Friday 17 March 2017

۔۔۔وَلَهُنَّ مِثۡلُ ٱلَّذِى عَلَيۡہِنَّ بِٱلۡمَعۡرُوفِ‌ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيۡہِنَّ دَرَجَةٌ۬‌ۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌO (سورہ البقرہ: ۲۲۸)

"اور ان عورتوں کو معروف طریقے کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے (مردوں کو) ان پر حاصل ہیں۔ ہاں مردوں کو ان پر ایک درجہ فوقیت ہے۔ اور الّٰلہ غالب اور حکمت والا ہے" (سورہ البقرہ: ۲۲۸)

پہلا حصّہ

حضرت مفتی محمد شفیع ؒ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اس آیت کی رو سے سب مردوں کا سب عورتوں سے افضل ہونا لازم نہیں آتا، کیونکہ الّٰلہ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت کا تمام تر مدار ایمان اور عملِ صالح پر ہے۔ وہاں کسی کے درجات کا بلند یا پست ہونا ایمان اور عمل کے درجات کے مطابق ہوتا ہے۔ اس لیے امورِ آخرت میں یہ ضروری نہیں کہ مردوں ہی کا درجہ عورتوں سے بلند رہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے، اور حسبِ تصریحِ آیات اور روایات ایسا ہو گا بھی، کہ بعض عورتیں اپنی طاعت و عبادت کے ذریعے بہت سے مردوں سے افضل ہو جائیں گی، ان کا درجہ بہت سے مردوں سے بڑھ جائے گا۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment