Monday 20 February 2017

"اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔" (سورہ البقرہ:۲۰۸)

تیسرا حصّہ

اس آیت میں ان لوگوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے جنہوں نے اسلام کو صرف مسجد اور عبادات کے ساتھ مخصوص کر رکھا ہے۔ معاملات اور معاشرت کے احکام کو گویا دین کا جزء ہی نہیں سمجھتے۔ اصطلاحی دینداروں میں یہ غفلت عام ہے۔ جو لوگ اپنے آپ کو مذہبی سمجھتے ہیں، بظاہر نماز روزے کے پابند بھی ہیں، اور ظاہری حلیے سے بھی دیندار لگتے ہیں، ان میں سے بھی بہت سے ایسے ہیں جو لوگوں کے حقوق، معاملات اور حقوقِ معاشرت کے احکام سے بالکل بیگانہ ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان احکام کو اسلام کے احکام ہی یقین نہیں کرتے۔ نہ ان کے سیکھنے کو ضروری سمجھتے ہیں اور نہ ان پہ عمل کرنے کو۔

خوب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ شریعت کے احکام پانچ طرح کے ہیں۔ پہلا حصّہ ہے عقائد یعنی ان باتوں پہ ایمان لانا جن پہ یقین رکھنے کا اللّہ تعالیٰ اور اللّہ کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے مثلاً مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانا یا جنّت و دوزخ پہ یقین رکھنا۔ دوسرا حصّہ عبادات ہیں مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰة وغیرہ۔ زیادہ تر مسلمان ایمان کو ان دونوں حصّوں میں ہی منحصر سمجھتے ہیں۔ تیسرا حصّہ ہے معاملات یعنی روپے پیسے کا لین دین جس کی بنیاد ہے کسی اور کا مال ناحق اور اللّہ تعالیٰ اور رسول اللّہ ﷺ کے احکام کے خلاف نہ لینا۔ چوتھا حصّہ ہے معاشرت یعنی لوگوں کے ساتھ برتاؤ کرنے اور رہنے سہنے کے احکام۔ پانچواں حصّہ ہے اخلاق یعنی باطنی اعمال کی اصلاح۔ جو شخص دین کے ان پانچوں اجزاء پر عمل کرنے کی کوشش نہ کرے اس کا ایمان مکمّل نہیں ہوتا۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ

No comments:

Post a Comment