Saturday 31 December 2016

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ٱتَّبِعُواْ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ قَالُواْ بَلۡ نَتَّبِعُ مَآ أَلۡفَيۡنَا عَلَيۡهِ ءَابَآءَنَآ‌ۗ أَوَلَوۡ كَانَ ءَابَآؤُهُمۡ لَا يَعۡقِلُونَ شَيۡـًٔ۬ا وَلَا يَهۡتَدُونَ O (سورة البقرة:۱۷۰)

"اور جب ان (کافروں) سے کہا جاتا ہے کہ اس کلام کی پیروی کرو جو الله نے اتارا ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں! ہم تو ان باتوں کی پیروی کریں گے جن پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے۔ بھلا کیا اس صورت میں  بھی جب ان کے باپ دادے ذرا بھی سمجھ نہ رکھتے ہوں، اور انہوں نے کوئ ہدایت بھی حاصل نہ کی ہو؟" (سورة البقرة:۱۷۰)

اس آیت سے جس طرح باپ دادوں کی اندھی تقلید و اتّباع کی مذمّت ثابت ہوئ اسی طرح جائز تقلید و اتّباع کے شرائط اور ایک ضابطہ بھی معلوم ہو گیا جس کی طرف دو لفظوں میں اشارہ فرمایا ہے لَا يَعۡقِلُونَ اور لَا يَهۡتَدُونَ، کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ ان آباؤ اجداد کی تقلید کو اس لئے منع کیا گیا ہے کہ انہیں نہ عقل تھی اور نہ ہدایت۔ ہدایت سے مراد وہ احکام ہیں جو الله تعالیٰ کی طرف سے صریح طور پر نازل کئے گئے، اور عقل سے مراد وہ جو بذریعہ اجتہاد نصوصِ شرعیہ سے استنباط کئے گئے۔ تو وجہ ان کے اتّباع و تقلید کے عدم جواز کی یہ ہوئی کہ نہ ان کے پاس الله تعالیٰ کی طرف سے نازل کئے ہوئے احکام ہیں اور نہ اس کی صلاحیت کہ الله تعالیٰ کے فرمان سے احکام نکال سکیں۔ اس میں اشارہ پایا گیا کہ جس عالم کے متعلّق یہ اطمینان ہو جائے کہ اس کے پاس قرآن و سّت کا علم ہے، اور اس کو درجہٴ اجتہاد بھی حاصل ہے کہ جو احکام قرآن و سنّت میں صراحتہًً نہ ہوں ان کو نصوص، قرآن و سنّت سے بذریعہ قیاس نکال سکتا ہے، تو ایسے عالم مجتہد کی تقلید و اتّباع جائز ہے۔ یہ اس لئے نہیں کہ اس کا حکم ماننا مقصود ہے، بلکہ حکم تو الله ہی کا ماننا مقصود ہے لیکن جس انسان کے پاس نہ الله کے احکام کا براہِ راست علم ہو، اور نہ ہی اس میں اس بات کی اہلیت ہو کہ الله تعالیٰ کے کلام سے خود احکامات نکال سکے، اس کے پاس سوائے کسی معتبر عالم مجتہد کے اتّباع کے اور چارہ ہی کیا ہے۔ 

امام قرطبیؒ نے اسی آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اس آیت میں آباء کی تقلید کے ممنوع ہونے کا جو ذکر ہے اس سے مراد باطل عقائد و اعمال میں آباء و اجداد کی تقلید کرنا ہے۔ صحیح عقائد اور اعمال ِِ صالحہ میں تقلید کی ممانعت اس آیت کے مفہوم میں داخل نہیں، جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے کلام میں ان دونوں باتوں کی وضاحت سورہٴ یوسف میں اس طرح آئ ہے:

إِنِّى تَرَكۡتُ مِلَّةَ قَوۡمٍ۬ لَّا يُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ وَهُم بِٱلۡأَخِرَةِ هُمۡ كَـٰفِرُونَ O وَٱتَّبَعۡتُ مِلَّةَ ءَابَآءِىٓ إِبۡرَٲهِيمَ وَإِسۡحَـٰقَ وَيَعۡقُوبَ‌ۚ
"میں نے ان لوگوں کی ملّت و مذہب کو چھوڑ دیا جو الله پر ایمان نہیں رکھتے، اور جو آخرت کے منکر ہیں، اور میں نے اتّباع کیا اپنے آباء ابراہیمؑ، اسحٰقؑ اور یعقوبؑ کا "

اس میں پوری وضاحت سے ثابت ہو گیا کہ آباء کی تقلید باطل میں حرام ہے لیکن حق میں جائز بلکہ مستحسن ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

Friday 30 December 2016

گناہ کا اندیشہ عزم کے منافی نہیں

ایک دفعہ بابا نجم احسن صاحبؒ توبہ پر بیان فرما رہے تھے۔ ایک آزاد منش نوجوان اس مجلس میں آگیا۔ بابا صاحب اس نوجوان سے فرمانے لگے کہ میاں! لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ دین بڑا مشکل ہے۔ ارے یہ دین کچھ بھی مشکل نہیں۔ بس رات کو بیٹھ کر الله تعالیٰ سے توبہ کر لیا کرو۔ بس یہی سارا دین ہے۔ 

جب وہ نوجوان چلا گیا تو میں (مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم) نے کہا کہ حضرت! یہ توبہ واقعی بڑی عجیب و غریب چیز ہے۔ لیکن دل میں ایک سوال رہتا ہے جس کی وجہ سے بے چینی رہتی ہے۔ فرمانے لگے کہ کیا؟ میں نے کہا کہ حضرت! توبہ کی تین شرطیں ہیں۔ ایک یہ دل میں ندامت ہو۔ دوسرے یہ کہ فوراً اس گناہ کو چھوڑ دے۔ تیسرے یہ کہ آئندہ کے لئے عزم کر لے کہ آئندہ یہ گناہ کبھی نہیں کروں گا۔ ان میں سے پہلی دو باتوں پر تو عمل کرنا آسان ہے کہ گناہ پر ندامت بھی ہو جاتی ہے اور اس گناہ کو اس وقت چھوڑ بھی دیا جاتا ہے۔ لیکن تیسری شرط یہ کہ پختہ عزم کرنا کہ آئندہ یہ گناہ نہیں کروں گا، یہ بڑا مشکل معلوم ہوتا ہے اور پتہ نہیں چلتا کہ یہ پختہ عزم صحیح ہوا کہ نہیں۔ اور جب عزم صحیح نہیں ہوا تو توبہ بھی صحیح نہیں ہوئ، اور جب توبہ صحیح نہیں ہوئ تو اس گناہ کے باقی رہنے اور اس کے معاف نہ ہونے کی پریشانی رہتی ہے۔ 

جواب میں حضرت بابا نجم احسنؒ نے فرمایا، "جاؤ میاں، تم تو عزم کا مطلب بھی نہیں سمجھتے۔ عزم کا مطلب یہ ہے کہ اپنی طرف سے یہ ارادہ کر لو کہ آئندہ یہ گناہ نہیں کروں گا۔ اب اگر یہ ارادہ کرتے وقت دل میں یہ دھڑکہ اور اندیشہ لگا ہوا ہے کہ پتہ نہیں، میں اس عزم پر ثابت قدم رہ سکوں گا یا نہیں، تو یہ اندیشہ اور دھڑکہ اس عزم کے منافی نہیں، اور اس اندیشے اور خطرے کی وجہ سے توبہ میں کوئ نقص نہیں آتا، بشرطیکہ اپنی طرف سے پختہ ارادہ کر لیا ہو۔ اور دل میں یہ جو خطرہ لگا ہوا ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ توبہ کے ساتھ ساتھ الله تعالیٰ سے دعا کر لو کہ یا الله میں توبہ تو کر رہا ہوں۔ اور آئندہ نہ کرنے کا عزم تو کر رہا ہوں۔ لیکن میں کیا اور میرا عزم کیا؟ میں کمزور ہوں۔ معلوم نہیں کہ اس عزم پر ثابت قدم رہ سکوں گا کہ نہیں. یاالله آپ ہی مجھے اس عزم پر ثابت قدم فرما دیجئے۔ آپ ہی مجھے استقامت عطا فرمائیے۔ جب یہ دعا کر لی تو انشاٴالله وہ خطره اور اندیشہ زائل ہو جائے گا۔"

ماخوذ از بیان "توبہ: گناہوں کا تریاق"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Wednesday 28 December 2016

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِى ٱلۡأَرۡضِ حَلَـٰلاً۬ طَيِّبً۬ا وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٲتِ ٱلشَّيۡطَـٰنِ‌ۚ إِنَّهُ ۥ لَكُمۡ عَدُوٌّ۬ مُّبِينٌ O إِنَّمَا يَأۡمُرُكُم بِٱلسُّوٓءِ وَٱلۡفَحۡشَآءِ وَأَن تَقُولُواْ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعۡلَمُونَ O (سورة البقرة:۱۶۸۔۱۶۹)

"اے لوگو! زمین میں جو حلال پاکیزہ چیزیں ہیں وہ کھاؤ، اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ یقین جانو کہ وہ تمہارے لئے ایک کھلا ہوا دشمن ہے۔ وہ تو تم کو یہی حکم دے گا کہ تم بدی اور بے حیائ کے کام کرو اور الله کے ذمے وہ باتیں لگاؤ جن کا تمہیں علم نہیں ہے۔ (سورة البقرة: ۱۶۸۔۱۶۹)

(مشرکینِ عرب کی ایک گمراہی یہ تھی کہ انہوں نے کسی آسمانی تعلیم کے بغیر مختلف چیزوں کے بارے میں حلال و حرام کے فیصلے خود گھڑ رکھے تھے۔ مثلاً مردار جانور کو کھانا ان کے نزدیک جائز تھا، مگر بہت سے حلال جانوروں کو انہوں نے اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا۔ یہ آیات ان کی اسی گمراہی کی تردید میں نازل ہوئ ہیں۔) 

لفظ "حلَّ " کے اصلی معنی گرہ کھولنے کے ہیں۔ جو چیز انسان کے لئے حلال کر دی گئ گویا ایک گرہ کھول دی گئ اور پابندی ہٹا دی گئ۔ حضرت سہل بن عبدالله ؓ فرماتے ہیں کہ نجات تین چیزوں میں منحصر ہے، ۱۔ حلال کھانا، ۲۔ فرائض ادا کرنا، ۳۔ رسول الله ﷺ کی سنّت کا اتّباع کرنا۔

لفظ "طیّب" کے معنی ہیں پاکیزہ جس میں شرعی حلال ہونا بھی داخل ہے اور طبعی مرغوب ہونا بھی۔ 

"ٱلسُّوٓءِ وَٱلۡفَحۡشَآءِ"، "سوء" وہ چیز جس کو دیکھ کر عقلمند و شریف آدمی کو دکھ ہو۔ "فحشاء" ، بے حیائ کا کام۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ اس جگہ سوء سے مراد مطلق معصیت اور فحشاء سے مراد کبیرہ گناہ ہے۔ 

"إِنَّمَا يَأۡمُرُكُم" شیطان کے امر اور حکم کرنے سے مراد دل میں وسوسہ ڈالنا ہے، جیسا کہ حضرت عبدالله بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ آدم کے بیٹے کے قلب میں ایک شیطانی الہام و اثر ہوتا ہے اور دوسرا فرشتہ کی جانب سے۔ شیطانی وسوسہ کا اثر یہ ہوتا ہے کہ برے کام کرنے کے فوائد اور مصالح سامنے آتے ہیں، اور حق کو جھٹلانے کی  راہیں کھلتی ہیں، اور الہام ِ فرشتہ کا اثر خیر اور نیکی پر انعام و فلاح کے وعدے اور حق کی تصدیق پر قلب کا مطمئن ہونا ہوتا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

وَإِلَـٰهُكُمۡ إِلَـٰهٌ۬ وَٲحِدٌ۬‌ۖ لَّآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلرَّحۡمَـٰنُ ٱلرَّحِيمُ (سورة البقرة:۱۶۳)

"تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے۔ اس کے سوا کوئ خدا نہیں، جو سب پر مہربان، بہت مہربان ہے۔" (سورة البقرة:۱۶۳)

الله تعالیٰ کی توحید متعدّد اور مختلف حیثیتوں سے ثابت ہے۔

پہلے یہ کہ وہ ایک ہے، یعنی کائنات میں کوئ اس کی نظیر و شبیہ نہیں، نہ اس کا ہمسر و برابر ہے۔

دوسرے یہ کہ وہ ایک ہے استحقاقِ عبادت میں، یعنی اس کے سوا کوئ عبادت کا مستحق نہیں۔

تیسرے یہ کہ وہ ایک ہے یعنی ذی اجزاء نہیں، وہ اجزاء و اعضاء سے پاک ہے۔ نہ اس کی تقسیم ہو سکتی ہے۔

چوتھے یہ کہ وہ ایک ہے، یعنی اپنے وجود ازلی ابدی میں ایک ہے۔ وہ اس وقت بھی موجود تھا جب کوئ چیز موجود نہ تھی، اور اس وقت بھی موجود رہے گا جب کوئ چیز موجود نہ رہے گی، اس لئے وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کو واحد کہا جائے۔  لفظ واحد میں یہ تمام حیثیتیں توحید کی ملحوظ ہیں۔ (جصاص)

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Tuesday 27 December 2016

نَّ فِى خَلۡقِ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَٱخۡتِلَـٰفِ ٱلَّيۡلِ وَٱلنَّهَارِ وَٱلۡفُلۡكِ ٱلَّتِى تَجۡرِى فِى ٱلۡبَحۡرِ بِمَا يَنفَعُ ٱلنَّاسَ وَمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مِن مَّآءٍ۬ فَأَحۡيَا بِهِ ٱلۡأَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَبَثَّ فِيہَا مِن ڪُلِّ دَآبَّةٍ۬ وَتَصۡرِيفِ ٱلرِّيَـٰحِ وَٱلسَّحَابِ ٱلۡمُسَخَّرِ بَيۡنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلۡأَرۡضِ لَأَيَـٰتٍ۬ لِّقَوۡمٍ۬ يَعۡقِلُونَ . (سورة البقرة:۱۶۴)

"بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں، رات دن کے لگاتار آنے جانے میں، ان کشتیوں میں جو لوگوں کے فائدے کا سامان لے کر سمندر میں تیرتی ہیں، اس پانی میں جو الله نے آسمان سے اتارا اور اس کے ذریعے زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندگی بخشی  اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیے، اور ہواؤں کی گردش میں، اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابعدار بن کر کام میں لگے ہوئے ہیں، ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہی نشانیاں ہیں جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں۔" (سورة البقرة:۱۶۴)

الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ کائنات کے ان حقائق کی طرف توجّہ دلائ ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے پھیلے پڑے ہیں، اور اگر ان پر معقولیت کے ساتھ غور کیا جائےتو وہ الله تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید پر دلالت کرتے ہیں۔ آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات جس طرح کام کر رہی ہیں، چاند اور سورج جس طرح ایک لگے بندھے نظام الاوقات کے تحت دن رات سفر میں ہیں، سمندر جس طرح نہ صرف پانی کا ذخیرہ کئے ہوئے ہے بلکہ کشتیوں کے ذریعے خشکی کے مختلف حصّوں کو جوڑے ہوئے ہے، اور ان کی ضرورت کا سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہا ہے، بادل اور ہوائیں جس انداز میں انسانوں کی زندگی کا سامان مہیّا کر رہے ہیں، ان سب چیزوں کے بارے میں شدید غفلت کے بغیر یہ سمجھنا ممکن نہیں ہے کہ یہ سب کچھ خود بخود کسی خالق کے بغیر ہو رہا ہے۔ 

ماخوذ از آسان ترجمہٴ قرآن، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Sunday 25 December 2016

"ٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَـٰبَتۡهُم مُّصِيبَةٌ۬ قَالُوٓاْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٲجِعُونَ " (سورة البقرة :۱۵۶)

"یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئ مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ "ہم سب الله ہی کے ہیں، اور ہم کو الله ہی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔" (سورة البقرة:۱۵۶)

اس جملے (ہم سب الله ہی کے ہیں اور ہم کو الله ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے) میں پہلے تو اس بات کا اظہار ہے کہ چونکہ ہم سب الله کی ملکیت میں ہیں اس لئے اسے ہمارے بارے میں ہر فیصلہ کرنے کا اختیار ہے، اور چونکہ ہم اس کے ہیں، اور کوئ بھی اپنی چیز کا برا نہیں چاہتا، اس لئے ہمارے بارے میں اس کا ہر فیصلہ خود ہماری مصلحت میں ہو گا، چاہے فی الحال ہمیں وہ مصلحت سمجھ میں نہ آ رہی ہو۔ دوسری طرف اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ایک دن ہمیں بھی الله تعالیٰ کے پاس  اسی جگہ جانا ہے جہاں ہمارا کوئ قریبی عزیز یا دوست گیا ہے، لہذا یہ جدائ عارضی ہے ہمیشہ کے لئے نہیں ہے۔ اور جب ہم اس کے پاس لوٹ کر جائیں گے تو ہمیں اس صدمے یا تکلیف پر انشاٴالله ثواب بھی ملنا ہے۔ جب یہ اعتقاد دل میں ہو تو اسی کا نام صبر ہے، خواہ اس کے ساتھ ساتھ بے اختیار آنسو بھی نکل رہے ہوں۔

ماخوذ از آسان ترجمہٴ قرآن، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

"انَّ ٱلَّذِينَ يَكۡتُمُونَ مَآ أَنزَلۡنَا مِنَ ٱلۡبَيِّنَـٰتِ وَٱلۡهُدَىٰ مِنۢ بَعۡدِ مَا بَيَّنَّـٰهُ لِلنَّاسِ فِى ٱلۡكِتَـٰبِ‌ۙ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ يَلۡعَنُہُمُ ٱللَّهُ وَيَلۡعَنُہُمُ ٱللَّـٰعِنُونَ ۔" (سورةالبقرة:۱۵۹)

"بیشک وہ لوگ جو ہماری نازل کی ہوئ روشن دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں، باوجودیکہ ہم انہیں کتاب میں کھول کھول کر لوگوں کے لئے بیان کر چکے ہیں، تو ایسے لوگوں پر الله بھی لعنت بھیجتا ہے اور دوسرے لعنت کرنے والے بھی لعنت بھیجتے ہیں۔" (سورة البقرة:۱۵۹)


اس آیت سے چند احکام حاصل ہوئے ہیں۔

اوّل یہ کہ جس علم کے اظہار اور پھیلانے کی ضرورت ہے اس کا چھپانا حرام ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:

"یعنی جو شخص دین کے کسی حکم کا علم رکھتا ہو اور اس سے وہ حکم دریافت کیا جائے اگر وہ اس کو چھپائے گا تو قیامت کے روز اس کے منہ میں الله تعالیٰ آگ کا لگام ڈالیں گے۔"

دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئ کہ جس کو خود صحیح علم حاصل نہیں اس کو مسائل و احکام بتانے کی جراٴت نہیں کرنا چاہیے۔

تیسرا مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ علم کو چھپانے کی یہ سخت وعید انہیں علوم و مسائل کے متعلّق ہے جو قرآن و سنّت میں واضح بیان کئے گئے ہیں۔ ایک حدیث میں رسول الله ﷺ نے فرمایا:

"یعنی حکمت کی بات کو ایسے لوگوں سے نہ روکو جو اس بات کے اہل ہوں۔ اگر تم نے ایسا کیا تو ان لوگوں پر ظلم ہو گا، اور جو اہل نہیں ہیں ان کے سامنے حکمت کی باتیں نہ رکھو، کیونکہ اس صورت میں اس حکمت پر ظلم ہو گا۔"

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیعؒ

Monday 19 December 2016

كَمَآ أَرۡسَلۡنَا فِيڪُمۡ رَسُولاً۬ مِّنڪُمۡ يَتۡلُواْ عَلَيۡكُمۡ ءَايَـٰتِنَا وَيُزَكِّيڪُمۡ وَيُعَلِّمُڪُمُ ٱلۡكِتَـٰبَ وَٱلۡحِڪۡمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمۡ تَكُونُواْ تَعۡلَمُونَ (سورة البقرة:۱۵۱)

"ہم نے تمہارے درمیان تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہارے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتا ہے، اور تمہیں پاکیزہ بناتا ہے، اور تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔"

حضرت ابراہیمؑ نے کعبے کی تعمیر کے وقت دو دعائیں کی تھیں: ایک یہ کہ ہماری نسل سے ایسی امّت پیدا فرمائیے جو آپ کی مکمّل فرماں بردار ہو۔ اور دوسری یہ کہ ان میں ایک رسول بھیجیے۔ الله تعالیٰ نے پہلی دعا اس طرح قبول فرمائ کہ امّتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا السلام) کو "معتدل امّت" قرار دے کر پیدا فرمایا۔ اس آیت میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری دعا قبول کرتے ہوئے رسول اکرم ﷺ کو تمہارے درمیان بھیج دیا ہے جو انہی خصوصیات اور فرائضِ منصبی کے حامل ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لئے مانگے تھے۔

ان میں سے پہلا فریضہ تلاوتِ آیات ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی آیات کو تلاوت کرنا بذاتِ خود ایک مقصد اور ایک نیکی ہے، خواہ وہ تلاوت بغیر سمجھے کی جائے، کیونکہ قرآن کے معنی کی تعلیم آگے ایک مستقل فریضے کے طور پر بیان کی گئ ہے۔ 

دوسرا مقصد قرآن کریم کی تعلیم ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم کے بغیر قرآن کریم کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا ممکن نہیں، اور یہ کہ صرف ترجمہ پڑھ لینے سے قرآن کریم کی صحیح سمجھ حاصل نہیں ہو سکتی، کیونکہ اہلِ عرب عربی زبان سے خوب واقف تھے، انہیں ترجمہ سکھانے کے لئے کسی استاد کی ضرورت نہیں تھی۔ 

آپ کا تیسرا فریضہ یہ بتایا گیا ہے کہ آپ حکمت کی تعلیم دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکمت، دانائ اور عقلمندی وہی ہے جو آنحضرت ﷺ نے تلقین فرمائ۔ اس سے نہ صرف آپ کی احادیث کا حجّت ہونا معلوم ہوتا ہےبلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر آپ کا کوئ حکم کسی کو اپنی عقل کے لحاظ سے حکمت کے خلاف محسوس ہو تو اعتبار اس کی عقل کا نہیں، بلکہ آنحضرت ﷺ کی سکھائ ہوئ حکمت کا ہے۔

چوتھا فریضہ یہ بتایا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو پاکیزہ بنائیں۔ اس سے مراد آپ کی عملی تربیت ہے جس کے ذریعے آپ نے صحابہٴ کرام کے اخلاق اور باطنی صفات کو گندے جذبات سے پاک کر کے انہیں اعلیٰ درجے کی خصوصیات سے آراستہ فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن و سنّت کا صرف کتابی علم بھی انسان کی اصلاح کے لئے کافی نہیں ہے جب تک اس نے اس علم کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی عملی تربیت نہ لی ہو۔ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو اپنی صحبت سے سرفراز فرما کر ان کی تربیت فرمائ، پھر صحابہ نے تابعین کی، اور تابعین نے تبع تابعین کی اسی طرح تربیت کی، اور یہ سلسلہ صدیوں سے اسی طرح چلا آتا ہے۔ باطنی اخلاق کی اسی تربیت کا علم "علمِ احسان" یا تزکیہ کہلاتا ہے اور تصوّف بھی درحقیقت اسی علم کا نام تھا۔ اگرچہ بعض نا اہلوں نے اس میں غلط خیالات کی ملاوٹ کر کے بعض مرتبہ اسے خراب بھی کر دیا، لیکن اس کی اصل یہی تزکیہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم نے یہاں فرمایا ہے، اور ہر دور میں تصوّف کی اصل حقیقت کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے والے ہمیشہ موجود رہے ہیں۔

ماخوذ از آسان ترجمہٴ قرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد تقی عثمانی ؒ
وَلَنَبۡلُوَنَّكُم بِشَىۡءٍ۬ مِّنَ ٱلۡخَوۡفِ وَٱلۡجُوعِ وَنَقۡصٍ۬ مِّنَ ٱلۡأَمۡوَٲلِ وَٱلۡأَنفُسِ وَٱلثَّمَرَٲتِ‌ۗ وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِينَ (١٥٥) ٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَـٰبَتۡهُم مُّصِيبَةٌ۬ قَالُوٓاْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٲجِعُونَ (١٥٦) سورة البقرة

"اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) کچھ خوف سے، اور (کبھی) بھوک سے، اور (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے۔ اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئ مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ "ہم سب الله ہی کے ہیں، اور ہم کو الله ہی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔"

اس آیت میں ساری امّت کو خطاب کیا گیا ہے۔ اس سے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا دارالامتحان ہے، یعنی محنتوں اور تکلیفوں کی جگہ ہے۔ اگر انسان اس بات کو ذہن میں رکھے اور یہاں کے حوادث کو عجیب اور بعید نہ سمجھے (یعنی اگر کوئ مشکل آئے تو یہ نہ سوچے کہ میرے اوپر مشکل کیوں آ گئ اور نہیں آنی چاہئے تھی، اور نہ یہ سوچے کہ مشکلیں تو دوسروں کے لئے ہیں، میرے اوپر کیوں پیش آ گئیں) تو بےصبری نہ ہو گی۔ چونکہ مشکلیں تو سب پر آتی ہیں اور نفسِ عمل صبر میں سب مشترک ہیں، اس لئے اس کا صلہٴ مشترکہ تو عام رحمت ہے۔ اور چونکہ ہر صابر کے صبر کی مقدار اور شان اور خصوصیت الگ ہے اس لئے ان خصوصیات کا صلہ جدا جدا خاص عنایتوں سے ہو گا۔

حصہ دوئم

اس آیت میں صابرین کی طرف نسبت کر کے یہ جو کہا گیا ہے کہ وہ مصیبت کے وقت انا لله و انا علیہ راجعون کہا کرتے ہیں، حقیقت میں مقصود اس کی تعلیم سے یہ ہے کہ جس انسان کو مصیبت کا سامنا ہو اس کو ایسا کہنا چاہئے، کیونکہ ایسا کہنے میں ثواب بھی بڑا ہے اور اگر یہ الفاظ دل سے سمجھ کر کہے جائیں (ہم سب الله ہی کے ہیں اور ہم کو الله ہی کی طرف لوٹ کے جانا ہے) تو غم و رنج کے دور کرنے اور قلب کو تسکین پہنچانے کے لئے یہ الفاظ بہترین علاج ہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیعؒ

Sunday 18 December 2016

وَلَا تَقُولُواْ لِمَن يُقۡتَلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمۡوَٲتُۢ‌ۚ بَلۡ أَحۡيَآءٌ۬ وَلَـٰكِن لَّا تَشۡعُرُونَ (سورة البقرة:۱۵۴)

"اور جو لوگ الله کے راستے میں قتل ہوں ان کو مردہ نہ کہو۔ دراصل وہ زندہ ہیں مگر تم کو (ان کی زندگی کا) احساس نہیں ہوتا۔" 

اسلامی روایات کی رو سے ہر مرنے والے کو برزخ میں ایک خاص قسم کی حیات ملتی ہے جس سے وہ قبر کے عذاب یا ثواب کو محسوس کرتا ہے۔ اس میں مومن و کافر یا صالح و فاسق میں کوئ تفریق نہیں۔ لیکن اس حیاتِ برزخی کے مختلف درجات ہیں، ایک درجہ تو سب کو عام اور شامل ہے، کچھ مخصوص درجے انبیاؑ و صالحینؒ کے لئے مخصوص ہیں، اور ان میں بھی باہمی تفاضل ہے۔

مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بیان القرآن میں تحریر فرمایا: ایسے مقتول کو جو الله کی راہ میں قتل کیا جائے شہید کہتے ہیں، اور اس کی نسبت گو یہ کہنا کہ وہ مر گیا صحیح اور جائز ہے، لیکن اس کی موت کو دوسرے مردوں کی سی موت سمجھنے کی ممانعت ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ گو مرنے کے بعد ہر شخص کی روح کو برزخی حیات حاصل ہے، اور اسی سے جزاء و سزا کا ادراک ہوتا ہے، لیکن شہید کو اس حیات میں اور مردوں سے ایک گونہ امتیاز ہے اور وہ امتیاز یہ ہے کہ اس کی یہ حیات آثار میں اوروں سے قوی ہے۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ

Saturday 17 December 2016

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱسۡتَعِينُواْ بِٱلصَّبۡرِ وَٱلصَّلَوٰةِ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِينَ (سورہ البقرہ: ۱۵۳) ۔ حصہ سوئم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

اس نسخہ کا دوسرا جز، جو تمام پریشانیوں اور آفتوں سے نجات دلانے میں اکسیر ہے، نماز ہے۔ صبر کی جو تفصیل پچھلی پوسٹ میں آئ تھی اس سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ درحقیقت نماز اور تمام عبادات صبر ہی کے جزئیات ہیں، مگر نماز کو جداگانہ بیان اس لئے کر دیا کہ تمام عبادات میں سے نماز ایک ایسی عبادت ہے جو صبر کا مکمل نمونہ ہے۔ نماز کی حالت میں نفس اور بدن کو عبادت و طاعت پر محبوس (قید) کر لیا جاتا ہے۔ جتنی دیر انسان نماز میں رہتا ہے وہ نا صرف کسی جسمانی گناہ میں نہیں مبتلا ہو سکتا، بلکہ وہ اپنے آپ کو بہت سی مباح اور جائز حرکات سے بھی روکے رکھتا ہے، مثلاً نماز کے دوران انسان نہ کھانا کھا سکتا ہے، نہ پانی پی سکتا ہے۔ اس لئے صبر جس کے معنی نفس کو اپنے قابو میں رکھ کر تمام طاعات کا پیرو اور تمام گناہوں سے مجتنب و بیزار بنانا ہے، نماز اس کی ایک عملی تمثیل ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱسۡتَعِينُواْ بِٱلصَّبۡرِ وَٱلصَّلَوٰةِ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِينَ (سورہ البقرہ: ۱۵۳) ۔ حصہ دوئم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

قرآن و حدیث کی اصطلاح میں صابرین انہیں لوگوں کا لقب ہے جو تینوں طرح کے صبر میں ثابت قدم ہوں۔ بعض روایات میں ہے کہ محشر میں نداء کی جائے گی کہ صابرین کہاں ہیں؟ تو وہ لوگ جنہوں نے تینوں طرح کے صبر پہ قائم رہ کر زندگی گزاری وہ کھڑے ہو جائیں گے، اور ان کو بلا حساب جنّت میں داخلے کی اجازت دیدی جائے گی۔ ابنِ کثیر نے اس روایت کو نقل کر کے فرمایا کہ قرآن کی آیت "إِنَّمَا يُوَفَّى ٱلصَّـٰبِرُونَ أَجۡرَهُم بِغَيۡرِ حِسَابٍ۬" (۳۹:۱۰) سے بھی اس طرف اشارہ ہوتا ہے۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیعؒ

Friday 16 December 2016

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱسۡتَعِينُواْ بِٱلصَّبۡرِ وَٱلصَّلَوٰةِ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِينَ (سورہ البقرہ: ۱۵۳) (حصہ اوّل)

"اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ بیشک الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔"

صبر کے اصلی معنی اپنے نفس کو روکنے اور اس پر قابو پانے کے ہیں۔ قرآن و سنّت کی اصطلاح میں صبر کے تین شعبے ہیں،
(۱) اپنے نفس کو حرام و ناجائز چیزوں سے روکنا (صبر عن المعصیة)
(۲) اپنے نفس کو طاعات و عبادات کی پابندی پر مجبور کرنا (صبر عن الطاعة)
(۳) مصائب و آفات پر صبر کرنا (صبر عن المصیبة) یعنی جو مصیبت آ گئ اس کو الله تعالیٰ کی طرف سے سمجھنا، اور اس کے ثواب کا امید وار ہونا۔ اس کے ساتھ اگر تکلیف و پریشانی کے اظہار کاکوئ کلمہ بھی منہ سے نکل جائے تو وہ صبر کے منافی نہیں۔ (ذکرہ ابن کثیر عن سعید بن جبیرؓ)

یہ تینوں شعبے صبر کے فرائض میں داخل ہیں۔ اردو میں صبر کے جو معنی ہیں اس میں صرف تیسرے شعبے کو صبر سمجھا جاتا ہے، پہلے دو شعبے جو صبر کی اصل اور بنیاد ہیں ان کو صبر میں داخل ہی نہیں سمجھا جاتا۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیعؒ

Thursday 15 December 2016

فَٱذۡكُرُونِىٓ أَذۡكُرۡكُمۡ وَٱشۡڪُرُواْ لِى وَلَا تَكۡفُرُونِ (سورة البقرة:۱۵۲) حصہ سوئم

مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ اور میرا شکر ادا کرو، اور میری ناشکری نہ کرو۔"

حضرت ذوالنون مصری ؒ نے فرمایا کہ جو شخص حقیقی طور پر الله کو یاد کرتا ہے وہ اس کے مقابلے میں ساری چیزوں کو بھول جاتا ہے، اور اس کے بدلہ میں الله تعالیٰ خود اس کے لئے ساری چیزوں کی حفاظت کرتے ہیں، اور تمام چیزوں کا عوض اس کو عطا کر دیتے ہیں۔ 

حضرت معاذؓ نے فرمایا کہ انسان کا کوئ عمل اس کو خدا تعالیٰ کے عذاب سے نجات دلانے میں ذکر الله کے برابر نہیں۔

ایک حدیثِ قدسی، جو حضرت ابو ہریرہ ؓ نے روایت کی، میں فرمایا کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب تک وہ مجھے یاد کرتا ہے، اور میرے ذکر میں اس کے ہونٹ ہلتے رہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ
فَٱذۡكُرُونِىٓ أَذۡكُرۡكُمۡ وَٱشۡڪُرُواْ لِى وَلَا تَكۡفُرُونِ (سورة البقرة:۱۵۲) حصہ دوئم

"مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ اور میرا شکر ادا کرو، اور میری ناشکری نہ کرو۔"

ذکر الله کے فضائل بے شمار ہیں، اور یہی ایک فضیلت کچھ کم نہیں کہ جو بندہ الله تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو الله تعالیٰ بھی اسے یاد فرماتے ہیں۔ ابو عثمان نہدیؒ نے کہا کہ میں اس وقت کو جانتا ہوں جس وقت الله تعالیٰ ہمیں یاد فرماتے ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہو سکتا ہے۔ فرمایا، اس لئے کہ قرآن کریم کے وعدے کے مطابق جب کوئ بندہٴ مومن الله تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو الله تعالیٰ بھی اسے یاد کرتے ہیں۔

اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ تم مجھے اطاعتِ احکام کے ساتھ یاد کرو تو میں تمہیں ثواب اور مغفرت کے ساتھ یاد کروں گا۔ حضرت سعید بن جبیرؒ نے ذکر الله کی تفسیر ہی طاعت و فرمانبرداری سے کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ “جس نے الله تعالیٰ کے احکام کی پیروی نہ کی اس نے الله کو یاد نہیں کیا، اگرچہ ظاہر میں اس کی نماز اور تسبیح کتنی بھی ہو۔”

قرطبی نے ایک حدیث بھی اس مضمون کی نقل کی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا، “جس نے الله تعالیٰ کی اطاعت کی، یعنی اس کے احکامِ حلال و حرام کا اتّباع کیا اس نے الله کو یاد کیا، اگرچہ اس کی (نفل) نماز روزہ وغیرہ کم ہوں۔ اور جس نے احکامِ خداوندی کی خلاف ورزی کی اس نے الله کو بھلا دیا، اگرچہ (بظاہر) اس کی نماز، روزہ، تسبیحات وغیرہ زیادہ ہوں۔”

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیعؒ

Tuesday 13 December 2016

فَٱذۡكُرُونِىٓ أَذۡكُرۡكُمۡ وَٱشۡڪُرُواْ لِى وَلَا تَكۡفُرُونِ (سورة البقرة:۱۵۲) حصہ اوّل

"مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ اور میرا شکر ادا کرو، اور میری ناشکری نہ کرو۔"

ذکر کے اصلی معنی یاد کرنے کے ہیں، جس کا تعلّق قلب سے ہے۔ زبان سے ذکر کرنے کو بھی ذکر اس لیے کہا جاتا ہے کہ زبان ترجمانِ قلب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ذکرِ زبانی وہی معتبر ہے جس کے ساتھ دل میں بھی الله کی یاد ہو۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کوئ شخص زبان سے ذکر و تسبیح میں مشغول ہو مگر اس کا دل حاضر نہ ہو اور ذکر میں نہ لگے تو وہ بھی فائدہ سے خالی نہیں۔ حضرت ابو عثمانؒ سے کسی نے ایسی ہی حالت کی شکایت کی کہ ہم زبان سے ذکر کرتے ہیں مگر قلوب میں اس کی کوئ حلاوت محسوس نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا کہ اس پر بھی الله تعالیٰ کا شکو ادا کرو کہ اس نے تمہارے ایک عضو یعنی زبان کو تو اپنی طاعت میں لگا لیا۔ (قرطبی)

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیعؒ

Saturday 10 December 2016

سورہٴ البقرہ: ۱۴۸ (حصہ دوئم)

وَلِكُلٍّ۬ وِجۡهَةٌ هُوَ مُوَلِّيہَا‌ۖ فَٱسۡتَبِقُواْ ٱلۡخَيۡرَٲتِ‌ۚ أَيۡنَ مَا تَكُونُواْ يَأۡتِ بِكُمُ ٱللَّهُ جَمِيعًا‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىۡءٍ۬ قَدِيرٌ۬

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

لفظ فَاستَبِقو  سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کو چاہئے کہ کسی نیک عمل کا جب موقع مل جائے تو اس کے کرنے میں دیر نہ کرے، کیونکہ بعض اوقات نیک عمل کے داعیے کو ٹلانے اور بلا وجہ تاخیر کرنے سے توفیق سلب ہو جاتی ہے۔ پھر آدمی وہ کام کر ہی نہیں کر سکتا، خواہ وہ نماز روزہ ہو یا حج و صدقہ وغیرہ۔ 

قرآن کریم میں یہی مضمون سورة انفعال کی آیت میں زیادہ وضاحت سے آیا ہے:

يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱسۡتَجِيبُواْ لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمۡ لِمَا يُحۡيِيڪُمۡ‌ۖ وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ يَحُولُ بَيۡنَ ٱلۡمَرۡءِ وَقَلۡبِهِۦ وَأَنَّهُ ۥۤ إِلَيۡهِ تُحۡشَرُونَ

"اے ایمان والو! تم الله  ورسولؐ کے کہنے کو بجا لایا کرو جبکہ رسول ؐ تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں، اور جان رکھو کہ الله تعالیٰ آڑ بن جایا کرتا ہے آدمی اور اس کے قلب کے درمیان۔"

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ

سورة البقرة: ۱۴۸۔ حصّہ اوّل

وَلِكُلٍّ۬ وِجۡهَةٌ هُوَ مُوَلِّيہَا‌ۖ فَٱسۡتَبِقُواْ ٱلۡخَيۡرَٲتِ‌ۚ أَيۡنَ مَا تَكُونُواْ يَأۡتِ بِكُمُ ٱللَّهُ جَمِيعًا‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىۡءٍ۬ قَدِيرٌ۬ ۔

"اور ہر گروہ کی ایک سمت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے۔ لہذا تم نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ تم جہاں بھی ہو گے، الله تم سب کو (اپنے پاس) لے آئے گا۔" 

اس آیت میں یہ تاکید کی گئ ہے کہ مختلف قوموں کے مختلف قبلے ہیں، کوئ ایک دوسرے کو قبلے کو تسلیم نہیں کرتا، اس لئے اپنے قبلے کے حق ہونے پر ان لوگوں سے بحث فضول ہے۔ اس جملے کا حاصل یہ ہے کہ جب یہ معلوم ہے کہ اس بحث سے ان لوگوں کو کوئ فائدہ نہیں پہنچے گا تو پھر اس فضول بحث کو چھوڑ کر اپنے اصلی کام میں لگ جانا چاہیے، اور وہ کام ہے نیک کاموں میں دوڑ دھوپ اور آگے بڑھنے کی کوشش۔ اور چونکہ فضول بحثوں میں وقت ضائع کرنا اور مسابقت الی الخیرات میں سستی کرنا عموماً آخرت سے غفلت کے سبب ہوتے ہیں، جس کو اپنی آخرت اور انجام کی فکر درپیش ہو وہ کبھی فضول بحثوں میں نہیں الجھتا، اپنی منزل طے کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ 

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ

سورة البقرة: ۱۴۳

وَكَذَٲلِكَ جَعَلۡنَـٰكُمۡ أُمَّةً۬ وَسَطً۬ا لِّتَڪُونُواْ شُہَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِ وَيَكُونَ ٱلرَّسُولُ عَلَيۡكُمۡ شَهِيدً۬ا‌ۗ ۔۔۔

"اور اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک معتدل امّت بنایا ہے کہ تم دوسرے لوگوں پر گواہ بنو، اور رسول تم پر گواہ بنے۔۔۔" 

لفظ وسط بمعنی اوسط ہے، اور خیرالامور اور افضل اشیاء کو وسط کہا جاتا ہے۔ اعتدال کے لفظی معنی ہیں برابر ہونا۔ یہ لفظ عدل سے مشتق ہے، اس کے معنی بھی برابر کرنے کے ہیں۔

