Monday 2 January 2017

کون صحیح اور کون غلط؟

کل ایک محب دوست نے فرمایا کہ وہ علماء کی کتابیں اس لئے نہیں پڑھتے کہ اب اتنے سارے فرقے ہو گئے ہیں، کیا پتہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ پھر انسان کیسے کسی ایک یا دو کی کتابیں پڑھے؟ اس سے بہتر ہے کہ کسی کی بھی کتاب نہ پڑھے اور خود قرآن کا ترجمہ پڑھ کر جو سمجھ میں آئے اس پہ عمل کر لے۔ راقم نے عرض کیا کہ پھر یہ کیسے پتہ چلے کہ اسلام صحیح ہے یا غلط؟ عیسائیوں کے اور یہودیوں کے بھی اتنے عالم ہیں، اتنی کتابیں ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ صحیح ہوں اور ہم غلط ہوں۔ اس کا کیسے پتہ چلے؟ راقم نے انہیں اس سوال کے دو جواب دیے۔ پھر خیال ہوا کہ وہ اپنے پڑھنے والوں سے بھی شیئر کر لوں۔ شائد کسی اور بھی اس علاج سے فائدہ ہو جس علاج سے مجھے فائدہ ہوا۔

پہلا تو یہ ہے کہ جیسا ایک حالیہ پوسٹ میں آیا تھا الله تعالیٰ نے قرآن میں ان لوگوں کی دو نشانیاں بیان کی ہیں جن کی اتّباع کی جانی چاہئے، ایک تو یہ وہ کہ ان کے پاس "ہدایت" ہو جس سے مراد ان احکام کا علم ہے جو الله تعالیٰ نے براہِ راست نازل کئے ہیں، اور دوسرے یہ کہ ان کے پاس "عقل" ہو جس سے مراد یہ ہے کہ ان میں قرآن و سنّت سے ان احکام کو استنباط (نکالنے) کرنے کی اہلیت ہو جو براہِ راست نہیں نازل کئے گئے۔ جس شخص نے عمر بھر دین کا علم حاصل نہ کیا ہو اور اس کے پاس یہ دونوں اہلیتیں نہ ہوں، اور نہ ہی اس کے پاس اتنی فرصت ہو کہ وہ باقاعدہ طور پہ دین کا علم حاصل کرے، اس کے پاس اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ وہ ایسے شخص کو ڈھونڈے جس کے پاس یہ دونوں اہلیتیں موجود ہوں اور وہ اس کا اتّباع کرے۔ خود صرف قرآن کا ترجمہ پڑھ کر خود کو عالم سمجھنا تو ایسا ہی ہے جیسے ایک وکیل پیڈیاٹرکس (بچوں کے امراض کے علاج کا علم) کی کتاب پڑھ کر اپنے بچے کے علاج کی کوشش کرے صرف اس لئے کہ اسے انگریزی آتی ہے۔ لیکن یہاں پھر وہی اوپر والا سوال دوبارہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے شخص کا پتہ کیسے چلے کہ اتنے سارے عالموں میں کون صحیح ہے اور کون غلط؟

بہت سارے پہلے جب راقم کو دین کی طرٖف آنے کا رجحان ہوا تو بہت شبہات ہوتے تھے کہ ہر انسان اپنے آپ کو اور اس مذہب اور فرقے کو  صحیح سمجھتا ہے جس میں وہ پیدا ہوتا ہے۔ اگر میں عیسائ یا ہندو پیدا ہوا ہوتا تو اسی کو صحیح سمجھتا رہتا اور اسی عقیدے پہ مر جاتا۔ یہ کیسے پتہ چلے کہ اسلام صحیح مذہب ہے اور اس میں بھی یہ علماء صحیح ہیں جن سے میں دین کا علم سیکھنے کو کوشش کر رہا ہوں؟ اس زمانے میں میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مواعظ اکثر پڑھتا رہتا تھا۔ پھر ایک دن ایک وعظ میں میں پڑھا کہ حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ جو شخص الله کے راستے پر چلنا چاہے اور اسے یہ سمجھ نہ آئے کہ دین کا صحیح راستہ کون سا ہے؟ ہندو صحیح ہیں، عیسائ صحیح ہیں یا مسلمان صحیح ہیں، یا مسلمانوں میں بھی شیعہ صحیح ہیں، سنّی صحیح ہیں، دیوبندی صحیح ہیں یا بریلوی صحیح ہیں۔ تو اس شخص کو چاہئے کہ دن میں صبح یا شام کا کچھ وقت مخصوص کر لے اور اس میں روز یہ دعا مانگا کرے کہ یا الله! میں آپ کے راستے پر چلنا چاہتا ہوں مگر مجھے سمجھ نہیں آتا کہ آپ کا صحیح راستہ کون سا ہے۔ میرے پاس نہ اتنا علم ہے، اور نہ اتنی فہم ہے کہ میں خود سے آپ کے صحیح راستے کو پہچان لوں۔ آپ محض اپنے فضل سے مجھے صحیح راستے پر پہنچا دیجیے۔

حضرت تھانویؒ نے مزید فرمایا تھا کہ انسان جب یہ دعا شروع کرے تو اگر فوراً اس کا اثر نظر نہ بھی آئے تو پھر بھی اس کو چھوڑے نہیں کیونکہ اس دعا کے دو فائدے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ الله تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔ پھر ایسا ہو نہیں سکتا کہ انسان ان سے دعا کرے، اور وہ بھی ہدایت کی دعا کرے، اور وہ قبول نہ ہو۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ بالفرض اس شخص کی زندگی تھوڑی سی رہ گئ تھی اور یہ دعا شروع کرنے کے کچھ ہی دن بعد اس کا انتقال ہو گیا۔ جب وہ الله تعالیٰ کے حضور میں پہنچے گا تو کہہ تو سکے گا کہ یا الله! میں اس سے بڑھ کے کیا کر سکتا تھا کہ آپ سے ہدایت کی دعا مانگتا۔ آپ مجھے اپنے فضل سے معاف فرما دیجیے۔ انشاء الله اس کی نجات ہو جائے گی۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ راقم کے سامنے ایک دوست کے ساتھ پیش آیا۔ راقم اپنے دوستوں کے ساتھ ایک بزرگ کی خدمت میں دین کے بارے میں جاننے کے لئے حاضر ہوا کرتا تھا۔ ایک دن ایک اور دوست ہمارے ہمراہ گئے۔ انہوں نے پوچھا کہ مجھے لگتا تو ہے کہ الله تعالیٰ ہیں لیکن مجھے یقین نہیں ہے۔ کبھی کبھی مجھے شبہ ہوتا ہے کہ پتہ نہیں الله تعالیٰ ہیں بھی کہ نہیں۔ ہم لوگوں کو یہ سن کے ڈر لگا کہ آج یہ دوست پٹوائیں گے لیکن بزرگ یہ سن کر ہنسے اور فرمایا، یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ نے یہ سوال پوچھا اور اپنا شبہ دور کرنے کی کوشش کی ورنہ اکثر لو گ تو یہ شبہات دل میں لیے بیٹھے رہتے ہیں اور کبھی کسی سے پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ دلالئل تو الله تعالیٰ کے وجود کے بارے میں بہت ہیں اور اتنے مضبوط ہیں کہ ان سے کسی بھی منکر کو ساکت کیا جا سکتا ہے، لیکن ان دلائل کو سمجھنے کے لئے کچھ بنیادی علوم کا جاننا ضروری ہے۔ بزرگ نے پھر ہمارے دوست سے پوچھا کہ کیا کبھی انہوں نے منطق (logic) پڑھی ہے؟ لیکن ہم میں سے کسی نے بھی باقاعدہ طور سے منطق نہیں پڑھی تھی۔

بزرگ نے ان سے دو چار سوال پوچھے اور پھر کہا، اچھا آپ ان سب کو چھوڑ دیجئے۔ میں آپ کو کچھ الفاظ بتاتا ہوں۔ آپ بس دن کا ایک وقت مقرّر کر کے ان الفاظ کو دہرا لیا کیجیے۔ وہ الفاظ یہ ہیں، "اے وہ ذات جسے لوگ خدا کہتے ہیں، اگر آپ ہیں تو مجھے اپنے ہونے کا یقین دلا دیجیے۔" بزرگ نے پھر ہنس کر فرمایا کہ ان الفاظ کے کہنے میں آپ پر کوئ جبر تو نہیں ڈالا جا رہا ہے۔ آپ سے تو یہ بھی نہیں کہا جا رہا کہ الله سے دعا کریں بلکہ صرف یہ کہنے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ اے وہ ذات جسے دوسرے لوگ خدا کہتے ہیں۔ بزرگ نے پھر فرمایا کہ کچھ عرصے تک یہ الفاظ کہتے رہیے۔ اگر وہ ہوں گے تو اپنے ہونے کا یقین دلا دیں گے۔ اگر نہیں ہیں تو آپ نے اپنا فرض ادا کر لیا اور آپ کی چھٹی ہوئ۔

راقم کا اگلا ایک سال اس حالت میں گزرا کہ ہدایت کی دعا کرتا رہتا تھا لیکن کسی چیز پر پکّا یقین نہیں تھا اور طرح طرح کے شبہات ہوتے رہتے تھے۔ اس عرصے میں مجھے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ میں مسلمان ہوں یا نہیں کیونکہ دعا شروع کرتے وقت میں نے یہ نیّت کی تھی کہ میں اسی بات کو مانوں گا جس کی گواہی میرا دل دے گا۔ پھر الله تعالیٰ نے اپنے فضل سے بہت اطمینان عطا فرمایا لیکن بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو الفاظ سے سمجھائ نہیں جا سکتیں، ان کو خود ان کا تجربہ کر کے ہی سمجھنا پڑتا ہے۔

ان واقعات کو سنانے کا مقصد کوئ دلیل دینا یا کسی کو قائل کرنا نہیں ہے۔ یہ کلام ان لوگوں سے ہے ہی نہیں جو الله تعالیٰ کے وجود اور مرنے کے بعد کی زندگی کے قائل نہیں، اور اس پر مطمئن ہیں۔ یہ کلام صرف ان لوگوں سے ہے جو دل میں خلش رکھتے ہیں کہ ان کے جو بھی  عقائد اور خیالات ہیں وہ صحیح ہیں کہ نہیں، اور ان کی تصدیق کا کیا ذریعہ ہو۔ مقصود صرف یہ ہے کہ جس انسان کے پاس اتنا علم اور اتنی معرفت نہ ہو کہ خود سے حق کو پہچان سکے اس کے پاس سب سے محفوظ راستہ یہی ہے کہ الله تعالی سے ہدایت کی دعا مانگے۔ اگر الله تعالیٰ پہ پورا یقین نہ ہو تو اس کے لئے بھی الله تعالیٰ سے ہی دعا کرے، اور اس کے بعد سب کچھ ان پہ چھوڑ دے۔ قرآن کریم میں بار بار اس مفہوم کی آیت آتی ہے کہ "لا یکلف الله نفساً الّا وسعھا" (ہم نے انسان کو کسی ایسی بات کا مکلّف (جوابدہ) نہیں بنایا جو اس کے اختیار میں نہ ہو۔) انشاٴالله جب انسان وہ سب کچھ کر لے گا جو اس کے اختیار میں ہے تو اس کی نجات ہو جائے گی۔ (آمین)

No comments:

Post a Comment