Thursday 2 February 2017

اختلاف بین المسلمین۔ حصّہ ششم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

اختلافات بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں ایک انسان صحیح ہوتا ہے اور ایک غلط، لیکن اس اختلاف کو نبھانے کا طریقہ بھی سیکھنا پڑتا ہے۔ ایک عالمِ دین تھے جنہوں نے مولانا اشرف علی تھانویؒ کے بارے میں کفر کا فتوٰی دیا تھا۔ جب ان عالم کے انتقال کی خبر حضرت تھانویؒ کے پاس آئ تو انہوں نے اس خبر کو سنتے ہی دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیے اور مغفرت کی دعا کی۔ جو لوگ پاس بیٹھے ہوئے تھے وہ بہت حیران ہوئے اور انہوں نے پوچھا کہ حضرت وہ ساری عمر آپ کو کافر کہتے رہے اور آپ ان کی مغفرت کی دعا کر رہے ہیں؟ حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ بھئ یہ بات صحیح ہے کہ وہ ساری عمر مجھے کافر کہتے رہے، لیکن میں یہ سوچتا ہوں کہ مرنے کے بعد جب الله تعالیٰ کے سامنے حاضری ہو گی اگر اس وقت الله تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ تمہیں کافر تو کہتے رہے اور غلط کہتے رہے، لیکن وہ جو کہتے تھے ہمارے رسول کی محبّت میں کہتے تھے اس لیے ہم نے انہیں معاف کیا، تو اس وقت میرے پاس کہنے کے لئے کیا ہوگا۔


اسی طرح جن لوگوں نے پاکستان کی آزادی کی تاریخ پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ مولانا اشرف علی تھانویؒ اور مولانا محمود الحسنؒ کے درمیان اس بات پہ اختلاف تھا کہ مسلمانوں کے لئے کون سا راستہ اختیار کرنا بہتر ہے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ مسلمانوں کے لئے آزاد مملکت کے حامی تھے جبکہ مولانا محمود الحسن صاحب خلوصِ نیّت سے یہ سمجھتے تھے کہ سارے مسلمان تو پاکستان جا نہیں سکتے، اس لئے مسلمانوں کے لئے متّحدہ آزاد ہندوستان میں ایک ساتھ مل کر رہنا بہتر ہے۔ کسی نے مولانا محمود الحسن ؒ سے مولانا تھانویؒ کے بارے میں کہا کہ وہ تو آپ سے چھوٹے ہیں۔ آپ ان سے اس بارے میں گفتگو کیوں نہیں کر لیتے۔ شائد ان کی رائے بدل جائے؟ مولانا نے پہلے تو یہ فرمایا کہ رائے گفتگو سے نہیں بدلتی، حالات و واقعات سے بدلا کرتی ہے۔ پھر اس کے بعد سختی سے یہ فرمایا کہ میری ایک رائے ہے۔ اس کی بھی ایک رائے ہے۔ کیا مجھ پر وحی نازل ہوئ ہے کہ میری ہی رائے ٹھیک ہے؟ میں کیوں کسی پر اپنی رائے تبدیل کرنے کے لئے دباؤ ڈالوں؟
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہ عملاً کر کے دکھا دیا کہ اختلاف اور چیز ہے اور مخالفت اور چیز ہے۔ 

جاری ہے۔۔۔

No comments:

Post a Comment