پتہ نہیں، میں اس عزم پر ثابت قدم رہ سکوں گا یا نہیں، تو یہ اندیشہ اور دھڑکہ اس عزم کے منافی نہیں، اور اس اندیشے اور خطرے کی وجہ سے توبہ میں کوئ نقص نہیں آتا، بشرطیکہ اپنی طرف سے پختہ ارادہ کر لیا ہو۔ اور دل میں یہ جو خطرہ لگا ہوا ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ توبہ کے ساتھ ساتھ الله تعالیٰ سے دعا کر لو کہ یا الله میں توبہ تو کر رہا ہوں۔ اور آئندہ نہ کرنے کا عزم تو کر رہا ہوں۔ لیکن میں کیا اور میرا عزم کیا؟ میں کمزور ہوں۔ معلوم نہیں کہ اس عزم پر ثابت قدم رہ سکوں گا کہ نہیں. یاالله آپ ہی مجھے اس عزم پر ثابت قدم فرما دیجئے۔ آپ ہی مجھے استقامت عطا فرمائیے۔ جب یہ دعا کر لی تو انشاٴالله وہ خطره اور اندیشہ زائل ہو جائے گا۔"

ماخوذ از بیان "توبہ: گناہوں کا تریاق"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Wednesday 28 December 2016

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِى ٱلۡأَرۡضِ حَلَـٰلاً۬ طَيِّبً۬ا وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٲتِ ٱلشَّيۡطَـٰنِ‌ۚ إِنَّهُ ۥ لَكُمۡ عَدُوٌّ۬ مُّبِينٌ O إِنَّمَا يَأۡمُرُكُم بِٱلسُّوٓءِ وَٱلۡفَحۡشَآءِ وَأَن تَقُولُواْ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعۡلَمُونَ O (سورة البقرة:۱۶۸۔۱۶۹)

"اے لوگو! زمین میں جو حلال پاکیزہ چیزیں ہیں وہ کھاؤ، اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ یقین جانو کہ وہ تمہارے لئے ایک کھلا ہوا دشمن ہے۔ وہ تو تم کو یہی حکم دے گا کہ تم بدی اور بے حیائ کے کام کرو اور الله کے ذمے وہ باتیں لگاؤ جن کا تمہیں علم نہیں ہے۔ (سورة البقرة: ۱۶۸۔۱۶۹)

(مشرکینِ عرب کی ایک گمراہی یہ تھی کہ انہوں نے کسی آسمانی تعلیم کے بغیر مختلف چیزوں کے بارے میں حلال و حرام کے فیصلے خود گھڑ رکھے تھے۔ مثلاً مردار جانور کو کھانا ان کے نزدیک جائز تھا، مگر بہت سے حلال جانوروں کو انہوں نے اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا۔ یہ آیات ان کی اسی گمراہی کی تردید میں نازل ہوئ ہیں۔) 

لفظ "حلَّ " کے اصلی معنی گرہ کھولنے کے ہیں۔ جو چیز انسان کے لئے حلال کر دی گئ گویا ایک گرہ کھول دی گئ اور پابندی ہٹا دی گئ۔ حضرت سہل بن عبدالله ؓ فرماتے ہیں کہ نجات تین چیزوں میں منحصر ہے، ۱۔ حلال کھانا، ۲۔ فرائض ادا کرنا، ۳۔ رسول الله ﷺ کی سنّت کا اتّباع کرنا۔

لفظ "طیّب" کے معنی ہیں پاکیزہ جس میں شرعی حلال ہونا بھی داخل ہے اور طبعی مرغوب ہونا بھی۔ 

"ٱلسُّوٓءِ وَٱلۡفَحۡشَآءِ"، "سوء" وہ چیز جس کو دیکھ کر عقلمند و شریف آدمی کو دکھ ہو۔ "فحشاء" ، بے حیائ کا کام۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ اس جگہ سوء سے مراد مطلق معصیت اور فحشاء سے مراد کبیرہ گناہ ہے۔ 

"إِنَّمَا يَأۡمُرُكُم" شیطان کے امر اور حکم کرنے سے مراد دل میں وسوسہ ڈالنا ہے، جیسا کہ حضرت عبدالله بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ آدم کے بیٹے کے قلب میں ایک شیطانی الہام و اثر ہوتا ہے اور دوسرا فرشتہ کی جانب سے۔ شیطانی وسوسہ کا اثر یہ ہوتا ہے کہ برے کام کرنے کے فوائد اور مصالح سامنے آتے ہیں، اور حق کو جھٹلانے کی  راہیں کھلتی ہیں، اور الہام ِ فرشتہ کا اثر خیر اور نیکی پر انعام و فلاح کے وعدے اور حق کی تصدیق پر قلب کا مطمئن ہونا ہوتا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

وَإِلَـٰهُكُمۡ إِلَـٰهٌ۬ وَٲحِدٌ۬‌ۖ لَّآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلرَّحۡمَـٰنُ ٱلرَّحِيمُ (سورة البقرة:۱۶۳)

"تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے۔ اس کے سوا کوئ خدا نہیں، جو سب پر مہربان، بہت مہربان ہے۔" (سورة البقرة:۱۶۳)

الله تعالیٰ کی توحید متعدّد اور مختلف حیثیتوں سے ثابت ہے۔

پہلے یہ کہ وہ ایک ہے، یعنی کائنات میں کوئ اس کی نظیر و شبیہ نہیں، نہ اس کا ہمسر و برابر ہے۔

دوسرے یہ کہ وہ ایک ہے استحقاقِ عبادت میں، یعنی اس کے سوا کوئ عبادت کا مستحق نہیں۔

تیسرے یہ کہ وہ ایک ہے یعنی ذی اجزاء نہیں، وہ اجزاء و اعضاء سے پاک ہے۔ نہ اس کی تقسیم ہو سکتی ہے۔

چوتھے یہ کہ وہ ایک ہے، یعنی اپنے وجود ازلی ابدی میں ایک ہے۔ وہ اس وقت بھی موجود تھا جب کوئ چیز موجود نہ تھی، اور اس وقت بھی موجود رہے گا جب کوئ چیز موجود نہ رہے گی، اس لئے وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کو واحد کہا جائے۔  لفظ واحد میں یہ تمام حیثیتیں توحید کی ملحوظ ہیں۔ (جصاص)

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Tuesday 27 December 2016

نَّ فِى خَلۡقِ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَٱخۡتِلَـٰفِ ٱلَّيۡلِ وَٱلنَّهَارِ وَٱلۡفُلۡكِ ٱلَّتِى تَجۡرِى فِى ٱلۡبَحۡرِ بِمَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ وَمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مِن مَّآءٍ۬ فَأَحۡيَا بِهِ ٱلۡأَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَبَثَّ فِيہَا مِن ڪُلِّ دَآبَّةٍ۬ وَتَصۡرِيفِ ٱلرِّيَـٰحِ وَٱلسَّحَابِ ٱلۡمُسَخَّرِ بَيۡنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلۡأَرۡضِ لَأَيَـٰتٍ۬ لِّقَوۡمٍ۬ يَعۡقِلُونَ . (سورة البقرة:۱۶۴)

"بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں، رات دن کے لگاتار آنے جانے میں، ان کشتیوں میں جو لوگوں کے فائدے کا سامان لے کر سمندر میں تیرتی ہیں، اس پانی میں جو الله نے آسمان سے اتارا اور اس کے ذریعے زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندگی بخشی  اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیے، اور ہواؤں کی گردش میں، اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابعدار بن کر کام میں لگے ہوئے ہیں، ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہی نشانیاں ہیں جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں۔" (سورة البقرة:۱۶۴)

الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ کائنات کے ان حقائق کی طرف توجّہ دلائ ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے پھیلے پڑے ہیں، اور اگر ان پر معقولیت کے ساتھ غور کیا جائےتو وہ الله تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید پر دلالت کرتے ہیں۔ آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات جس طرح کام کر رہی ہیں، چاند اور سورج جس طرح ایک لگے بندھے نظام الاوقات کے تحت دن رات سفر میں ہیں، سمندر جس طرح نہ صرف پانی کا ذخیرہ کئے ہوئے ہے بلکہ کشتیوں کے ذریعے خشکی کے مختلف حصّوں کو جوڑے ہوئے ہے، اور ان کی ضرورت کا سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہا ہے، بادل اور ہوائیں جس انداز میں انسانوں کی زندگی کا سامان مہیّا کر رہے ہیں، ان سب چیزوں کے بارے میں شدید غفلت کے بغیر یہ سمجھنا ممکن نہیں ہے کہ یہ سب کچھ خود بخود کسی خالق کے بغیر ہو رہا ہے۔ 

ماخوذ از آسان ترجمہٴ قرآن، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Sunday 25 December 2016

"ٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَـٰبَتۡهُم مُّصِيبَةٌ۬ قَالُوٓاْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٲجِعُونَ " (سورة البقرة :۱۵۶)

"یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئ مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ "ہم سب الله ہی کے ہیں، اور ہم کو الله ہی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔" (سورة البقرة:۱۵۶)

اس جملے (ہم سب الله ہی کے ہیں اور ہم کو الله ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے) میں پہلے تو اس بات کا اظہار ہے کہ چونکہ ہم سب الله کی ملکیت میں ہیں اس لئے اسے ہمارے بارے میں ہر فیصلہ کرنے کا اختیار ہے، اور چونکہ ہم اس کے ہیں، اور کوئ بھی اپنی چیز کا برا نہیں چاہتا، اس لئے ہمارے بارے میں اس کا ہر فیصلہ خود ہماری مصلحت میں ہو گا، چاہے فی الحال ہمیں وہ مصلحت سمجھ میں نہ آ رہی ہو۔ دوسری طرف اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ایک دن ہمیں بھی الله تعالیٰ کے پاس  اسی جگہ جانا ہے جہاں ہمارا کوئ قریبی عزیز یا دوست گیا ہے، لہذا یہ جدائ عارضی ہے ہمیشہ کے لئے نہیں ہے۔ اور جب ہم اس کے پاس لوٹ کر جائیں گے تو ہمیں اس صدمے یا تکلیف پر انشاٴالله ثواب بھی ملنا ہے۔ جب یہ اعتقاد دل میں ہو تو اسی کا نام صبر ہے، خواہ اس کے ساتھ ساتھ بے اختیار آنسو بھی نکل رہے ہوں۔

ماخوذ از آسان ترجمہٴ قرآن، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

"انَّ ٱلَّذِينَ يَكۡتُمُونَ مَآ أَنزَلۡنَا مِنَ ٱلۡبَيِّنَـٰتِ وَٱلۡهُدَىٰ مِنۢ بَعۡدِ مَا بَيَّنَّـٰهُ لِلنَّاسِ فِى ٱلۡكِتَـٰبِ‌ۙ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ يَلۡعَنُہُمُ ٱللَّهُ وَيَلۡعَنُہُمُ ٱللَّـٰعِنُونَ ۔" (سورةالبقرة:۱۵۹)

"بیشک وہ لوگ جو ہماری نازل کی ہوئ روشن دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں، باوجودیکہ ہم انہیں کتاب میں کھول کھول کر لوگوں کے لئے بیان کر چکے ہیں، تو ایسے لوگوں پر الله بھی لعنت بھیجتا ہے اور دوسرے لعنت کرنے والے بھی لعنت بھیجتے ہیں۔" (سورة البقرة:۱۵۹)


اس آیت سے چند احکام حاصل ہوئے ہیں۔

اوّل یہ کہ جس علم کے اظہار اور پھیلانے کی ضرورت ہے اس کا چھپانا حرام ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:

"یعنی جو شخص دین کے کسی حکم کا علم رکھتا ہو اور اس سے وہ حکم دریافت کیا جائے اگر وہ اس کو چھپائے گا تو قیامت کے روز اس کے منہ میں الله تعالیٰ آگ کا لگام ڈالیں گے۔"

دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئ کہ جس کو خود صحیح علم حاصل نہیں اس کو مسائل و احکام بتانے کی جراٴت نہیں کرنا چاہیے۔

تیسرا مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ علم کو چھپانے کی یہ سخت وعید انہیں علوم و مسائل کے متعلّق ہے جو قرآن و سنّت میں واضح بیان کئے گئے ہیں۔ ایک حدیث میں رسول الله ﷺ نے فرمایا:

"یعنی حکمت کی بات کو ایسے لوگوں سے نہ روکو جو اس بات کے اہل ہوں۔ اگر تم نے ایسا کیا تو ان لوگوں پر ظلم ہو گا، اور جو اہل نہیں ہیں ان کے سامنے حکمت کی باتیں نہ رکھو، کیونکہ اس صورت میں اس حکمت پر ظلم ہو گا۔"

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیعؒ

Monday 19 December 2016

كَمَآ أَرۡسَلۡنَا فِيڪُمۡ رَسُولاً۬ مِّنڪُمۡ يَتۡلُواْ عَلَيۡكُمۡ ءَايَـٰتِنَا وَيُزَكِّيڪُمۡ وَيُعَلِّمُڪُمُ ٱلۡكِتَـٰبَ وَٱلۡحِڪۡمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمۡ تَكُونُواْ تَعۡلَمُونَ (سورة البقرة:۱۵۱)

"ہم نے تمہارے درمیان تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہارے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتا ہے، اور تمہیں پاکیزہ بناتا ہے، اور تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔"

حضرت ابراہیمؑ نے کعبے کی تعمیر کے وقت دو دعائیں کی تھیں: ایک یہ کہ ہماری نسل سے ایسی امّت پیدا فرمائیے جو آپ کی مکمّل فرماں بردار ہو۔ اور دوسری یہ کہ ان میں ایک رسول بھیجیے۔ الله تعالیٰ نے پہلی دعا اس طرح قبول فرمائ کہ امّتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا السلام) کو "معتدل امّت" قرار دے کر پیدا فرمایا۔ اس آیت میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری دعا قبول کرتے ہوئے رسول اکرم ﷺ کو تمہارے درمیان بھیج دیا ہے جو انہی خصوصیات اور فرائضِ منصبی کے حامل ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لئے مانگے تھے۔

ان میں سے پہلا فریضہ تلاوتِ آیات ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی آیات کو تلاوت کرنا بذاتِ خود ایک مقصد اور ایک نیکی ہے، خواہ وہ تلاوت بغیر سمجھے کی جائے، کیونکہ قرآن کے معنی کی تعلیم آگے ایک مستقل فریضے کے طور پر بیان کی گئ ہے۔ 

دوسرا مقصد قرآن کریم کی تعلیم ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم کے بغیر قرآن کریم کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا ممکن نہیں، اور یہ کہ صرف ترجمہ پڑھ لینے سے قرآن کریم کی صحیح سمجھ حاصل نہیں ہو سکتی، کیونکہ اہلِ عرب عربی زبان سے خوب واقف تھے، انہیں ترجمہ سکھانے کے لئے کسی استاد کی ضرورت نہیں تھی۔ 

آپ کا تیسرا فریضہ یہ بتایا گیا ہے کہ آپ حکمت کی تعلیم دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکمت، دانائ اور عقلمندی وہی ہے جو آنحضرت ﷺ نے تلقین فرمائ۔ اس سے نہ صرف آپ کی احادیث کا حجّت ہونا معلوم ہوتا ہےبلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر آپ کا کوئ حکم کسی کو اپنی عقل کے لحاظ سے حکمت کے خلاف محسوس ہو تو اعتبار اس کی عقل کا نہیں، بلکہ آنحضرت ﷺ کی سکھائ ہوئ حکمت کا ہے۔

چوتھا فریضہ یہ بتایا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو پاکیزہ بنائیں۔ اس سے مراد آپ کی عملی تربیت ہے جس کے ذریعے آپ نے صحابہٴ کرام کے اخلاق اور باطنی صفات کو گندے جذبات سے پاک کر کے انہیں اعلیٰ درجے کی خصوصیات سے آراستہ فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن و سنّت کا صرف کتابی علم بھی انسان کی اصلاح کے لئے کافی نہیں ہے جب تک اس نے اس علم کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی عملی تربیت نہ لی ہو۔ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو اپنی صحبت سے سرفراز فرما کر ان کی تربیت فرمائ، پھر صحابہ نے تابعین کی، اور تابعین نے تبع تابعین کی اسی طرح تربیت کی، اور یہ سلسلہ صدیوں سے اسی طرح چلا آتا ہے۔ باطنی اخلاق کی اسی تربیت کا علم "علمِ احسان" یا تزکیہ کہلاتا ہے اور تصوّف بھی درحقیقت اسی علم کا نام تھا۔ اگرچہ بعض نا اہلوں نے اس میں غلط خیالات کی ملاوٹ کر کے بعض مرتبہ اسے خراب بھی کر دیا، لیکن اس کی اصل یہی تزکیہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم نے یہاں فرمایا ہے، اور ہر دور میں تصوّف کی اصل حقیقت کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے والے ہمیشہ موجود رہے ہیں۔

ماخوذ از آسان ترجمہٴ قرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد تقی عثمانی ؒ
وَلَنَبۡلُوَنَّكُم بِشَىۡءٍ۬ مِّنَ ٱلۡخَوۡفِ وَٱلۡجُوعِ وَنَقۡصٍ۬ مِّنَ ٱلۡأَمۡوَٲلِ وَٱلۡأَنفُسِ وَٱلثَّمَرَٲتِ‌ۗ وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِينَ (١٥٥) ٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَـٰبَتۡهُم مُّصِيبَةٌ۬ قَالُوٓاْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٲجِعُونَ (١٥٦) سورة البقرة

"اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) کچھ خوف سے، اور (کبھی) بھوک سے، اور (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے۔ اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئ مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ "ہم سب الله ہی کے ہیں، اور ہم کو الله ہی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔"

اس آیت میں ساری امّت کو خطاب کیا گیا ہے۔ اس سے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا دارالامتحان ہے، یعنی محنتوں اور تکلیفوں کی جگہ ہے۔ اگر انسان اس بات کو ذہن میں رکھے اور یہاں کے حوادث کو عجیب اور بعید نہ سمجھے (یعنی اگر کوئ مشکل آئے تو یہ نہ سوچے کہ میرے اوپر مشکل کیوں آ گئ اور نہیں آنی چاہئے تھی، اور نہ یہ سوچے کہ مشکلیں تو دوسروں کے لئے ہیں، میرے اوپر کیوں پیش آ گئیں) تو بےصبری نہ ہو گی۔ چونکہ مشکلیں تو سب پر آتی ہیں اور نفسِ عمل صبر میں سب مشترک ہیں، اس لئے اس کا صلہٴ مشترکہ تو عام رحمت ہے۔ اور چونکہ ہر صابر کے صبر کی مقدار اور شان اور خصوصیت الگ ہے اس لئے ان خصوصیات کا صلہ جدا جدا خاص عنایتوں سے ہو گا۔

حصہ دوئم

اس آیت میں صابرین کی طرف نسبت کر کے یہ جو کہا گیا ہے کہ وہ مصیبت کے وقت انا لله و انا علیہ راجعون کہا کرتے ہیں، حقیقت میں مقصود اس کی تعلیم سے یہ ہے کہ جس انسان کو مصیبت کا سامنا ہو اس کو ایسا کہنا چاہئے، کیونکہ ایسا کہنے میں ثواب بھی بڑا ہے اور اگر یہ الفاظ دل سے سمجھ کر کہے جائیں (ہم سب الله ہی کے ہیں اور ہم کو الله ہی کی طرف لوٹ کے جانا ہے) تو غم و رنج کے دور کرنے اور قلب کو تسکین پہنچانے کے لئے یہ الفاظ بہترین علاج ہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیعؒ

Sunday 18 December 2016

وَلَا تَقُولُواْ لِمَن يُقۡتَلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمۡوَٲتُۢ‌ۚ بَلۡ أَحۡيَآءٌ۬ وَلَـٰكِن لَّا تَشۡعُرُونَ (سورة البقرة:۱۵۴)

"اور جو لوگ الله کے راستے میں قتل ہوں ان کو مردہ نہ کہو۔ دراصل وہ زندہ ہیں مگر تم کو (ان کی زندگی کا) احساس نہیں ہوتا۔" 

اسلامی روایات کی رو سے ہر مرنے والے کو برزخ میں ایک خاص قسم کی حیات ملتی ہے جس سے وہ قبر کے عذاب یا ثواب کو محسوس کرتا ہے۔ اس میں مومن و کافر یا صالح و فاسق میں کوئ تفریق نہیں۔ لیکن اس حیاتِ برزخی کے مختلف درجات ہیں، ایک درجہ تو سب کو عام اور شامل ہے، کچھ مخصوص درجے انبیاؑ و صالحینؒ کے لئے مخصوص ہیں، اور ان میں بھی باہمی تفاضل ہے۔

مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بیان القرآن میں تحریر فرمایا: ایسے مقتول کو جو الله کی راہ میں قتل کیا جائے شہید کہتے ہیں، اور اس کی نسبت گو یہ کہنا کہ وہ مر گیا صحیح اور جائز ہے، لیکن اس کی موت کو دوسرے مردوں کی سی موت سمجھنے کی ممانعت ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ گو مرنے کے بعد ہر شخص کی روح کو برزخی حیات حاصل ہے، اور اسی سے جزاء و سزا کا ادراک ہوتا ہے، لیکن شہید کو اس حیات میں اور مردوں سے ایک گونہ امتیاز ہے اور وہ امتیاز یہ ہے کہ اس کی یہ حیات آثار میں اوروں سے قوی ہے۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ

Saturday 17 December 2016

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱسۡتَعِينُواْ بِٱلصَّبۡرِ وَٱلصَّلَوٰةِ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِينَ (سورہ البقرہ: ۱۵۳) ۔ حصہ سوئم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

اس نسخہ کا دوسرا جز، جو تمام پریشانیوں اور آفتوں سے نجات دلانے میں اکسیر ہے، نماز ہے۔ صبر کی جو تفصیل پچھلی پوسٹ میں آئ تھی اس سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ درحقیقت نماز اور تمام عبادات صبر ہی کے جزئیات ہیں، مگر نماز کو جداگانہ بیان اس لئے کر دیا کہ تمام عبادات میں سے نماز ایک ایسی عبادت ہے جو صبر کا مکمل نمونہ ہے۔ نماز کی حالت میں نفس اور بدن کو عبادت و طاعت پر محبوس (قید) کر لیا جاتا ہے۔ جتنی دیر انسان نماز میں رہتا ہے وہ نا صرف کسی جسمانی گناہ میں نہیں مبتلا ہو سکتا، بلکہ وہ اپنے آپ کو بہت سی مباح اور جائز حرکات سے بھی روکے رکھتا ہے، مثلاً نماز کے دوران انسان نہ کھانا کھا سکتا ہے، نہ پانی پی سکتا ہے۔ اس لئے صبر جس کے معنی نفس کو اپنے قابو میں رکھ کر تمام طاعات کا پیرو اور تمام گناہوں سے مجتنب و بیزار بنانا ہے، نماز اس کی ایک عملی تمثیل ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱسۡتَعِينُواْ بِٱلصَّبۡرِ وَٱلصَّلَوٰةِ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِينَ (سورہ البقرہ: ۱۵۳) ۔ حصہ دوئم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

قرآن و حدیث کی اصطلاح میں صابرین انہیں لوگوں کا لقب ہے جو تینوں طرح کے صبر میں ثابت قدم ہوں۔ بعض روایات میں ہے کہ محشر میں نداء کی جائے گی کہ صابرین کہاں ہیں؟ تو وہ لوگ جنہوں نے تینوں طرح کے صبر پہ قائم رہ کر زندگی گزاری وہ کھڑے ہو جائیں گے، اور ان کو بلا حساب جنّت میں داخلے کی اجازت دیدی جائے گی۔ ابنِ کثیر نے اس روایت کو نقل کر کے فرمایا کہ قرآن کی آیت "إِنَّمَا يُوَفَّى ٱلصَّـٰبِرُونَ أَجۡرَهُم بِغَيۡرِ حِسَابٍ۬" (۳۹:۱۰) سے بھی اس طرف اشارہ ہوتا ہے۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیعؒ

Friday 16 December 2016

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱسۡتَعِينُواْ بِٱلصَّبۡرِ وَٱلصَّلَوٰةِ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِينَ (سورہ البقرہ: ۱۵۳) (حصہ اوّل)

"اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ بیشک الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔"

صبر کے اصلی معنی اپنے نفس کو روکنے اور اس پر قابو پانے کے ہیں۔ قرآن و سنّت کی اصطلاح میں صبر کے تین شعبے ہیں،
(۱) اپنے نفس کو حرام و ناجائز چیزوں سے روکنا (صبر عن المعصیة)
(۲) اپنے نفس کو طاعات و عبادات کی پابندی پر مجبور کرنا (صبر عن الطاعة)
(۳) مصائب و آفات پر صبر کرنا (صبر عن المصیبة) یعنی جو مصیبت آ گئ اس کو الله تعالیٰ کی طرف سے سمجھنا، اور اس کے ثواب کا امید وار ہونا۔ اس کے ساتھ اگر تکلیف و پریشانی کے اظہار کاکوئ کلمہ بھی منہ سے نکل جائے تو وہ صبر کے منافی نہیں۔ (ذکرہ ابن کثیر عن سعید بن جبیرؓ)

یہ تینوں شعبے صبر کے فرائض میں داخل ہیں۔ اردو میں صبر کے جو معنی ہیں اس میں صرف تیسرے شعبے کو صبر سمجھا جاتا ہے، پہلے دو شعبے جو صبر کی اصل اور بنیاد ہیں ان کو صبر میں داخل ہی نہیں سمجھا جاتا۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیعؒ

Thursday 15 December 2016

فَٱذۡكُرُونِىٓ أَذۡكُرۡكُمۡ وَٱشۡڪُرُواْ لِى وَلَا تَكۡفُرُونِ (سورة البقرة:۱۵۲) حصہ سوئم

مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ اور میرا شکر ادا کرو، اور میری ناشکری نہ کرو۔"

حضرت ذوالنون مصری ؒ نے فرمایا کہ جو شخص حقیقی طور پر الله کو یاد کرتا ہے وہ اس کے مقابلے میں ساری چیزوں کو بھول جاتا ہے، اور اس کے بدلہ میں الله تعالیٰ خود اس کے لئے ساری چیزوں کی حفاظت کرتے ہیں، اور تمام چیزوں کا عوض اس کو عطا کر دیتے ہیں۔ 

حضرت معاذؓ نے فرمایا کہ انسان کا کوئ عمل اس کو خدا تعالیٰ کے عذاب سے نجات دلانے میں ذکر الله کے برابر نہیں۔

ایک حدیثِ قدسی، جو حضرت ابو ہریرہ ؓ نے روایت کی، میں فرمایا کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب تک وہ مجھے یاد کرتا ہے، اور میرے ذکر میں اس کے ہونٹ ہلتے رہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ
فَٱذۡكُرُونِىٓ أَذۡكُرۡكُمۡ وَٱشۡڪُرُواْ لِى وَلَا تَكۡفُرُونِ (سورة البقرة:۱۵۲) حصہ دوئم

"مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ اور میرا شکر ادا کرو، اور میری ناشکری نہ کرو۔"

ذکر الله کے فضائل بے شمار ہیں، اور یہی ایک فضیلت کچھ کم نہیں کہ جو بندہ الله تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو الله تعالیٰ بھی اسے یاد فرماتے ہیں۔ ابو عثمان نہدیؒ نے کہا کہ میں اس وقت کو جانتا ہوں جس وقت الله تعالیٰ ہمیں یاد فرماتے ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہو سکتا ہے۔ فرمایا، اس لئے کہ قرآن کریم کے وعدے کے مطابق جب کوئ بندہٴ مومن الله تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو الله تعالیٰ بھی اسے یاد کرتے ہیں۔

اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ تم مجھے اطاعتِ احکام کے ساتھ یاد کرو تو میں تمہیں ثواب اور مغفرت کے ساتھ یاد کروں گا۔ حضرت سعید بن جبیرؒ نے ذکر الله کی تفسیر ہی طاعت و فرمانبرداری سے کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ “جس نے الله تعالیٰ کے احکام کی پیروی نہ کی اس نے الله کو یاد نہیں کیا، اگرچہ ظاہر میں اس کی نماز اور تسبیح کتنی بھی ہو۔”

قرطبی نے ایک حدیث بھی اس مضمون کی نقل کی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا، “جس نے الله تعالیٰ کی اطاعت کی، یعنی اس کے احکامِ حلال و حرام کا اتّباع کیا اس نے الله کو یاد کیا، اگرچہ اس کی (نفل) نماز روزہ وغیرہ کم ہوں۔ اور جس نے احکامِ خداوندی کی خلاف ورزی کی اس نے الله کو بھلا دیا، اگرچہ (بظاہر) اس کی نماز، روزہ، تسبیحات وغیرہ زیادہ ہوں۔”

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیعؒ

Tuesday 13 December 2016

فَٱذۡكُرُونِىٓ أَذۡكُرۡكُمۡ وَٱشۡڪُرُواْ لِى وَلَا تَكۡفُرُونِ (سورة البقرة:۱۵۲) حصہ اوّل

"مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ اور میرا شکر ادا کرو، اور میری ناشکری نہ کرو۔"

ذکر کے اصلی معنی یاد کرنے کے ہیں، جس کا تعلّق قلب سے ہے۔ زبان سے ذکر کرنے کو بھی ذکر اس لیے کہا جاتا ہے کہ زبان ترجمانِ قلب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ذکرِ زبانی وہی معتبر ہے جس کے ساتھ دل میں بھی الله کی یاد ہو۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کوئ شخص زبان سے ذکر و تسبیح میں مشغول ہو مگر اس کا دل حاضر نہ ہو اور ذکر میں نہ لگے تو وہ بھی فائدہ سے خالی نہیں۔ حضرت ابو عثمانؒ سے کسی نے ایسی ہی حالت کی شکایت کی کہ ہم زبان سے ذکر کرتے ہیں مگر قلوب میں اس کی کوئ حلاوت محسوس نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا کہ اس پر بھی الله تعالیٰ کا شکو ادا کرو کہ اس نے تمہارے ایک عضو یعنی زبان کو تو اپنی طاعت میں لگا لیا۔ (قرطبی)

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیعؒ

Saturday 10 December 2016

سورہٴ البقرہ: ۱۴۸ (حصہ دوئم)

وَلِكُلٍّ۬ وِجۡهَةٌ هُوَ مُوَلِّيہَا‌ۖ فَٱسۡتَبِقُواْ ٱلۡخَيۡرَٲتِ‌ۚ أَيۡنَ مَا تَكُونُواْ يَأۡتِ بِكُمُ ٱللَّهُ جَمِيعًا‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىۡءٍ۬ قَدِيرٌ۬

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

لفظ فَاستَبِقو  سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کو چاہئے کہ کسی نیک عمل کا جب موقع مل جائے تو اس کے کرنے میں دیر نہ کرے، کیونکہ بعض اوقات نیک عمل کے داعیے کو ٹلانے اور بلا وجہ تاخیر کرنے سے توفیق سلب ہو جاتی ہے۔ پھر آدمی وہ کام کر ہی نہیں کر سکتا، خواہ وہ نماز روزہ ہو یا حج و صدقہ وغیرہ۔ 

قرآن کریم میں یہی مضمون سورة انفعال کی آیت میں زیادہ وضاحت سے آیا ہے:

يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱسۡتَجِيبُواْ لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمۡ لِمَا يُحۡيِيڪُمۡ‌ۖ وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ يَحُولُ بَيۡنَ ٱلۡمَرۡءِ وَقَلۡبِهِۦ وَأَنَّهُ ۥۤ إِلَيۡهِ تُحۡشَرُونَ

"اے ایمان والو! تم الله  ورسولؐ کے کہنے کو بجا لایا کرو جبکہ رسول ؐ تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں، اور جان رکھو کہ الله تعالیٰ آڑ بن جایا کرتا ہے آدمی اور اس کے قلب کے درمیان۔"

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ

سورة البقرة: ۱۴۸۔ حصّہ اوّل

وَلِكُلٍّ۬ وِجۡهَةٌ هُوَ مُوَلِّيہَا‌ۖ فَٱسۡتَبِقُواْ ٱلۡخَيۡرَٲتِ‌ۚ أَيۡنَ مَا تَكُونُواْ يَأۡتِ بِكُمُ ٱللَّهُ جَمِيعًا‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىۡءٍ۬ قَدِيرٌ۬ ۔

"اور ہر گروہ کی ایک سمت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے۔ لہذا تم نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ تم جہاں بھی ہو گے، الله تم سب کو (اپنے پاس) لے آئے گا۔" 

اس آیت میں یہ تاکید کی گئ ہے کہ مختلف قوموں کے مختلف قبلے ہیں، کوئ ایک دوسرے کو قبلے کو تسلیم نہیں کرتا، اس لئے اپنے قبلے کے حق ہونے پر ان لوگوں سے بحث فضول ہے۔ اس جملے کا حاصل یہ ہے کہ جب یہ معلوم ہے کہ اس بحث سے ان لوگوں کو کوئ فائدہ نہیں پہنچے گا تو پھر اس فضول بحث کو چھوڑ کر اپنے اصلی کام میں لگ جانا چاہیے، اور وہ کام ہے نیک کاموں میں دوڑ دھوپ اور آگے بڑھنے کی کوشش۔ اور چونکہ فضول بحثوں میں وقت ضائع کرنا اور مسابقت الی الخیرات میں سستی کرنا عموماً آخرت سے غفلت کے سبب ہوتے ہیں، جس کو اپنی آخرت اور انجام کی فکر درپیش ہو وہ کبھی فضول بحثوں میں نہیں الجھتا، اپنی منزل طے کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ 

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ

سورة البقرة: ۱۴۳

وَكَذَٲلِكَ جَعَلۡنَـٰكُمۡ أُمَّةً۬ وَسَطً۬ا لِّتَڪُونُواْ شُہَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِ وَيَكُونَ ٱلرَّسُولُ عَلَيۡكُمۡ شَهِيدً۬ا‌ۗ ۔۔۔

"اور اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک معتدل امّت بنایا ہے کہ تم دوسرے لوگوں پر گواہ بنو، اور رسول تم پر گواہ بنے۔۔۔" 

لفظ وسط بمعنی اوسط ہے، اور خیرالامور اور افضل اشیاء کو وسط کہا جاتا ہے۔ اعتدال کے لفظی معنی ہیں برابر ہونا۔ یہ لفظ عدل سے مشتق ہے، اس کے معنی بھی برابر کرنے کے ہیں۔

ترمذی میں بروایتِ ابو سعید خدریؓ آنحضرت ﷺ سے لفظ وسط کی تفسیر عدل سے کی گئ ہے، جو بہترین کے معنوں میں آیا ہے۔ (قرطبی) اس آیت میں امّتِ محمدیہ ﷺ کی ایک امتیازی فضیلت و خصوصیت کا ذکر ہے کہ وہ ایک معتدل امّت بنائ گئ۔ اس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جس طرح ہم نے مسلمانوں کو وہ قبلہ عطا کیا جو سب سے اشرف و افضل ہے اسی طرح ہم نے امّتِ اسلامیہ کو ایک خاص امتیازی فضیلت یہ عطا کی ہے کہ اس کو ایک معتدل امّت بنایا ہے۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ 

Friday 9 December 2016

سورة البقرة:۱۳۹

"اور ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں، اور تمہارے عمل تمہارے لئے۔ اور ہم نے تو اپنی بندگی اسی کے لئے خالص کر لی ہے۔"

اس آیت میں امّتِ مسلمہ کی ایک خصوصیت یہ بتلائ گئ ہے کہ وہ الله کے لئے مخلص ہے۔ اخلاص کے معنی حضرت سعید بن جبیرؒ نے یہ بتلائے ہیں کہ انسان اپنے دین میں مخلص ہو، الله کے سوا کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، اور اپنے عمل کو خالص الله کے لئے کرے، لوگوں کے دکھلانے یا ان کی مدح و شکر کی طرف نظر نہ ہو۔ 

بعض بزرگوں نے فرمایا کہ اخلاص ایک ایسا عمل ہے جس کو نہ تو فرشتے پہچان سکتے ہیں اور نہ شیطان، وہ صرف بندے اور الله تعالیٰ کے درمیان ایک راز ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محدشفیع رحمتہ الّلہ علیہ

Thursday 8 December 2016

سورة البقرہ:۱۳۷

"اس کے بعد اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو تو یہ راہِ راست پر آ جائیں گے۔ اور اگر یہ منہ موڑ لیں تو درحقیقت وہ دشمنی میں پڑ گئے ہیں۔۔۔" 

اس آیت میں "امنتم" کے مخاطب رسولِ کریم ﷺ اور صحابہٴ کرام رضی الله عنہما ہیں۔ اس آیت میں ان کے ایمان کو ایک مثالی نمونہ قرار دے کر حکم دیا گیا ہے کہ الله تعالیٰ کے نزدیک مقبول و معتبر صرف اس طرح کا ایمان ہے جو رسول الله ﷺ اور صحابہٴؓ نے اختیار فرمایا۔ جو اعتقاد اس سے سرِ مو مختلف ہو وہ الله کے نزدیک مقبول نہیں۔ 

توضیح اس کی یہ ہے کہ جتنی چیزوں پر یہ حضرات ایمان لائے ان میں کوئ کمی زیادتی نہ ہو۔ اور جس طرح اخلاص کے ساتھ ایمان لائے اس میں کوئ فرق نہ آئے کہ وہ نفاق میں داخل ہے۔ اور الله تعالیٰ کی ذات و صفات، فرشتے، انبیاء و رسل، آسمانی کتابیں اور ان کی تعلیمات کے متعلّق جو ایمان و اعتقاد رسول الله ﷺ نے اختیار کیا وہی الله کے نزدیک مقبول ہے۔ اس میں کوئ تاویل کرنا یا کوئ دوسرے معنی مراد لینا الله کے نزدیک مردود ہے۔ فرشتوں اور انبیاٴ و رسل کے لئے جو مقام آپ ؐ کے قول و عمل سے واضح ہوا اس سے ان کو گھٹانا یا بڑھانا ایمان کے منافی ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ

Tuesday 6 December 2016

رسول الله ﷺ نے فرمایا، "اے بنی ہاشم! ایسا نہ ہو کہ قیامت کے روز اور لوگ تو اپنے اپنے اعمالِ صالحہ لے کر آئیں، اور تم اعمالِ صالحہ سے غفلت برتو اور صرف میرے نسب کا بھروسہ لیکر آؤ اور میں اس روز تم سے یہ کہوں کہ میں تمہیں الله کے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔"

اور دوسری حدیث میں ارشاد ہے، "جس شخص کو اس کے عمل نے پیچھے ڈالا اس کو اس کا نسب آگے نہیں بڑھا سکتا۔"

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ

Monday 5 December 2016

سورة البقرة:۸۳

"اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے پکا عہد لیا تھا کہ: "تم الله کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے، اور والدین سے اچھا سلوک کرو گے، اور رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں اور مسکینوں سے بھی۔ اور لوگوں سے بھلی بات کہنا، اور نماز قائم کرنا اور زکوٰة دینا۔۔۔" 

"قولو للناس حسنا" سے مراد یہ ہے کہ انسان جب لوگوں سے خطاب کرے تو نرمی سے، اور خوشروئی اور کشادہ دلی سے بات کرے چاہے مخاطب نیک ہو یا بد، مسلم ہو یا غیر مسلم۔ ہاں دین کے معاملے میں مداہنت اور اس کی خاطر سے حق پوشی نہ کرے۔ وجہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے جب موسیٰ اور ہارون علیہما السّلام کو فرعون کی طرف بھیجا تو یہ ہدایت نامہ دیا کہ "سو کہو اس سے بات نرم شاید وہ سوچے یا ڈرے "(سورة طٰهٰ:۴۴) تو آج جو کلام کرنے والا ہے وہ حضرت موسیٰ ؑ سے افضل نہیں اور مخاطب کتنا ہی برا ہو وہ فرعون سے بڑا نافرمان نہیں۔

طلحہ بن عمرؒ کہتے ہیں کہ میں نے امامِ تفسیر و حدیث عطاؒ سے کہا کہ آپ کے پاس فاسد عقیدے والے لوگ بھی جمع رہتے ہیں، مگر میرے مزاج میں تیزی ہے۔ میرے پاس ایسے لوگ آتے ہیں تو میں ان کو سخت باتیں کہدیتا ہوں۔ حضرت عطاؒ نے فرمایا کہ ایسا نہ کیا کرو، کیونکہ حق تعالیٰ کا حکم ہے کہ "قولو للناس حسنا"، اس میں تو یہودی و نصرانی بھی شامل ہیں۔ مسلمان خواہ کیسا ہی ہو وہ کیوں نہ داخل ہو گا۔ (قرطبی)

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ

Sunday 4 December 2016

خشوع کی حقیقت

"الا علے الخشعین"

قرآن و سنّت میں جہاں خشوع کی ترغیب مذکور ہے اس سے مراد وہ قلبی سکون و انکساری ہے جو الله کی عظمت اور اس کے سامنے اپنے حقیر ہونے کے علم سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں طاعت آسان ہو جاتی ہے۔  کبھی اس کے آثار بدن پر بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں کہ وہ با ادب، متواضع اور شکستہ قلب نظر آتا ہے۔ لیکن اگر دل میں خوف ِ خدا اور تواضع نہ ہو تو خواہ وہ ظاہر میں کتنا ہی با ادب اور متواضع نظر آئے وہ خشوع کا حامل نہیں۔ 

خشوع کے ساتھ ایک دوسرا لفظ خضوع بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ دونوں لفظ تقریباً ہم معنی ہیں، لیکن خشوع کا لفظ آواز اور نگاہ کی پستی اور تذلّل کے لئے بولا جاتا ہے، جب کہ وہ مصنوعی نہ ہو بلکہ قلبی خوف اور تواضع کا نتیجہ ہو۔ اور خضوع کا لفظ بدن کی تواضع اور انکساری کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ 

رسول الله ﷺ کا ارشاد ہے، "نماز تو صرف تمسکن اور تواضع ہی ہے۔"

ایک اور حدیث میں ہے، "جس کی نماز اسے بے حیائ اور برائیوں سے نہ روک سکے وہ الله سے دور ہی ہوتا جاتا ہے،" اور غافل کی نماز بے حیائ سے اور برائیوں سے نہیں روکتی۔ (احیاء العلوم)

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرہ، از مفتی محمد شفیعؒ

Saturday 3 December 2016

دو روحانی بیماریاں اور ان کا علاج، حصّہ دوم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

ان دونوں بیماریوں کا علاج قرآن کریم نے تجویز فرمایا: واستعینو بالصّبر والصّلوة (اور مدد لو صبر اور نماز سے)۔ یعنی صبر کے ذریعے اپنی لذّات و خواہشات پر قابو حاصل کرو۔ اس سے حبّ ِ مال گھٹ جائے گی، کیونکہ مال کی محبّت اسی لئے پیدا ہوتی ہے کہ مال لذّات و خواہشات کو پورا کرنے کا ذریعہ ہے۔ جب انسان لذّات و خواہشات کی اندھا دھند پیروی چھوڑنے پر ہمّت باندھ لے گا تو شروع میں اگر چہ شاق گزرے گا لیکن رفتہ رفتہ یہ خواہشات اعتدال پر آ جائیں گی، اور اعتدال انسان کی عادت بن جائے گی، تو مال کی محبّت ایسی غالب نہ رہے گی کہ اپنے اخروی نفع و نقصان سے اندھا کر دے۔

اور نماز سے حبّ ِ جاہ کم ہو جائے گی، کیونکہ نماز میں ظاہری اور باطنی ہر طرح کی پستی ہے۔ جب نماز کو صحیح صحیح ادا کرنے کی عادت ہو جائے گی تو ہر وقت الله تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی اور پستی کا تصوّر رہنے لگے گا جس سے تکبّر و غرور اور حبّ ِ جاہ گھٹ جائیں گے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورةٴ البقرہ، از مفتی محمد شفیع ؒ

دو روحانی بیماریاں اور ان کا علاج۔ حصّہ اوّل

"اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے، مگر ان لوگوں کو نہیں جو خشوع (یعنی دھیان اور عاجزی) سے پڑھتے ہیں۔" (سورةٴ البقرة:۴۵)

 حبّ ِ مال اور حبّ ِ جاہ، یہ دونوں قلب کی ایسی بیماریاں ہیں جن کے باعث انسان کی دنیاوی زندگی اور اور اخروی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ 

حبّ ِ مال کے نتائج یہ نکلتے ہیں:

۱۔ کنجوسی اور بخل پیدا ہوتا ہے جس کا  قومی نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس کی دولت قوم کو کوئ فائدہ نہیں پہنچاتی۔
۲۔ خود غرضی پیدا ہوتی ہے جو مال کی ہوس کو پورا کرنے کے لئے اسے اشیاء میں ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، رشوت ستانی، مکر و فریب اور دغا بازی کے نت نئے حیلے سجھاتی ہے۔ وہ اپنی تجوری پہلے سے زیادہ بھرنے کے لئے دوسروں کا خون نچوڑ لینا بھی صحیح سمجھتا ہے۔
۳۔ ایسے شخص کو کتنا ہی مال مل جائے لیکن مزید جمع کرنے کی دھن ایسی سوار ہوتی ہے کہ تفریح اور آرام کے وقت بھی یہی بے چینی اسے کھائے جاتی ہے کہ اپنے سرمائے میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیسے کرے۔ جس مال کو اس کے راحت و آرام کا ذریعہ ہونا چاہیے تھا وہ اس کے لئے وبالِ جان بن جاتا ہے۔ 
۴۔ حق بات خواہ کتنی ہی روشن ہو کر اس کے سامنے آجائے مگر وہ کسی ایسی بات کو نہیں ماننا چاہتا جو اس کی ہوسِ مال کو پورا ہونے سے روکے۔

اسی طرح قریب قریب یہی حال حبّ ِ جاہ کا ہے کہ اس کے نتیجے میں تکبّر، خود غرضی، حقوق کی پامالی، ہوسِ اقتدار اور اس کے لئے خوں ریز لڑائیاں، اور اس طرح کی بے شمار انسانیت سوز خرابیاں جنم لیتی ہیں جو بالآخر دنیا کو جہنّم بنا کر چھوڑتی ہیں۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورةٴ البقرة، از مفتی محمد شفیعؒ

Friday 2 December 2016

کیا گناہگار کے لئے وعظ و نصیحت کرنا جائز نہیں؟

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

اس آیت کا (جس کا بیان پچھلی پوسٹ میں ہوا) یہ مطلب نہیں کہ بے عمل یا گناہگار کے لئے دوسروں کو وعظ و نصیحت کرنا جائز نہیں، اور جو شخص کسی گناہ میں مبتلا ہو وہ دوسروں کو اس گناہ سے باز رہنے کی تلقین نہیں کر سکتا۔ کوئ اچھا عمل کرنا الگ نیکی ہے، اور دوسروں کو اس اچھے عمل کی نصیحت کرنا دوسری مستقل نیکی ہے، اور ظاہر ہے کہ ایک نیکی کو چھوڑنے سے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ دوسری نیکی بھی چھوڑ دی جائے۔ 

امام مالکؒ نے حضرت سعید بن جبیر ؓ کا یہ قول نقل کیا ہے اگر ہر ایک شخص یہ سوچ کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دے کہ میں خود گناہگار ہوں، جب گناہوں سے خود پاک ہو جاؤں گا تو لوگوں کو تبلیغ کروں گا، تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ دنیا میں کوئ بھی تبلیغ کرنے والا باقی نہیں رہے گا، کیونکہ کون ایسا ہے جو گناہوں سے بالکل پاک ہو؟ حضرت حسن بصریؒ کا ارشاد ہے کہ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ لوگ اسی غلط خیال میں پڑ کر تبلیغ کا فریضہ چھوڑ بیٹھیں۔ (قرطبی) بلکہ مولانا اشرف علی تھانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ جب مجھے اپنی کسی بری عادت کا علم ہوتا ہے تو میں اس عادت کی مذمّت اپنے مواعظ میں خاص طور سے بیان کرتا ہوں تا کہ وعظ کی برکت سے یہ عادت جاتی رہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ آیت "اتا مرون الناس بالبرّ و تنسون انفسکم" کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بے عمل آدمی کو وعظ کہنا جائز نہیں، بلکہ یہ ہے کہ واعظ کو بے عمل ہونا جائز نہیں۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورةٴ البقرہ، از مفتی محمد شفیع ؒ

Thursday 1 December 2016

بے عمل واعظ کی مذمّت

"کیا تم (دوسرے) لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو، اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو! کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں؟" (سورہ البقرہ:۴۴)

اس آیت میں خطاب اگرچہ اس زمانے کے علمائے یہود سے ہے لیکن معنی کے اعتبار سے ہر اس شخص کی مذمّت ہے جو دوسروں کو تو نیکی اور بھلائ کی ترغیب دے مگر خود عمل نہ کرے۔ دوسروں کو خدا سے ڈرائے مگر خود نہ ڈرے۔ ایسے شخص کے بارے میں حدیث میں بڑی ہولناک وعیدیں آئ ہیں۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شبِ معراج میرا گذر کچھ لوگوں پر ہوا جن کے ہونٹ اور زبانیں آگ کی قینچیوں سے کترے جا رہے تھے۔ میں نے جرئیلؑ سے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرئیل نے بتایا کہ یہ آپﷺ کی امّت کے دنیا دار واعظ ہیں جو لوگوں کو تو نیکی کا حکم کرتے تھے مگر اپنی خبر نہ لیتے تھے۔ (ابنِ کثیر)

ابنِ عساکر ؒ نے ذکر کیا ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بعض جنّتی بعض دوزخیوں کو آگ میں دیکھ کر پوچھیں گے کہ تم آگ میں کیونکر پہنچ گئے؟ حالانکہ ہم تو بخدا انہی نیک اعمال کی بدولت جنّت میں داخل ہوئے ہیں جو ہم نے تم سے سیکھے تھے۔ اہلِ دوزخ کہیں گے: "ہم زبان سے کہتے ضرور تھے لیکن خود عمل نہیں کرتے تھے۔" (ابنِ کثیر)

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع ؒ