Saturday 25 March 2017

نکاح و طلاق کی شرعی حیثیت ۔ پانچواں حصّہ 

لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اصلاحِ حال کی تمام کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں، اور تعلقِ نکاح کے مطلوبہ ثمرات حاصل ہونے کے بجائے طرفین کا ساتھ رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے۔ ایسی حالت میں اس ازدواجی تعلّق کا ختم کر دینا ہی طرفین کے لئے راحت اور سلامتی کی راہ ہو جاتی ہے۔ اس لئے شریعتِ اسلام نے یہ بھی نہیں کیا کہ رشتہٴ ازدواج ہر حال میں ناقابلِ فسق ہی رہے، بلکہ طلاق اور فسخِ نکاح کا قانون بنایا۔ طلاق کا براہِ راست اختیار تو مرد کو دیا، لیکن اس کے ساتھ عورت کو بھی بالکل اس حق سے محروم نہیں رکھا کہ وہ شوہر کے ظلم و ستم سہنے ہی پر مجبور ہو جائے۔ اس کو یہ حق دیا کہ وہ حاکمِ شرعی کی عدالت میں اپنا معاملہ پیش کر کے اور شکایات کا ثبوت دے کر نکاح فسخ کرا سکے۔

پھر الّٰلہ تعالیٰ نے مرد کو طلاق کا آزادانہ اختیار تو دے دیا، مگر اوّل تو یہ کہہ دیا کہ اس اختیار کا استعمال کرنا الّٰلہ کے نزدیک بہت مبغوض اور مکروہ ہے، صرف مجبوری کی حالت میں اجازت ہے۔ حدیث میں ارشادِ نبوی ہے:

ترجمہ: "حلال چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض اور مکروہ الّٰلہ کے نزدیک طلاق ہے۔"

دوسری پابندی یہ لگائ کہ غصّے کی حالت میں، یا کسی وقتی اور ہنگامی ناگواری میں اس اختیار کو استعمال نہ کریں۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہ البقرہ، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment