Monday 6 February 2017

ثُمَّ أَفِيضُواْ مِنۡ حَيۡثُ أَفَاضَ ٱلنَّاسُ وَٱسۡتَغۡفِرُواْ ٱللَّهَ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ۬ رَّحِيمٌ۬ O (سورہ البقر:۱۹۹)

حصّہ اوّل

"اس کے علاوہ (یہ بات بھی یاد رکھو) کہ تم اسی جگہ سے روانہ ہو جہاں سے عام لوگ روانہ ہوتے ہیں۔ اور اللہ سے مغفرت مانگو۔ بیشک الله بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔" (سورہ البقرہ:۱۹۹)

اس جملے کا شانِ نزول یہ ہے کہ قریشِ عرب جو بیت الله کے محافظ و مجاور تھے اور سارے عرب میں ان کا اقتدار مسلّم تھا اور ان کی ایک ممتاز حیثیت تھی، زمانہٴ جاہلیت میں وہ اپنی امتیازی شان بنانے کے لئے یہ حرکت کرتے تھے کہ اور سب لوگ تو عرفات کو جاتے اور وہاں وقوف کر کے واپس آتے تھے، جبکہ یہ لوگ راستہ میں مزدلفہ کے اندر ہی ٹھہر جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم چونکہ بیت الله اور حرم کے مجاور ہیں اس لئے حدودِ حرم سے باہر جانا ہمارے لئے مناسب نہیں، (مزدلفہ حدودِ حرم کے اندر ہے اور عرفات اس سے باہر) اور وہیں سے واپس آ جاتے تھے۔ اصل وجہ اس حیلے بہانے کی اپنا فخر و غرور اور عام لوگوں سے ممتاز ہو کر رہنا تھا۔ حق تعالیٰ کے اس فرمان نے ان کی غلط کاری واضح فرما دی اور ان کو حکم دیا کہ تم بھی وہیں جاؤ جہاں سب لوگ جاتے ہیں، یعنی عرفات میں، اور پھر وہیں سے سب کے ساتھ واپس آؤ۔ 

اوّل تو عام انسانوں سے اپنے آپ کو ممتاز کر کے رکھنا خود ایک متکّبرانہ فعل ہے جس سے ہمیشہ ہی پرہیز لازم ہے، خصوصاً حج کے ایّام میں جہاں لباسِ احرام اور پھر قیام و مقام کی یکسانیت کے ذریعے اسی کا سبق دینا ہے کہ انسان سب برابر ہیں، امیر و غریب یا عالم و جاہل یا بڑے چھوٹے کا یہاں کوئ امتیاز نہیں۔ حالتِ احرام میں یہ امتیازی شان بنانا اور بھی بڑا جرم ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع ؒ


No comments:

Post a Comment