Saturday 4 February 2017

...فَإِذَآ أَفَضۡتُم مِّنۡ عَرَفَـٰتٍ۬ فَٱذۡڪُرُواْ ٱللَّهَ عِندَ ٱلۡمَشۡعَرِ ٱلۡحَرَامِ‌ۖ وَٱذۡڪُرُوهُ كَمَا هَدَٮٰڪُمۡ وَإِن ڪُنتُم مِّن قَبۡلِهِۦ لَمِنَ ٱلضَّآلِّينَ )O (سورہ البقرہ:۱۹۸)

"۔۔۔پھر جب تم عرفات سے روانہ ہو تو مشعرِ حرام کے پاس (جو مزدلفہ میں واقع ہے) الله کا ذکر کرو، اور اس کا ذکر اسی طرح کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت کی ہے، جبکہ اس سے پہلے تم بالکل ناواقف تھے۔" (سورہ البقرہ:۱۹۸)

مشعرِ حرام ایک پہاڑ کا نام ہے جو جو مزدلفہ میں واقع ہے۔ مشعرِ حرام کے پاس الله تعالیٰ کو یاد کرنا اگرچہ ہر طرح کے ذکر الله کو شامل ہے مگر عرفہ کے روز عرفات سے واپس آتے ہوئے مغرب و عشاء دونوں نمازوں کو ایک ساتھ ملا کر مزدلفہ میں پڑھنا واجب ہے۔ اس آیت کے جملے "واذکروہ کما ھدںکم" میں شاید اسی طرف اشارہ ہے کہ الله تعالیٰ نے اپنی یاد اور ذکر کے لئے جو طریقہ بتلایا ہے اسی طرح اس کو یاد کرو، اپنی رائے اور قیاس کو اس میں دخل نہ دو، کیونکہ بظاہر عقل کا تقاضہ تو یہ تھا کہ مغرب کی نماز مغرب کے وقت میں پڑھی جاتی اور عشاء عشاء کے وقت میں، لیکن اس روز اس مقام پر الله تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ مغرب کی نماز موٴخّر کی جائے اور اس کو عشاٴ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے۔

اسی ارشادِ قرآنی سے ایک اور اصولی مسئلہ بھی نکل آیا کہ الله تعالیٰ کی عبادت میں انسان خود مختار نہیں کہ جب چاہے جس طرح چاہے، الله تعالیٰ کی عبادت کرے، بلکہ الله تعالیٰ کی عبادت کے جو خاص آداب الله تعالیٰ اور رسول الله ﷺ نے بتلا دیے ہیں ان کے مطابق ہی ان اعمال کو ادا کرنا اصل عبادت ہے۔ ان اعمال میں اپنی مرضی سے کمی و بیشی کرنا یا ان کو مقدّم و موٴخّر کرنا، چاہے ان میں اعمال کی زیادتی ہی ہو، وہ الله تعالیٰ کو پسند نہیں۔ نفلی عبادات اور صدقہ و خیرات وغیرہا میں جو لوگ بلا دلیلِ شرعی اپنی طرف سے کچھ خصوصیات اور اضافے کر لیتے ہیں، ان کی پابندی کو ضروری سمجھ لیتے ہیں، اور ان افعال کے نہ کرنے والوں کو خطا وار اور گناہگار سمجھنے لگتے ہیں، حالانکہ الله اور اس کے رسول ﷺ نے ان اعمال کو ضروری قرار نہیں دیا، اس آیت نے ان کی غلطی کو واضح کر دیا کہ اصل عبادت وہی ہے جو الله تعالیٰ اور رسول الله ﷺ کے احکام کے مطابق کی جائے، ورنہ وہ عبادت نہیں محض اپنے نفس کا خوش کرنا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ

No comments:

Post a Comment