Saturday 4 March 2017

يَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلۡخَمۡرِ وَٱلۡمَيۡسِرِ‌ۖ قُلۡ فِيهِمَآ إِثۡمٌ۬ ڪَبِيرٌ۬ وَمَنَـٰفِعُ لِلنَّاسِ وَإِثۡمُهُمَآ أَڪۡبَرُ مِن نَّفۡعِهِمَا‌ۗ ...(سورہ البقرہ:۲۱۹)

"لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ بھی ہے، اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں، اور ان دونوں کا گناہ ان کے فائدے سے زیادہ بڑھا ہوا ہے۔" (سورہ البقرہ: ۲۱۹)

حرمتِ شراب ۔ پہلا حصّہ

ابتداء اسلام میں عام رسومِ جاہلیت کی طرح شراب خوری بھی عام تھی۔ جب رسولِ کریمﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ میں بھی شراب اور قمار یعنی جوا کھیلنے کا رواج تھا۔ لیکن عادة الّٰلہ یہ بھی ہے کہ ہر قوم اور ہر خطّے میں کچھ عقل والے بھی ہوتے ہیں جو عقل کو طبیعت پہ غالب رکھتے ہیں اور کوئ طبعی خواہش اگر عقل کے خلاف ہو تو وہ ا س طبعی خواہش کے پاس نہیں جاتے۔ اس معاملے میں نبی کریم ﷺ کا مقام تو بہت ہی بلند تھا کہ جو چیز کسی وقت حرام ہونے والی تھی آپ کی طبیعت اس سے پہلے ہی نفرت کرتی تھی۔ 

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment