Monday 27 February 2017

بزرگوں نے فرمایا کہ جب انسان سونے کے لیے بستر پہ لیٹے اس وقت وہ پہلے مسنون دعائیں پڑھے، اسکے بعد درود شریف پڑھتے پڑھتے سو جائے، تا کہ انسان کی بیداری کا آخری کلام درود شریف ہو۔ 

ماخوز از بیان "درود شریف: ایک اہم عبادت" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
"لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ (الّلہ کی خوشنودی کے لیے) کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجیے کہ جو مال بھی تم خرچ کرو وہ والدین، قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہونا چاہیے۔ اور تم بھلائ کا جو کام بھی کرو، الّلہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔" (سورہ البقرہ:۲۱۵) 

حصّہ اوّل

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ آیتیں فرض زکوٰة کے متعلّق نہیں کیونکہ زکوٰة کے لیے تو نصابِ مال بھی مقرّر ہے، اور اس میں جتنی مقدار خرچ کرنا فرض ہے وہ بھی متعیّن و مقرّر ہے۔ ان دونوں آیتوں میں نہ کسی نصابِ مال کی قید ہے، نہ خرچ کرنے کی مقدار بتائ گئ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں آیتیں نفل صدقات کے متعلّق ہیں۔ اس سے یہ شبہ بھی دور ہو گیا کہ پہلی آیت میں خرچ کا مصرف والدین کو بھی قرار دیا گیا ہے حالانکہ ماں باپ کو زکوٰة دینا آنحضرت ﷺ کی تعلیم کے مطابق جائز نہیں، کیونکہ ان آیتوں کا تعلّق فریضہٴ زکوٰة سے ہے ہی نہیں۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Sunday 26 February 2017

حضورِ اقدس ﷺ نے فرمایا کہ جب آدمی کوئ اہم بات کرنا شروع کرے، یا اہم بات لکھے، تو اس سے پہلے الّلہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے، پھر حضورِ اقدس ﷺ پر درود بھیجے، اس کے بعد اپنی بات کہے یا لکھے۔

اگر وقت مختصر ہو تو آدمی صرف اتنا ہی کہہ دے،
"نحمدہ و نصلّی علی رسولہ الکریم"
یعنی ہم الّلہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں اور حضورِ اقدس ﷺ پر درود بھیجتے ہیں۔

صحابہء کرام رضوان الّلہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا یہ معمول تھا کہ کسی بھی مسئلے پر بات کرنی ہو، چاہے وہ دنیاوی مسائل ہی کیوں نہ ہوں مثلاً خرید و فروخت کی بات ہو یو رشتے ناتے کی بات ہو، تو بات شروع کرنے سے پہلے حمد و ثناء اور درود شریف پڑھتے، اس کے بعد اپنے مقصد کی بات کرتے۔

ماخوذ از بیان "درود شریف:ایک اہم عبادت" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

سورہ البقرہ:۲۱۵

يَسۡـَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ‌ۖ قُلۡ مَآ أَنفَقۡتُم مِّنۡ خَيۡرٍ۬ فَلِلۡوَٲلِدَيۡنِ وَٱلۡأَقۡرَبِينَ وَٱلۡيَتَـٰمَىٰ وَٱلۡمَسَـٰكِينِ وَٱبۡنِ ٱلسَّبِيلِ‌ۗ وَمَا تَفۡعَلُواْ مِنۡ خَيۡرٍ۬ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ۬۔

"لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ (الّلہ کی خوشنودی کے لیے) کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجیے کہ جو مال بھی تم خرچ کرو وہ والدین، قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہونا چاہیے۔ اور تم بھلائ کا جو کام بھی کرو، الّلہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔" (سورہ البقرہ:۲۱۵) 

Saturday 25 February 2017

حضرت ڈاکٹر عبدالحئ رحمتہ الّلہ علیہ علیہ نے فرمایا کہ جب آدمی کو کوئ دکھ اور پریشانی ہو، یا کوئ بیماری ہو، یا کوئ ضرورت اور حاجت ہو تو الّلہ تعالیٰ سے دعا تو کرنی چاہیے کہ یا الّلہ! میری اس حاجت کو پورا فرما دیجیے، میری اس پریشانی اور بیماری کو دور فرما دیجیے، لیکن ایک طریقہ ایسا بتاتا ہوں کہ اس کی برکت سے الّلہ تعالیٰ اس کی حاجت کو ضرور ہی پورا فرما دیں گے۔ وہ یہ ہے کہ کوئ پریشانی ہو اس وقت درود شریف کثرت سے پڑھیں، اس درود شریف کی برکت سے الّلہ تعالیٰ اس پریشانی کو دور فرما دیں گے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ سیرتِ طیّبہ میں یہ بات لکھی ہوئ ہے کہ جب کوئ شخص حضورِ اقدس ﷺ کی خدمت میں کوئ ہدیہ لاتا تو آپ اس بات کی کوشش فرماتے کہ اس کے جواب میں اس سے بہتر تحفہ اس کی خدمت میں پیش کروں تا کہ اس کی مکافات ہو جائے۔ آپ نے ساری زندگی اس پر عمل فرمایا۔ یہ درود شریف بھی حضورِ اقدس ﷺ کی خدمت میں ہدیہ ہے، اس لیے جب ملائکہ یہ درود شریف آپ کی خدمت میں پہنچائیں گے کہ آپ کے فلاں امّتی نے آپ کی خدمت میں درود شریف کا یہ تحفہ بھیجا ہے تو غالب گمان یہ ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ اس ہدیہ کا بھی جواب دیں گے اور وہ جوابی ہدیہ یہ ہو گا کہ وہ الّلہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ جس طرح اس بندے نے مجھے ہدیہ بھیجا، اے الّٰلہ، آپ بھی اس بندے کی حاجتیں پوری فرما دیں۔ 

ماخوذ از بیان "درود شریف: ایک اہم عبادت"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنّت میں (یونہی) داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تمہیں اس جیسے حالات پیش نہیں آئے جیسے ان لوگوں کو پیش آئے تھے جو تم سے پہلے ہو گذرے ہیں۔ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں، اور انہیں ہلا ڈالا گیا، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ایمان والے ساتھی بول اٹھے کہ "الّلہ کی مدد کب آئے گی؟" یاد رکھو! الّلہ کی مدد نزدیک ہے۔ (سورہ البقرہ:۲۱۴)

دوسرا حصّہ

دوسری بات یہاں قابلِ نظر یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور ان کے ساتھیوں کا یہ عرض کرنا کہ الّلہ تعالیٰ کی مدد کب آئے گی کسی شک و شبہ کی وجہ سے نہ تھا جو ان کی شان کے خلاف ہے، بلکہ اس سوال کا منشاء یہ تھا کہ الّلہ تعالیٰ نے اگر چہ مدد کا وعدہ فرمایا ہے مگر اس کا وقت اور مقام متعیّن نہیں فرمایا۔ اس لیے حالتِ اضطرار میں ایسے الفاظ عرض کرنے کا مطلب یہ تھا کہ مدد جلد بھیجی جائے۔ اور ایسی دعا کرنا توکّل یا منصبِ نبوّت کے منافی نہیں، بلکہ حق تعالیٰ اپنے بندوں کی الحاح و زاری کو پسند فرماتے ہیں، اس لیے انبیاء اور صلحاء امّت اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

Thursday 23 February 2017

ایک حدیث شریف میں رسول الّلہ ﷺ نے فرمایا کہ جب میرا کوئ امّتی دور سے میرے اوپر درود بھیجتا ہے تو اس وقت فرشتوں کے ذریعے وہ درود مجھ تک پہنچایا جاتا ہے۔ اور جب کوئ امّتی میری قبر پر آ کر درود بھیجتا ہے، اور یہ کہتا ہے کہ "الصلاة والسلام علیک یا رسول الّلہ" اس وقت میں خود اسکے درود و سلام کو سنتا ہوں۔ (کنزالعمال، حدیث نمبر ۲۱۶۵)

ماخوذ از بیان "درود شریف: ایک اہم عبادت" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم  
امۡ حَسِبۡتُمۡ أَن تَدۡخُلُواْ ٱلۡجَنَّةَ وَلَمَّا يَأۡتِكُم مَّثَلُ ٱلَّذِينَ خَلَوۡاْ مِن قَبۡلِكُم‌ۖ مَّسَّتۡہُمُ ٱلۡبَأۡسَآءُ وَٱلضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُواْ حَتَّىٰ يَقُولَ ٱلرَّسُولُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُ ۥ مَتَىٰ نَصۡرُ ٱللَّهِ‌ۗ أَلَآ إِنَّ نَصۡرَ ٱللَّهِ قَرِيبٌ۬ (سورہ البقرہ:۲۱۴)

کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنّت میں (یونہی) داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تمہیں اس جیسے حالات پیش نہیں آئے جیسے ان لوگوں کو پیش آئے تھے جو تم سے پہلے ہو گذرے ہیں۔ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں، اور انہیں ہلا ڈالا گیا، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ایمان والے ساتھی بول اٹھے کہ "الّلہ کی مدد کب آئے گی؟" یاد رکھو! الّلہ کی مدد نزدیک ہے۔ (سورہ البقرہ:۲۱۴)

حصّہ اوّل

اس آیت سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بغیر مشقّت و محنت کے اور بغیر مصائب و آفات میں مبتلا ہوئے کوئ شخص جنّت میں نہ جائے گا، حالانکہ ارشاداتِ قرآنی اور ارشاداتِ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ بہت سے گناہ گار محض اللّہ تعالیٰ کے لطف و کرم اور مغفرت سے جنّت میں داخل ہوں گے۔ ان پر کوئ مشقّت بھی نہ ہو گی۔ وجہ یہ ہے کہ مشقّت و محنت کے درجات مختلف ہیں۔ ادنیٰ درجہ نفس و شیطان سے مزاحمت کر کے یا دینِ حق کے مخالفین کے ساتھ مخالفت کر کے اپنے عقائد کا درست کرنا ہے، اور یہ ہر مومن کو حاصل ہے۔ آگے اوسط اور اعلیٰ درجات ہیں، جس درجہ کی محنت و مشقّت ہو گی اسی درجہ کا دخولِ جنّت ہو گا۔ اس طرح محنت و مشقّت سے کوئ خالی نہ رہا۔ ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا: "سب سے زیادہ سخت بلائیں اور مصیبتیں انبیاء علیہم السلام کو پہنچتی ہیں، ان کے بعد جو ان کے قریب تر ہیں۔"

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

Wednesday 22 February 2017

ایک حدیث میں ہے کہ جب کوئ بندہ حضورِ اقدس ﷺ پر درود بھیجتا ہے تو وہ درود حضورِ اقدس ﷺ کے پاس نام لے کر پہنچایا جاتا ہے کہ آپ کی امّت میں سے فلاں بن فلاں نے آپ کی خدمت میں درود شریف کا یہ تحفہ بھیجا ہے۔ انسان کی اس سے بڑی کیا سعادت ہو گی کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اس کا نام پہنچ جائے۔ (کنز العمال حدیث نمبر ۲۲۱۸)

ماخوذ از بیان "درود شریف: ایک اہم عبادت"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Tuesday 21 February 2017

حضرت عبدالّلہ ابن مسعود رضی الّلہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ الّلہ تعالیٰ کے بہت سے فرشتے ایسے ہیں جو زمین میں گھومتے پھرتے ہیں، اور جو کوئ بندہ مجھ پر سلام بھیجتا ہے وہ فرشتے اس سلام کو مجھ تک پہنچا دیتے ہیں۔ (سنن نسائ، کتاب السہو، باب السلام علی النبی ﷺ)

ماخوذ از بیان "درود شریف: ایک اہم عبادت"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ ٱلۡحَيَوٰةُ ٱلدُّنۡيَا وَيَسۡخَرُونَ مِنَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ‌ۘ وَٱلَّذِينَ ٱتَّقَوۡاْ فَوۡقَهُمۡ يَوۡمَ ٱلۡقِيَـٰمَةِ‌ۗ وَٱللَّهُ يَرۡزُقُ مَن يَشَآءُ بِغَيۡرِ حِسَابٍ۬ O (سورہ البقرہ:۲۱۲)

"جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے، ان کے لیے دنیاوی زندگی بڑی دلکش بنا دی گئ ہے، اور وہ اہلِ ایمان کا مذاق اڑاتے ہیں، حالانکہ جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے وہ قیامت کے دن ان سے کہیں بلند ہوں گے۔ اور اللّہ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔" (سورہ البقرہ:۲۱۲)

اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دنیا کے مال و دولت اور عزّت و جاہ پر مغرور ہونے اور غریب لوگوں کا استہزاء کرنے کی حقیقت قیامت کے روز آنکھوں کے سامنے آ جائے گی۔ 

حضرت علی مرتضیٰ رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص کسی مومن مرد یا عورت کو اس کے فقر و فاقہ کی وجہ سے ذلیل و حقیر سمجھتا ہے اللّہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کو اوّلین و آخرین کے مجمع میں رسوا اور ذلیل کریں گے، اور جو شخص کسی مسلمان مرد یا عورت پر بہتان باندھتا ہے اور کوئ ایسا عیب اس کی طرف منسوب کرتا ہے جو اس میں نہیں ہے، الّلہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کو آگ کے ایک اونچے ٹیلے پہ کھڑا کریں گے جب تک کہ وہ خود اپنی تکذیب نہ کرے۔ (ذکر الحدیث القرطبی)

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

Monday 20 February 2017

حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللّہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس ﷺ سے سنا کہ جو شخص مجھ پہ درود بھیجتا ہے تو جب تک وہ درود بھیجتا رہتا ہے ملائکہ اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ اب جس کا دل چاہے ملائکہ کی دعاء رحمت اپنے لیے کم کر لے یا زیادہ کر لے۔ (ابن ماجہ، ابواب اقامة الصلاة، باب الصلاة علی النبی ﷺ)
"اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔" (سورہ البقرہ:۲۰۸)

تیسرا حصّہ

اس آیت میں ان لوگوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے جنہوں نے اسلام کو صرف مسجد اور عبادات کے ساتھ مخصوص کر رکھا ہے۔ معاملات اور معاشرت کے احکام کو گویا دین کا جزء ہی نہیں سمجھتے۔ اصطلاحی دینداروں میں یہ غفلت عام ہے۔ جو لوگ اپنے آپ کو مذہبی سمجھتے ہیں، بظاہر نماز روزے کے پابند بھی ہیں، اور ظاہری حلیے سے بھی دیندار لگتے ہیں، ان میں سے بھی بہت سے ایسے ہیں جو لوگوں کے حقوق، معاملات اور حقوقِ معاشرت کے احکام سے بالکل بیگانہ ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان احکام کو اسلام کے احکام ہی یقین نہیں کرتے۔ نہ ان کے سیکھنے کو ضروری سمجھتے ہیں اور نہ ان پہ عمل کرنے کو۔

خوب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ شریعت کے احکام پانچ طرح کے ہیں۔ پہلا حصّہ ہے عقائد یعنی ان باتوں پہ ایمان لانا جن پہ یقین رکھنے کا اللّہ تعالیٰ اور اللّہ کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے مثلاً مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانا یا جنّت و دوزخ پہ یقین رکھنا۔ دوسرا حصّہ عبادات ہیں مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰة وغیرہ۔ زیادہ تر مسلمان ایمان کو ان دونوں حصّوں میں ہی منحصر سمجھتے ہیں۔ تیسرا حصّہ ہے معاملات یعنی روپے پیسے کا لین دین جس کی بنیاد ہے کسی اور کا مال ناحق اور اللّہ تعالیٰ اور رسول اللّہ ﷺ کے احکام کے خلاف نہ لینا۔ چوتھا حصّہ ہے معاشرت یعنی لوگوں کے ساتھ برتاؤ کرنے اور رہنے سہنے کے احکام۔ پانچواں حصّہ ہے اخلاق یعنی باطنی اعمال کی اصلاح۔ جو شخص دین کے ان پانچوں اجزاء پر عمل کرنے کی کوشش نہ کرے اس کا ایمان مکمّل نہیں ہوتا۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ

Sunday 19 February 2017

اگر کوئ شخص تحریر میں "صلی الّلہ علیہ وسلّم" لکھے تو حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب تک وہ تحریر باقی رہے گی اس وقت تک ملائکہ مسلسل اس پر درود بھیجتے رہیں گے۔ (زاد السعید، حضرت تھانویؒ، بحوالہ معجم الاوسط للطبرانی)

ماخوذ از بیان "درود شریف: ایک اہم عبادت"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
"اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔" (سورہ البقرہ:۲۰۸)

دوسرا حصّہ

اس آیت سے پچھلی آیت میں مخلصین کی تعریف آئ تھی۔ بعض اوقات اخلاص میں غلطی سے غلو (زیادتی) اور افراط ہو جاتا ہے یعنی قصد تو ہوتا ہے زیادہ اطاعت کا مگر وہ اطاعت شریعت و سنّت کی حد سے باہر نکل جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت عبدالّلہ بن سلام ؓ وغیرہ جو پہلے علماء یہود سے تھے، اور اس مذہب میں ہفتہ کا روز معظّم تھا اور اور اونٹ کا گوشت حرام تھا۔ ان صاحبوں کو اسلام لانے کے بعد یہ خیال ہوا کہ شریعت موسویؑ میں ہفتہ کی تعظیم واجب تھی اور شریعتِ محمدیہؐ میں اس کی بے تعظیمی واجب نہیں۔ اسی طرح شریعتِ موسویہؑ میں اونٹ کا گوشت کھانا حرام تھا اور  شریعتِ محمدیہؐ میں اس کا کھانا فرض نہیں۔ سو اگر ہم بدستور ہفتہ کی تعظیم کرتے رہیں اور اونٹ کا گوشت باوجود حلال اعتقاد رکھنے کے صرف عملاً ترک کردیں تو شریعتِ موسویؑ کی بھی رعایت ہو جائے گی، اور شریعتِ محمدیہؐ کے بھی خلاف نہ ہو گا، اور اس میں خدا تعالیٰ کی زیادہ اطاعت اور دین کی زیادہ رعایت معلوم ہوتی ہے۔

اس آیت میں الّلہ تعالی نے اس خیال کی اہتمام سے اصلاح کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اسلام کامل فرض ہے اور اس کا کامل ہونا جب ہے کہ جو امر اسلام میں قابلِ رعایت نہ ہو اس کی رعایت دین ہونے کی حیثیت سے نہ کی جائے۔ ایسے امر کو دین سمجھنا ایک شیطانی لغزش ہے اور بہ نسبت ظاہری گناہوں کے اس کا عذاب زیادہ سخت ہونے کا خطرہ ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ

Saturday 18 February 2017

مختصر ترین درود شریف

اصل درود شریف تو درود ابراہیمی ہے جس کو نماز کے اندر بھی پڑھتے ہیں۔ تمام علماء کا اس پر اتّفاق ہے کہ سب سے افضل درود شریف یہی ہے کیونکہ حضور اقدس ﷺ نے براہِ راست صحابہ کو یہ درود سکھایا کہ مجھ پر اس طرح درود بھیجا کرو۔ لیکن گفتگو میں جب بھی حضورِ اقدس ﷺ کا نام آئے اس وقت پورا درود ِ ابراہیمی پڑھنا مشکل ہوتا ہے اس لیے درود شریف کا آسان اور مختصر جملہ یہ تجویز کر دیا کہ

"صلی الله علیه وسلّم"

اسکے معنی یہ ہیں کہ الله تعالی ان پر درود بھیجے اور سلام بھیجے۔ اگر حضورِ اقدس ﷺ کا نام سنتے یا لکھتے وقت صرف صلی الله علیه وسلّم کہہ یا لکھ دیا جائے تو درود شریف کی فضیلت حاصل ہو جاتی ہے۔

ماخوذ از بیان "درود شریف: ایک اہم عبادت"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱدۡخُلُواْ فِى ٱلسِّلۡمِ ڪَآفَّةً۬ وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٲتِ ٱلشَّيۡطَـٰنِ‌ۚ إِنَّهُ ۥ لَڪُمۡ عَدُوٌّ۬ مُّبِينٌ۬ ة (سورہ البقرہ:۲۰۸)

"اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔" (سورہ البقرہ:۲۰۸)

پہلا حصّہ

عربی گرامر کے اعتبار سے اس آیت کے دو ترجمے ہوتے ہیں گو دونوں ملتے جلتے ہیں۔

پہلی صورت میں ترجمہ یہ ہو گا کہ تم پورے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ، یعنی تمہارے ہاتھ پاؤں، آنکھ، کان، دل اور دماغ سب کا سب دائرہ اسلام و اطاعتِ الٰہیہ کے اندر داخل ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ ہاتھ پاؤں سے تو احکامِ اسلامیہ بجا لا رہے ہو مگر دل و دماغ اس پر مطمئن نہیں۔ یا دل و دماغ سے تو اس پر مطمئن ہو مگر ہاتھ پاؤں اور اعضاء و جوارح کا عمل اسلام سے باہر ہے۔

دوسری صورت میں ترجمہ یہ ہو گا کہ تم اسلام میں مکمّل اور پورے داخل ہو جاؤ، یعنی ایسا نہ ہو کہ اسلام کے بعض احکام کو تو قبول کرو لیکن بعض میں پس و پیش رہے، اور چونکہ اسلام نام ہے اس مکمّل نظامِ حیات کا جو قرآن و سنّت میں بیان ہوا ہے، خواہ اس کا تعلّق عقائد و عبادات سے ہو، یا معاملات و معاشرت سے،  حکومت و سیاست وغیرہ سے اس کا تعلّق ہو یا تجارت و صنعت وغیرہ سے، اسلام کا جو مکمّل نظامِ حیات ہے تم سب اس پورے نظام میں داخل ہو جاؤ۔ 

خلاصہ ان دونوں صورتوں کا یہی ہے کہ احکامِ اسلام خواہ وہ کسی شعبہٴ زندگی سے متعلّق ہوں، اور اعضاء ظاہری سے متعلّق ہوں یا قلب اور باطن سے ان کا تعلّق ہو، جب تک ان تمام احکام کو سچّے دل سے قبول نہ کرو گے مسلمان کہلانے کے مستحق نہیں ہو گے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ

Friday 17 February 2017

درود شریف نہ پڑھنے پر وعید

ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ مسجدِ نبوی میں خطبہ دینے کے لیے تشریف لائے۔ جس وقت منبر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا اس وقت زبان سے فرمایا "آمین"۔ پھر جس وقت دوسری سیڑھی پر قدم رکھا اس وقت پھر فرمایا "آمین"۔ پھر جس وقت تیسری سیڑھی پر قدم رکھا اس وقت پھر فرمایا "آمین"۔ اس کے بعد آپ نے خطبہ دیا۔

جب آپ خطبہ سے فارغ ہو کر نیچے تشریف لائے تو صحابہ نے سوال کیاکہ یا رسول الله! آج آپ نے منبر پہ جاتے ہوئے (بغیر کسی دعا کے) تین مرتبہ آمین کہا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟حضور اقدس ﷺ نے جواب دیا کہ بات دراصل یہ ہے کہ جس وقت یں منبر پہ جانے لگا اس وقت جبرئیل علیہ السلام میرے سامنے آ گئے۔ انوں نے تین دعائیں کیں، اور میں نے ان دعاؤں پہ آمین کہا۔ 

پھر فرمایا کہ پہلی دعا حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ کی کہ وہ شخص برباد ہو جائے جو اپنے والدین کو بڑھاپے کی حال میں پائےاور پھر ان کی خدمت کر کے اپنے گناہوں کی مغفرت نہ کرا لے اور جنّت حاصل نہ کر لے۔ 

دوسری دعا یہ کی کہ وہ شخص ہلاک ہو جائے جس پر رمضان المبارک کا پورا مہینہ گزر جائے، اس کے باوجود وہ اپنے گناہوں کی مغفرت نہ کرا لے۔

تیسری دعا یہ تھی کہ وہ شخص ہلاک و برباد ہو جائے جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔ (التاریخ الکبیر للبخاری، جلد ۷، ص ۲۲۰)

ماخوذ از بیان "درود شریف: ایک اہم عبادت"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
"ڈرتے رہو الله تعالیٰ سے اور یقین کرو کہ تم سب الله کے پاس جمع ہونے والے ہو۔" (سورہ البقرہ:۲۰۳)

چوتھا حصّہ 

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

احکامِ حج کے ختم پر تقوٰی کی تاکید میں ایک راز یہ بھی ہے کہ حج ایک بڑی عبادت ہے۔ اس کے ادا کرنے کے بعد شیطان عموماً انسان کے دل میں اپنی بڑائ اور بزرگی کا خیال ڈالتا ہے جو اس کے تمام عمل کو بیکار کر دینے والا ہے۔ اس لیے خاتمہٴ کلام میں فرمایا کہ جس طرح حج سے پہلے اور حج کے اندر الله تعالیٰ سے ڈرنا اور اس کی اطاعت لازم ہے اسی طرح حج کے بعد اس سے زیادہ الله تعالیٰ سے ڈرنے اور گناہوں سے پرہیز کا اہتمام کرتے رہو کہ کہیں یہ کی کرائ عبادت ظائع نہ ہو جائے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

Thursday 16 February 2017

درود شریف کے فضائل، ساتواں حصّہ

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنه فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور اقدس ﷺ آبادی سے نکل کر ایک کھجور کے باغ میں پہنچے اور سجدے میں گر گئے۔ میں انتظار کرنے کے لیے بیٹھ گیا تا کہ جب آپ فارغ ہو جائیں تو پھر بات کروں۔ لیکن پ کا سجدہ اتنا طویل تھا کہ مجھے بیٹھے بیٹھے اور اتنظار کرتے کرتے بہت دیر ہو گئ، حتیٰ کہ میرے دل میں یہ خیال آنے لگا کہ کہیں آپ کی روحِ مبارک تو پرواز نہیں کر گئ، اور یہ سوچا کہ آپ کا ہاتھ ہلا کر دیکھوں۔

کافی دیر کے بعد جب آپ سجدے سے اٹھے تو دیکھا کہ آپ کے چہرے پہ بڑی بشاشت کے آثار ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ! آج میں نے ایسا منظر دیکھا جو پہلے نہیں دیکھا تھا، وہ یہ کہ آپ نے آج اتنا طویل سجدہ فرمایا کہ اس سے پہلے اتنا طویل سجدہ نہیں فرمایا، اور میرے دل میں یہ خیال آنے لگا کہ کہیں آپ کی روح پرواز نہ کر گئ ہو۔ اس کی کیا وجہ تھی؟

حضور اقدس ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ بات یہ ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آ کر کہا کہ میں تمہیں بشارت سناتا ہوں کہ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص بھی ایک بار آپ پر درود بھیجے گا، میں اس پر رحمت نازل کروں گا، اور جو شخص آپ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلام بھیجوں گا۔ اس خوشخبری اور انعام کے شکر میں میں نے یہ سجدہ کیا۔

از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
"ڈرتے رہو الله تعالیٰ سے اور یقین کرو کہ تم سب الله کے پاس جمع ہونے والے ہو۔"

تیسرا حصّہ 

ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں حج سے واپس آیا تو اتّفاقاً میرے دل میں ایک گناہ کا وسوسہ پیدا ہوا۔ مجھے غیب سے ایک آواز آئ کہ کیا تو نے حج نہیں کیا؟ کیا تو نے حج نہیں کیا؟ یہ آواز میرے اور اس گناہ کے درمیان ایک دیوار بن گئ اور الله تعالیٰ نے مجھے محفوظ فرما دیا۔

ایک ترکی بزرگ جو مولانا جامی ؒ کے مرید تھے ان کا حال یہ تھا کہ ہمیشہ اپنے سر پر ایک نور کا مشاہدہ کیا کرتے تھے۔ وہ حج کو گئے اور فارغ ہو کر واپس آئے تو یہ کیفیت بجائے بڑھنے کے بالکل سلب ہو گئ۔جب انہوں نے اپنے مرشد مولانا جامی ؒ سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ حج سے پہلے تمہارے اندر تواضع اور انکسار تھا، اپنے آپ کو گناہ گار سمجھ کر الله تعالیٰ کے سامنے الحاح و زاری کرتے تھے۔ حج کے بعد تم اپنے آپ کو نیک اور بزرگ سمجھنے لگے، اس لیے یہ حج ہی تمہارے لیے غرور کا سبب بن گیا۔ اسی وجہ سے یہ کیفیت زائل ہو گئ۔  

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

Wednesday 15 February 2017

درود شریف کے فضائل۔ چھٹا حصّہ

درود شریف پڑھنے پہ الله تعالیٰ نے بے انتہا اجر و ثواب رکھا ہے۔ فرمایا کہ جو شخص نبی کریم ﷺ پہ ایک مرتبہ درود شریف بھیجے تو الله تعالیٰ اس پہ دس رحمتیں نازل فرماتے ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ دس گناہ معاف فرماتے ہیں، اور دس درجات بلند فرماتے ہیں۔ (نسائ، کتاب السھو، باب الفضل فی الصلاة علی النبی ﷺ)

از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Tuesday 14 February 2017

درود شریف کے فضائل۔ پانچواں حصّہ

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

بزرگوں نے دعا کرنے کا یہ ادب سکھایا کہ جب تم اپنے کسی مقصد کے لیے دعا کرو تو اس دعا سے پہلے اور بعد میں درود شریف پڑھ لو، ا سلیے کہ درود شریف کا قبول ہونا تو یقینی ہی ہے، اور الله تعالیٰ کی شانِ کریمی سے یہ بعید ہے کہ پہلی دعا کو قبول فرما لیں اور آخری دعا کو قبول فرما لیں، اور درمیان کی دعا کو قبول نہ فرمائیں۔  لہذا جب درود شریف پڑھ کر پھر اپنے مقصد کے لئے دعا کرو گے تو انشاء الله اس دعا کو بھی ضرور قبول فرمائیں گے۔

جاری ہے۔۔۔

از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
"ڈرتے رہو الله تعالیٰ سے اور یقین کرو کہ تم سب الله کے پاس جمع ہونے والے ہو۔"

دوسرا حصّہ

حدیث میں ہے کہ جب انسان حج سے فارغ ہو کر آتا ہے تو اپنے سابقہ گناہوں سے ایسا پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ ماں کے پیٹ سے آج پیدا ہوا ہے۔ اس لیے خاص طور سے حجاج کو آئندہ کے لیے تقویٰ کی ہدایت کی گئ ہے کہ پچھلے گناہوں سے پاک صاف ہو چکے ہو،آگے احتیاط رکھو، تو دنیا و آخرت کی بھلائ تمہارے لیے ہے۔ ورنہ جو شخص حج کے بعد پھر گناہوں میں مبتلا ہو گیا تو پچھلے گناہوں کی معافی اس کے لیے کوئ خاص کام نہ آئے گی۔ بلکہ علماء نے فرمایا ہے کہ حجِ مقبول کی علامت یہ ہے کہ اپنے حج سے اس طرح واپس آئے کہ اس کا دل دنیا کی محبّت سے فارغ اور آخرت کی راغب ہو۔ ایسے شخص کا حج مقبول اور گناہ معاف ہیں، اور اس کی دعا مقبول ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ
وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّڪُمۡ إِلَيۡهِ تُحۡشَرُونَ O (سورہ البقرہ:۲۰۳)

"ڈرتے رہو الله تعالیٰ سے اور یقین کرو کہ تم سب الله کے پاس جمع ہونے والے ہو۔"

پہلا حصّہ

احکامِ حج جو پچھلی آیتوں میں بیان کیے گئے ہیں یہ جملہ درحقیقت ان سب کی روح ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خاص ایّامِ حج میں جب کہ اعمالِ حج میں مشغول ہو، اس وقت بھی الله تعالیٰ سے ڈرو، احکامِ حج میں کوئ کوتاہی نہ کرو۔ اور بعد میں بھی اپنے حج پہ مغرور نہ ہو، بلکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، اور گناہوں سے اجتناب کرو، کیونکہ وزنِ اعمال کے وقت انسان کے گناہ اس کے نیک اعمال کو کھا جائیں گے، نیک اعمال کا اثر اور وزن ظاہر نہ ہونے دیں گے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

Monday 13 February 2017

درود شریف کے فضائل۔ چوتھا حصّہ

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

علمائے کرام نے فرمایا کہ ساری کائنات میں کوئ دعا ایسی نہیں ہے جس کے قبول ہونے کا سو فیصد یقین ہو۔ کون شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ میری یہ دعا سو فیصد ضرور قبول ہو گی، اور جیسا میں کہہ رہا ہوں ایسے ہی ہو گا؟ لیکن درود شریف ایک ایسی دعا ہے جس کے سو فیصد قبول ہونے کا یقین ہے، اس لئے کہ دعا کرنے سے پہلے ہی الله تعالیٰ نے یہ اعلان فرما دیا کہ "ان الله و ملئکته یصلون علی النبی"، ہم اور ہمارے فرشتے تو تمہاری دعا سے پہلے ہی نبی پاک پر درود بھیج رہے ہیں۔ اس لئے اس دعا کی قبولیت میں ادنیٰ شبہ کی بھی گنجائش نہیں۔

از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
"اور انہی میں سے وہ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ: "اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائ عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائ، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔" (سورہ البقرہ:۲۰۱)

حصّہ سوئم

گذشتہ سے پیوستہ

اس آیت میں ان جاہل درویشوں کی بھی اصلاح کی گئ ہے جو صرف آخرت کی ہی دعا مانگنے کو عبادت سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں دنیا کی کوئ پرواہ نہیں ہے، کیونکہ درحقیقت ان کا یہ دعٰوی غلط اور خیالِ خام ہے۔ انسان اپنے وجود اور بقاء اور عبادت و طاعت سب میں دنیاوی ضروریات کا محتاج ہے۔ وہ نہ ہوں تو دین کا کوئ بھی کام کرنا مشکل ہے۔ اسی لئے انبیاء علیہم السلام کی سنّت یہ ہے کہ جس طرح وہ آخرت کی بھلائ اور بہتری الله تعالیٰ سے مانگتے ہیں اسی طرح دنیا کی بھلائ اور آسائش بھی طلب کرتے ہیں۔ جو شخص دنیاوی حاجات کے لئے دعا مانگنے کو زہد اور بزرگی کے خلاف سمجھے وہ مقامِ انبیاء سے بےخبر اور ناواقف ہے۔ ہاں صرف دنیاوی حاجات ہی کو مقصدِ زندگی نہ بنائے، اس سے زیادہ آخرت کی فکر کرے اور اس کے لئے دعا مانگے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ


Sunday 12 February 2017

درود شریف کے فضائل۔ حصّہ سوئم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

البتّہ الله تعالیٰ کے درود بھیجنے کا مطلب اور ہے، اور بندے کے درود بھیجنے کا مطلب اور ہے۔ الله تعالیٰ کے درود بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ براہِ راست ان پر اپنی رحمتیں نازل فرما رہے ہیں، اور بندے کے درود بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بندہ الله تعالیٰ سے دعا کر رہا ہے کہ یا الله! آپ محمد ﷺ پر درود بھیجئے۔ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئ:

"ان الله و ملائکته یصلون علی النبی یا ایھا الذین امنو اصلو علیه وسلمو تسلیما"

تو اس وقت صحابہ کرام نے حضور اقدس ﷺ سے سوال کیا کہ یا رسول الله، اس آیت میں الله تعالیٰ نے ہمیں دو حکم دیے ہیں کہ میرے نبی پہ درود بھیجو اور سلام بھیجو۔ سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہے کہ جب ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوں تو "السلام علیکم و رحمتہ الله و برکاتہ" کہیں، اسی طرح تشّہد کے اندر بھی سلام کا طریقہ آپ نے بتایا کہ اس میں "السلام علیک ایھا النبی و رحمة الله و برکاتہ" کہا کریں، لیکن ہم آپ پہ درود کس طرح بھیجیں، اس کا کیا طریقہ ہے؟ 

اس پر حضور اقدس ﷺ نے جواب دیا کہ مجھ پہ درود بھیجنے کا طریقہ یہ ہے کہ یوں کہو:

"اللھم صلّ علیٰ محمد و علیٰ ال محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم و علی ال ابراھیم انک حمید مجید"

اس کے معنی یہ ہیں کہ اے الله! آپ محمد ﷺ پر درود بھیجئے۔ اس سے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا کہ جب بندہ درود بھیجے تو یہ سمجھے کہ میری کیا حقیقت اور حیثیت ہے کہ میں حضور اقدس ﷺ پہ درود بھیجوں؟ اور یہ سوچے کہ یا الله! میں تو حضور ﷺ کے درود شریف کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ اے الله! آپ ہی ان پر درود بھیج دیجئے۔

از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
"اور انہی میں سے وہ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ: "اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائ عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائ، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔" (سورہ البقرہ:۲۰۱)

حصّہ دوئم

یہ دعا ایسی جامع ہے کہ اس میں انسان کے تمام دنیاوی اور دینی مقاصد آ جاتے ہیں، اور دنیا و آخرت دونوں جہاں میں راحت و سکون میسّر آتا ہے۔ آخر میں خاص طور پر جہنّم کی آگ سے پناہ کا بھی ذکر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ بکثرت یہ دعا مانگا کرتے تھے، "ربّنا اتنا فی الدنیا حسنة و فی الآخرة حسنة و قنا عذاب النّار"، اور حالتِ طواف میں  خصوصیت کے ساتھ یہ دعا مسنون ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ


Saturday 11 February 2017

درود شریف کے فضائل۔ حصّہ دوئم

الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں رسول الله ﷺ پہ درود بھیجنے کے بارے میں عجیب انداز سے بیان فرمایا، چنانچہ فرمایا:

ترجمہ: "بیشک الله تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پاک ﷺ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو، تم بھی حضور ﷺ پہ درود اور سلام بھیجو۔"

اس انداز سے دو باتوں کی طرف اشارہ فرما دیا۔ ایک یہ کہ حضور اقدس ﷺ کو تمہارے درود کی ضرورت نہیں، اس لئے کہ ان پر پہلے سے ہی الله تعالیٰ اور ان کے فرشتے درود بھیج رہے ہیں۔ لیکن اگر تم اپنی بھلائ اور خیر چاہتے ہو تو تم بھی نبی کریم ﷺ پہ درود بھیجو۔ 

دوسرے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ درود بھیجنے کی جو عبادت ہے اس کی شان ہی نرالی ہے، اس لئے کہ کوئ نیک عمل ایسا نہیں جس کے کرنے میں الله تعالیٰ بھی بندوں کے ساتھ شریک ہوں۔ مثلاً نماز بندہ پڑھتا ہے، الله تعالیٰ نہیں پڑھتے، روزہ بندہ رکھتا ہے، الله تعالیٰ نہیں رکھتے۔ اسی طرح زکوٰة یا حج جتنی بھی عبادتیں ہیں ان میں سے کوئ عبادت ایسی نہیں ہے کہ اس میں بندے کے ساتھ الله تعالیٰ بھی شریک ہوں۔ لیکن درود شریف پڑھنا ایسی واحد عبادت ہے جس کے بارے میں الله تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ عمل میں پہلے سے کر رہا ہوں، اگر تم بھی کرو گے تو اس عمل میں ہمارے ساتھ شریک ہو جاؤ گے۔

از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

وَمِنۡهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَآ ءَاتِنَا فِى ٱلدُّنۡيَا حَسَنَةً۬ وَفِى ٱلۡأَخِرَةِ حَسَنَةً۬ وَقِنَا عَذَابَ ٱلنَّارِO (سورہ البقرہ:۲۰۱)

"اور انہی میں سے وہ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ: "اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائ عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائ، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔" (سورہ البقرہ:۲۰۱)

حصّہ اوّل

اس آیت میں لفظ حسنتہ تمام ظاہری اور باطنی خوبیوں اور بھلائیوں کو شامل ہے، مثلاً دنیا کی حسنہ میں بدن کی صحت، اہل و عیال کی صحت، رزقِ حلال میں وسعت و برکت، سب ضروریات کا پورا ہونا، اعمالِ صالحہ، اخلاقِ محمودہ، علمِ نافع، عزّت و جاہت، عقائد کی درستی، صراطِ مستقیم کی ہدایت، عبادات میں اخلاصِ کامل سب داخل ہیں۔ اسی طرح آخرت کی حسنہ میں جنّت اور اس کی بے شمار اور لازوال نعمتیں اور حق تعالیٰ کی رضا اور ان کا دیدار یہ سب چیزیں شامل ہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ


Friday 10 February 2017

درود شریف کے فضائل۔ حصّہ اوّل

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: "مومن کے بخیل ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ جب میرا ذکر اس کے سامنے کیا جائے تو وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔" 

ماخوذ از بیان "درود شریف کے فضائل" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
حصّہ دوئم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

اس آیت میں آج کے ان مسلمانوں کے لئے بھی بڑی تنبیہ ہے جو حج کے دوران اور مقاماتِ مقدّسہ میں بھی دعاؤں میں اپنی دنیاوی اغراض کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے دولتمند لوگ ان جگہوں پہ جو دعائیں کرتے ہیں یا بزرگوں سے کرواتے ہیں ان میں بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ ان تمام دعاؤں اور وظائف سے ان کی غرض صرف دولت کی ترقّی، تجارت میں برکت اور دنیاوی مقاصد میں کامیابی ہوتی ہے۔ وہ بہت سے وظائف اور نوافل پڑھ کر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم بہت عبادت گذار ہیں، لیکن حقیقت میں ان کا اس عبادت سے اصلی مقصد دنیا ہی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ دنیاوی مقاصد کے لئے دعا مانگنا جائز نہیں، یا اس میں ثواب نہیں، جس کی تفصیل اگلی آیت کی تفسیر میں آئے گی، بلکہ اس آیت میں اشارہ اس طرف ہے کہ ایک مسلمان کے ہر عمل کا بنیادی مقصد صرف دنیا کمانا ہی نہیں ہونا چاہئے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع ؒ

Thursday 9 February 2017

"۔۔۔اب بعض لوگ تو وہ ہیں جو (دعا میں بس) یہ کہتے ہیں کہ: "اے ہمارے پروردگار! دے ہم کو دنیا میں" اور آخرت میں ان کا کوئ حصّہ نہیں ہوتا۔" (سورہ بقرہ:۲۰۰)

حصّہ اوّل

جاہلیت کے زمانے میں کچھ لوگوں کی یہ عادت تھی کہ اگرچہ ایّامِ حج میں شغل تو ذکر الله اور دعاؤں ہی کا رکھتے تھے مگر ان کی تمام تر دعائیں صرف دنیاوی حاجات اور اور دنیا کی راحت و عزّت یا دولت کے لئے ہی ہوتی تھیں۔ آخرت کی طرف کوئ دھیان نہ ہوتا تھا۔ ان کی اصلاح کے لئے اس آیت میں فرمایا کہ بعض لوگ وہ ہیں جو حج میں دعا بھی مانگتے ہیں تو صرف دنیا کی بھلائ مانگتے ہیں، آخرت کی فکر نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئ حصّہ نہیں، کیونکہ ان کے اس طرزِ عمل سے معلوم ہوا کہ فریضہٴ حج بھی انہوں نے محض رسماً ادا کیا ہے، یا دنیا میں فخر و وجاہت حاصل کرنے کے لئے کیا ہے۔ الله تعالیٰ کو راضی کرنا اور آخرت میں نجات حاصل کرنا ان کے پیشِ نظر ہے ہی نہیں۔ 

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع ؒ

Wednesday 8 February 2017

اختلاف بین المسلمین۔ نواں اور آخری حصّہ

اپنے کو مٹانا چاہئے

علّامہ سیّد سلمان ندوی ؒ بہت بڑے عالم تھے لیکن اپنی اصلاح کے لئے مولانا اشرف علی تھانویؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب سلیمان ندویؒ خانقاہ تھانہ بھون سے رخصت ہونے لگے تو انہوں نے حضرت تھانویؒ سے درخواست کی کہ حضرت مجھے کچھ نصیحت کیجئے۔ حضرت تھانویؒ نے اس وقت کا واقعہ لکھا ہے کہ میں شش و پنج میں پڑ گیا کہ اتنے بڑے علّامہ کو میں کیا نصیحت کروں۔ اس وقت الله تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا اور میں نے ان سے کہا کہ حضت اس طریق کاحاصل یہ ہے کہ اپنے کو مٹانا چاہئے۔ یہ کہہ کر حضرت تھانویؒ تو وہاں سے چلے گئے لیکن سید سلیمان ندویؒ کے دل پر اتنا اثر ہوا کہ وہیں کھڑے ہو کر رونے لگے۔ کسی اور کا وہاں سے گزر ہوا تو اس نے حیران ہو کر ان سے رونے کی وجہ پوچھی۔ انہوں نے صرف اتنا فرمایا کہ بڑے میاں آنکھوں سے نہ جانے کیا کر گئے۔

یہ واقعہ لکھنے کا محرّک حاجی امداد الله مہاجر مکّی ؒ کا ایک قول ہوا وہ یہ کہ اتّحاد کی جڑ تواضع ہے۔ نا اتفّاقی کا سب سے بڑا سبب تو تکبّر ہے۔ جو آدمی اپنے آپ کو سب سے بڑا اور اپنی رائے کو سب سے صحیح سمجھے تو پھر وہ کسی دوسرے کی رائے کو کیسے صحیح مانے؟ لیکن جب انسان کو سمجھ میں آ جاتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے، یہاں اس کی حقیقت اور اوقات کیا ہے، اور یہاں کے بعد اس کو کہاں جانا ہے اور وہاں کیا ہونا ہے، تو دل میں حقیقی تواضع پیدا ہو جاتی ہے۔ جو اپنی حقیقت سے آگاہ ہو جاتا ہے اس کی زبان سے کسی دوسرے کے لئے اعتراض کے الفاظ نہیں نکلتے۔ جسے سب اپنے سے بہتر لگیں وہ کسی دوسرے پہ اعتراض کرے تو کیسے کرے؟ الله ہم سب کو اپنی حقیقت پہچاننے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

ختم شد

فَإِذَا قَضَيۡتُم مَّنَـٰسِكَڪُمۡ فَٱذۡڪُرُواْ ٱللَّهَ كَذِكۡرِكُمۡ ءَابَآءَڪُمۡ أَوۡ أَشَدَّ ذِڪۡرً۬ا‌ۗ فَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَآ ءَاتِنَا فِى ٱلدُّنۡيَا وَمَا لَهُ ۥ فِى ٱلۡأَخِرَةِ مِنۡ خَلَـٰقٍ۬ (٢٠٠) وَمِنۡهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَآ ءَاتِنَا فِى ٱلدُّنۡيَا حَسَنَةً۬ وَفِى ٱلۡأَخِرَةِ حَسَنَةً۬ وَقِنَا عَذَابَ ٱلنَّارِ (٢٠١) أُوْلَـٰٓٮِٕكَ لَهُمۡ نَصِيبٌ۬ مِّمَّا كَسَبُواْ‌ۚ وَٱللَّهُ سَرِيعُ ٱلۡحِسَابِ (٢٠٢) سورہ البقرہ

"پھر جب تم اپنے حج کے کام پورے کر چکو تو الله کا اس طرح ذکر کرو جیسے تم اپنے باپ دادوں کا ذکر کیا کرتے ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ ذکر کرو۔ اب بعض لوگ تو وہ ہیں جو (دعا میں بس) یہ کہتے ہیں کہ: "اے ہمارے پروردگار! دے ہم کو دنیا میں" اور آخرت میں ان کا کوئ حصّہ نہیں ہوتا۔ اور انہی میں سے وہ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ: "اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائ عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائ، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے اعمال کی کمائ کا حصّہ (ثواب) کی صورت میں ملے گا، اور الله جلد حساب لینے والا ہے۔" (سورہ البقرہ: ۲۰۰۔۲۰۲)

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ

Monday 6 February 2017

حصّہ دوئم

"اس کے علاوہ (یہ بات بھی یاد رکھو) کہ تم اسی جگہ سے روانہ ہو جہاں سے عام لوگ روانہ ہوتے ہیں۔ اور اللہ سے مغفرت مانگو۔ بیشک الله بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔" (سورہ البقرہ:۱۹۹) -

اس ارشادِ قرآنی سے اصولِ معاشرت کی ایک اہم بات یہ معلوم ہوئ کہ رہن سہن اور قیام و مقام میں بڑوں کو چاہئے کہ چھوٹوں سے الگ ممتاز ہو کر نہ رہیں بلکہ مل جل کر رہیں۔ اس سے باہمی اخوّت و ہمدردی اور محبّت و تعلّق پیدا ہوتا ہے اور امیر و غریب کی تفریق مٹتی ہے۔ رسول الله ﷺ نے اپنے آخری حج کے خطبے میں اس کو خوب واضح کر کے ارشاد فرمایا کہ کسی عربی کو عجمی پر، یا گورے کو کالے پر، کوئ فضیلت نہیں۔ فضیلت کا مدار تقوٰی اور اطاعتِ خداوندی پر ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ

ثُمَّ أَفِيضُواْ مِنۡ حَيۡثُ أَفَاضَ ٱلنَّاسُ وَٱسۡتَغۡفِرُواْ ٱللَّهَ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ۬ رَّحِيمٌ۬ O (سورہ البقر:۱۹۹)

حصّہ اوّل

"اس کے علاوہ (یہ بات بھی یاد رکھو) کہ تم اسی جگہ سے روانہ ہو جہاں سے عام لوگ روانہ ہوتے ہیں۔ اور اللہ سے مغفرت مانگو۔ بیشک الله بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔" (سورہ البقرہ:۱۹۹)

اس جملے کا شانِ نزول یہ ہے کہ قریشِ عرب جو بیت الله کے محافظ و مجاور تھے اور سارے عرب میں ان کا اقتدار مسلّم تھا اور ان کی ایک ممتاز حیثیت تھی، زمانہٴ جاہلیت میں وہ اپنی امتیازی شان بنانے کے لئے یہ حرکت کرتے تھے کہ اور سب لوگ تو عرفات کو جاتے اور وہاں وقوف کر کے واپس آتے تھے، جبکہ یہ لوگ راستہ میں مزدلفہ کے اندر ہی ٹھہر جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم چونکہ بیت الله اور حرم کے مجاور ہیں اس لئے حدودِ حرم سے باہر جانا ہمارے لئے مناسب نہیں، (مزدلفہ حدودِ حرم کے اندر ہے اور عرفات اس سے باہر) اور وہیں سے واپس آ جاتے تھے۔ اصل وجہ اس حیلے بہانے کی اپنا فخر و غرور اور عام لوگوں سے ممتاز ہو کر رہنا تھا۔ حق تعالیٰ کے اس فرمان نے ان کی غلط کاری واضح فرما دی اور ان کو حکم دیا کہ تم بھی وہیں جاؤ جہاں سب لوگ جاتے ہیں، یعنی عرفات میں، اور پھر وہیں سے سب کے ساتھ واپس آؤ۔ 

اوّل تو عام انسانوں سے اپنے آپ کو ممتاز کر کے رکھنا خود ایک متکّبرانہ فعل ہے جس سے ہمیشہ ہی پرہیز لازم ہے، خصوصاً حج کے ایّام میں جہاں لباسِ احرام اور پھر قیام و مقام کی یکسانیت کے ذریعے اسی کا سبق دینا ہے کہ انسان سب برابر ہیں، امیر و غریب یا عالم و جاہل یا بڑے چھوٹے کا یہاں کوئ امتیاز نہیں۔ حالتِ احرام میں یہ امتیازی شان بنانا اور بھی بڑا جرم ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع ؒ


Sunday 5 February 2017

اختلاف بین المسلمین۔ حصّہ ہشتم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

ہم مسلمانوں میں اختلاف کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کوئ مسلمان اصلاح کا جھنڈا لے کر کھڑا ہوتا ہے تو تقریباً ہمیشہ اس کا مقصد دوسروں کی اصلاح کرنا ہوتا ہے۔ ایسا کبھی سننے میں نہیں آتا کہ کوئ اصلاح کا داعی یہ کہے کہ مجھ میں بہت سی خرابیاں ہیں، میں بہت سے گناہوں میں مبتلا ہوں، آج سے میں اپنی اصلاح کا اور اپنے گناہوں کو چھوڑنے کا کام شروع کرنا چاہتا ہوں۔ چونکہ دوسرے تمام لوگ بھی اسی طرح سوچتے ہیں اس لئے جب وہ اس کی نہیں سنتے اور اپنے بجائے دوسروں کی اصلاح کی فکر کرتے رہتے ہیں تو اختلافِ رائے شروع ہو جاتا ہے۔

میرے ایک عزیز دوست نے حال میں بعض دفعہ کافی سختی سے کسی دوسرے کے بارے میں تنقیدی رائے ظاہر کی کہ فلاں ایسا کیوں کرتا ہے، اور کیا اس کو پتہ نہیں کہ ایسا کرنا غلط ہے۔ خادم نے سنتے سنتے جان کی امان مانگ کر پوچھا کہ یہ بتائیے کہ وہ اگر ایسا کرتا بھی ہے اور غلط بھی ہے، تو کیا اس بات کا کوئ امکان ہے کہ جب اس کا انتقال ہو جائے تو آپ کو اس کی قبر میں جانا پڑے اور اس کا حساب کتاب دینا پڑے؟ ظاہر ہے ان کا جواب نفی میں تھا۔ میں نے پھر پوچھا، اس بات کا کوئ امکان کہ جب آپ کا انتقال ہو تو وہ شخص آپ کی قبر میں چلا جائے اور آپ کے اعمال کا حساب کتاب دینے لگے؟ انہوں نے نے پھر کہا، نہیں۔ میں نے عرض کیا، جب آپ نے اس کا حساب کتاب نہیں دینا، اس نے آپ کا حساب کتاب نہیں دینا، ہم سب نے اپنی اپنی قبر میں جانا ہے اور زندگی میں جو کچھ بھی اچھے برے اعمال کئے ہیں ان سب کا حساب کتاب دینا ہے تو پھر اس بات کی فکر کرنے کا وقت ہی کہاں کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں؟ نہ جانے کس لمحے ہمارا وقت آ جائے اور آنکھیں بند ہو جائیں؟ اس وقت تک انسان سارا وقت اسی فکر میں کیوں نہ صرف کرے کہ میں جو کچھ اعمال کر رہا ہوں ان میں کتنے سے الله تعالیٰ راضی ہوں گے، کتنے سے ناراض ہوں گے، اور کیسے میں ان کو ناراض کرنے والے اعمال کو چھوڑوں؟

بہادر شاہ ظفر مرحوم نے اس بارے میں بہت ہی اچھا شعر کہا ہے کہ

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئ برا نہ رہا

حق بات یہی ہے کہ دوسروں کی برائیوں پر اسی وقت تک نظر پڑتی ہے جب تک اپنی برائیوں پر نہیں پڑتی۔ جس دن اپنی برائیوں پر نظر پڑنا شروع ہو جائے دوسروں کی سب برائیاں آنکھ سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔

جاری ہے۔۔۔

Saturday 4 February 2017

...فَإِذَآ أَفَضۡتُم مِّنۡ عَرَفَـٰتٍ۬ فَٱذۡڪُرُواْ ٱللَّهَ عِندَ ٱلۡمَشۡعَرِ ٱلۡحَرَامِ‌ۖ وَٱذۡڪُرُوهُ كَمَا هَدَٮٰڪُمۡ وَإِن ڪُنتُم مِّن قَبۡلِهِۦ لَمِنَ ٱلضَّآلِّينَ )O (سورہ البقرہ:۱۹۸)

"۔۔۔پھر جب تم عرفات سے روانہ ہو تو مشعرِ حرام کے پاس (جو مزدلفہ میں واقع ہے) الله کا ذکر کرو، اور اس کا ذکر اسی طرح کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت کی ہے، جبکہ اس سے پہلے تم بالکل ناواقف تھے۔" (سورہ البقرہ:۱۹۸)

مشعرِ حرام ایک پہاڑ کا نام ہے جو جو مزدلفہ میں واقع ہے۔ مشعرِ حرام کے پاس الله تعالیٰ کو یاد کرنا اگرچہ ہر طرح کے ذکر الله کو شامل ہے مگر عرفہ کے روز عرفات سے واپس آتے ہوئے مغرب و عشاء دونوں نمازوں کو ایک ساتھ ملا کر مزدلفہ میں پڑھنا واجب ہے۔ اس آیت کے جملے "واذکروہ کما ھدںکم" میں شاید اسی طرف اشارہ ہے کہ الله تعالیٰ نے اپنی یاد اور ذکر کے لئے جو طریقہ بتلایا ہے اسی طرح اس کو یاد کرو، اپنی رائے اور قیاس کو اس میں دخل نہ دو، کیونکہ بظاہر عقل کا تقاضہ تو یہ تھا کہ مغرب کی نماز مغرب کے وقت میں پڑھی جاتی اور عشاء عشاء کے وقت میں، لیکن اس روز اس مقام پر الله تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ مغرب کی نماز موٴخّر کی جائے اور اس کو عشاٴ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے۔

اسی ارشادِ قرآنی سے ایک اور اصولی مسئلہ بھی نکل آیا کہ الله تعالیٰ کی عبادت میں انسان خود مختار نہیں کہ جب چاہے جس طرح چاہے، الله تعالیٰ کی عبادت کرے، بلکہ الله تعالیٰ کی عبادت کے جو خاص آداب الله تعالیٰ اور رسول الله ﷺ نے بتلا دیے ہیں ان کے مطابق ہی ان اعمال کو ادا کرنا اصل عبادت ہے۔ ان اعمال میں اپنی مرضی سے کمی و بیشی کرنا یا ان کو مقدّم و موٴخّر کرنا، چاہے ان میں اعمال کی زیادتی ہی ہو، وہ الله تعالیٰ کو پسند نہیں۔ نفلی عبادات اور صدقہ و خیرات وغیرہا میں جو لوگ بلا دلیلِ شرعی اپنی طرف سے کچھ خصوصیات اور اضافے کر لیتے ہیں، ان کی پابندی کو ضروری سمجھ لیتے ہیں، اور ان افعال کے نہ کرنے والوں کو خطا وار اور گناہگار سمجھنے لگتے ہیں، حالانکہ الله اور اس کے رسول ﷺ نے ان اعمال کو ضروری قرار نہیں دیا، اس آیت نے ان کی غلطی کو واضح کر دیا کہ اصل عبادت وہی ہے جو الله تعالیٰ اور رسول الله ﷺ کے احکام کے مطابق کی جائے، ورنہ وہ عبادت نہیں محض اپنے نفس کا خوش کرنا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ

اختلاف بین المسلمین۔ حصّہ ہفتم

ہر عمل کو اس کے درجے پہ رکھنا

جن اعمال کا کرنا جائز ہے، یا جن کے کرنے سے ثواب ملتا ہے شریعت میں ان کے مختلف درجات ہیں۔ جس عمل کے کرنے کا الله تعالی یا رسول الله ﷺ نے واضح حکم دیا ہے اسے فرض کہتے ہیں، مثلاً نماز پڑھنا یا زکوٰة دینا۔ جس عمل کا براہِ راست حکم تو نہیں دیا گیا لیکن جب رسول الله ﷺ کے سامنے اس کے کرنے کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے اس کی تصویب فرمائ، یا جب اس کے نہیں کرنے کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے اس پہ ناراضگی کا اظہار فرمایا اسے واجب کہتے ہیں۔ جن اعمال کے کرنے کا براہِ راست حکم نہیں آیا لیکن رسول الله ﷺ سے ان کا کرنا ثابت ہے انہیں سنّت کہتے ہیں۔ جو اعمال رسول الله ﷺ نے ہمیشہ پابندی سے ادا فرمائے انہیں سنّتِ موٴکدہ کہا جاتا ہے۔ یہ واجب کے قریب ہیں۔ جو اعمال رسول الله نے کبھی کیے، کبھی نہیں کیے انہیں سنّتِ غیر موٴکدہ کہتے ہیں۔ یہ نفل کے قریب ہیں۔ جن اعمال کے کرنے سے ثواب ،ملتا ہے لیکن نہ کرنے سے گناہ نہیں ملتا انہیں مستحب یا نفل کہتے ہیں۔ اور جن اعمال کے کرنے سے نہ ثواب ہوتا ہے، نہ گناہ ہوتا ہے ان کو مباح کہتے ہیں۔

دین میں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ انسان ہر عمل کو اس کے درجے پہ رکھے، نہ اس سے بڑھائے اور نہ گھٹائے، کیونکہ ہر درجے کے عمل کے احکام مختلف ہیں۔ مثلاً اگر کوئ فرض نماز نہ پڑھتا ہو تو جس کا اس پہ اثر ہو مثلاً والدین ان کے لئے اس پہ زور دینا بلکہ سختی کرنا بھی جائز ہے۔ لیکن نفل عبادات کے لئے کسی پہ دباؤ ڈالنا اور ان کے نہ پڑھنے پہ اس کو گناہ گار یا کافر قرار دے دینا شرعاً صحیح نہیں۔ اسی طرح تبلیغ ایک ایسا عمل ہے جس کا بے انتہا ثواب ہے۔ اگر کسی قوم تک الله کا پیغام بالکل ہی نہ پہنچا ہو تو ان کو تبلیغ کرنا فرض ہے۔ لیکن اگر کوئ شخص ایسا ہو جس تک الله کا پیغام پہنچ چکا ہو اور یہ پتا ہو کہ اگر اس کو مزید تبلیغ کی گئ تو اس کے منہ سے انکار اور گستاخی کے اور کفریہ کلمات نکلیں گے، ایسی صورت میں یہ جانتے بوجھتے اس کو تبلیغ کرنا جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں اصرار کرنے والا بھی گناہ گار ہو گا۔

مسلمانوں کے باہمی اختلافات کا ایک بہت بڑا سبب اعمال کو ان کے درجے سے بڑھانا، غیر لازمی اعمال کو ضروری سمجھنے لگنا، اور پھر دوسروں سے ان کے کرنے پہ اصرار کرنا، اور ان کے نہ کرنے پہ ان کو گناہگار یا کافر سمجھنے لگنا ہے۔ اور تقریباً یہ ہمیشہ ان ہی اعمال کے بارے میں ہوتا ہے جو فرض و واجب نہیں ہوتے۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کہ اس بات پہ اختلاف ہوا ہو کہ روز چھ نمازیں پڑھنی چاہیئیں، یا مغرب کی نماز میں چار رکعتیں ہونی چاہیئیں۔ یہ اختلاف ہوتا ہی ان اعمال کے بارے میں ہے جو زیادہ سے زیادہ مستحب یا مباح کے درجے میں ہوتے ہیں، لیکن بعض لوگ اپنے جذباتی پن کے باعث ان کو ضروری سمجھنے لگتے ہیں اور دوسروں سے بھی اصرار کرنے لگتے ہیں۔

مسلمانوں کے بعض بڑے بڑے فرقوں میں وجہٴ اختلاف اسی طرح کے فروعی اختلافات ہیں۔ اگر مسلمان اتنا دینی علم حاصل کرنے لگیں کہ کونسا عمل کس درجے میں ہے اور کن اعمال پہ اصرار کرنا جائز ہے اور کن پہ نہیں، تو ان کے بہت سے اندرونی اختلافات کم ہو جائیں۔

جاری ہے۔۔۔

Friday 3 February 2017

۔۔۔وَتَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَيۡرَ ٱلزَّادِ ٱلتَّقۡوَىٰ‌ۚ۔۔۔O (سورہ البقرہ:۱۹۷)

"اور (حج کے سفر میں ) زادِ راہ ساتھ لے جایا کرو، کیونکہ بہترین زادِراہ تقوٰی ہے۔" (سورہ البقرہ:۱۹۷)

اس آیت میں ان لوگوں کی اصلاح ہے جو حجِ عمرہ کے لئے بے سرو سامانی کے ساتھ نکل کھڑے ہوتے ہیں، اور دعوٰی یہ کرتے ہیں کہ ہم الله پر توکٰل کرتے ہیں۔ پھر راستہ میں دوسروں سے مانگنا پڑتا ہے، خود بھی تکلیف اٹھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ ان کی ہدایت کے لئے حکم ہوا کہ سفرِ حج کے لئے ضروریاتِ سفر ساتھ لینا چاہئے، یہ توکّل کے منافی نہیں۔ بلکہ توکّل کی حقیقت یہی ہے کہ الله تعالیٰ کے دیے ہوئے اسباب و وسائل کو اپنے مقدور کے مطابق حاصل اور جمع کرے، پھر الله پر توکّل کرے۔ رسول الله ﷺ سے توکّل کی یہی تفسیر منقول ہے۔ بالکل ترکِ اسباب کا نام توکّل رکھنا جہالت ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ

Thursday 2 February 2017

اختلاف بین المسلمین۔ حصّہ ششم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

اختلافات بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں ایک انسان صحیح ہوتا ہے اور ایک غلط، لیکن اس اختلاف کو نبھانے کا طریقہ بھی سیکھنا پڑتا ہے۔ ایک عالمِ دین تھے جنہوں نے مولانا اشرف علی تھانویؒ کے بارے میں کفر کا فتوٰی دیا تھا۔ جب ان عالم کے انتقال کی خبر حضرت تھانویؒ کے پاس آئ تو انہوں نے اس خبر کو سنتے ہی دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیے اور مغفرت کی دعا کی۔ جو لوگ پاس بیٹھے ہوئے تھے وہ بہت حیران ہوئے اور انہوں نے پوچھا کہ حضرت وہ ساری عمر آپ کو کافر کہتے رہے اور آپ ان کی مغفرت کی دعا کر رہے ہیں؟ حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ بھئ یہ بات صحیح ہے کہ وہ ساری عمر مجھے کافر کہتے رہے، لیکن میں یہ سوچتا ہوں کہ مرنے کے بعد جب الله تعالیٰ کے سامنے حاضری ہو گی اگر اس وقت الله تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ تمہیں کافر تو کہتے رہے اور غلط کہتے رہے، لیکن وہ جو کہتے تھے ہمارے رسول کی محبّت میں کہتے تھے اس لیے ہم نے انہیں معاف کیا، تو اس وقت میرے پاس کہنے کے لئے کیا ہوگا۔


اسی طرح جن لوگوں نے پاکستان کی آزادی کی تاریخ پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ مولانا اشرف علی تھانویؒ اور مولانا محمود الحسنؒ کے درمیان اس بات پہ اختلاف تھا کہ مسلمانوں کے لئے کون سا راستہ اختیار کرنا بہتر ہے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ مسلمانوں کے لئے آزاد مملکت کے حامی تھے جبکہ مولانا محمود الحسن صاحب خلوصِ نیّت سے یہ سمجھتے تھے کہ سارے مسلمان تو پاکستان جا نہیں سکتے، اس لئے مسلمانوں کے لئے متّحدہ آزاد ہندوستان میں ایک ساتھ مل کر رہنا بہتر ہے۔ کسی نے مولانا محمود الحسن ؒ سے مولانا تھانویؒ کے بارے میں کہا کہ وہ تو آپ سے چھوٹے ہیں۔ آپ ان سے اس بارے میں گفتگو کیوں نہیں کر لیتے۔ شائد ان کی رائے بدل جائے؟ مولانا نے پہلے تو یہ فرمایا کہ رائے گفتگو سے نہیں بدلتی، حالات و واقعات سے بدلا کرتی ہے۔ پھر اس کے بعد سختی سے یہ فرمایا کہ میری ایک رائے ہے۔ اس کی بھی ایک رائے ہے۔ کیا مجھ پر وحی نازل ہوئ ہے کہ میری ہی رائے ٹھیک ہے؟ میں کیوں کسی پر اپنی رائے تبدیل کرنے کے لئے دباؤ ڈالوں؟
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہ عملاً کر کے دکھا دیا کہ اختلاف اور چیز ہے اور مخالفت اور چیز ہے۔ 

جاری ہے۔۔۔

Wednesday 1 February 2017

۔۔۔وَأَحۡسِنُوٓاْ‌ۛ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلۡمُحۡسِنِينَ O (سورہ البقرہ ۱۹۵)

"...اور نیکی اختیار کرو۔ بیشک الله نیکی کرنے والوں سے محبّت کرتا ہے۔"  (سورہ البقرہ:۱۹۵)

اس آیت میں ہر کام کو اچھی طرح کرنے کی ترغیب ہے، اور کام کو اچھی طرح کرنا، جس کو قرآن میں احسان کے لفظ سے تعبیر کیا ہے، دو طرح کا ہے، ایک عبادت میں، دوسرے آپس کے معاملات و معاشرت میں۔

عبادت میں احسان کی تفسیر حدیثِ جبرئیلؑ میں خود رسول الله ﷺ نے یہ فرمائ ہے کہ اس طرح عبادت کرو جیسے تم خدا کو دیکھ رہے ہو، اور اگر یہ درجہ حاصل نہ ہو تو کم از کم یہ تو اعتقاد لازم ہے کہ خدا تعالیٰ تمہیں دیکھ رہے ہیں۔

اور معاملات و معاشرت میں احسان کی تفسیر مسند احمد میں بروایتِ حضرت معاذ ؓ رسول کریم ﷺ نے یہ فرمائ ہے کہ تم سب لوگوں کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو، اور جس چیز کو تم اپنے لئے برا سمجھتے ہو وہ دوسروں کے لئے بھی برا سمجھو۔ (مظہری)

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف محمد شفیع ؒ

وَأَنفِقُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا تُلۡقُواْ بِأَيۡدِيكُمۡ إِلَى ٱلتَّہۡلُكَةِ‌ۛ ۔۔۔O (سورة البقرہ:۱۹۵)

"اور الله کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود ہلاکت میں نہ ڈالو۔۔۔ " (سورہ البقرہ:۱۹۵)

اس آیت میں جو اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے، اس بارے میں حضرات ِ مفسّرین کے اقوال مختلف ہیں۔

حضرت ابو ایّوب انصاری ؓ نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ جب الله تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ اور قوّت عطا فرما دیا تو ہم میں یہ گفتگو ہوئ کہ اب جہاد کی کیا ضرورت ہے۔ ہم اپنے وطن میں ٹھہر کر اپنے مال و جائداد کی خبر گیری کریں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئ جس نے یہ بتلا دیا کہ ہلاکت سے مراد اس جگہ ترکِ جہاد ہے، اور اس سے ثابت ہوا کہ ترکِ جہاد مسلمانوں کی ہلاکت و بربادی کا سبب ہے۔ اسی لئے حضرت ابو ایّوب انصاری ؓ نے عمر بھر جہاد میں صرف کر دی، یہاں تک کہ آخر میں قسطنطنیہ میں وفات پا کر وہیں مدفون ہوئے۔

حضرت براء بن عازب ؓ نے فرمایا کہ گناہوں کی وجہ سے الله کی رحمت اور مغفرت سے مایوس ہو جانا اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈالنا ہے، اس لئے مغفرت سے مایوس ہونا حرام ہے۔

بعض حضرات نے فرمایا کہ الله کی راہ میں مال خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرنا کہ بیوی بچّوں کے حقوق ضائع ہو جائیں، یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ ایسا اسراف جائز نہیں۔

بعض حضرات نے فرمایا کہ ایسی صورت میں قتال کے لئے اقدام کرنا اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے جبکہ یہ اندازہ ظاہر ہے کہ دشمن کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، خود ہلاک ہو جائیں گے۔ ایسی صورت میں اقدامِ قتال اس آیت کی بناء پر ناجائز ہے۔

اور جصاص ؒ کے فرمانے کے مطابق یہ سب ہی احکام اس آیت سے مستفاد ہوتے ہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