Wednesday 6 April 2016

"احسان" ہر وقت مطلوب ہے

حدیث میں آتا ہے کہ الّٰلہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو کہ جیسے تم الّٰلہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو۔ اور اگر یہ نہ ہو سکے تو کم از کم اس خیال کے ساتھ عبادت کرو کہ الّٰلہ تعالیٰ تمہیں دیکھ رہے ہیں۔ اس کو درجہ "احسان" کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالحئ ؒ نے فرمایا کہ ایک دفعہ ایک صاحب ان کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ الّٰلہ کا شکر ہے کہ مجھے "احسان" کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ حضرت ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے ان کو مبارک باد دی کہ الّٰلہ تعالیٰ مبارک فرمائے، یہ تو بہت بڑی نعمت ہے۔ البتّہ میں آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کو یہ "احسان" کا درجہ صرف نماز میں حاصل ہوتا ہے، اور جب بیوی بچّوں کے ساتھ معاملات کرتے ہو اس وقت بھی حاصل ہوتا ہے یا نہیں؟ یعنی بیوی بچّوں کے ساتھ معاملات کرتے وقت بھی آپ کو یہ خیال آتا ہے کہ الّٰلہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں، یا یہ خیال اس وقت نہیں آتا؟ وہ صاحب جواب میں کہنے لگے کہ حدیث میں تو یہ آیا ہے کہ جب عبادت کرے تو اس طرح عبادت کرے گویا کہ وہ الّٰلہ کو دیکھ رہا ہے، یا الّٰلہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہے ہیں۔ حضرت ڈاکٹر صاحب ؒ نے فرمایا کہ میں نے اسی لیے آپ سے یہ سوال کیا تھا کہ آج کل عام طور پر غلط فہمی پائ جاتی ہے کہ "احسان" صرف نماز میں ہی مطلوب ہے۔ حالانکہ "احسان" ہر وقت مطلوب ہے، زندگی کے ہر مرحلے اور شعبے میں مطلوب ہے۔ دکان پر بیٹھ کر تجارت کر رہے ہو وہاں پر "احسان" مطلوب ہے یعنی دل میں یہ استحضار ہونا چاہیے کہ الّٰلہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ جب اپنے ماتحتوں کے ساتھ معاملات کر رہے ہو اس وقت بھی "احسان" مطلوب ہے۔ جب بیوی بچّوں، دوست احباب اور پڑوسیوں سے معاملات کر رہے ہو اس وقت بھی یہ یاد رہنا چاہیے کہ الّٰلہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ حقیقت میں "احسان" کا مرتبہ یہ ہے، صرف نماز تک محدود نہیں ہے۔

ماخوذ از بیان "بیوی کے حقوق"، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانیؒ مدظلہم

Tuesday 5 April 2016

عبادت میں سب سے پسندیدہ راستہ الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول کا بتایا ہوا راستہ ہے

حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ تہجّد کے وقت سرکارِ دو عالم ﷺ اپنے گھر سے نکلے۔ جب وہ حضرت صدیق اکبر ؓ کے گھر کے پاس سے گزرے تو آپ نے دیکھا کہ وہ عاجزی کے ساتھ نہایت آہستہ آواز سے تہجّد کی نماز میں تلاوت کر رہے ہیں۔ آگے جا کر دیکھا کہ حضرت فاروق اعظم ؓ تہجّد پڑھ رہے تھے اور اس میں بلند آواز سے قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے اور ان کی تلاوت کی آواز باہر تک سنائ دے رہی تھی۔ آپ یہ دیکھتے ہوئے واپس تشریف لے آئے۔

بعد میں آپﷺ نے حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم رضی الّٰلہ عنہما دونوں کو اپنے پاس بلایا اور پہلے حضرت صدیق اکبر ؓ سے فرمایا کہ میں رات کو تہجّد کے وقت آپ کے پاس سے گزرا تو آپ بہت آہستہ آواز سے تلاوت کر رہے تھے۔ آپ اتنی آہستہ آواز سے کیوں تلاوت کر رہے تھے؟ حضرت صدیق اکبر ؓ نے فرمایا کہ یا رسول الّٰلہ ﷺ "اسمعت من ناجیت" یعنی جس ذات سے میں مناجات کر رہا تھا اس کو تو سنا دیا، اب آواز بلند کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس لیے میں آہستہ تلاوت کر رہا تھا۔

پھر حضرت فاروق اعظم ؓ سے پوچھا کہ تم زور زور سے تلاوت کر رہے تھے۔ اس کی کیا وجہ تھی؟ انہوں نے جواب میں فرمایا، "انی او قظ الوسنان وا طرد الشیطان" میں زور سے اس لیے تلاوت کر رہا تھا کہ جو لوگ پڑے سو رہے ہیں وہ بیدار ہو جائیں، اور شیطان بھاگ جائے۔

اب ذرا دیکھیے کہ دونوں کی باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں، لیکن اس کے بعد حضور اقدس ﷺ نے ان دونوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے ابو بکر! تم نے اپنی سمجھ سے یہ راستہ اختیار کیا کہ بہت آہستہ تلاوت کرنی چاہیے، اور اے فاروق! تم نے اپنی سمجھ سے یہ راستہ اختیار کیا کہ زور سے تلاوت کرنی چاہیے، لیکن الّٰلہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ نہ زیادہ زور سے تلاوت کرو، اور نہ زیادہ آہستہ تلاوت کرو، بلکہ معتدل آواز سے تلاوت کرو، اسی میں زیادہ نور اور برکت ہے اور اسی میں زیادہ فائدہ ہے، اس کو اختیار کرو۔

معلوم ہوا کہ عبادت کے اندر اپنی طرف سے کوئ راستہ اختیار کر لینا الّٰلہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا پسندیدہ نہیں جتنا الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول کا بتایا ہوا راستہ پسندیدہ ہے۔ بس جو راستہ ہم نے بتایا ہے وہ راستہ اختیار کرو، اس میں جو نور اور فائدہ ہے وہ کسی اور میں نہیں۔

دین کی ساری روح یہ ہے کہ اطاعت اور عبادت الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرنی ہے، اپنی طرف سے کوئ طریقہ گھڑ لینا درست نہیں۔

ماخوذ از بیان "بدعت ایک سنگین گناہ"، از حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی ؒ مدظلہم

Monday 4 April 2016

فرمایا، "کسی بھی انسان کو کسی بھی انداز سے ناحق تکلیف پہنچانا گناہ کبیرہ ہے۔"

بدعت کی حیقت

 بدعت کے اصلی معنیٰ یہ ہیں کہ دین میں کوئ نیا طریقہ نکالنااور ایسی چیز کو ازخود مستحب، سنّت یا واجب قرار دینا جس کو نبی کریم ﷺ اور خلفأ راشدین نے مستحب، سنّت یا واجب قرار نہیں دیا۔ مثلاً کسی مرحوم کے لیے ایصالِ ثواب کرنے سے دوگنا ثواب ملتا ہے، ایک اس عمل کے کرنے کا اور دوسرا ایک مسلمان کے ساتھ ہمدردی کرنے کا۔ لیکن شریعت نے اس ایصالِ ثواب کے لیے نہ کوئ خاص طریقہ مقرّر کیا ہے اور نہ کوئ خاص دن۔ مثلاً یہ ایصالِ ثواب کلام پاک پڑھ کر بھی کر سکتے ہیں، نماز پڑھ کر بھی اور صدقہ کر کے بھی۔ اسی طرح یہ ایصالِ ثواب انتقال کے دن بھی کر سکتے ہیں، دوسرے دن بھی اور پانچویں یا ساتویں دن بھی۔ جس وقت، جس نیک کام کی توفیق ہو جائے اس نیک کام کا ایصالِ ثواب جائز ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی طرف سے یہ پابندی عائد کر دے کہ ایصالِ ثواب صرف بکرا صدقہ کر کے ہی کر سکتے ہیں، یا تیسرے یا دسویں یا چالیسویں دن ہی کر سکتے ہیں، اور اس کے علاوہ کسی دن یا کسی اور طریقے سے ایصالِ ثواب نہیں ہو سکتا، یا ان خاص دنوں میں کرنے سے زیادہ ثواب ملے گا اور ان میں نہ کرنا موجبِ گناہ ہو گا، تو یہی چیز بدعت ہو جائے گی کیونکہ الّٰلہ سبحانہ تعالیٰ اور الّٰلہ کے رسول ﷺ نے ایسی کوئ پابندیاں عائد نہیں کیں۔ 

اسی سے متعلّق ایک اور بات ہے جس کے بارے میں لوگ اکثر اعتراض کرتے ہیں کہ جب ہر نئ بات گمراہی ہے تو یہ پنکھا بھی گمراہی ہے، گاڑی پہ بیٹھنا بھی گمراہی ہے، ٹیوب لائٹ بھی گمراہی ہے، اس لیے کہ یہ چیزیں تو رسول الّٰلہ ﷺ کے زمانے میں نہیں تھیں، بعد میں پیدا ہوئی ہیں، ان کے استعمال کو بدعت کیوں نہیں کہتے؟ الّٰلہ تعالیٰ نے جو بدعت کو جو ناجائز اور حرام قرار دیا یہ وہ بدعت ہے جو دین کے اندر کوئی نئی بات نکالی جائے اور اس کو دین کا جز اور حصہ بنا لیا جائے کہ ایسا کرنا ضروری ہے اور اس کو نہ کرنے والا گناہ گار ہو گا، حالانکہ اس کی کوئ اصلیت قرآن و سنّت یا صحابہ کے طرزِ عمل سے ثابت نہ ہو۔ اگر کوئی چیز دین کا حصّہ نہیں ہے بلکہ کسی نے اپنے آرام اور استعمال کے لیے کوئی چیز اختیار کر لی مثلاً سفر کرنے کے لیے کار استعمال کر لی تو یہ کوئی بدعت نہیں، کیونکہ دنیا کے کاموں میں الّٰلہ تعالیٰ نے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ مباحات کے دائرے میں رہتے ہوئے جو چاہے کرو۔ لیکن دین کا حصّہ بنا کر، یا کسی غیر مستحب کو مستحب قرار دیکر، یا کسی غیر سنّت کو سنّت کہہ کر، یا کسی غیر واجب کو واجب کہہ کر جب کوئی چیز ایجاد کی جائے گی تو وہ بدعت ہوگی اور حرام ہوگی۔

ماخوذ از بیان "بدعت ایک سنگین گناہ"، حضرت مولانامفتی  محمد تقی عثمانیؒ مدظلہم

Sunday 3 April 2016

شکر کی اہمیت

 حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ الّٰلہ تعالی اس بندے کو بہت پسند فرماتے یں اور اس سے راضی ہو جاتے ہیں جو بندہ کوئ لقمہ کھاتا ہے تو الّٰلہ کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی کا کوئ گھونٹ پیتا ہے تو الّٰلہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے۔

ماخوذ از بیان "دین کی حقیقت تسلیم و رضا"، از حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی ؒ

جو کچھ ہے ہمارے حکم میں ہے!

 الّٰلہ تبارک و تعالیٰ نے حج بڑی عجیب و غریب عبادت بنائ ہے۔ اس میں الّٰلہ تعالیٰ نے قدم قدم پر قاعدوں کے بت توڑے ہیں۔ مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ لیکن آٹھ ذی الحجّہ کو حکم دیا جاتا ہے کہ مسجد ِ حرام چھوڑو اور منیٰ میں جا کر پڑاؤ ڈالو۔ نہ وہاں حرم، نہ کعبہ، نہ وقوف، نہ رمی۔ بس یہ حکم دے دیا کہ ایک لاکھ نمازوں کا ثواب چھوڑو اور منیٰ کے جنگل میں جا کر پانچ نمازیں ادا کرو۔ یہ سب کیوں ہے؟ اس لیے کہ یہ بتانا مقصود ہے کہ نہ کعبہ میں کچھ رکھا ہے، نہ حرم میں کچھ رکھا ہے۔ جو کچھ ہے ہمارے حکم میں ہے۔ جب ہم نے کہہ دیا کہ مسجد حرام میں جا کر نماز پڑھو، تو ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملے گا۔ لیکن جب ہم نے کہہ دیا کہ مسجد حرام کو چھوڑو تو اب اگر کوئ شخص مسجدِ حرام میں نماز پڑھے گا تو ایک لاکھ نمازوں کا ثواب کیا ملتا، الٹا گناہ ہو گا۔ اس لئے کہ اس نے ہمارے حکم کو توڑ دیا۔ 

اسی طرح نماز کو وقت کے ساتھ پابند کیا گیا ہے۔ مغرب کی نماز کے بارے میں حکم ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے پڑھ لو۔ لیکن عرفات کے میدان میں مغرب کی نماز جلدی پڑھو گے تو نماز ہی نہ ہو گی۔ سبق یہ دیا جا رہا ہے کہ یہ مت سمجھ لینا کہ اس مغرب کے وقت میں کچھ رکھا ہے۔ جو کچھ ہے وہ ہمارے حکم میں ہے۔ جب ہم نے کہا کہ جلدی پڑھو تو جلدی پڑھنا باعثِ ثواب تھا۔ اور جب ہم نے کہہ دیا کہ مغرب کا یہ وقت گزار دو اور مغرب کی نماز عشاٴ کے ساتھ ملا کر پڑھو تو اب تمہارے ذمّے وہی فرض ہے۔ تربیت اس بات کی دی جا رہی ہے کہ کسی چیز کو اپنی ذات میں مقصود نہ سمجھنا۔ نہ نماز اپنی ذات میں مقصود ہے، نہ روزہ اپنی ذات میں مقصود ہے۔ نہ کوئ اور عبادت اپنی ذات میں مقصود ہے۔ اصل مقصود الّٰلہ جلّ جلالہ کی اطاعت ہے۔

ماخوذ از بیان "دین کی حقیقت تسلیم و رضا"، اصلاحی خطبات جلد اوّل، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانیؒ

دین اپنا شوق پورا کرنے کا نام نہیں، اتّباع کا نام ہے

حضرت ڈاکٹر عبد الحئ ؒ فرماتے تھے، "میاں! ہر وقت کا تقاضہ دیکھو۔اس وقت کا تقاضہ کیا ہے؟ اس وقت مجھ سے مطالبہ کیا ہے؟ یہ مت دیکھو کہ اس وقت میرا دل کس کام کو چاہ رہا ہے۔ یہ دیکھو کہ اس وقت تقاضہ کس کام کا ہے، اس تقاضے کو پورا کرو۔ یہی الّلہ تبارک و تعالیّ کی مرضی ہے۔ تم نے تو اپنے ذہن میں بٹھا رکّھا تھا کہ روزانہ تہجّد پڑھا کروں گا، روزانہ اتنے پارے تلاوت کیا کروں گا، روزانہ اتنی تسبیحات پڑھا کروں گا۔ اب جب ان کاموں کا وقت آیا تو دل چاہ رہا ہے کہ یہ کام میں پورے کروں اور ذہن پر اس کام کا بوجھ ہے۔ اب عین وقت پر گھر میں سے بیمار ہو گئیں اور اس کے نتیجے میں ان کی تیمارداری، علاج اور دوا دارو میں لگنا پڑا۔ اور اس میں لگنے کی وجہ سے وہ معمول چھوٹنے لگا۔ اس وقت بڑا دل کڑھتا ہے کہ کیا ہو گیا۔ میرا تو آج کا معمول قضا ہو جائے گا۔ ارے! الّٰلہ تعالیٰ نے جس چکر میں ڈالا اس وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ کرو، اگر اس وقت وہ کام چھوڑ کر تلاوت کرنے بیٹھ جاؤ گے تو وہ الّٰلہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ اب اسی میں وہ ثواب ملے گا جو تلاوت کرنے میں ملتا۔ اسی میں وہ ثواب ملے گا جو تسبیحات میں ملتا۔ یہ ہے اصل دین۔

حضرت مولانا مسیح الّٰلہ خان ؒ فرماتے تھے کہ اپنا شوق پورا کرنے کا نام دین نہیں۔ الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول ﷺ کی اتباع کا نام دین ہے۔ مثلاً گھر میں ماں بیمار پڑی ہے، باپ بیمار پڑا ہے۔ لیکن کسی کو شوق ہو گیا کہ عالم بنیں گے، چنانچہ ماں باپ کو بیمار چھوڑ کر مدرسہ میں پڑھنے چلے گئے۔ یہ دین کا کام نہیں ہے۔ یہ اپنا شوق پورا کرنا ہے۔ اس وقت دین کا کام یہ ہے کہ یہ سب چھوڑ کر ماں باپ کی خدمت کرو۔

کسی کو جہاد میں جانے کا شوق ہو گیا، کسی کو مفتی، عالم بننے کا شوق ہو گیا، کسی کو تبلیغ میں جانے کا شوق ہو گیا۔ اور اس شوق کو پورا کرنے کے نتیجے میں ان حقوق کا کوئ خیال نہیں جو اس پر عائد ہو رہے ہیں۔ اس بات کا کوئ خیال نہیں کہ اس وقت میں ان حقوق کا تقاضہ کیا ہے؟ ارے بھائ: یہ سب کام اپنے اپنے وقت پر الّٰلہ تعالیٰ کی رضا کے کام ہیں۔ یہ دیکھو کہ کس وقت کا کیا تقاضہ ہے؟ تم سے کس وقت کیا مطالبہ ہو رہا ہے؟ اس مطالبے اور تقاضے پر عمل کرو۔ اپنے دل و دماغ سے ایک راستہ متعین کر لیا اور اس پر چل کھڑے ہوئے، یہ دین نہیں ہے۔ دین یہ ہے کہ یہ دیکھو وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ اس وقت کس بات کا حکم دے رہے ہیں؟

ماخوذ از بیان "دین کی حقیقت، تسلیم و رضا"، مفتی مولانا محمد تقی عثمانیؒ

دوسروں کو اذیّت نہ پہنچانا

حضرت تھانوی ؒ فرماتے تھے کہ جب اپنے متعلّقین (مریدین ) میں سے کسی کے بارے میں سنتا ہوں کہ وہ معمولات (نوافل عبادات) کی پابندی نہیں کرتا تو دل میں افسوس پیدا ہوتا ہے، جب کسی کے بارے میں سنتا ہوں کہ اس نے بغیر کسی عذر کےفرائض قضا کردیے ہیں تو دل میں شکایت پیدا ہوتی ہے، لیکن جب کسی کے بارے میں یہ سنتا ہو ں کہ اس نے بلا عذر کسی انسان کو تکلیف پہنچائ ہے یا کسی کا مال ناحق لے لیا ہے تو اس سے نفرت محسوس ہونے لگتی ہے۔

جو لوگ خانقاہ میں جا کر رہا کرتے تھے انہوں نے لکھا ہے کہ حضرت خود سے کبھی کسی سے نہیں پوچھتے تھے کہ اس کے معمولات کیا ہیں مثلاً وہ کتنی تسبیحات یا نوافل پڑھتا ہے یا پابندی سے پڑھتا ہے کہ نہیں پڑھتا۔ اسی طرح جب  فجر کی جماعت کا وقت ہوتا اور کوئ گہری نیند سو رہا ہوتا تو بضا اوقات حضرت اٹھانے سے منع فرما دیتے کہ خدا جانے وہ رات کتنی دیر تک عبادت کرتا رہا ہو گا اور اس وقت اٹھانے سے اسے شدید تکلیف نہ ہو جائے۔ لیکن اگر حضرت کو اپنے مریدین میں سے کسی کے بارے میں پتہ چل جاتا کہ اس نے ناحق کسی کو جسمانی یا ذہنی تکلیف پہنچائ ہے یا کسی کا مال ناحق ناجائز طور پر لے لیا ہے تو حضرت کے چہرے کا رنگ بدل جاتا اور شدید غصے میں آ جاتے اور فرماتے کہ ہم میں تم میں مناسبت نہیں ہے، اس خانقاہ سے نکل جاؤ اور آئندہ یہاں نہ آنا۔ اسی سلسلے میں بہت دفعہ یہ بھی فرماتے کہ بزرگ بننا ہو، شیخ بننا ہو، پیر بننا ہو تو کہیں اور جاؤ، آدمی بننا ہو تو یہاں آؤ۔ بزرگ بننا آسان ہے، آدمی بننا مشکل ہے۔ بزرگی بیچاری کا کیا ہے، وہ تو ایک دن میں ساتھ ہو لیتی ہے۔ 

Saturday 2 April 2016

حضرت ابو موسیٰ اشعری ؒ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، "جب کوئ بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کی حالت میں ہوتا ہے تو جو عبادات اور نیک اعمال صحت کی حالت میں یا اقامت کی حالت میں کیا کرتا تھا جب بیماری یا سفر کی وجہ سے وہ چھوٹ جاتے ہیں تو الّٰلہ تعالیٰ وہ سارے اعمال اس کے نامہ اعمال میں لکھتے رہتے ہیں باوجودیکہ وہ بیماری یا سفر کی وجہ سے وہ اعمال نہیں کر پا رہا ہے، اس لیے کہ اگر وہ تندرست ہوتا ، یا اپنے گھر میں ہوتا تو یہ اعمال کرتا۔"

حضرت نے مزید فرمایا کہ اس کا تعلق صرف نفلی عبادت سے ہے۔ جو عبادات فرض ہیں ان میں الّٰلہ تعالیٰ نے جو تخفیف کردی اس تخفیف کے ساتھ ان کو انجام دینا ہی ہے۔ 

ماخوذ از وعظ "دین کی حقیقت تسلیم و رضا"، اصلاحی خطبات جلد اوّل، مفتی مولانا محمد تقی عثمانی  دامت برکاتہم