Sunday 15 January 2017

وَلَا تَأۡكُلُوٓاْ أَمۡوَٲلَكُم بَيۡنَكُم بِٱلۡبَـٰطِلِ وَتُدۡلُواْ بِهَآ إِلَى ٱلۡحُڪَّامِ لِتَأۡڪُلُواْ فَرِيقً۬ا مِّنۡ أَمۡوَٲلِ ٱلنَّاسِ بِٱلۡإِثۡمِ وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (سورہٴ البقرہ: ١٨٨)

"اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقوں سے نہ کھاؤ، اور نہ ان کا مقدمہ حاکموں کے پاس اس غرض سے لے جاؤ کہ لوگوں کے مال کا کوئ حصّہ جانتے بوجھتے ہڑپ کرنے کا گناہ کرو۔" (سورہٴ البقرہ:۱۸۸)

شریعتِ اسلام میں جتنے معاملات باطل یا فاسد یا گناہ کہلاتے ہیں ان سب کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان میں کسی نہ کسی طرح کا خلل ہوتا ہے۔ کہیں دھوکہ فریب ہوتا ہے، کہیں نامعلوم چیز یا نامعلوم عمل کا معاوضہ ہوتا ہے، کہیں کسی کا حق غصب ہوتا ہے، کہیں کسی کو نقصان پہونچا کر اپنا نفع کیا جاتا ہے، کہیں حقوقِ عامّہ میں ناجائز تصرّف ہوتا ہے۔ سود، قمار (جوا) وغیرہ کو حرام قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ حقوقِ عامّہ کے لئے مضر ہیں۔ انکے نتیجے میں چند افراد پلتے بڑھتے ہیں اور پوری امّت مفلس ہوتی ہے۔ ایسے معاملات فریقین کی رضامندی سے بھی اس لئے حلال نہیں کیونکہ وہ پوری ملّت کے خلاف ایک جرم ہیں۔ 

حصّہ دوئم

ایک بات یہ قابلِ غور ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں جو ’اموالکم‘ آیا ہے، جس کے معنی ہیں اپنے اموال، جس میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا کہ  تم جو کسی دوسرے کے مال میں ناجائز تصرّف کرتے ہو تو یہ غور کرو کہ دوسرے شخص کو بھی اپنے مال سے ایسی ہی محبّت اور تعلّق ہو گا جیسا تمہیں اپنے مال سے ہے۔ اگر وہ تمہارے مال میں ایسا ناجائز تصرّف کرتا تو تمہیں جو دکھ پہنچتا اس کا اس وقت بھی ایسا ہی احساس کرو کہ گویا وہ تمہارا مال ہے۔

حصّہ سوئم

شانِ نزول
یہ آیت ایک خاص واقعے میں نازل ہوئ ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرات صحابہٴ کرام میں سے دو صاحبوں کا آپس میں ایک زمین پر تنازعہ ہوا۔ مقدّمہ رسول الله ﷺ کی عدالت میں پیش ہوا۔ مدّعی کے پاس گواہ نہ تھے۔ آنحضرت ﷺ نے شرعی ضابطہ کے مطابق مدعا علیہ کو حلف کرنے کا حکم دیا۔ وہ حلف پر آمادہ ہو گیا۔ اس وقت آنحضرت ﷺ نے بطورِ نصیحت ان کو یہ آیت سنائ جس میں قسم کھا کر کوئ کوئ مال حاصل کرنے پر وعید مذکور ہے۔ صحابیؓ نے جب یہ آیت سنی تو قسم کھانے کو ترک کر دیا اور زمین مدّعی کے حوالے کردی۔ (روح المعانی)

حصّہ چہارم

ایک واقعہ میں آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا:

"یعنی میں ایک انسان ہوں اور تم میرے پاس اپنے مقدّمات لاتے ہو۔ اس میں یہ ہو سکتا ہے کہ کوئ شخص اپنے معاملے کو زیادہ رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کرے، اور میں اسی سے مطمئن ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں تو (یاد رکھو کہ حقیقتِ حال تو صاحبِ معاملہ کو خود معلوم ہوتی ہے) اگر فی الواقع ہو اس کا حق نہیں ہے تو اس کو لینا نہیں چاہئے، کیونکہ اس صورت میں جو کچھ میں اس کو دوں گا وہ جہنّم کا ایک قطعہ ہو گا۔" (بخاری اور مسلم بروایتِ حضرت امّ ِ سلمہ ؓ)

آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد میں واضح فرما دیا کہ اگر امام یا قاضی کسی مغالطہ کی وجہ سے کوئ فیصلہ کر دے جس میں ایک کا حق دوسرے کو ناجائز طور پر مل رہا ہو تو اس عدالتی فیصلہ کی وجہ سے وہ اس کے لئے حلال نہیں ہو جاتا۔ اگر کوئ شخص دھوکہ فریب یا جھوٹی گواہی یا جھوٹی قسم کے ذریعے کسی کا مال بذریعہ عدالت لے لے تو اس کا وبال اس کی گردن پر رہے گا۔

حصّہ پنجم

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، "اے گروہِ انبیاءؑ حلال اور پاک چیزیں کھاؤ، اور نیک عمل کرو۔۔۔" (۵۱:۲۳)

حضرت مفتی شفیعؒ نے فرمایا کہ اس آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ اعمالِ صالحہ کا صدور جب ہی ہو سکتا ہے جبکہ انسان کا کھانا پینا حلال ہو۔ رسول الله ﷺ نے ایک حدیث میں یہ فرمایا کہ یہ خطاب صرف انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ سب مسلمان اس کے مامور ہیں۔ اس حدیث کے آخر میں آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ حرام کھانے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ بہت سے آدمی عبادت میں مشقّت بھی اٹھاتے ہیں، پھر الله تعالیٰ کے سامنے دعا کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں، اور یارب یارب پکارتے ہیں۔ مگر کھانا ان کاحرام، پینا ان کا حرام، لباس ان کا حرام، تو ان کی دعا کہاں قبول ہو سکتی ہے۔

حصّہ ششم

ایک حدیث میں رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے حلال کھایا، اور سنّت کے مطابق عمل کیا، اور لوگ اس کی ایذاؤں سے محفوظ رہے، وہ جنّت میں جائے گا۔ صحابہٴ کرام ؓ نے عرض کیا، یا رسول الله ﷺ آجکل تو یہ حالات آپ کی امّت میں عام ہیں۔ بیشتر مسلمان ان کے پابند ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا، ہاں! آعندہ بھی ہر زمانے میں ایسے لوگ رہیں گے جو ان احکام کے پابند ہوں گے۔ (یہ حدیث ترمذی نے روایت کی ہے اور اس کو صحیح فرمایا ہے)

No comments:

Post a Comment