Wednesday 29 June 2016

جھوٹ کی مروّجہ صورتیں

حضرت نے فرمایا کہ جھوٹ بولنا حرام ہے اور ایسا حرام ہے کہ کوئ ملّت کوئ قوم ایسی نہیں گزری جس میں جھوٹ بولنا حرام نہ ہو۔ یہاں تک کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ بھی جھوٹ بولنے کو برا سمجھتے تھے۔ افسوس کہ اب اس جھوٹ میں عام ابتلا ہے یہاں تک کہ جو لوگ حرام و حلال اور جائز و ناجائز کا اور شریعت پر چلنے کا اہتمام کرتے ہیں ان میں بھی یہ بات نظر آتی ہے کہ گویا انہوں نے بھی جھوٹ کی بہت سی قسموں کو جھوٹ سے خارج سمجھ رکھا ہے اور سمجھتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہی نہیں ہے۔ اس میں دوہرا گناہ ہے، ایک جھوٹ بولنے کا گناہ، اور دوسرے اس گناہ کو گناہ نہ سمجھنے کا گناہ۔ 

جھوٹا میڈیکل سرٹیفیکیٹ
حضرت نے مزید فرمایا کہ ایک صاحب جو بڑے نیک تھے، نماز روزے کے پابند، ذکر و اذکار کےپابند، بزرگوں سے تعلّق رکھنے والے، پاکستان سے باہر قیام تھا۔ ایک دفعہ پاکستان آئے تو میرے پاس بھی ملاقات کے لیے آ گئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کب واپس تشریف لے جا رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ابھی آٹھ دس روز اور ٹھہروں گا۔ میری چھٹّیاں تو ختم ہو گئیں البتّہ کل ہی میں نے مزید چھٹّی لینے کے لیے ایک میڈیکل سرٹیفیکیٹ بھجوا دیا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیسا میڈیکل سرٹیفیکیٹ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس میں یہ لکھا تھا کہ یہ اتنے بیمار ہیں کہ سفر کے لائق نہیں۔ میں نے کہا کہ کیا دین صرف نماز روزے کا نام ہے؟ ذکر و شغل کا نام ہے؟ آپ کا بزرگوں سے تعلّق ہے۔ پھر یہ میڈیکل سرٹیفیکیٹ کیسا؟ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں نے آج پہلی مرتبہ آپ کے منہ سے یہ بات سنی کہ یہ بھی کوئ غلط کام ہے۔ میں نے کہا کہ جھوٹ بولنا اور کس کو کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مزید چھٹّی کس طرح لیں؟ میں نے کہا کہ جتنی چھٹّیوں کا استحقاق ہے اتنی چھٹّی لو، مزید چھٹّی لینی ہی ہو تو بغیر تنخواہ کے لے لو، لیکن یہ جھوٹا سرٹیفیکیٹ بھیجنے کا تو جواز پیدا ہی نہیں ہوتا۔

جھوٹی سفارش
ایک اچھے خاصے پڑھے لکھے نیک اور سمجھدار بزرگ کا میرے پاس سفارشی خط آیا۔ اس وقت میں جدّہ میں تھا۔ اس خط میں یہ لکھا تھا کہ یہ صاحب جو آپ کے پاس آرہے ہیں یہ انڈیا کے باشندے ہیں، یہ اب پاکستان جانا چاہتے ہیں۔ لہذا آپ پاکستانی سفارت خانے سے ان کے لیے یہ سفارش کر دیں کہ ان کو ایک پاکستانی پاسپورٹ جاری کر دیا جائے اس بنیاد پہ کہ یہ پاکستانی باشندے ہیں اور ان کا پاسپورٹ یہاں سعودی عرب میں گم ہو گیا ہے۔

اب آپ بتائیے! وہاں عمرے ہو رہے ہیں، حج بھی ہو رہا ہے، طواف اور سعی بھی ہو رہی ہے، اور ساتھ میں یہ جھوٹ اور فریب بھی ہو رہا ہے، گویا کہ یہ دین کا حصّہ ہی نہیں ہے۔ اس کا دین سے کوئ تعلّق نہیں ہےشاید لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جب قصد اور ارادہ کر کے، باقاعدہ جھوٹ کو جھوٹ سمجھ کر بولا جائے، تب جھوٹ ہوتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر سے جھوٹا سرٹیفیکیٹ بنوا لینا، جھوٹی سفارش لکھوا لینا یا جھوٹے مقدّمات دائر کر دینا، یہ کوئ جھوٹ نہیں۔ حالانکہ الّٰلہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"ما یلفظ قول الا لدیہ رقیب عتید" (سورة ق: ۱۸)
یعنی زبان سے جو لفظ نکل رہا ہے وہ تمہارے نامہ اعمال میں ریکارٖڈ ہو رہا ہے۔

جھوٹا کیریکٹر سرٹیفیکیٹ
آج کل اس کا عام رواج ہو گیا ہے کہ جھوٹے سرٹیفیکیٹ حاصل کرتے ہیں یا دوسروں کے لیے جھوٹے سرٹیفیکیٹ جاری کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی کو کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت پیش آ گئ، اب وہ کسی کے پاس گیا اور جاری کرنے والے نے یہ لکھ دیا کہ میں ان کو پانچ سال سے جانتا ہوں، یہ بڑے اچھے آدمی ہیں، ان کا اخلاق و کردار بہت اچھا ہے۔ لیکن کسی کے حاشیہ و خیال میں یہ بات نہیں آتی کہ ہم یہ ناجائز کام کر رہے ہیں۔ بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نیک کام کر رہے ہیں، یہ تو باعثِ ثواب ہے کہ یہ ضرورت مند تھا، ہم نے اس کی ضرورت پوری کردی۔ حالانکہ اگر آپ اس کے کیریکٹر سے واقف نہیں ہیں تو آپ کے لیے ایسا سرٹیفیکیٹ جاری کرنا ناجائز ہے۔اس صورت میں سرٹیفیکیٹ دینے والا اور لینے والا دونوں گناہ گار ہوں گے۔ 

یاد رکھیے کہ یہ سرٹیفیکیٹ اور یہ تصدیق نامہ ایک گواہی ہے اور اس آیت
"الا من شھد بالحق و ھم یعلمون" ( سورة الزخرف۔۸۶)
 کی رو سے گواہی دینا اس وقت جائز ہے جب آدمی کو اس بات کا علم ہو اور یقین سے جانتا ہو کہ یہ واقع میں ایسا ہے۔ اور جھوٹی گواہی اتنی بری چیز ہے کہ حدیث میں رسول الّٰلہ ﷺ نے اس کو شرک کے ساتھ ملا کر ذکر فرمایا۔

ہمارے معاشرے میں جو جھوٹ کی وبا پھیل گئ ہے اس میں اچھے خاصے دیندار، پڑھے لکھے، نمازی، بزرگوں سے تعلّق رکھنے والے، وظائف اور تسبیح پڑھنے والے بھی مبتلا ہیں۔ وہ بھی اس کو ناجائز اور برا نہیں سمجھتے کہ یہ جھوٹا سرٹیفیکیٹ جاری ہو جائے گا تو یہ کوئ گناہ ہو گا، حالانکہ حدیث شریف میں حضور اقدس ﷺ نے یہ جو فرمایا کہ "اذ احدث کذب" اس میں یہ سب باتیں بھی داخل ہیں۔ یہ سب دین کا حصّہ ہیں اور ان کو دین سے خارج سمجھنا بدترین گمراہی ہے۔

ماخوذ از بیان "جھوٹ اور اس کی مروجّہ صورتیں" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

منافق کی تین نشانیاں

حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ تین خصلتیں ایسی ہیں جو منافق ہونے کی نشانی ہیں۔ جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۔ جب اس کے پاس کوئ امانت رکھوائ جائے تو وہ خیانت کرے۔ ایک روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ چاہے وہ نماز بھی پڑھتا ہو، روزے بھی رکھتا ہو، اور چاہے وہ دعویٰ کرتا ہو کہ وہ مسلمان ہے، لیکن حقیقت میں وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں، اس لیے کہ مسلمان ہونے کی جو بنیادی صفات ہیں وہ ان کو چھوڑے ہوئے ہے۔ 

خدا جانے ہمارے ذہنوں میں کہاں سے یہ بات بیٹھ گئ ہے اور ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ دین بس نماز روزے کا نام ہے۔ نماز پڑھ لی، روزہ رکھ لیا، بس مسلمان ہو گئے۔ اب مزید ہم سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے بعد جب بازار گئے تو اب وہاں جھوٹ، فریب اور دھوکے سے مال حاصل ہو رہا ہے۔ حرام اور حلال ایک ہو رہے ہیں۔ اس کی کوئ فکر نہیں۔ زبان کا بھروسہ نہیں۔ امانت میں خیانت ہے۔ وعدہ کا پاس نہیں۔ لہذا اسلام کے بارے میں یہ تصوّر کہ یہ بس نماز روزے کا نام ہے، یہ بڑا خطرناک اور غلط تصوّر ہے۔ حضور اقدس ﷺ نے بتا دیا کہ ایسا شخص چاہے نماز بھی پڑھ رہا ہو، اور روزے بھی رکھ رہا ہو، لیکن وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں۔ چاپے اس پہ کفر کا فتویٰ نہ لگاؤ، ا سلئے کہ کفر کا فتویٰ لگانا بڑی سنگین چیز ہے، اور فتویٰ کے اعتبار سے اس کو کافر نہ قرار دو، لیکن ایسا شخص سارے کام کافروں جیسے اور منافقوں جیسے کر رہا ہے۔

ماخوذ از بیان "جھوٹ اور ا سکی مروّجہ صورتیں" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Tuesday 28 June 2016

دنیا کو دین کیسے بنایا جائے؟

"اور الّٰلہ نے تمہیں جو کچھ دے رکھا ہے اس کے ذریعے آخرت والا گھر بنانے کی کوشش کرو، اور دنیا میں سے بھی اپنے حصّے کو نظر انداز نہ کرو، اور جس طرح الّٰلہ نے تم پر احسان کیا ہے تم بھی (دوسروں پر) احسان کرو، اور زمین میں فساد مچانے کی کوشش نہ کرو۔ یقین جانو الّٰلہ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔" (سورة قصص ۷۷)
ترجمہ از آسان ترجمئہ قرآن از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

اگر اس دنیا کو الّٰلہ تعالیٰ کے لیے استعمل کر رہے ہو تو پھر یہ دنیا بھی انسان کے لیے دنیا نہیں رہتی بلکہ دین بن جاتی ہے، اور اجر و ثواب کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اور دنیا کو دین کیسے بنایا جاتا ہے؟ اس کا طریقہ قرآن کریم نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے (جس کا ترجمہ اوپر درج کیا گیا ہے)۔

"اور الّٰلہ  نے تمہیں جو کچھ دے رکھا ہے اس کے ذریعے آخرت والا گھر بنانے کی کوشش کرو"
اس آیت میں قارون کا ذکر ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک بیحد دولت مند آدمی تھا اور قرآن کریم نے فرمایا کہ اس کے اتنے خزانے تھے کہ ان کی چابیاں اٹھانے کے لیے پوری جماعت درکار ہوتی تھی۔ الّٰلہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو جو نصیحت کی گئ تھی اس کو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ اس نصیحت میں قارون سے یہ نہیں کہا گیا کہ تم اپنے سارے خزانوں سے دست بردار ہو جاؤ، یا اپنا مال و دولت آگ میں پھینک دو، بلکہ اس کو یہ نصیحت کی گئ کہ الّٰلہ تعالیٰ نے تمہیں جو کچھ مال و دولت، روپیہ پیسہ، عزّت شہرت، جو کچھ بھی دیا ہے اس سے اپنے آخرت کے گھر کی بھلائ طلب کرو، اس سے اپنی آخرت بناؤ۔

یہ جو فرمایا کہ "جو کچھ الّٰلہ  نے تم کو دیا ہے" اس سے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا کہ ایک انسان کتنا ماہر ہو، کتنا ذہین ہو، کتنا بھی تجربہ کار ہو، لیکن جو کچھ بھی وہ کماتا ہے وہ الّٰلہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ اس دنیا میں ایسے کتنے لوگ ہیں جو بے انتہا ذہین ہیں مگر ان کو مال حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا یا اس میں کامیابی نہیں ہوتی۔

"اور دنیا میں سے بھی اپنے حصّے کو نظر انداز نہ کرو"
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کو آخرت کیسے بنائیں؟ کیا جو کچھ ہمارے پاس مال ہے وہ سارا کا سارا صدقہ کر دیں؟ اس لیے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مال کو آخرت کے لیے استعمال کرنے کے معنی صرف یہ ہیں جو کچھ بھی مال ہے وہ صدقہ کر دیا جائے۔ لیکن قرآن کریم نے اگلے جملے میں اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں جتنا حصّہ تمہیں ملنا ہے، اور جو تہارا حق ہے اس کو مت بھولو، اور اس سے دست بردار مت ہو جاؤ، بلکہ اس کو اپنے پاس رکھو،

"اور جس طرح الّٰلہ نے تم پر احسان کیا ہے تم بھی (دوسروں پر) احسان کرو"
لیکن اس مال کے ساتھ یہ معاملہ کرو کہ جس طرح الّٰلہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارے ساتھ احسان کیا کہ تم کو یہ مال عطا فرمایا اسی طرح تم بھی دوسروں کے ساتھ احسان کرو، دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔

آگے فرمایا کہ
"اور زمین میں فساد مچانے کی کوشش نہ کرو"
اس کا مطلب یہ ہے کہ الّٰلہ تبارک وتعالیٰ نے مال حاصل کرنے کے جن طریقوں کو حرام اور ناجائز قرار دیا ہے ان طریقوں کو اختیار کرنے سے قرآن کریم کی اصطلاح کے مطابق فساد پھیلتا ہے۔ چوری کر کے، ڈاکہ ڈال کے مال حاصل کرنا حرام ہے۔ کوئ شخص اگر یہ طریقہ اختیار کرے گا تو زمین میں فساد پھیلے گا۔ کوئ شخص دوسرے کا حق مار کر اور دوسرے کو دھوکہ یا فریب دے کر مال حاصل کرے گا تو اس سے زمین میں فساد پھیلے گا۔ ہم سب سے قرآن کریم کا مطالبہ ہے کہ مال ضرور حاصل کریں لیکن مال کو حاصل کرتے وقت اس بات کا دھیان رکھیں کہ مال حاصل کرنے کا یہ طریقہ حلال ہے یا حرام۔ اگر وہ حرام ہے تو پھر چاہے وہ کتنی ہی بڑی دولت کیوں نہ ہو ا سکو ٹھکرا دو، اور اگر حلال ہے تو اس کو اختیار کرو۔

تو پیغام صرف اتنا ہے کہ مال کمانے میں حرام طریقوں سے بچو، اور تمہاری حاصل شدہ دولت پہ جو فرائض عائد کیے گئے ہیں، خواہ وہ زکوٰة کی شکل میں ہو یا خیرات و صدقات کی شکل میں ہو، ان کو بجا لاؤ۔ اور جس طرح الّٰلہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے تم دوسروں کے ساتھ احسان کرو۔ اگر انسان یہ اختیار کر لے، اور جو نعمت انسان کو ملے اس پر الّٰلہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے، تو دنیا کی ساری نعمتیں اور دولتیں دین بن جائیں گی۔

ماخوذ از بیان "کیا مال و دولت کا نام دنیا ہے؟" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Sunday 26 June 2016

کیا دین پہ چلنے کے لیے دنیا چھوڑنا ضروری ہے؟

"اور الّٰلہ نے تمہیں جو کچھ دے رکھا ہے اس کے ذریعے آخرت والا گھر بنانے کی کوشش کرو، اور دنیا میں سے بھی اپنے حصّے کو نظر انداز نہ کرو، اور جس طرح الّٰلہ نے تم پر احسان کیا ہے تم بھی (دوسروں پر) احسان کرو، اور زمین میں فساد مچانے کی کوشش نہ کرو۔ یقین جانو الّٰلہ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔" (سورة قصص ۷۷)
ترجمہ از آسان ترجمئہ قرآن از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

فرمایا کہ آج کل ایک بہت بڑی غلط فہمی اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی کثرت کے ساتھ پائ جاتی ہے کہ اگر کوئ شخص آج کی اس دنیا میں دین کے مطابق زندگی گزارنا چاہے اور اسلام کے احکام پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرنا چاہے تو اسے دنیا چھوڑنی ہو گی، دنیا کا عیش و آرام، دنیا کی آسائشیں چھوڑنی ہوں گی، اور دنیا کے مال و اسباب کو ترک کیے بغیر اس دنیا میں اسلام کے مطابق اور دین کے مطابق زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔

حقیقت یہ ہے کہ الّٰلہ تبارک و تعالیٰ اور الّٰلہ کے رسول ﷺ ہم سے یہ نہیں چاہتے کہ ہم دنیا کو چھوڑ کر بیٹھ جائیں۔ نبی کریم ﷺ نے جو تعلیمات ہمیں عطا فرمائیں اس میں یہ کہیں نہیں کہا کہ تم دنیا کو چھوڑ دو، کمائ نہ کرو، تجارت نہ کرو، مال حاصل نہ کرو، مکان نہ بناؤ، بیوی بچّوں کے ساتھ ہنسو بولو نہیں، کھانا نہ کھاؤ؛ اس قسم کا کوئ حکم شریعتِ محمّدیہ میں موجود نہیں۔ ہاں یہ ضرور کہا گیا ہے کہ یہ دنیا تمہاری آخری منزل نہیں، یہ تمہاری زندگی کا آخری مقصد نہیں۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ زندگی میں ہماری جو کچھ بھی کوششیں ہیں وہ صرف اسی دنیا کے لیے ہونی چاہیئیں۔ اس سے آگے ہمیں نہ کچھ سوچنا ہے اور نہ کچھ کرنا ہے۔ بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ دنیا درحقیقت اس لیے ہے کہ تم اس میں رہ کر اپنی آنے والی ابدی زندگی یعنی آخرت کی زندگی کے لیے کچھ تیّاری کر لو، اور آخرت کو فراموش کیے بغیر اس دنیا کو اس طرح استعمال کرو کہ اس میں تمہاری دنیاوی ضروریات بھی پوری ہوں، اور ساتھ ساتھ آخرت کی جو زندگی آنے والی ہے اس کی بھلائ بھی تمہارے پیشِ نظر ہو۔

(اسکی مزید تفصیل اور شروع میں جو آیت ہے اس کی تفسیر انشأالّٰلہ اگلی پوسٹ میں آئے گی۔)

ماخوذ از بیان "کیا مال و دولت کا نام دنیا ہے؟" از مفتی محمّد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Saturday 25 June 2016

فرمایا کہ انسان ذرا سوچے تو صحیح کہ یہ دنیا کس وقت تک کی ہے، ایک دن کی، دو دن کی، یا تین دن کی؟ کسی کو پتہ ہے کہ کب تک میں اس دنیا میں رہوں گا؟ کیا اس کو یقین ہے کہ اگلے گھنٹے بلکہ اگلے لمحے زندہ رہوں گا؟ بڑے سے بڑا سائنسدان، بڑے سے بڑا فلسفی، بڑے سے بڑا صاحبِ اقتدار نہیں بتا سکتا ہےکہ اس کی زندگی کتنی باقی ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان دنیا کا سازوسامان اکھٹّا کرنے میں لگا ہوا ہے، دن رات دنیا کی دوڑ دھوپ لگی ہوئ ہے، اور صبح سے شام تک اسی کا چکر چل رہا ہے۔ اور جس دن بلاوا آئے گا سب کچھ چھوڑ کر چلا جائے گا، کوئ چیز ساتھ نہیں جائے گی۔ 