ترمذی میں بروایتِ ابو سعید خدریؓ آنحضرت ﷺ سے لفظ وسط کی تفسیر عدل سے کی گئ ہے، جو بہترین کے معنوں میں آیا ہے۔ (قرطبی) اس آیت میں امّتِ محمدیہ ﷺ کی ایک امتیازی فضیلت و خصوصیت کا ذکر ہے کہ وہ ایک معتدل امّت بنائ گئ۔ اس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جس طرح ہم نے مسلمانوں کو وہ قبلہ عطا کیا جو سب سے اشرف و افضل ہے اسی طرح ہم نے امّتِ اسلامیہ کو ایک خاص امتیازی فضیلت یہ عطا کی ہے کہ اس کو ایک معتدل امّت بنایا ہے۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ 

Friday 9 December 2016

سورة البقرة:۱۳۹

"اور ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں، اور تمہارے عمل تمہارے لئے۔ اور ہم نے تو اپنی بندگی اسی کے لئے خالص کر لی ہے۔"

اس آیت میں امّتِ مسلمہ کی ایک خصوصیت یہ بتلائ گئ ہے کہ وہ الله کے لئے مخلص ہے۔ اخلاص کے معنی حضرت سعید بن جبیرؒ نے یہ بتلائے ہیں کہ انسان اپنے دین میں مخلص ہو، الله کے سوا کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، اور اپنے عمل کو خالص الله کے لئے کرے، لوگوں کے دکھلانے یا ان کی مدح و شکر کی طرف نظر نہ ہو۔ 

بعض بزرگوں نے فرمایا کہ اخلاص ایک ایسا عمل ہے جس کو نہ تو فرشتے پہچان سکتے ہیں اور نہ شیطان، وہ صرف بندے اور الله تعالیٰ کے درمیان ایک راز ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محدشفیع رحمتہ الّلہ علیہ

Thursday 8 December 2016

سورة البقرہ:۱۳۷

"اس کے بعد اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو تو یہ راہِ راست پر آ جائیں گے۔ اور اگر یہ منہ موڑ لیں تو درحقیقت وہ دشمنی میں پڑ گئے ہیں۔۔۔" 

اس آیت میں "امنتم" کے مخاطب رسولِ کریم ﷺ اور صحابہٴ کرام رضی الله عنہما ہیں۔ اس آیت میں ان کے ایمان کو ایک مثالی نمونہ قرار دے کر حکم دیا گیا ہے کہ الله تعالیٰ کے نزدیک مقبول و معتبر صرف اس طرح کا ایمان ہے جو رسول الله ﷺ اور صحابہٴؓ نے اختیار فرمایا۔ جو اعتقاد اس سے سرِ مو مختلف ہو وہ الله کے نزدیک مقبول نہیں۔ 

توضیح اس کی یہ ہے کہ جتنی چیزوں پر یہ حضرات ایمان لائے ان میں کوئ کمی زیادتی نہ ہو۔ اور جس طرح اخلاص کے ساتھ ایمان لائے اس میں کوئ فرق نہ آئے کہ وہ نفاق میں داخل ہے۔ اور الله تعالیٰ کی ذات و صفات، فرشتے، انبیاء و رسل، آسمانی کتابیں اور ان کی تعلیمات کے متعلّق جو ایمان و اعتقاد رسول الله ﷺ نے اختیار کیا وہی الله کے نزدیک مقبول ہے۔ اس میں کوئ تاویل کرنا یا کوئ دوسرے معنی مراد لینا الله کے نزدیک مردود ہے۔ فرشتوں اور انبیاٴ و رسل کے لئے جو مقام آپ ؐ کے قول و عمل سے واضح ہوا اس سے ان کو گھٹانا یا بڑھانا ایمان کے منافی ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ

Tuesday 6 December 2016

رسول الله ﷺ نے فرمایا، "اے بنی ہاشم! ایسا نہ ہو کہ قیامت کے روز اور لوگ تو اپنے اپنے اعمالِ صالحہ لے کر آئیں، اور تم اعمالِ صالحہ سے غفلت برتو اور صرف میرے نسب کا بھروسہ لیکر آؤ اور میں اس روز تم سے یہ کہوں کہ میں تمہیں الله کے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔"

اور دوسری حدیث میں ارشاد ہے، "جس شخص کو اس کے عمل نے پیچھے ڈالا اس کو اس کا نسب آگے نہیں بڑھا سکتا۔"

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ

Monday 5 December 2016

سورة البقرة:۸۳

"اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے پکا عہد لیا تھا کہ: "تم الله کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے، اور والدین سے اچھا سلوک کرو گے، اور رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں اور مسکینوں سے بھی۔ اور لوگوں سے بھلی بات کہنا، اور نماز قائم کرنا اور زکوٰة دینا۔۔۔" 

"قولو للناس حسنا" سے مراد یہ ہے کہ انسان جب لوگوں سے خطاب کرے تو نرمی سے، اور خوشروئی اور کشادہ دلی سے بات کرے چاہے مخاطب نیک ہو یا بد، مسلم ہو یا غیر مسلم۔ ہاں دین کے معاملے میں مداہنت اور اس کی خاطر سے حق پوشی نہ کرے۔ وجہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے جب موسیٰ اور ہارون علیہما السّلام کو فرعون کی طرف بھیجا تو یہ ہدایت نامہ دیا کہ "سو کہو اس سے بات نرم شاید وہ سوچے یا ڈرے "(سورة طٰهٰ:۴۴) تو آج جو کلام کرنے والا ہے وہ حضرت موسیٰ ؑ سے افضل نہیں اور مخاطب کتنا ہی برا ہو وہ فرعون سے بڑا نافرمان نہیں۔

طلحہ بن عمرؒ کہتے ہیں کہ میں نے امامِ تفسیر و حدیث عطاؒ سے کہا کہ آپ کے پاس فاسد عقیدے والے لوگ بھی جمع رہتے ہیں، مگر میرے مزاج میں تیزی ہے۔ میرے پاس ایسے لوگ آتے ہیں تو میں ان کو سخت باتیں کہدیتا ہوں۔ حضرت عطاؒ نے فرمایا کہ ایسا نہ کیا کرو، کیونکہ حق تعالیٰ کا حکم ہے کہ "قولو للناس حسنا"، اس میں تو یہودی و نصرانی بھی شامل ہیں۔ مسلمان خواہ کیسا ہی ہو وہ کیوں نہ داخل ہو گا۔ (قرطبی)

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ

Sunday 4 December 2016

خشوع کی حقیقت

"الا علے الخشعین"

قرآن و سنّت میں جہاں خشوع کی ترغیب مذکور ہے اس سے مراد وہ قلبی سکون و انکساری ہے جو الله کی عظمت اور اس کے سامنے اپنے حقیر ہونے کے علم سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں طاعت آسان ہو جاتی ہے۔  کبھی اس کے آثار بدن پر بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں کہ وہ با ادب، متواضع اور شکستہ قلب نظر آتا ہے۔ لیکن اگر دل میں خوف ِ خدا اور تواضع نہ ہو تو خواہ وہ ظاہر میں کتنا ہی با ادب اور متواضع نظر آئے وہ خشوع کا حامل نہیں۔ 

خشوع کے ساتھ ایک دوسرا لفظ خضوع بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ دونوں لفظ تقریباً ہم معنی ہیں، لیکن خشوع کا لفظ آواز اور نگاہ کی پستی اور تذلّل کے لئے بولا جاتا ہے، جب کہ وہ مصنوعی نہ ہو بلکہ قلبی خوف اور تواضع کا نتیجہ ہو۔ اور خضوع کا لفظ بدن کی تواضع اور انکساری کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ 

رسول الله ﷺ کا ارشاد ہے، "نماز تو صرف تمسکن اور تواضع ہی ہے۔"

ایک اور حدیث میں ہے، "جس کی نماز اسے بے حیائ اور برائیوں سے نہ روک سکے وہ الله سے دور ہی ہوتا جاتا ہے،" اور غافل کی نماز بے حیائ سے اور برائیوں سے نہیں روکتی۔ (احیاء العلوم)

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرہ، از مفتی محمد شفیعؒ

Saturday 3 December 2016

دو روحانی بیماریاں اور ان کا علاج، حصّہ دوم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

ان دونوں بیماریوں کا علاج قرآن کریم نے تجویز فرمایا: واستعینو بالصّبر والصّلوة (اور مدد لو صبر اور نماز سے)۔ یعنی صبر کے ذریعے اپنی لذّات و خواہشات پر قابو حاصل کرو۔ اس سے حبّ ِ مال گھٹ جائے گی، کیونکہ مال کی محبّت اسی لئے پیدا ہوتی ہے کہ مال لذّات و خواہشات کو پورا کرنے کا ذریعہ ہے۔ جب انسان لذّات و خواہشات کی اندھا دھند پیروی چھوڑنے پر ہمّت باندھ لے گا تو شروع میں اگر چہ شاق گزرے گا لیکن رفتہ رفتہ یہ خواہشات اعتدال پر آ جائیں گی، اور اعتدال انسان کی عادت بن جائے گی، تو مال کی محبّت ایسی غالب نہ رہے گی کہ اپنے اخروی نفع و نقصان سے اندھا کر دے۔

اور نماز سے حبّ ِ جاہ کم ہو جائے گی، کیونکہ نماز میں ظاہری اور باطنی ہر طرح کی پستی ہے۔ جب نماز کو صحیح صحیح ادا کرنے کی عادت ہو جائے گی تو ہر وقت الله تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی اور پستی کا تصوّر رہنے لگے گا جس سے تکبّر و غرور اور حبّ ِ جاہ گھٹ جائیں گے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورةٴ البقرہ، از مفتی محمد شفیع ؒ

دو روحانی بیماریاں اور ان کا علاج۔ حصّہ اوّل

"اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے، مگر ان لوگوں کو نہیں جو خشوع (یعنی دھیان اور عاجزی) سے پڑھتے ہیں۔" (سورةٴ البقرة:۴۵)

 حبّ ِ مال اور حبّ ِ جاہ، یہ دونوں قلب کی ایسی بیماریاں ہیں جن کے باعث انسان کی دنیاوی زندگی اور اور اخروی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ 

حبّ ِ مال کے نتائج یہ نکلتے ہیں:

۱۔ کنجوسی اور بخل پیدا ہوتا ہے جس کا  قومی نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس کی دولت قوم کو کوئ فائدہ نہیں پہنچاتی۔
۲۔ خود غرضی پیدا ہوتی ہے جو مال کی ہوس کو پورا کرنے کے لئے اسے اشیاء میں ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، رشوت ستانی، مکر و فریب اور دغا بازی کے نت نئے حیلے سجھاتی ہے۔ وہ اپنی تجوری پہلے سے زیادہ بھرنے کے لئے دوسروں کا خون نچوڑ لینا بھی صحیح سمجھتا ہے۔
۳۔ ایسے شخص کو کتنا ہی مال مل جائے لیکن مزید جمع کرنے کی دھن ایسی سوار ہوتی ہے کہ تفریح اور آرام کے وقت بھی یہی بے چینی اسے کھائے جاتی ہے کہ اپنے سرمائے میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیسے کرے۔ جس مال کو اس کے راحت و آرام کا ذریعہ ہونا چاہیے تھا وہ اس کے لئے وبالِ جان بن جاتا ہے۔ 
۴۔ حق بات خواہ کتنی ہی روشن ہو کر اس کے سامنے آجائے مگر وہ کسی ایسی بات کو نہیں ماننا چاہتا جو اس کی ہوسِ مال کو پورا ہونے سے روکے۔

اسی طرح قریب قریب یہی حال حبّ ِ جاہ کا ہے کہ اس کے نتیجے میں تکبّر، خود غرضی، حقوق کی پامالی، ہوسِ اقتدار اور اس کے لئے خوں ریز لڑائیاں، اور اس طرح کی بے شمار انسانیت سوز خرابیاں جنم لیتی ہیں جو بالآخر دنیا کو جہنّم بنا کر چھوڑتی ہیں۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورةٴ البقرة، از مفتی محمد شفیعؒ

Friday 2 December 2016

کیا گناہگار کے لئے وعظ و نصیحت کرنا جائز نہیں؟

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

اس آیت کا (جس کا بیان پچھلی پوسٹ میں ہوا) یہ مطلب نہیں کہ بے عمل یا گناہگار کے لئے دوسروں کو وعظ و نصیحت کرنا جائز نہیں، اور جو شخص کسی گناہ میں مبتلا ہو وہ دوسروں کو اس گناہ سے باز رہنے کی تلقین نہیں کر سکتا۔ کوئ اچھا عمل کرنا الگ نیکی ہے، اور دوسروں کو اس اچھے عمل کی نصیحت کرنا دوسری مستقل نیکی ہے، اور ظاہر ہے کہ ایک نیکی کو چھوڑنے سے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ دوسری نیکی بھی چھوڑ دی جائے۔ 

امام مالکؒ نے حضرت سعید بن جبیر ؓ کا یہ قول نقل کیا ہے اگر ہر ایک شخص یہ سوچ کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دے کہ میں خود گناہگار ہوں، جب گناہوں سے خود پاک ہو جاؤں گا تو لوگوں کو تبلیغ کروں گا، تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ دنیا میں کوئ بھی تبلیغ کرنے والا باقی نہیں رہے گا، کیونکہ کون ایسا ہے جو گناہوں سے بالکل پاک ہو؟ حضرت حسن بصریؒ کا ارشاد ہے کہ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ لوگ اسی غلط خیال میں پڑ کر تبلیغ کا فریضہ چھوڑ بیٹھیں۔ (قرطبی) بلکہ مولانا اشرف علی تھانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ جب مجھے اپنی کسی بری عادت کا علم ہوتا ہے تو میں اس عادت کی مذمّت اپنے مواعظ میں خاص طور سے بیان کرتا ہوں تا کہ وعظ کی برکت سے یہ عادت جاتی رہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ آیت "اتا مرون الناس بالبرّ و تنسون انفسکم" کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بے عمل آدمی کو وعظ کہنا جائز نہیں، بلکہ یہ ہے کہ واعظ کو بے عمل ہونا جائز نہیں۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورةٴ البقرہ، از مفتی محمد شفیع ؒ

Thursday 1 December 2016

بے عمل واعظ کی مذمّت

"کیا تم (دوسرے) لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو، اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو! کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں؟" (سورہ البقرہ:۴۴)

اس آیت میں خطاب اگرچہ اس زمانے کے علمائے یہود سے ہے لیکن معنی کے اعتبار سے ہر اس شخص کی مذمّت ہے جو دوسروں کو تو نیکی اور بھلائ کی ترغیب دے مگر خود عمل نہ کرے۔ دوسروں کو خدا سے ڈرائے مگر خود نہ ڈرے۔ ایسے شخص کے بارے میں حدیث میں بڑی ہولناک وعیدیں آئ ہیں۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شبِ معراج میرا گذر کچھ لوگوں پر ہوا جن کے ہونٹ اور زبانیں آگ کی قینچیوں سے کترے جا رہے تھے۔ میں نے جرئیلؑ سے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرئیل نے بتایا کہ یہ آپﷺ کی امّت کے دنیا دار واعظ ہیں جو لوگوں کو تو نیکی کا حکم کرتے تھے مگر اپنی خبر نہ لیتے تھے۔ (ابنِ کثیر)

ابنِ عساکر ؒ نے ذکر کیا ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بعض جنّتی بعض دوزخیوں کو آگ میں دیکھ کر پوچھیں گے کہ تم آگ میں کیونکر پہنچ گئے؟ حالانکہ ہم تو بخدا انہی نیک اعمال کی بدولت جنّت میں داخل ہوئے ہیں جو ہم نے تم سے سیکھے تھے۔ اہلِ دوزخ کہیں گے: "ہم زبان سے کہتے ضرور تھے لیکن خود عمل نہیں کرتے تھے۔" (ابنِ کثیر)

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع ؒ

Monday 28 November 2016

و اقیمو الصلوٰة و اتو الزکوٰة وارکعو مع الرکعین

"اور نماز قائم کرو، اور زکوٰة ادا کرو، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔" (سورة البقرة:۴۳)


اقیمو الصلوٰة
صلوٰة کے لفظی معنی دعاء کے ہیں۔ اصطلاحِ شرع میں صلوٰة وہ خاص عبادت ہے جس کو نماز کہا جاتا ہے۔

قرآن کریم میں  عموماً نماز کی جتنی مرتبہ تاکید آئ ہے لفظ اقامت کے ساتھ آئ ہے۔ اقامت کے لفظی معنی سیدھا کرنے اور ثابت رکھنے کے ہیں۔ اس کے علاوہ اقامت کے معنی دائم اور قائم کرنے کے بھی آتے ہیں۔ قرآن و سنّت کی اصطلاح میں اقامتِ صلوٰة  کے معنی نماز کو اس کے وقت میں پابندی کے ساتھ اس کے پورے آداب و شرائط کی رعایت کر کے ادا کرنا ہیں۔ نماز کے جتنے فضائل اور آثار و برکات قرآن و حدیث میں آئے ہیں وہ سب اقامتِ صلوٰة کے ساتھ مقید ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں ہے: ترجمہ: یعنی نماز انسان کو بے حیائ اور برے کاموں سے روک دیتی ہے۔" (۴۵:۳۹) اس لئے بہت سے نمازیوں کو برائیوں اور بے حیائیوں میں مبتلا دیکھ کر اس آیت پر کوئ شبہ نہ کرنا چاہیے، کیونکہ ان لوگوں نے نماز پڑھی تو ہے مگر اس کو قائم نہیں کیا۔

اتو الزکوٰة
لفظ زکوٰة کے لغت میں دو معنی ہیں، پاک کرنا، اور بڑھنا۔ اصطلاحِ شریعت میں مال کے اس حصہ کو زکوٰة کہا جاتا ہے جو شریعت کے احکام کے مطابق کسی مال میں سے نکالا جائے اور اس کے مطابق صرف کیا جائے۔

وارکعو مع الرکعین
رکوع کے لغوی معنی جھکنے کے ہیں۔ اصطلاحِ شرع میں اس خاص جھکنے کو رکوع کہتے ہیں جو نماز میں معروف و مشہور ہے۔ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ نماز پڑھو نماز پڑھنے والوں کے ساتھ، یعنی جماعت کے ساتھ۔

حضرت عبدالله ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ کل (محشر میں) الله تعالیٰ سے مسلمان ہونے کی حالت میں ملے تو اس کو چاہئے کہ ان (پانچ) نمازوں کے ادا کرنے کی پابندی اس جگہ کرے جہاں اذان دی جاتی ہے (یعنی مسجد میں)، کیونکہ الله تعالیٰ نے تمہارے نبی ﷺ کے لئے کچھ ہدایت کے طریقے بتلائے ہیں، اور ان پانچ نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا انہی سننِ ہدیٰ میں ہے۔ اور اگر تم نے یہ نمازیں اپنے گھر میں پڑھ لیں جیسے یہ جماعت سے الگ رہنے والا اپنے گھر میں پڑھ لیتا ہے (کسی خاص شخص کی طرف اشارہ کر کے فرمایا) تو تم اپنے نبی ﷺ کی سنّت کو چھوڑ بیٹھو گے۔ اور اگر تم نے اپنے نبی ﷺ کی سنّت کو چھوڑ دیا تو تم گمراہ ہو جاؤ گے۔ (اور جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح پاکی حاصل کرے) پھر کسی مسجد کا رخ کرے تو الله تعالیٰ اس کے ہر قدم پر نیکی اس کے نامہٴ اعمال میں درج فرماتے ہیں، اور اس کا ایک درجہ بڑھا دیتے ہیں، اور ایک گناہ معاف کر دیتے ہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورةٴ البقرہ، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Sunday 27 November 2016

حضرت ابو حازم ؒ اور سلیمان عبدالملک کے درمیان مکالمہ۔ حصہٴ چہارم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

سلیمان نے پھر سوال کیا، "اچھا اب ہمارے درست ہونے کا کیا طریقہ ہے؟" حضرت ابو حازمؒ نے فرمایا، "تکبّر چھوڑو، مروّت اختیار کرو، اور حقوق والوں کو ان کے حقوق انصاف کے ساتھ تقسیم کرو۔"

سلیمان نے کہا، "ابو حازم! کیا یہ ہو سکتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ رہیں؟" فرمایا، "خدا کی پناہ!" سلیمان نے پوچھا یہ کیوں؟ فرمایا کہ اس لئے کہ مجھے خطرہ یہ ہے کہ میں تمہارے مال و دولت اور عزّت و جاہ کی طرف کچھ مائل ہو جاؤں جس کے نتیجے میں مجھے عذاب بھگتنا پڑے۔

سلیمان نے کہا کہ اچھا آپ کی کوئ حاجت ہو تو بتلائیے کہ ہم اس کو پورا کریں۔ فرمایا،" ہاں ایک حاجت ہے کہ مجھے جہنّم سے نجات دلا دو اور جنّت میں داخل کر دو۔" سلیمان نے کہا کہ یہ تو میرے اختیار میں نہیں۔ فرمایا کہ پھر مجھے آپ سے اور کوئ حاجت مطلوب نہیں۔ 

آخر میں سلیمان نے کہا کہ اچھا میرے لئے دعا کیجئے، تو ابو حازم ؒ نے یہ دعا کی، یا الله اگر سلیمان آپ کا پسندیدہ ہے تو اس کے لئے دنیا و آخرت کی بہتری کو آسان بنا دے، اور اگر وہ آپ کا دشمن ہے تو اس کے بال پکڑ کر اپنی مرضی اور محبوب کاموں کی طرف لے آ۔

سلیمان نے کہا کہ مجھے کچھ وصیّت فرما دیں۔ ارشاد فرمایا کہ مختصر یہ ہے کہ اپنے رب کی عظمت و جلال کو اس درجے میں رکھو کہ وہ تمہیں اس مقام پرنہ دیکھے جس سے منع کیا ہے، اور اس مقام سے غیر حاضر  نہ پائے جس کی طرف آنے کا اس نے حکم دیا ہے۔

سلیمان نے اس مجلس سے فارغ ہونے کے بعد سو گنّیاں بطورِ ہدیہ کے ابو حازم کے پاس بھیجیں۔ ابو حازمؒ نے ایک خط کے ساتھ ان کو واپس کر دیا۔ خط میں لکھا تھا کہ اگر یہ سو دینار میرے کلمات کا معاوضہ ہیں تو میرے نزدیک خون اور خنزیر کا گوشت اس سے بہتر ہے، اور اگر اس لئے بھیجا ہے کہ بیت المال میں میرا حق ہے تو مجھ جیسے ہزاروں علماء اور دین کی خدمت کرنے والے ہیں۔ اگر سب کو آپ نے اتنا ہی دیا ہے تو میں بھی لے سکتا ہوں، رونہ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔

ختم شد

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورةٴ البقرہ، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Saturday 26 November 2016

حضرت ابو حازم ؒ اور سلیمان عبدالملک کے درمیان مکالمہ۔ حصہٴ سوئم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

سلیمان نے پھر دریافت کیا، "کون سا مسلمان سب سے زیادہ ہوشیار ہے؟"

فرمایا، "وہ شخص جس نے الله تعالیٰ کی اطاعت کے تحت کام کیا ہو، اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دی ہو۔"

پھر پوچھا کہ "مسلمانوں میں کون شخص احمق ہے؟"

فرمایا، "وہ آدمی جو اپنے کسی بھائ کی اس کے ظلم میں امداد کرے، جس کا حاصل یہ ہو گا کہ اس نے دوسرے کی دنیا درست کرنے کے لئے اپنا دین بیچ دیا۔"

اس کے بعد سلیمان نے اور واضح الفاظ میں دریافت کیا کہ ہمارے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ابو حازمؒ نے فرمایا کہ مجھے اس سوال سے معاف رکھیں تو بہتر ہے۔

سلیمان نے کہا کہ نہیں آپ ضرور کوئ نصیحت کا کلمہ کہیں۔

ابو حازم ؒ نے فرمایا: "اے امیرالموٴمنین! تمہارے آباؤ اجداد نے بزورِ شمشیر لوگوں پہ تسلّط کیا، اور زبردستی ان کی مرضی کے خلاف ان پر حکومت قائم کی، اور بہت سے لوگوں کو قتل کیا، اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ کاش آپ کو معلوم ہوتا کہ اب وہ مرنے کے بعد کیا کہتے ہیں، اور ان کو کیا کہا جاتا ہے۔"

بادشاہ کے حاشہ نشینوں نے ابو حازم ؒ کی اس صاف گوئ کو سن کر کہا، "اے ابو حازم! تم نے یہ بہت بری بات کہی ہے۔"

ابو حازم ؒ نے فرمایا، "تم غلط کہتے ہو۔ بری بات نہیں کہی، بلکہ وہ بات کہی جس کا ہم کو حکم ہے۔ الله تعالیٰ نے علماء سے اس بات کا عہد لیا ہے کہ حق بات لوگوں کو بتلائیں گے اور چھپائیں گے نہیں۔ لتبیننه للناس ولا تکتمونہ۔ (۱۸۷:۳)

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورةٴ البقرہ، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله

Wednesday 23 November 2016

حضرت ابو حازم ؒ اور سلیمان عبدالملک کے درمیان مکالمہ۔ حصہٴ دوئم

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔

سلیمان نے پوچھا اے ابو حازمؒ! الله کے بندوں میں کون سب سے زیادہ عزّت والا ہے؟ فرمایا، وہ لوگ جو مروّت اور عقلِ سلیم رکھنے والے ہیں۔

پھر پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ فرمایا کہ فرائض و واجبات کی ادائیگی حرام چیزوں سے بچنے کے ساتھ۔

پھر دریافت کیاکہ کونسی دعا زیادہ قابلِ قبول ہے؟ تو فرمایا کہ جس شخص پر احسان کیا گیا ہو اس کی دعا اپنےمحسن کے لئے اقرب الی القبول ہے۔

پھر دریافت کیا کہ صدقہ کون سا افضل ہے؟ فرمایا کہ مصیبت زدہ سائل کے لئے باوجود اپنے افلاس کے جو کچھ ہو سکے اس طرح خرچ کرنا کہ نہ اس سے پہلے احسان جتائےاور نہ ٹال مٹول کر کے ایذاء پہونچائے۔

پھر دریافت کیا کہ کلام کون سا افضل ہے؟ تو فرمایا کہ جس شخص سے تم کو خوف ہو یا جس سے تمہاری کوئ حاجت ہو اور امید وابستہ ہو اس کے سامنے بغیر کسی رو رعایت کے حق بات کہہ دینا۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورةٴ البقرہ، تالیف مفت محمد شفیع رحمتہ الله علیه

حضرت ابو حازم ؒ اور سلیمان عبدالملک کے درمیان مکالمہ۔ حصہٴ اوّل

"اور مت ملاؤ صحیح میں غلط اور مت چھپاؤ سچ کو جان بوجھ کر۔" (سورة البقرہ: ۴۲)

حق بات کو غلط باتوں کے ساتھ ملا جلا کے اس طرح پیش کرنا جس سے مخاطب مغالطہ میں پڑ جائے جائز نہیں۔ اسی طرح کسی خوف یا لالچ کی وجہ سے حق بات کا چھپانا بھی حرام ہے۔

امام قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میں حق کو چھپانے سے پرہیز کرنے کا ایک مفصّل مکالمہ حضرت ابو حازم تابعیؒ اور خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کا نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ سلیمان بن عبدالملک نے مدینہ طیّبہ میں چند روز قیام کیا تو لوگوں سے دریافت کیا کہ مدینہ طیّبہ میں اب کوئ ایسا آدمی موجود ہے جس نے کسی صحابی کی صحبت پائ ہو؟ لوگوں نے بتلایا کہ ہاں ابو حازمؒ ایسے شخص ہیں۔ سلیمان نے اپنا آدمی بھیج کر ان کو بلوا لیا۔ 

سلیمان نے ابو حازمؒ سے پوچھا کہ اے ابو حازمؒ! یہ کیا بات ہے کہ ہم موت سے گھبراتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ آپ نے اپنی آخرت کو ویران اور دنیا کو آباد کیا ہے، اس لئے آبادی سے ویرانے میں جانا پسند نہیں۔

سلیمان نے تسلیم کیا اور پوچھا کہ کل الله تعالیٰ کے سامنے حاضری کیسے ہو گی؟ فرمایا کہ نیک عمل کرنے والا تو الله تعالیٰ کے سامنے اس طرح جائے گا جیسے کوئ مسافر سفر سے واپس اپنے گھر والوں کے پاس جاتا ہے۔ اور برے عمل کرنے والا اس طرح پیش ہو گا جیسے کوئ بھاگا ہوا غلام پکڑ کر آقا کے سامنے حاضر کیا جائے۔

سلیمان یہ سنکر رو پڑا اور کہنے لگا، کاش ہمیں معلوم ہوتا کہ الله تعالیٰ نے ہمارے لئے کیا صورت تجویز کر رکھی ہے؟ ابو حازمؒ نے فرمایا کہ اپنے اعمال کو الله کی کتاب پر پیش کرو تو پتہ لگ جائے گا۔ سلیمان نے دریافت کیا کہ قرآن کی کس آیت سے یہ پتہ لگے گا؟ فرمایا کہ اس آیت سے: ترجمہ "یعنی بلاشبہ نیک عمل کرنے والے جنّت کی نعمتوں میں ہیں، اور نافرمان، گناہ شعار دوزخ میں۔" (۸۳:۱۳۔۱۴)

سلیمان نے کہا کہ الله کی رحمت تو بڑی ہے، وہ بدکاروں پہ بھی حاوی ہے۔ فرمایا، ترجمہ"یعنی الله کی رحمت نیک عمل کرنے والوں سے قریب ہے۔" (۵۶:۷)

جاری ہے۔۔۔

Tuesday 22 November 2016

(سورہٴ البقرہ:۳۸)

"...پھر اگر میری طرف سے کوئ ہدایت تمہیں پہونچے، تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کو نہ کوئ خوف ہو گا، اور نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے۔" 

اس آیت میں الله تعالیٰ کی ہدایات کی پیروی کرنے والوں کے لئے دو انعام مذکور ہیں، ایک یہ کہ ان پر کوئ خوف نہ ہو گا، دوسرے وہ غمگین نہ ہوں گے۔

"خوف" آئندہ پیش آنے والی کسی تکلیف و مصیبت کے اندیشے کا نام ہے اور "حزن" کسی مقصد و مراد کے فوت ہو جانے سے پیدا ہونے والے غم کو کہا جاتا ہے۔

اس آیت میں اشارہ اس طرف ہے کہ کسی چیز یا مراد کے فوت ہونے کے غم سے آزاد ہونا صرف انہی اولیاء الله کا مقام ہے جو الله تعالیٰ کی دی ہوئ ہدایات کی مکمل پیروی کرنے والے ہیں۔ ان کے سوا کوئ انسان اس غم سے نہیں بچ سکتا خواہ وہ ہفت اقلیم کا بادشاہ ہو یا دنیا کا بڑے سے بڑا مالدار، کیونکہ ان میں کوئ بھی ایسا نہیں ہوتا جس کو اپنی طبیعت اور خواہش کے خلاف کوئ بات پیش نہ آئے اور اس کا غم نہ ہو۔ بخلاف اولیاء الله کے کہ وہ اپنی مرضی اور ارادے کو الله ربّ العزّت کی مرضی اور ارادے میں فنا کر دیتے ہیں، اس لئے ان کو کسی چیز کے فوت ہونے کا غم نہیں ہوتا۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمته الله علیه

Monday 21 November 2016

ایمان اور اسلام میں فرق

لغت میں ایمان کسی چیز کی دل سے تصدیق کرنے کا نام ہے، اور اسلام اطاعت و فرمانبرداری کا۔ ایمان کا محل قلب ہے، اور اسلام کا قلب اور سب اعضاء و جوارح۔ لیکن شرعاً ایمان بغیر اسلام کے اور اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں، یعنی الله اور اس کے رسول ﷺ کی محض دل میں تصدیق کر لینا شرعاً اس وقت تک معتبر نہیں جب تک زبان سے اس تصدیق کا اظہار اور اطاعت و فرمانبرداری کا اقرار نہ کرے۔ اسی طرح زبان سے تصدیق کا اظہار یا فرمانبرداری کا اقرار اس وقت تک معتبر نہیں جب تک دل میں الله اور الله کے رسول ﷺ کی تصدیق نہ ہو۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہٴ البقر، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Sunday 20 November 2016

متّقین کی تین صفات: حصہ سوم

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔

متّقی لوگوں کی تیسری علامت جو بتلائ گئ وہ ہے الله کی راہ میں خرچ کرنا۔ اس میں ہر قسم کا وہ خرچ شامل ہے جو الله کی راہ میں کیا جائے، خواہ فرض زکوٰة ہو، یا دوسرے صدقات واجبہ یا نفلی صدقات و خیرات، کیونکہ قرآن کریم میں جہاں کہیں لفظ انفاق استعمال ہوا ہے عموماً نفلی صدقات میں یا عام معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ فرض زکوٰة کے لئے عموماً لفظ زکوٰة ہی آیا ہے۔ 

مِمَّا رَزَقنٰھم سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ مال ہمارے پاس ہے یہ سب خدا کا ہی عطا کیا ہوا ہے اور اسی کی امانت ہے۔ اگر ہم اس تمام مال کو بھی الله کی راہ میں اس کی رضا کے لئے خرچ کر دیں تو حق اور بجا ہے، اس میں بھی ہمارا کوئ احسان نہیں۔ اور مِمَّا کے معنے یہ ہیں کہ ہمارے دیے ہوئے مال کو بھی پورا خرچ نہیں کرنا، بلکہ اس کا کچھ حصّہ خرچ کرنا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرہ، تالیفِ مفتی محمد شفیع رحمتہ اللہ علیه

متّقین کی تین صفات: حصہ دوم

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔

ان آیات میں (جن کا ترجمہ پچھلی پوسٹ میں آیا) متّقی لوگوں کی دوسری علامت یہ بتائ گئ کہ وہ نماز کو قائم کرتے ہیں۔ اقامت کے معنی محض نماز پڑھنے کے نہیں بلکہ نماز کو ہر جہت اور ہر حیثیت سے درست کرنے کا نام اقامت ہے، جس میں نماز کے تمام فرائض، واجبات، مستحبات، اور پھر ان پر قائم رہنا، یہ سب اقامت کے مفہوم میں داخل ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ اس جگہ نماز سے کوئ خاص نماز مراد نہیں ، بلکہ تمام فرائض و واجبات اور نفلی نمازوں کو یہ لفظ شامل ہے۔ خلاصہٴ مضمون یہ ہوا کہ وہ لوگ جو نمازوں کی پابندی بھی قوائدِ شرعیہ کے مطابق کرتے ہیں، اور ان کے پورے آداب بھی بجا لاتے ہیں۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ

Friday 18 November 2016

متّقین کی تین صفات: حصہ اوّل

"یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئ شک نہیں، یہ ہدایت ہے ان ڈر رکھنے والوں کے لئے جو اندیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے (الله کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔" (سورہٴ البقرہ:۱۔۴)

لغت میں کسی بات کو کسی کے اعتماد پر یقینی طور سے مان لینے کا نام ایمان ہے۔ جو تصدیق مشاہدے کی بنیاد پہ کی جائے اس کو تصدیق کرنا تو کہیں گے ایمان لانا نہیں کہا جائے گا۔ اصطلاحِ شرع میں خبرِ رسول کو بغیر مشاہدے اور محض رسول ﷺ کے اعتماد پر یقینی طور سے مان لینے کا نام ایمان ہے۔ 

قرآن میں لفظ غیب سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جن کی خبر رسول الله ﷺ نے دی ہے، اور ان کا علم بداہتِ عقل اور حواسِ خمسہ کے ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ اس میں الله تعالیٰ کی ذات و صفات بھی آ جاتی ہیں، اور تقدیری امور، جنّت و دوزخ کے حالات، قیامت اور اس میں پیش آنے والے حالات، فرشتے، تمام آسمانی کتابیں اور تمام انبیاء سابقینؑ بھی۔

تو اب ایمان بالغیب کے معنی یہ ہو گئے کہ رسول الله ﷺ جو ہدایات و تعلیمات لے کر آئے ہیں، ان سب کو یقینی طور پر دل سے ماننا۔ شرط یہ ہے کہ اس تعلیم کا رسول الله ﷺ سے منقول ہونا قطعی طور پر ثابت ہو۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ


خود اپنی مدح و ثناء بیان کرنا کسی انسان کے لئے جائز نہیں

خود اپنی مدح و ثناء کا بیان کرنا کسی انسان کے لئے جائز نہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

فلا تزکو آ انفسکم ھو اعلم بمن اتّقیٰ
"تم اپنی پاکی اور صفائ کا دعویٰ نہ کرو، الله ہی جانتا ہے کون متّقی ہے۔"(۵۳:۳۲)

مطلب یہ کہ انسان کی تعریف اور مدح کا مدار تقویٰ پر ہے، اور اس کا حال الله تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ کس کا تقویٰ کس درجے کا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Thursday 17 November 2016

"(اے الله!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔" (سورہٴ فاتحہ:۴)

اس آیت میں ارشاد یہ ہے کہ "ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں"، کس کام میں مدد مانگتے ہیں اس کا ذکر نہیں۔ جمہور مفسّرین نے لکھا ہے کہ اس کا ذکر نہ کرنے میں عموم کی طرف اشارہ ہے کہ ہم اپنی ہر عبادت اور ہر دنیاوی اور دینی کام اور ہر مقصد میں صرف آپ ہی کی مدد چاہتے ہیں۔ 

پھر عبادت صرف نماز روزے کا نام نہیں۔ امام غزالیؒ نے اپنی کتاب اربعین میں عبادت کی دس قسمیں لکھی ہیں: ۱۔ نماز، ۲۔ زکوٰة، ۳۔ روزہ، ۴۔ حج، ۵۔ تلاوتِ قرآن، ۶۔ ہر حالت میں الله کا ذکر کرنا، ۷۔ حلال روزی کے لئے کوشش کرنا، ۸۔ پڑوسی اور ساتھی کے حقوق ادا کرنا، ۹۔ لوگوں کو نیک کاموں کا حکم کرنا اور برے کاموں سے منع کرنا، ۱۰۔ رسول الله ﷺ کی سنّت کا اتّباع کرنا۔ 

اس لئے عبادت میں الله تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کے معنی یہ ہو گئے کہ نہ کسی کی محبّت الله تعالیٰ کی محبّت کے برابر ہو، نہ کسی کا خوف اس کے برابر ہو، نہ کسی سے امید اس کی طرح ہو، نہ کسی پر بھروسہ الله کے مثل ہو، نہ کسی کی اطاعت و خدمت اور کام کو اتنا ضروری سمجھے جتنا الله تعالیٰ کی عبادت کو، نہ الله تعالیٰ کی طرح کسی کی نذر اور منّت مانے، نہ الله تعالیٰ کی طرح کسی دوسرے کے سامنے اپنی مکمل عاجزی اور تذلّل کا اظہار کرے، نہ وہ افعال کسی دوسرے کے لئے کرے جو انتہائ تذلّل کی علامات ہیں، جیسے رکوع و سجدہ۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Wednesday 16 November 2016

سورہٴ فاتحہ

ترجمہ: "تمام تعریفیں الله کی ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ جو سب پر مہربان، بہت مہربان ہے۔ جو روزِ جزا کا مالک ہے۔ (اے الله!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما۔ ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا ہے، نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا ہے، اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔" (سورہٴ فاتحہ)

صحیح مسلم میں بروایتِ حضرت ابو ہریرہؓ منقول ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: "حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نماز (یعنی سورہٴ فاتحہ) میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصّوں میں تقسیم کی گئ ہے، نصف میرے لئے ہے اور نصف میرے بندے کے لئے، اور جو کچھ میرا بندہ مانگتا ہے وہ اس کو دیا جائے گا۔" پھر رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ بندہ جب کہتا ہے الحمداللہ  رب العٰلمین تو الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ "میرے بندے نے میری حمد کی ہے"، اور جب بندہ کہتا ہے الرحمٰن الرحیم تو الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ "میر ے بندے نے میری تعریف و ثناء بیان کی ہے"، اور جب بندہ کہتا ہے مٰلک یوم الدین تو الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ "میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے"، اور جب بندہ کہتا ہے ایاک نعبد و ایاک نستعین تو الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ "یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے"، کیونکہ اس میں ایک پہلو الله تعالیٰ کی حمد و ثناء کا ہے اور دوسرا پہلو بندے کی دعا و درخواست کا۔ اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ: "میرے بندے کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی"۔ پھر جب بندہ کہتا ہے: اھدنا الصراط المستقیم (آخر تک) تو حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ "یہ سب میرے بندے کے لئے ہے، اور ا سکو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی"۔ (مظہری)

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Tuesday 15 November 2016

غیر مسلموں کی جان کی حرمت

"۔۔۔اور تم نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا، پھر ہم نے تمہیں اس گھٹن سے نجات دی، اور تمہیں کئ آزمائشوں سے گزارا۔۔۔" (سورہٴ طٰهٰ:۴۰)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک اسرائیلی مسلمان سے ایک فرعونی کافر کو لڑتا دیکھ کر فرعونی کو مکّہ مارا جس سے وہ مر گیا۔ اس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خود بھی  عملِ شیطان فرمایا اور الله تعالیٰ سے بھی اس خطا کی معافی طلب کی۔

یہاں ایک فقہی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فرعونی شخص ایک کافر حربی تھا جس سے موسیٰ علیہ السلام کا کوئ معاہدہ صلح بھی نہ تھا، نہ اس کو اہلِ ذمّہ کافروں کی فہرست میں داخل کیا جا سکتا ہے جن کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت مسلمانوں پر واجب ہوتی ہے۔ پھر یہاں اس کو عملِ شیطان اور خطا کس بنا پر قرار دیا گیا؟

مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ الله علیه نے اس کا جواب یہ دیا تھا کہ چونکہ اس وقت نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حکومت تھی اور نہ اس فرعونی کی، بلکہ دونوں حکومتِ فرعون کے شہری تھے اور ایک دوسرے کی طرف سے مطمئن تھے، اس لئے یہ ایک قسم کا عملی معاہدہ تھا۔ فرعونی کے قتل میں اس عملی معاہدے کی خلاف ورزی ہوئ اس لئے اس کو خطا قرار دیا گیا۔ اسی بنا پہ حضرت تھانویؒ مشترک ہندوستان میں جبکہ مسلمان اور ہندو دونوں انگریز کی حکومت میں رہتے تھے کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں سمجھتے تھے کہ وہ کسی ہندو کی جان و مال پہ ظلم کرے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Sunday 13 November 2016

"بیشک جو لوگ ایمان لے آئے ہیں، اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں، خدائے رحمٰن ان کے لئے دلوں میں محبّت پیدا کر دے گا۔" (سورہٴ مریم:۹۶)

اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع ؒ نے فرمایا کہ جب ایمان اور عملِ صالح مکمّل ہوں اور بیرونی عوارض سے خالی ہوں تو ان کاخاصّہ یہ ہے کہ موٴمنین صالحین کے درمیان آپس میں بھی الفت و محبّت ہو جاتی ہے۔ ایک نیک صالح آدمی دوسرے نیک آدمی سے مانوس ہوتا ہے اور دوسرے تمام لوگوں اور مخلوقات کے دلوں میں بھی الله تعالیٰ ان کی محبّت پیدا فرما دیتے ہیں۔

بخاری، مسلم، ترمذی، وغیرہ نے حضرت ابو ہریرہؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ حقِ تعالیٰ جب کسی بندے کو پسند فرماتے ہیں تو جبرئیل امین سے کہتے ہیں کہ میں فلاں آدمی سے محبّت کرتا ہوں، تم بھی ان سے محبّت کرو۔ جبرئیل امین سارے آسمانوں میں اس کی منادی کرتے ہیں اور سب آسمان والے اس سے محبّت کرنے لگتے ہیں۔ پھر یہ محبّت زمین زمین پر نازل ہوتی ہے (تو زمین والے بھی سب اس محبوبِ خدا سے محبّت کرنے لگتے ہیں)۔ اور فرمایا کہ قرآن کریم کی یہ آیت اس پر شاہد ہے۔ اور ہرم بن حیّانؒ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے پورے دل سے الله تعالیٰ کی طرف متوجّہ ہو جاتا ہے تو الله تعالیٰ تمام اہلِ ایمان کے دل اسکی طرف متوجّہ فرما دیتے ہیں۔ (قرطبی)

ماخوذ از معارف القرآن، تالیفِ مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Saturday 12 November 2016

ایفائے عہد

"اور اس کتاب میں اسمٰعیل کا بھی ذکر کرو۔ بیشک وہ وعدے کے سچّے تھے، اور رسول اور نبی تھے۔" (سورہٴ مریم:۵۴)

ایفاء عہد ایک ایسا حسنِ خلق ہے کہ ہر شریف آدمی اس کو ضروری سمجھتا ہے اور اس کے خلاف کرنے کو ایک بہت بری حرکت قرار دیا جاتا ہے۔  حدیث شریف میں وعدہ خلافی کو نفاق کی علامت بتلایا ہے، اس لئے الله کا کوئ نبی و رسول ایسا نہیں جو وعدے کا پکّا نہ ہو۔ 

حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ "وعدہ ایک قرض ہے" یعنی جس طرح قرض کی ادائیگی انسان پر لازم ہے اسی طرح وعدہ پورا کرنے کا اہتمام بھی لازم ہے۔ ایک اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ "مومن کا وعدہ واجب ہے"۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ اللہ علیه

Friday 11 November 2016

"رہی یہ دیوار، تو وہ اس شہر میں رہنے والے دو یتیم لڑکوں کی تھی، اور اس کے نیچے ان کا ایک خزانہ گڑا ہوا تھا، اور ان دونوں کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔۔۔" (سورہٴ الکھف: ۸۲)

یہ آیت سورہ کہف کی ان آیتوں میں سے ہے جن میں حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا پورا قصّہ بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابنِ عبّاس ؓ نے فرمایا کہ وہ (خزانہ جس کا اس آیت میں ذکر ہے) سونے کی ایک تختی تھی جس پر نصیحت کے مندرجہ ذیل کلمات لکھے ہوئے تھے، یہ روایت حضرت عثمان بن عفّان نے مرفوعاً رسول الله ﷺ سے بھی نقل فرمائ۔ (قرطبی) 

۱۔ بسم الله الرحمٰن الرحیم۔
۲۔ تعجّب ہے اس شخص پر جو تقدیر پر ایمان رکھتا ہے، پھر غمگین کیوں کر ہوتا ہے۔
۳۔ تعجّب ہے اس شخص پر جو اس پر ایمان رکھتا ہے کہ رزق کا ذمّہ دار الله تعالیٰ ہے، پھر ضرورت سے زیادہ مشقّت اور فضول قسم کی کوشش میں کیوں لگتا ہے۔
۴۔ تعجّب ہے اس شخص پر جو موت پر ایمان رکھتا ہے پھر خوش و خرّم کیسے رہتا ہے۔
۵۔ تعجّب ہے اس شخص پر جو حسابِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے پھر غفلت کیسے برتتا ہے۔
۶۔ تعجّب ہے اس شخص پر جو دنیا اور اس کے انقلابات کو جانتا ہے پھر کیسے اس پر مطمئن ہو کر بیٹھتا ہے۔
۷۔ لا الہٰ الا الله محمد رسول الله

ماخوذ از بیان القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه
حاکم نے مستدرک میں حضرت انس رضی الله تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے کہ جب رسول الله ﷺ کی وفات ہوئ تو ایک شخص سیاہ سفید داڑھی والے داخل ہوئے ، اور لوگوں کے مجمع کو چیرتے پھاڑتے اندر پہنچے اور رونے لگے۔ پھر صحابہٴ کرام کی طرف متوجّہ ہو کر یہ کلمات کہے:

"الله کی بارگاہ میں صبر ہے ہر مصیبت سے، اور بدلہ ہے ہر فوت ہونیوالی چیز کا، اور وہی قائم مقام ہے ہر ہلاک ہونے والے کا، اس لئے اسی کی طرف رجوع کرو، اسی کی طرف رغبت کرو، اور اس بات کو دیکھو کہ وہ تمہیں مصیبت میں مبتلا کر کے تم کو آزماتا ہے۔ اصل مصیبت زدہ وہ ہے جس کی مصیبت کی تلافی نہ ہو۔"

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہٴ کہف، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Tuesday 8 November 2016

اختلافی معاملات میں طویل بحثوں سے اجتناب

"کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین آدمی تھے اور چوتھا ان کا کتّا تھا، اور کچھ کہیں گے کہ وہ پانچ تھے، اور چھٹا اور ان کا کتّا تھا۔ یہ سب اٹکل کے تیر چلانے کی باتیں ہیں۔ اور کچھ کہیں گے کہ وہ سات تھے، اور آٹھواں ان کا کتّا تھا۔ کہہ دو کہ:"میرا رب ہی ان کی صحیح تعداد کو جانتا ہے۔ تھوڑے سے لوگوں کے سوا کسی کو ان کا پورا علم نہیں۔" لہذا ان کے بارے میں سرسری گفتگو سے آگے بڑھ کر کوئ بحث نہ کرو، اور نہ ان کے بارے میں کسی سے پوچھ گچھ کرو۔" (سورہٴ کہف:۲۲)

حضرت مفتی محمد شفیع ؒ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اس میں رسول الله ﷺ کو جو تعلیم دی گئ ہے وہ درحقیقت علماء امّت کے لئے اہم رہنما اصول ہیں، کہ جب کسی معاملے میں اختلاف پیش آئے تو جس قدر ضروری بات ہے اس کو واضح کر کے بیان کر دیا جائے۔ اس کے بعد بھی لوگ غیر ضروری بحث میں الجھیں تو ان کے ساتھ سرسری گفتگو کر کے بحث ختم کر دی جائے۔ اپنے دعوے کے اثبات میں کاوش اور ان کی بات کی تردید میں بہت زور لگانے سے گریز کیا جئے کہ اس کا کوئ خاص فائدہ تو ہے نہیں۔ مزید بحث و تکرار میں وقت کا زیاں بھی ہے اور باہم تلخی پیدا ہونے کا خطرہ بھی۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Monday 7 November 2016

الله اور اللہ کے رسول ﷺ سے محبّت رکھنا

صحیح بخاری میں بروایتِ انس ؓ مذکور ہے کہ میں اور رسول الله ﷺ ایک روز مسجد سے نکل رہے تھے۔ مسجد کے دروازے پہ ایک شخص ملا اور اس نے سوال کیا کہ یا رسول الله ﷺ! قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا کہ تم نے قیامت کے لئے کیا تیّاری کر رکھی ہے؟ (جو اس کے آنے کی جلدی کر رہے ہو) یہ بات سن کر یہ شخص دل میں کچھ شرمندہ ہوا اور پھر عرض کیا کہ میں نے قیامت کے لئے بہت نماز، روزے اور صدقات تو جمع نہیں کئے، مگر میں الله اور اس کے رسولؐ سے محبّت رکھتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر ایسا ہے تو تم (قیامت میں) اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبّت رکھتے ہو۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ہم یہ جملہٴ مبارکہ رسول الله ﷺ سے سن کر اتنے خوش ہوئے کہ اسلام لانے کے بعد سے اس سے زیادہ خوشی کبھی نہ ہوئ تھی۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِسورہٴ کہف، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Sunday 6 November 2016

الله کے خوف سے رونا

"(کافروں سے) کہہ دو کہ:"چاہے تم اس پہ ایمان لاؤ، یا نہ لاؤ، جب یہ (قرآن) ان لوگوں کے سامنے پڑھا جاتا ہے جن کو اس سے پہلے علم دیا گیا تھا تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں، اور کہتے ہیں: "پاک ہے ہمارا پروردگار! بے شک ہمارے پروردگار کا وعدہ تو پورا ہو کر ہی رہتا ہے۔" اور وہ روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گر جاتے ہیں، اور یہ (قرآن) ان کے دلوں کی عاجزی کو اور بڑھا دیتا ہے۔" (سورہٴ بنی اسرائیل: (۱۰۷۔۱۰۹)

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ جہنّم میں نہ جائے گا وہ شخص جو الله کے خوف سے رویا، جب تک کہ دوہا ہوا دودھ دوبارہ تھنوں میں نہ واپس لوٹ جائے( یعنی جیسے یہ نہیں ہو سکتا کہ تھنوں سے نکالا ہوا دودھ پھر تھنوں میں واپس ڈال دیا جائے، اسی طرح یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ الله کے خوف سے رونے والا جہنّم میں چلا جائے)۔

ایک روایت میں ہے کہ الله تعالیٰ نے دو آنکھوں پہ جہنّم کی آگ حرام کر دی، ایک وہ جو الله کے خوف سے روئے، اور دوسری وہ جو اسلامی سرحد کی حفاظت کے لئے رات کو بیدار رہے۔ (بیہقی و حاکم و صححہ)

حضرت نضر بن سعد ؓ فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ جس قوم میں کوئ الله کے خوف سے رونے والا ہو تو الله تعالیٰ اس قوم کو اس کی وجہ سے آگ سے نجات عطا فرما دیں گے۔ (روح عن الحکیم الترمذی)

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

آیاتِ بیّنات

ابو داؤد، نسائ، ترمذی، ابنِ ماجہ میں بسندِ صحیح حضرت صفوان بن عسال ؓ سے منقول ہے کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا کہ مجھے اس نبی کے پاس لے چلو۔ پھر یہ دونوں رسول الله ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ "موسیٰ علیہ السلام کو جو نو آیاتِ بیّنات دی گئ تھیں وہ کیا ہیں؟" رسول الله ﷺ نے فرمایا، "(۱) الله کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ (۲) چوری نہ کرو۔ (۳) زنا نہ کرو۔ (۴) جس جان کو الله نے حرام کیا ہے اس کو ناحق قتل نہ کرو۔ (۵) کسی بے گناہ پہ جھوٹا الزام لگا کر قتل و سزاء کے لئے پیش نہ کرو۔ (۶) جادو نہ کرو۔ (۷) سود نہ کھاؤ۔ (۸) پاکدامن عورت پہ بدکاری کا بہتان نہ باندھو۔ میدانِ جہاد سے جان بچا کر نہ بھاگو۔ اور اے یہود خاص کر تمہارے لئے یہ بھی حکم ہے کہ یومِ سبت (سنیچر) کے جو خاص احکام تمہیں دئے گئے ہیں انکی خلاف ورزی نہ کرو۔"

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہٴ بنی اسرائیل، تالیف مفتی محد شفیع رحمتہ الله علیه

Saturday 5 November 2016

تکبّر کی ممانعت

"اور زمین پر اکڑ کر مت چلو۔ نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو، اور نہ بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتے ہو۔" (سورہٴ بنی اسرائیل: ۳۸)

تکبّر کے معنی اپنے آپ کو دوسروں سے افضل و اعلیٰ سمجھنا، اور دوسروں کو اپنے مقابلہ میں کمتر و حقیر سمجھنا ہے۔ حدیث میں اس پر سخت وعیدیں مذکور ہیں۔ انسان کے چال ڈھال میں جو چیزیں  تکبّر پر دلالت کرنے والی ہیں وہ بھی ناجائز ہیں۔ 

امام مسلم ؒ نے بروایت حضرت عیاض بن عمارؓ نقل کیا ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے میرے پاس بذریعہ وحی یہ حکم بھیجا ہے کہ تواضع اور پستی اختیار کرو۔ کوئ آدمی کسی دسرے آدمی پر فخر اور اپنی بڑائ کا طرز اختیار نہ کرے، اور کوئ کسی پر ظلم نہ کرے۔ (مظہری)

حضرت عبدالله ابنِ مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ وہ آدمی جنّت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرّہ کے برابر بھی تکبّر ہو گا۔ (مظہری بحوالہ صحیح مسلم)

حضرت فاروقِ اعظمؓ نے منبر پہ خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے رسول الله ﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص تواضع اختیار کرتا ہے الله تعالیٰ اسکو سربلند فرماتے ہیں کہ وہ اپنے نزدیک تو چھوٹا مگر سب لوگوں کی نظر میں بڑا ہوتا ہے۔ اور جو شخص تکبّر کرتا ہے الله تعالیٰ اسکو ذلیل کرتے ہیں کہ وہ خود اپنی نظر میں بڑا ہوتا ہے اور لوگوں کی نظر میں وہ کتّے اور خنزیر سے بدتر ہوتا ہے۔ (مظہری)

 ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ

مالی حقوق کا بیان۔ حصہ سوئم

"اور جب (کسی کو کوئ چیز) پیمانے سے ناپ کر دو تو پورا ناپو، اور صحیح ترازو سے تولا کرو۔ یہی طریقہ درست ہے، اور انجام کے لحاظ سے بہتر۔" (سورہٴ بنی اسرائیل:۳۵)

اس آیت میں لین دین کے معاملات میں ناپ تول پورا کرنےکی ہدایت اور اس میں کمی کرنے کی ممانعت کا حکم ہے۔ حضرات فقہاء نے فرمایا کہ اس آیت میں ناپ تول میں کمی کا جو حکم ہے اسکا حاصل یہ ہے کہ جس کا جتنا حق ہے اس سے کم دینا حرام ہے۔ اس لئے  اگر کوئ ملازم  اپنے تفویض کئے ہوئے اور مقرّرہ کام میں میں کمی کرے، یا جتنا وقت دینا ہے اس سے کم دے، یا مزدور اپنی مزدوری میں کام چوری کرے، یہ سب اس میں داخل ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Thursday 3 November 2016

مالی حقوق کا بیان۔ حصہ دوئم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

دوسرا حکم اس آیت میں (جس کی تفصیل پچھلی پوسٹ میں آئ) عہد پورا کرنے کی تاکید ہے۔ عہد دو طرح کے ہیں۔ ایک  عہد وہ ہے جو بندہ اور الله کے درمیان ہے، جسکا حاصل احکام الٰہیہ کا مکمّل اتّباع اور الله تعالیٰ کی رضا جوئ ہے۔ دوسرا عہد وہ جو ہے جو انسان کسی انسان سے کرتا ہے جس میں تمام سیاسی، تجارتی، معاملاتی معاہدات شامل ہیں جو افراد یا جماعتوں کے درمیان دنیا میں ہوتے ہیں۔ 

پہلی قسم کے تمام معاہدات کا پورا کرنا انسان پر واجب ہے۔ دوسری قسم میں جو معاہدات خلافِ شرع نہ ہوں ان کا پورا کرنا واجب ہے، اور جو خلافِ شرع ہوں ان کا فریقِ ثانی کو اطّلاع کر کے ختم کر دینا واجب ہے۔ معاہدہ کی حقیقت یہ ہے کہ دو فریقوں کے درمیان کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا عہد ہو۔ جو کوئ شخص کسی سے یکطرفہ وعدہ کر لیتا ہے کہ میں آپ کو فلاں چیز دوں گا، یا آپ کا فلاں کام کر دوں گا اس کا پورا کرنا بھی واجب ہے۔ بلا عذرِ شرعی کے کسی سے وعدہ کر کے جو خلاف ورزی کرے گا وہ شرعاً گناہ گار ہو گا۔ حدیث میں اس کو عملی نفاق قرار دیا گیا ہے۔

ماخوذ از بیان القرآن، الیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Wednesday 2 November 2016

مالی حقوق کا بیان۔ حصہ اوّل

"ْاور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ پھٹکو، مگر ایسے طریقے سے جو ( اس کے حق میں) بہترین ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی کو پہنچ جائے۔ اور عہد کو پورا کرو، یقین جانو کہ عہد کے بارے میں (تہاری) بازپرس ہونے والی ہے۔ اور جب (کسی کو کوئ چیز) پیمانے سے ناپ کر دو تو پورا ناپو، اور صحیح ترازو سے تولا کرو۔ یہی طریقہ درست ہے، اور انجام کے لحاظ سے بہتر۔" (سورہٴ بنی اسرائیل:۳۴۔۳۵)

پہلی آیت میں یتیموں کے اموال کی حفاظت اور ان میں احتیاط کا حکم ہے کہ کوئ ایسا کام نہ کرو جو بچّوں کی مصلحت کے خلاف ہو۔ یتیموں کے مال کی حفاظت اور انتظام جن کے ذمّہ ہے ان پر لازم ہے کہ ان میں بڑی احتیاط سے کام لیں۔ صرف یتیموں کی مصلحت کو دیکھ کر خرچ کریں، اپنی خواہش یا بے فکری سے نہ خرچ کریں۔ اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے جب تک یتیم بچّے جوان ہو کر اپنے مال کی حفاظت خود نہ کر سکیں۔ 

ناجائز طریقے پر کسی کا مال خرچ کرنا بھی جائز نہیں۔ یہاں یتیموں کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ وہ خود تو کوئ حساب لینے کے قابل نہیں، اور دوسروں کو اس کی خبر نہیں ہو سکتی۔ جس جگہ کوئ انسان اپنے حق کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو وہاں حق تعالیٰ کا مطالبہ زیادہ شدید ہو جاتا ہے اور اس میں کوتاہی عام لوگوں کے حقوق کی نسبت سے زیادہ بڑا گناہ ہو جاتی ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Tuesday 1 November 2016

خرچ میں بد نظمی ممنوع ہے

"اور نہ تو (ایسے کنجوس بنو کہ) اپنے ہاتھ کو گردن سے باندھ کر رکھو، اور نہ (ایسے فضول خرچ کہ) ہاتھ کو بالکل ہی کھلا چھوڑ دو جس کے نتیجے میں تمہیں قابلِ ملامت اور قلّاش ہو کر بیٹھنا پڑے۔
(سورہٴ بنی  اسرائیل:۲۹)

اس آیت میں مال خرچ کرنے میں میانہ روی کی تاکید کی گئ ہے۔ نہ اتنا کنجوس ہو جائے کہ حق دار ضرورت مندوں کی مدد سے بھی ہاتھ روک لے، نہ ہی اتنا فضول خرچ ہو جائے کہ بعد میں خود اپنے لئے، اور جن لوگوں کے حقوق اس کے ذمّہ واجب ہیں، ان کے لئے مشکل کھڑی ہو جائے۔

آخر میں اس آیت میں بد نظمی کے ساتھ خرچ کرنے کو منع کیا گیا ہے کہ آنے والے حالات سے قطع نظر کر کے جو کچھ پاس ہے اسے اسی وقت خرچ کر ڈالے۔ کل کو دوسرے ضرورت مند لوگ آئیں یا کوئ اہم دینی ضرورت پیش آ جائے تو اب اس کے لئے قدرت نہ رہے۔ (قرطبی) یا اہل و عیال جنکے حقوق اس کے ذمّہ واجب ہیں ان کے حقوق ادا کرنے کی استطاعت نہ رہے۔  (مظہری) ملوماً محسوراً کے الفاظ کے متعلّق تفسیرِ مظہری میں ہے کہ ملوم کا تعلّق پہلی حالت یعنی بخل سے ہے کہ اگر ہاتھ کو بخل سے بالکل روک لے گا تو لوگ ملامت کریں گے اور محسورا کا تعلّق دوسری حالت سے ہے کہ خرچ کرنے میں اتنی زیادتی کرے کہ خود فقیر ہو جائے تو یہ محسورا یعنی تھکا ماندہ، عاجز یا حسرت زدہ ہو جائے گا۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہٴ بنی اسرائیل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Monday 31 October 2016

"اور اگر کبھی تمہیں ان (رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں) سے اس لئے منہ پھیرنا پڑے کہ تمہیں الله کی متوقّع رحمت کا انتظار ہو تو ایسے میں ان کے ساتھ نرمی سے بات کر لیا کرو۔" (سورہٴ بنی اسرائیل:۲۸)

اس آیت میں رسول کریم ﷺ اور ان کے واسطے سے پوری امّت کی عجیب اخلاقی تربیت کی گئ ہے کہ اگر کسی وقت ضرورت مند لوگ سوال کریں اور آپ کے پاس ان کو دینے کے لئے کچھ نہ ہو اس لئے ان لوگوں سے معذرت کرنے پر مجبور ہو تو ایسے وقت بھی آپ کی یہ معذرت مخاطب کے لئے توہین آمیز نہ ہونی چاہئے بلکہ یہ پہلو تہی کرنا اپنے عجز و مجبوری کے اظہار کے ساتھ ہونا چاہئے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہٴ بنی اسرائیل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Sunday 30 October 2016

فضول خرچی کی ممانعت

فضول خرچی کے معنی کو قرآن حکیم نے دو لفظوں سے تعبیر فرمایا ہے ایک تبذیر اور دوسرے اسراف۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ دونوں لفظ ہم معنی ہیں، کسی معصیت میں یا بے موقع بے محل خرچ کرنے کو تبذیر و اسراف کہا جاتا ہے۔ بعض حضرات نے یہ تفصیل کی ہے کہ کسی گناہ میں یا بالکل بے موقع بے محل خرچ کرنے کو تبذیر کہتے ہیں، اور جہاں خرچ کرنے کا موقع تو ہو مگر ضرورت سے زائد خرچ کیا جائے اس کو اسراف کہتے ہیں۔ 

امام قرطبیؒ نے فرمایا کہ حرام و ناجائز کام میں تو ایک درہم خرچ کرنا بھی تبذیر ہے، اور جائز و مباح خواہشات میں حد سے زیادہ خرچ کرنا جس سے آئندہ محتاج فقیر ہو جانے کا خطرہ ہو جائے یہ بھی تبذیر میں شامل ہے۔ ہاں اگر کوئ شخص اصل راس المال کو محفوظ رکھتے ہوئے اسکے منافع کو اپنی جائز خواہشات میں وسعت کے ساتھ خرچ کرتا ہے تو وہ تبذیر میں داخل نہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہٴ بنی اسرائیل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Thursday 27 October 2016

عام رشتہ داروں کے حقوق

"اور رشتہ دار کو اس کا حق دو، اور مسکین اور مسافر کو (ان کا حق)، اور اپنے مال کو بے ہودہ کاموں میں مت اڑاؤ۔ یقین جانو کہ جو لوگ بے ہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں، وہ شیطانوں کے بھائ ہیں، اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔" (سورہٴ بنی اسرائیل:۲۶۔۲۷)

اس آیت سے اتنی بات تو ثابت ہو گئ کہ ہر شخص پہ اسکے عام رشتہ داروں اور عزیزوں کا بھی حق ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک اس فرمان کے تحت جو رشتہ دار ذی رحم محرم ہو اگر وہ عورت یا بچّہ ہے جس کے پاس اپنے گذارے کا سامان نہیں اور کمانے پہ بھی قدرت نہیں، اسی طرح جو رشتہ دار ذی رحم محرم اپاہج یا اندھا ہو اور اس کی ملک میں اتنا مال نہیں جس سے اس کا گذارہ ہو سکے، تو ان کے جن رشتہ داروں میں اتنی وسعت ہے کہ وہ ان کی مدد کر سکتے ہوں، ان پر ان سب کا نفقہ فرض ہے۔ اگر ایک ہی درجہ کے کئ رشتہ دار صاحبِ وسعت ہوں تو ان سب پر تقسیم کر کے ان کا گذارہ نفقہ دیا جائے گا۔ 

اس آیت میں اہلِ قرابت اور مسکین و مسافر کو مالی مدد دینے اور صلہ رحمی کرنے کو ان کا حق فرما کر اس طرف اشارہ کر دیا کہ دینے والے کو ان پہ احسان جتانے کا کوئ موقع نہیں کیونکہ ان کا حق اس کے ذمّہ فرض ہے۔ دینے والا اپنا فرض ادا کر رہا ہے، کسی پر احسان نہیں کر رہا۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہٴ بنی اسرائیل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Tuesday 25 October 2016

والدین کے حقوق۔ حصہ ہفتم

حضرت عبد الله ابنِ عمر رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا، "باپ کے ساتھ بڑا سلوک یہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔"

حضرت ابو اسید بدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری شخص نے رسول الله ﷺ سے سوال کیا، "یا رسول الله! ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کا کوئ حق میرے ذمہ باقی ہے؟" آپؐ نے فرمایا، "ہاں! ان کے لئے دعا اور استغفار کرنا، جو عہد انہوں نے کسی سے کیا تھا اس کو پورا کرنا، ان کے دوستوں کا اکرام و احترام کرنا، اور ان کے ایسے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا برتاؤ کرنا جنکا رشتہ قرابت صرف انہیں کے واسطے سے ہے۔ والدین کے یہ حقوق ہیں جو ان کے بعد بھی تمہارے ذمّہ باقی ہیں۔"

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورةٴ بنی اسرائیل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Monday 24 October 2016

والدین کے حقوق۔ حصہ ششم

حضرت اسماء ؓ نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ میری والدہ جو مشرک ہے مجھ سے ملنے کے لئے آتی ہے۔ کیا میرے لئے جائز ہے کہ اس کی خاطر مدارات کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا، "صِلِی ا’مَّکِ (یعنی اپنی ماں کی صلہ رحمی اور خاطر مدارات کرو)۔" اور غیر مسلم ماں باپ کے بارے میں خود قرآن کریم کا یہ ارشاد موجود ہے، "و صاحبھما فی الدنیا معروفا"، ترجمہ: جس کے ماں باپ غیر مسلم ہوں اور اسے بھی اسلام چھوڑنے کا حکم دیں تو ان کا اس معاملے میں حکم ماننا تو جائز نہیں مگر دنیا میں ان کے ساتھ معروف طریقے کا برتاؤ کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ معروف طریقہ سے یہی مراد ہے کہ ان کے ساتھ مدارات کا معاملہ کریں۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہٴ بنی اسرائیل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه