Monday 20 March 2017

نکاح و طلاق کی شرعی حیثیت ۔ دوسرا حصّہ 

دوسرے یہ کہ شریعت میں اور تمام معاملات و معاہدات کے منعقد ہونے کے لئے کوئ گواہی شرط نہیں۔ یہ پسندیدہ تو ہے کہ دو لوگ جب کوئ مالی معاہدہ کریں تو اس کو لکھ لیں اور اس پہ گواہ مقرّر کر لیں، لیکن اس کے بغیر بھی دو لوگ آپس میں معاہدہ کر لیں تو ایسا معاہدہ شرعاً صحیح ہوتا ہے۔ گواہوں کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب فریقین میں اختلاف ہو جائے۔ لیکن نکاح کے لئے یہ قرار دے دیا گیا کہ اس کے منعقد ہونے کے لئے بھی اس کا گواہوں کے سامنے ہونا شرط ہے۔ اگر مرد اور عورت بغیر گواہوں کے آپس میں نکاح کر لیں، اور دونوں میں کوئ فریق کبھی اختلاف و انکار بھی نہ کرے، اس وقت بھی شرعاً وہ نکاح باطل اور کالعدم ہے جب تک گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول نہ ہو۔ اور اصل سنّت یہ ہے کہ نکاح اعلانِ عام کے ساتھ کیا جائے۔

حضرت ابو حنیفہ ؒ اور بہت سے دوسرے آئمہ حضرات کے نزدیک تو نکاح میں معاملے اور معاہدے کی حیثیت سے زیادہ عبادت و سنّت کی حیثیت غالب ہے، اور قرآن و سنّت کے شواہد اس پر قائم ہیں۔ 

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہ البقرہ، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment