Sunday 19 March 2017

"اور ان عورتوں کو معروف طریقے کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے (مردوں کو) ان پر حاصل ہیں۔ ہاں مردوں کو ان پر ایک درجہ فوقیت ہے۔ اور الّٰلہ غالب اور حکمت والا ہے" (سورہ البقرہ: ۲۲۸)

تیسرا حصّہ

قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ یہی مضمون اور بھی وضاحت کے ساتھ مذکور ہے:

مَنۡ عَمِلَ صَـٰلِحً۬ا مِّن ذَڪَرٍ أَوۡ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤۡمِنٌ۬ فَلَنُحۡيِيَنَّهُ ۥ حَيَوٰةً۬ طَيِّبَةً۬‌ۖ وَلَنَجۡزِيَنَّهُمۡ أَجۡرَهُم بِأَحۡسَنِ مَا ڪَانُواْ يَعۡمَلُونَ ۔ (سورہٴ النحل: ۹۷)

"جو مرد و عورت نیک عمل کرے اور وہ مومن بھی ہو تو ہم اس کو پاکیزہ زندگی عطا کریں گے۔"

مزید یہ کہ اس آیت میں الّٰلہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ "ان کے حقوق مردوں کے ذمّہ ہیں جیسے کہ ان کے ذمّے مردوں کے حقوق ہیں۔" اس میں عورتوں کے حقوق کا ذکر مردوں کے حقوق سے پہلے کیا۔ حضرت مفتی شفیع ؒ نے فرمایا کہ غالباً اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مرد تو اپنی قوّت اور طاقت کے بناء پر عورتوں سے اپنے حقوق وصول کر ہی لیتا ہے، فکر عورتوں کے حقوق کی ہونی چاہیے کہ وہ عادتاً اپنے حقوق زبردستی وصول نہیں کر سکتیں۔ دوسرا اشارہ اس میں یہ بھی ہے کہ مردوں کو عورتوں کے حقوق ادا کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔

یہاں جو لفظ "مثل" کے ساتھ دونوں کے حقوق کی مساوات اور برابری کا ارشاد ہے اس سے مراد یہ ہے کہ دونوں کے حقوق کی ادائیگی یکساں طور پر واجب ہے، اور اس میں کوتاہی اور غلطی کی سزا بھی یکساں ہے۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment