Tuesday 14 March 2017

قرض دینے کی فضیلت

(یہ تحریر حضرت تھانوی ؒ کے ایک ملفوظ سے ماخوذ ہے گو کافی الفاظ میرے ہیں۔ الّٰلہ تعالیٰ کسی نادانستہ غلطی کو معاف فرمائیں۔ آمین)

بہت سےلوگوں کو یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ کسی کو قرض دینے کا ثواب صدقہ دینے سے بہت زیادہ ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ قرض دینے کا ثواب دس گنا تک زیادہ ہے۔ اسی طرح یہ بھی حکم آیا ہے کہ جو لوگ سفید پوش ہوں اور خود سے سوال نہ کرتے ہوں ان کی حاجات کو رفع کرنے کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ 

بعض دفعہ لوگوں کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے پاس تو زائد از ضرورت مال ہے ہی نہیں، ہم کسی اور کو قرض کیسے دیں؟ بزرگوں نے فرمایا کہ ہر شخص کے پاس کچھ نہ کچھ مال زائد از ضرورت ضرور ہوتا ہے چاہے وہ ایک روپیہ ہی کیوں نہ ہو۔ جس کے پاس صرف سو روپیے ہوں اس کے لیے ایک روپیہ صدقہ کرنے کا ثواب اتنا ہی ہے جتنا اس شخص کے لیے ہزار روپیہ صدقہ کرنے کا جس کے پاس ایک لاکھ روپئے ہوں۔ جب کوئ قرض مانگے تو انسان یہ دیکھے کہ اس کے پاس کتنا مال ایسا ہے جو اگر واپس نہ آئے تو اسے تنگی نہیں ہوگی۔ پھر اس کے بعد قرض خواہ سے یہ کہے کہ بھائ تمہیں جتنا مال درکار ہے میں وہ سارے کا سارا تو نہیں دے سکتا، میں اتنا دے سکتا ہوں۔ قرض مانگنے والے کی عموماً کچھ نہ کچھ ضرورت تو اس سے پوری ہو ہی رہی ہوتی ہے اس لیے وہ عموماً انکار نہیں کرتا۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک کام اور یہ بھی کرے کہ یہ بھی کہہ دے کہ اس کی واپسی کے لیے اپنے آپ کو تنگی میں مت ڈالنا۔ جب الّٰلہ تعالیٰ توفیق دے واپس کر دینا، نہیں تو اگر عمر بھر تمہیں واپسی کی توفیق نہ ہوئ تو میں نے تمہیں معاف کیا اور انشاء الّٰلہ قیامت کے دن میں اس کا بدلہ نہیں لوں گا۔ اس کے لیے ضروری ہے جو راقم نے اوپر عرض کیا کہ پہلے اس کا حساب کر لے کہ میری ملکیت میں کتنا مال ایسا ہے کہ واپس نہ آئے تو مجھے تنگی اور دشواری نہیں ہو گی۔ بزرگوں کا یہ بھی معمول رہا ہے کہ اپنی آمدنی کا ایک حصّہ، مثلاً پانچ فیصد، ہر مہینے آمدنی آتے ہی مصارفِ خیر میں خرچ کرنے کی نیّت سے الگ نکال کے رکھ لیتے تھے۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کسی کی ضرورت سامنے آنے پر سوچنا نہیں پڑتا، بلکہ وہ مال الگ پڑا یاد دلاتا رہتا ہے کہ میرے لیے کوئ مصرف تلاش کرو۔ 

انسان ایک دفعہ اس پر عمل کرنا شروع کرے تو انشاٴالّٰلہ اسے عمر بھر کبھی کسی قرض مانگنے والے کو انکار نہیں کرنا پڑے گا۔

No comments:

Post a Comment