Saturday 4 February 2017

اختلاف بین المسلمین۔ حصّہ ہفتم

ہر عمل کو اس کے درجے پہ رکھنا

جن اعمال کا کرنا جائز ہے، یا جن کے کرنے سے ثواب ملتا ہے شریعت میں ان کے مختلف درجات ہیں۔ جس عمل کے کرنے کا الله تعالی یا رسول الله ﷺ نے واضح حکم دیا ہے اسے فرض کہتے ہیں، مثلاً نماز پڑھنا یا زکوٰة دینا۔ جس عمل کا براہِ راست حکم تو نہیں دیا گیا لیکن جب رسول الله ﷺ کے سامنے اس کے کرنے کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے اس کی تصویب فرمائ، یا جب اس کے نہیں کرنے کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے اس پہ ناراضگی کا اظہار فرمایا اسے واجب کہتے ہیں۔ جن اعمال کے کرنے کا براہِ راست حکم نہیں آیا لیکن رسول الله ﷺ سے ان کا کرنا ثابت ہے انہیں سنّت کہتے ہیں۔ جو اعمال رسول الله ﷺ نے ہمیشہ پابندی سے ادا فرمائے انہیں سنّتِ موٴکدہ کہا جاتا ہے۔ یہ واجب کے قریب ہیں۔ جو اعمال رسول الله نے کبھی کیے، کبھی نہیں کیے انہیں سنّتِ غیر موٴکدہ کہتے ہیں۔ یہ نفل کے قریب ہیں۔ جن اعمال کے کرنے سے ثواب ،ملتا ہے لیکن نہ کرنے سے گناہ نہیں ملتا انہیں مستحب یا نفل کہتے ہیں۔ اور جن اعمال کے کرنے سے نہ ثواب ہوتا ہے، نہ گناہ ہوتا ہے ان کو مباح کہتے ہیں۔

دین میں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ انسان ہر عمل کو اس کے درجے پہ رکھے، نہ اس سے بڑھائے اور نہ گھٹائے، کیونکہ ہر درجے کے عمل کے احکام مختلف ہیں۔ مثلاً اگر کوئ فرض نماز نہ پڑھتا ہو تو جس کا اس پہ اثر ہو مثلاً والدین ان کے لئے اس پہ زور دینا بلکہ سختی کرنا بھی جائز ہے۔ لیکن نفل عبادات کے لئے کسی پہ دباؤ ڈالنا اور ان کے نہ پڑھنے پہ اس کو گناہ گار یا کافر قرار دے دینا شرعاً صحیح نہیں۔ اسی طرح تبلیغ ایک ایسا عمل ہے جس کا بے انتہا ثواب ہے۔ اگر کسی قوم تک الله کا پیغام بالکل ہی نہ پہنچا ہو تو ان کو تبلیغ کرنا فرض ہے۔ لیکن اگر کوئ شخص ایسا ہو جس تک الله کا پیغام پہنچ چکا ہو اور یہ پتا ہو کہ اگر اس کو مزید تبلیغ کی گئ تو اس کے منہ سے انکار اور گستاخی کے اور کفریہ کلمات نکلیں گے، ایسی صورت میں یہ جانتے بوجھتے اس کو تبلیغ کرنا جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں اصرار کرنے والا بھی گناہ گار ہو گا۔

مسلمانوں کے باہمی اختلافات کا ایک بہت بڑا سبب اعمال کو ان کے درجے سے بڑھانا، غیر لازمی اعمال کو ضروری سمجھنے لگنا، اور پھر دوسروں سے ان کے کرنے پہ اصرار کرنا، اور ان کے نہ کرنے پہ ان کو گناہگار یا کافر سمجھنے لگنا ہے۔ اور تقریباً یہ ہمیشہ ان ہی اعمال کے بارے میں ہوتا ہے جو فرض و واجب نہیں ہوتے۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کہ اس بات پہ اختلاف ہوا ہو کہ روز چھ نمازیں پڑھنی چاہیئیں، یا مغرب کی نماز میں چار رکعتیں ہونی چاہیئیں۔ یہ اختلاف ہوتا ہی ان اعمال کے بارے میں ہے جو زیادہ سے زیادہ مستحب یا مباح کے درجے میں ہوتے ہیں، لیکن بعض لوگ اپنے جذباتی پن کے باعث ان کو ضروری سمجھنے لگتے ہیں اور دوسروں سے بھی اصرار کرنے لگتے ہیں۔

مسلمانوں کے بعض بڑے بڑے فرقوں میں وجہٴ اختلاف اسی طرح کے فروعی اختلافات ہیں۔ اگر مسلمان اتنا دینی علم حاصل کرنے لگیں کہ کونسا عمل کس درجے میں ہے اور کن اعمال پہ اصرار کرنا جائز ہے اور کن پہ نہیں، تو ان کے بہت سے اندرونی اختلافات کم ہو جائیں۔

جاری ہے۔۔۔

No comments:

Post a Comment