لہذا قرآن کریم کی آیت: "وما الحیوٰة الدنیا الّا متاع الغرور" (سورہ حدید ۲۰) بتا رہی ہے کہ دنیاوی زندگی دھوکے کا سودا ہے۔ اس دھوکے کے سودے میں اس طرح نہ پڑ جانا کہ وہ تمہیں آخرت سے غافل کردے۔ اس دنیا سے ضرور گزرو مگر اس سے دھوکہ نہ کھاؤ۔ اگر یہ بات دل میں اتر جائے تو پھر چاہے تمہاری کوٹھیاں کھڑی ہوں یا بنگلے ہوں یا کارخانے ہوں، یا دنیا کا سازوسامان ہو یا مال ودولت ہو یا بینک بیلنس ہو، لیکن ان کی محبّت دل میں نہیں ہےتو پھر زاہد ہو۔ الحمدالّٰلہ پھر تمہیں زہد کی نعمت حاصل ہے۔ 

امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ خسارے کا سودا اس شخص کا ہے جس نے دنیا میں کمایا تو کچھ بھی نہیں اور قلّاش ہے مگر دل میں دنیا کی محبّت بھری ہے تو اس شخص کو زہد حاصل نہیں ہے۔ اس شخص کو زاہد نہیں کہیں گےاس لیے کہ دنیا کی محبّت میں مبتلا ہے اور ایسا شخص بڑے خسارے میں ہے۔

ماخوذ از بیان "دنیا سے دل نہ لگاؤ"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
شیخ فرید الدین عطّارؒ یونانی دواؤں اور عطر کے بہت بڑے تاجر تھے اور اسی وجہ سے ان کو عطّار کہا جاتا ہے۔ ان کی دواؤں اور عطر کی بہت بڑی دکان تھی اور اس وقت وہ ایک عام قسم کے دنیا دار تاجر تھے۔ ایک دن وہ دکان پر بیٹھے ہوئے تھے اور دکان میں دوا اور عطر کی شیشیاں بھری ہوئ تھیں۔ اتنے میں ایک مجذوب قسم کا درویش ملنگ آدمی دکان میں داخل ہو گیا اور پوری دکان میں کبھی اوپر سے نیچے کی طرف دیکھتا، کبھی دائیں سے بائیں دیکھتا، کبھی ایک شیشی کو دیکھتا، کبھی دوسری شیشی کو دیکھتا۔ جب کافی دیر گزر گئ تو شیخ فریدالدین نے اس سے پوچھا کہ تم کیا دیکھ رہے ہو، کیا چیز تلاش کر رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ بس ویسے ہی یہ شیشیاں دیکھ رہا ہوں۔ شیخ فرید الدین نے پوچھا کہ تمہیں کچھ خریدنا بھی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں مجھے کچھ خریدنا تو نہیں ہے، بس ویسے ہی یہ شیشیاں دیکھ رہا ہوں۔ اور پھر ادھر ادھر الماری میں رکھی شیشیوں کی طرف نظر دوڑاتا رہا، بار بار دیکھتا رہا۔ شیخ فرید الدین نے دوبارہ پوچھا کہ بھائ آخر تم کیا دیکھ رہے ہو؟ اس درویش نے کہا کہ میں اصل میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ جب آپ مریں گے تو آپ کی جان کیسے نکلے گی؟ اس لیے کہ آپ نے یہاں اتنی ساری شیشیاں رکھی ہوئ ہیں۔ جب آپ مرنے لگیں گے اور آپ کی روح نکلنے لگے گی تو اس وقت آپ کی روح کبھی ایک شیشی میں داخل ہو جائے گی، کبھی دوسری شیشی میں داخل ہو جائے گی، اور اس کو باہر نکلنے کا راستہ کیسے ملے گا؟

شیخ فریدالدین اس وقت ایک دنیا دار تاجر تھے۔ ان کو یہ باتیں سن کر غصّہ آ گیا اور انہوں نے کہا کہ تو میری جان کی فکر کر رہا ہے۔ تیری جان کیسے نکلے گی؟ جیسے تیری جان نکلے گی ویسے میری بھی نکل جائے گی۔ اس درویش نے جواب دیا کہ میری جان نکلنے میں کیا پریشانی ہے؟ اس لیے کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ میرے پاس تجارت ہے، نہ دکان ہے اور نہ شیشیاں ہیں۔میری جان تو بس اس طرح نکلے گی۔ اتنا کہہ کر وہ درویش دکان کے باہر نیچے زمین پر لیٹ گیا اور کلمہ شہادت "اشھد ان لا الہ الا الّٰلہ و اشھد ان محمّدً ا رسول الّٰلہ" پڑھا، اور اس کی روح پرواز کر گئ۔

بس یہ واقعہ دیکھنا تھا کہ شیخ فرید الدین عطّار کے دل پر ایک چوٹ لگی کہ واقعتاً میں تو دن رات اسی دنیا کے کاروبار میں منہمک ہوں اور یہ ایک الّٰلہ کا بندہ سبک سر طریقے پر الّٰلہ تعالیٰ کی بارگاہ میں چلا گیا۔ بس اسی دن اپنا سب کاروبار چھوڑ کر دوسروں کے حوالے کیا، الّٰلہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور اسی راستے پر لگ کر اتنے بڑے شیخ بن گئے کہ دنیا کی ہدایت کا سامان بن گئے۔ 

ہم جیسے لوگوں کے لیے اس واقعہ سے یہ سبق لینا تو درست نہیں ہے کہ جس طرح وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر الّٰلہ تعالیٰ کے دین کے لیے نکل پڑے ہم بھی ان کی طرح نکل جائیں، لیکن اس واقعہ سے جو بات سبق لینے کی ہے وہ یہ ہے کہ اگر انسان کا دل دنیا کے سازوسامان میں، دنیا کے راحت و آرام میں ہر وقت اٹکا ہوا ہو، اور صبح سے شام تک دنیا حاصل کرنے کی دوڑ دھوپ میں لگا ہوا ہو، ایسے دل میں الّٰلہ تعالیٰ کی محبّت نہیں آتی۔ البتّہ جب الّٰلہ تعالیٰ کی محبّت دل میں آ جاتی ہے تو دنیا کا یہ سازوسامان انسان کے پاس ضرور ہوتا ہے لیکن دل اس کے ساتھ اٹکا ہوا نہیں ہوتا۔

ماخوذ از بیان "دنیا سے دل نہ لگاؤ"، از مفتی محمّد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Friday 24 June 2016

زہد کیا ہے؟

زہد باطنی اخلاق میں سے ہے جسے حاصل کرناہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ زہد کے معنی ہیں "دنیا سے بے رغبتی" اور "دنیا کی محبت سے دل کا خالی ہونا"۔ دل دنیا میں اٹکا ہوا نہ ہو، اس کی محبّت اس طرح دل میں پیوست نہ ہو کہ ہر وقت اسی کا دھیان، اسی کا خیال، اور اسی کی فکر ہے، اور اسی کےلیے دوڑ دھوپ ہو رہی ہے۔ اسی کا نام زہد ہے۔ 

یہ بڑا نازک مسئلہ ہے کہ دنیا کے بغیر گزارہ بھی نہیں ہے۔ دنیا کے اندر بھی رہنا ہے۔ جب بھوک لگتی ہے تو کھانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جب پیاس لگتی ہے تو پانی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ سر چھپانے اور رہنے کے لیے گھر کی بھی ضرورت ہے۔ کسبِ معاش کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ جب یہ سب کام انسان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان دنیا کے اندر بھی رہے، دنیا کی ضروریات بھی پوری کرے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دل میں دنیا نہ آئے، دل میں دنیا سے بےرغبتی پائی جائے۔ 

اسی بات کو مولانا روم ؒ نے ایک مثال سے سمجھایا ہے کہ انسان کی مثال کشتی جیسی ہے اور دنیا کی مثال پانی جیسی ہے۔ جیسے پانی کے بغیر کشتی چل نہیں سکتی اس لیے کہ اگر کوئ شخص خشکی پہ کشتی چلانا چاہے تو نہیں چلے گی۔ اسی طرح انسان کو زندہ رہنے کے لیے دنیا ضروری ہے، انسان کو زندہ رہنے کے لیے پیسہ چاہیے، کھانا چاہیے، پانی چاہیے، مکان چاہیے، کپڑا چاہیے، اور ان سب چیزوں کی اس کو ضرورت ہے اور یہ سب دنیا ہے۔

لیکن جس طرح پانی کشتی کے لیے اسی وقت تک فائدہ مند ہے جب تک وہ پانی کشتی کے نیچے ہے لیکن اگر وہ پانی کشتی کے اندر داخل ہو گیا تو وہ کشتی کو ڈبو دے گا، تباہ کر دے گا، اسی طرح دنیا کا یہ اسباب اور سازوسامان جب تک تمہارے چاروں طرف ہے تب تک کوئ ڈر نہیں ہے، اس لیے کہ یہ سازوسامان تمہاری زندگی کی کشتی کو چلائے گا۔ لیکن جس دن دنیا کا یہ سازوسامان تمہارے اردگرد سے ہٹ کر تمہاری زندگی کی کشتی میں داخل ہو گیا، اس دن تمہیں ڈبو دے گا۔ ۔ چنانچہ مولانا روم ؒ فرماتے ہیں کہ

آب اندر زیر کشتی پشتی است
آب در کشتی ہلاک کشتی است

یعنی جب تک پانی کشتی کے اردگرد ہو تو وہ کشتی کو چلاتا ہے، لیکن اگر وہی پانی کشتی کے اندر داخل ہوجاتا ہے تو وہ کشتی کو ڈبو دیتا ہے۔

ماخوذ از بیان "دنیا سے دل نہ لگاؤ"، از مفتی محّمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Thursday 23 June 2016

تصوّف شریعت کا ہی ایک حصّہ ہے

لوگ سمجھتے ہیں کہ تصوّف شریعت سے الگ کوئ چیز ہے۔خوب سمجھ لیجیے کہ تصوّف شریعت کا ہی ایک حصّہ ہے۔ انسان کے ظاہری اعمال و افعال سے متعلق دین کے جتنے احکام ہیں ان کے مجموعے کا نام شریعت ہے۔ اور انسان کے باطن کے اعمال و افعال سے متعلّق دین کے جتنے احکام ہیں ان کے مجموعے کا نام طریقت یا تصوّف ہے۔ باطن کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ اگر یہ درست نہ ہو تو ظاہری اعمال بھی بیکار ہو جاتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ انسان کے دل میں اخلاص نہیں ہے۔ اخلاص کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو کام بھی کرے صرف اور صرف الّٰلہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے کرے۔ یہ اخلاص ایک باطنی فعل ہے۔ اگر ایک شخص کو اخلاص حاصل نہیں ہے اور وہ نماز صرف اس لیے پڑھ رہا ہے کہ لوگ اسے متّقی پرہیزگار سمجھیں۔ اس صورت میں اس کے ظاہری اعمال تو درست ہیں لیکن چونکہ باطن میں اخلاص کی روح نہیں ہے اس لیے وہ ظاہری اعمال بیکار ہیں، بلکہ گناہ ہیں کیونکہ حدیث شریف میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھ رہا ہے وہ الّٰلہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کر رہا ہے۔

اسی لیے باطن کی اصلاح ظاہری اعمال کو درست کر نے کے لیے بھی لازمی ہے۔ اگر یہ نہیں ہو گی تو ظاہری اعمال بھی بیکار ہو جائیں گے۔ 

ماخوذ از بیان "دل کی بیماریاں اور طبیبِ روحانی کی ضرورت"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

اخلاق کیا ہیں؟



نبی کریم ﷺ نے فرمایا، "یاد رکھو کہ انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے۔ اگر وہ صحیح ہو جائے تو سارا جسم صحیح ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔" پھر فرمایا کہ خوب سن لو کہ وہ لوتھڑا جس کی وجہ سے سارا جسم صحیح ہوتا ہے یا خراب ہوتا ہے وہ انسان کا دل ہے۔

الّٰلہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سے احکام دیے ہیں جن کا تعلق ہمارے ظاہری جسم سے ہے مثلاً نماز جسم کی حرکات سے پڑھی جاتی ہے، روزہ میں ایک مخصوص وقت تک بھوکے پیاسے رہنا ہوتا ہے، زکوٰة ہاتھ سے دی جاتی ہے، حج کے اندر جسمانی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح الّٰلہ تعالیٰ نے بہت سے فرائض ہماری روح اور باطن سے متعلق رکھے ہیں۔ مثلاً حکم دیا کہ تواضع اختیار کرنی چاہیے، اپنے اندر اخلاص پیدا کرنا چاہیے، شکر کرنا چاہیے، صبر کرنا چاہیے۔ لیکن یہ سارے اعمال جسم کے اعمال نہیں ہیں، یہ روح کے اور باطن کے اعمال ہیں۔

تواضع کی حقیقت یہ ہے کہ انسان دل میں اپنے آپ کو بے حقیقت سمجھے کہ میری کوئ حقیقت نہیں ہے، میری کوئ قدرت نہیں ہے، میں تو ایک بیکس بے بس بندہ ہوں۔ یہ خیال اکثر دل کے اندر رہنے لگے، اسی کو تواضع کہتے ہیں۔ اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو کوئ بھی کام کرے مکمّل طور سے الّٰلہ تعالیٰ کی رضامندی اور خوشنودی کے لیے کرے، کسی انسان یا غیر الّٰلہ کی خوشنودی یا تعریف مقصود نہ ہو۔ صبر کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ناگوار بات پیش آ جائے تو انسان دل میں یہ خیال رکھے کہ جو کچھ بھی ہوا ہے الّٰلہ تبارک و تعالیٰ کی مرضی اور حکمت سے ہوا ہے، چاہے یہ مجھ کو کتنا ہی ناگوار ہو لیکن الّٰلہ تعالیٰ کی مصلحت اسی میں تھی۔ یہ تمام اعمال اسی طرح فرض ہیں جیسے نمازپڑھنا فرض ہے، روزہ رکھنا فرض ہے، زکوٰة دینا فرض ہے، لیکن یہ سارے اعمال جسم کے اعمال نہیں ہیں، یہ سارے دل کے، باطن کے، روح کے اعمال ہیں۔

بہت سے اعمال ظاہری اور جسمانی اعتبار سے گناہ قرار دیے گئے ہیں، مثلاً جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، رشوت لینا، سود کھانا، شراب پینا، ڈاکہ ڈالنا، یہ سارے کے سارے اعمال گناہ ہیں جو ہمارے ظاہری جسم سے متعلق ہیں، ہمارے اعضا سے سرزد ہوتے ہیں۔ اسی طرح الّٰلہ تعالیٰ نے بہت سے ایسے کاموں کو گناہ قرار دیا ہے جو ہمارے دل سے، ہمارے باطن سے، ہماری روح سے سرزد ہوتے ہیں۔ مثلاً تکبّر حرام ہے، حسد حرام ہے، عجب حرام ہے۔ 

تکبّر کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے کو دوسروں سےبرتر سمجھے، بڑا سمجھے اور دوسروں کو اپنے سے چھوٹا اور حقیر سمجھے۔ حسد کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کو دوسروں کو اچھے حال میں دیکھ کر اس قدر جلن ہو کہ نہ صرف اسے یہ خواہش ہو کہ مجھے بھی یہ چیزیں مل جائیں بلکہ یہ بھی چاہے کہ دوسرے سے یہ نعمتیں چھن جائیں۔ عجب کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے کو اچھا، بڑا اور قابلِ تعریف سمجھے چاہے دوسروں کو چھوٹا اور حقیر نہ سمجھے۔  

