Wednesday 15 March 2017

دوسروں کو اپنے رزق میں شریک کرنا

ایک حکایت ہے کہ ایک غریب شخص تھا جو ہمیشہ مفلسی کے ہاتھوں پریشان رہتا تھا۔ ایک دن اس نے تنگ آ کے الّٰلہ تعالیٰ سے عرض و معروض کی کہ میرا جتنا بھی عمر بھر کا رزق ہے مجھے اگلے تین دن میں دے دیجیے تا کہ میں یہ تین دن تو فراغت اور آسانی سے گزار لوں۔ اس کے بعدجو بھی ہو گا دیکھا جائے گا۔ جواب ملا کہ تمہارا تمام رزق فلاں کوٹھڑی میں ہے اور تین دن بعد یہ ختم ہو جائے گا۔ 

اس شخص نے وہ کوٹھڑی کھولی تو وہ اناج سے بھری ہوئ تھی۔ اس نے تمام گاؤں والوں کو دعوت پہ بلایا اور ان سے کہا کہ جتنا کھانا ہے کھاؤ۔ اس سے اگلے دن اور پھر تیسرے دن بھی اس نے یہی کیا۔ چوتھے دن اس نے سوچا کہ اب تو کوٹھڑی خالی ہو گئ ہو گی لیکن جب اس نے کوٹھڑی کھولی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ اب بھی اناج سے بھری ہوئ تھی۔ اس نے عرض کیا کہ یا الّٰلہ! یہ کیا ماجرا ہے؟ میں تو سمجھا تھا کہ میرا تمام عمر کا رزق مجھے پچھلے تین دن میں دے دیا گیا ہے۔ جواب ملا کہ تم صحیح سمجھے تھے۔ وہ تمہارا تمام عمر کا رزق تھا لیکن تم نے اس میں تمام گاؤں والوں کو شریک کر لیا اور ان کے رزق کو اپنے ذمّے کر لیا۔ اب یہ ان کا رزق ہے جو تمہارے ذریعے  سے ان کو مل رہا ہے۔ 

جاری ہے۔۔۔

یہ تو محض ایک حکایت ہے لیکن اس حکایت کو سنانے کا ایک مقصد ہے۔ وہ یہ کہ علم دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ علم ہوتا ہے جس کو حاصل کرنے کا مقصود خود وہ علم ہی ہوتا ہے۔ اور دوسرا وہ علم ہوتا ہے جس کو حاصل کرنے کا مقصد اس پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ اگر اس پہ عمل نہ کیا جائے تو وہ علم ضائع تو نہیں ہوتا لیکن اس کا اصلی مقصد بھی حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن اگر اس پر عمل کیا جائے تو الّٰلہ تعالیٰ اس عمل کے ذریعے ہی مزید اور بہت سے علوم عطا فرماتے ہیں جو اس عمل کے بغیر حاصل نہیں ہوتے۔

یہ میں جتنی بھی پوسٹ لکھتا ہوں یہ اس دوسری قسم کے علم سے تعلّق رکھتی ہیں۔ جیسے پچھلے دنوں بہت سی پوسٹس درود شریف کے فضائل کے بارے میں آئ تھیں۔ بیشک یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ درود شریف پڑھنے کے کیا فضائل ہیں لیکن وہ فضائل اسی وقت حاصل ہوں گے جب انسان یہ عادت ڈال لے کہ دن و رات میں کم از کم ایک دفعہ درود شریف ضرور پڑھے۔ اس کے بعد الّٰلہ تعالیٰ جو نعمتیں عطا فرماتے ہیں ان کا ادراک اسی وقت ہوتا ہے جب انسان کچھ عرصے تک اس معمول پر عمل کرے۔

اس حکایت کو سنانے کا بھی یہی مقصد ہے۔ انسان اپنے ارد و گرد میں دیکھے اور جو بھی ایک ضرورت مند انسان یا خاندان نظر آئے اس کا رزق اپنے ذمّے کر لے اور اس کو عمر بھر نباہے۔ پھر الّٰلہ تعالیٰ اس کے رزق میں وہ برکت عطا فرماتے ہیں اور اس کو وہاں سے رزق عطا فرماتے ہیں جہاں سے الّٰلہ تعالیٰ کے اپنے وعدے کے مطابق اس کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ دوسروں کو اپنے رزق میں شریک کرنے سے ہمیشہ انسان کا رزق بڑھتا ہے، کبھی کم نہیں ہوتا۔ لیکن جیسے کہ میں نے اوپر عرض کیا بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو حال کی ہوتی ہیں، قیل و قال کی نہیں، اور جن کا علم ان کو کرنے سے حاصل ہوتا ہے، بولنے سے نہیں۔

ختم شد

No comments:

Post a Comment