Wednesday 1 February 2017

وَأَنفِقُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا تُلۡقُواْ بِأَيۡدِيكُمۡ إِلَى ٱلتَّہۡلُكَةِ‌ۛ ۔۔۔O (سورة البقرہ:۱۹۵)

"اور الله کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود ہلاکت میں نہ ڈالو۔۔۔ " (سورہ البقرہ:۱۹۵)

اس آیت میں جو اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے، اس بارے میں حضرات ِ مفسّرین کے اقوال مختلف ہیں۔

حضرت ابو ایّوب انصاری ؓ نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ جب الله تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ اور قوّت عطا فرما دیا تو ہم میں یہ گفتگو ہوئ کہ اب جہاد کی کیا ضرورت ہے۔ ہم اپنے وطن میں ٹھہر کر اپنے مال و جائداد کی خبر گیری کریں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئ جس نے یہ بتلا دیا کہ ہلاکت سے مراد اس جگہ ترکِ جہاد ہے، اور اس سے ثابت ہوا کہ ترکِ جہاد مسلمانوں کی ہلاکت و بربادی کا سبب ہے۔ اسی لئے حضرت ابو ایّوب انصاری ؓ نے عمر بھر جہاد میں صرف کر دی، یہاں تک کہ آخر میں قسطنطنیہ میں وفات پا کر وہیں مدفون ہوئے۔

حضرت براء بن عازب ؓ نے فرمایا کہ گناہوں کی وجہ سے الله کی رحمت اور مغفرت سے مایوس ہو جانا اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈالنا ہے، اس لئے مغفرت سے مایوس ہونا حرام ہے۔

بعض حضرات نے فرمایا کہ الله کی راہ میں مال خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرنا کہ بیوی بچّوں کے حقوق ضائع ہو جائیں، یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ ایسا اسراف جائز نہیں۔

بعض حضرات نے فرمایا کہ ایسی صورت میں قتال کے لئے اقدام کرنا اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے جبکہ یہ اندازہ ظاہر ہے کہ دشمن کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، خود ہلاک ہو جائیں گے۔ ایسی صورت میں اقدامِ قتال اس آیت کی بناء پر ناجائز ہے۔

اور جصاص ؒ کے فرمانے کے مطابق یہ سب ہی احکام اس آیت سے مستفاد ہوتے ہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ

No comments:

Post a Comment