Monday 13 February 2017

"اور انہی میں سے وہ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ: "اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائ عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائ، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔" (سورہ البقرہ:۲۰۱)

حصّہ سوئم

گذشتہ سے پیوستہ

اس آیت میں ان جاہل درویشوں کی بھی اصلاح کی گئ ہے جو صرف آخرت کی ہی دعا مانگنے کو عبادت سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں دنیا کی کوئ پرواہ نہیں ہے، کیونکہ درحقیقت ان کا یہ دعٰوی غلط اور خیالِ خام ہے۔ انسان اپنے وجود اور بقاء اور عبادت و طاعت سب میں دنیاوی ضروریات کا محتاج ہے۔ وہ نہ ہوں تو دین کا کوئ بھی کام کرنا مشکل ہے۔ اسی لئے انبیاء علیہم السلام کی سنّت یہ ہے کہ جس طرح وہ آخرت کی بھلائ اور بہتری الله تعالیٰ سے مانگتے ہیں اسی طرح دنیا کی بھلائ اور آسائش بھی طلب کرتے ہیں۔ جو شخص دنیاوی حاجات کے لئے دعا مانگنے کو زہد اور بزرگی کے خلاف سمجھے وہ مقامِ انبیاء سے بےخبر اور ناواقف ہے۔ ہاں صرف دنیاوی حاجات ہی کو مقصدِ زندگی نہ بنائے، اس سے زیادہ آخرت کی فکر کرے اور اس کے لئے دعا مانگے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ


No comments:

Post a Comment