Saturday 18 February 2017

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱدۡخُلُواْ فِى ٱلسِّلۡمِ ڪَآفَّةً۬ وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٲتِ ٱلشَّيۡطَـٰنِ‌ۚ إِنَّهُ ۥ لَڪُمۡ عَدُوٌّ۬ مُّبِينٌ۬ ة (سورہ البقرہ:۲۰۸)

"اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔" (سورہ البقرہ:۲۰۸)

پہلا حصّہ

عربی گرامر کے اعتبار سے اس آیت کے دو ترجمے ہوتے ہیں گو دونوں ملتے جلتے ہیں۔

پہلی صورت میں ترجمہ یہ ہو گا کہ تم پورے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ، یعنی تمہارے ہاتھ پاؤں، آنکھ، کان، دل اور دماغ سب کا سب دائرہ اسلام و اطاعتِ الٰہیہ کے اندر داخل ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ ہاتھ پاؤں سے تو احکامِ اسلامیہ بجا لا رہے ہو مگر دل و دماغ اس پر مطمئن نہیں۔ یا دل و دماغ سے تو اس پر مطمئن ہو مگر ہاتھ پاؤں اور اعضاء و جوارح کا عمل اسلام سے باہر ہے۔

دوسری صورت میں ترجمہ یہ ہو گا کہ تم اسلام میں مکمّل اور پورے داخل ہو جاؤ، یعنی ایسا نہ ہو کہ اسلام کے بعض احکام کو تو قبول کرو لیکن بعض میں پس و پیش رہے، اور چونکہ اسلام نام ہے اس مکمّل نظامِ حیات کا جو قرآن و سنّت میں بیان ہوا ہے، خواہ اس کا تعلّق عقائد و عبادات سے ہو، یا معاملات و معاشرت سے،  حکومت و سیاست وغیرہ سے اس کا تعلّق ہو یا تجارت و صنعت وغیرہ سے، اسلام کا جو مکمّل نظامِ حیات ہے تم سب اس پورے نظام میں داخل ہو جاؤ۔ 

خلاصہ ان دونوں صورتوں کا یہی ہے کہ احکامِ اسلام خواہ وہ کسی شعبہٴ زندگی سے متعلّق ہوں، اور اعضاء ظاہری سے متعلّق ہوں یا قلب اور باطن سے ان کا تعلّق ہو، جب تک ان تمام احکام کو سچّے دل سے قبول نہ کرو گے مسلمان کہلانے کے مستحق نہیں ہو گے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ

No comments:

Post a Comment