یہ تمام گناہ باطن سے، دل سے سرزد ہوتے ہیں، گو کہ جب یہ دل میں رچ بس جائیں تو ان کے اثرات جسم پہ بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ یہ بھی اتنے ہی حرام ہیں جتنا شراب پینا حرام ہے، جتنا سور کھانا حرام ہے، جتنا جھوٹ بولنا حرام ہے۔ 

انہی باطنی صفات  اور روح کی صفات جن میں سے بعض سے الّٰلہ تعالیٰ نے بچنے کاحکم دیا ہے اور بعض کو پیدا کرنے کا حکم دیا ہے، اخلاق کہا جاتا ہے۔ اچھے اخلاق جن کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے ان کو اخلاقِ فاضلہ کہتے ہیں، اور برے اخلاق جن کو دور کرنا چاہیے ان کو اخلاقِ رذیلہ کہتے ہیں۔  اخلاق کا اصل مطلب ایک دوسرے سے اچھی طرح بات کر لینا یا مسکرا دینا نہیں ہے۔ اخلاق کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کا باطن درست ہو جائے، اخلاقِ فاضلہ پیدا ہو جائیں، اخلاقِ رذیلہ دور ہو جائیں، اور انسان کا باطن الّٰلہ تبارک و تعالیٰ کے احکام کے مطابق ڈھل جائے۔

ماخوذ از بیان "دل کی بیماریاں اور طبیبِ روحانی کی ضرورت"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم   

Monday 20 June 2016

الّٰلہ تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے

حضرت عمر فاروق ؓ ایک دفعہ سفر پر جا رہے تھے۔ سفر کے دوران کچھ بھوک لگی۔ حضرت فاروقِ اعظم ؓ نے تلاش کیا کہ آس پاس کوئ بستی ہو لیکن کوئ بستی بھی نہیں۔ تلاش کرتے کرتے دیکھا کہ ایک بکریوں کا ریوڑ چر رہا ہے۔ خیال ہوا کہ اس بکری والے سے کچھ دودھ لے کر پی لیں تا کہ بھوک مٹ جائے۔ دیکھا کہ چرواہا بکریاں چرا رہا ہے۔ حضرت فاروقِ اعظم ؓ نے اس سے جا کر کہا کہ میں مسافر ہوں، مجھے بھوک لگی ہے، مجھے ایک بکری کا دودھ نکال دو تو میں پی لوں، اور اس کی قیمت جو تم چاہو وہ میں تم کو ادا کر دوں۔ چرواہے نے کہا کہ جناب! میں ضرور آپ کو دودھ دے دیتا لیکن یہ بکریاں میری نہیں ہیں، میں تو ملازم ہوں۔ بکریاں چرانے کے لیے میرے مالک نے مجھے رکھا ہوا ہے۔ جب تک میں اس سے اجازت نہ لے لوں مجھے آپ کو دودھ دینے کا حق نہیں۔

حضرت عمر فاروق ؓ لوگوں کو آزمایا بھی کرتے تھے۔ آپ نے اس سے کہا کہ میں تمہیں فائدے کی ایک بات بتاتا ہوں اگر تم اس پہ عمل کر لو۔ چرواہے نے پوچھا، وہ کیا؟ آپ نے فرمایا، ایسا کرو تم ان بکریوں میں سے ایک بکری مجھے بیچ دو۔ پیسے میں ابھی تمہیں دیتا ہوں۔ میرا فائدہ تو یہ ہو گا کہ مجھے دودھ مل جائے گا۔ ضرورت ہو گی تو میں اسے کاٹ کر گوشت بھی کھا لوں گا۔ جب مالک تم سے پوچھے کہ ایک بکری کہاں گئ تو کہہ دینا کہ بھیڑیا کھا گیا۔ اور بھیڑیا تو بکریوں کو کھاتا ہی رہتا ہے۔ مالک کہاں تمہاری تحقیق کرتا پھرے گا کہ بھیڑیے نے کھایا یا نہیں کھایا۔ تم ان پیسوں کو اپنی جیب میں رکھ کر ان کو اپنی ضروریات میں استعمال کرنا۔ اس میں تمہارا بھی فائدہ، میرا بھی فائدہ۔

اس چرواہے نے یہ بات سنی تو بیساختہ اس کے منہ سے نکلا، "یا ابن الملک! فاین الّٰلہ؟"اے شہزادے، الّٰلہ کہاں گیا؟ یعنی تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ میں مالک سے جا کر جھوٹ بول دوں اور یہ کہہ دوں کہ بکری کو بھیڑیا کھا گیا تو بیشک میرا مالک تو نہیں دیکھ رہا ہے لیکن الّٰلہ تو دیکھ رہا ہے۔ میں اس کے پاس جا کر اسے کیا جواب دوں گا؟

فاروقِ اعظم ؓ نے فرمایا کہ جب تک تجھ جیسے انسان اس امّت کے اندر موجود ہیں اس وقت تک اس امّت پر کوئ فساد نہیں آ سکتا۔

ماخوذ از بیان "دولتِ قرآن کی قدر و عظمت"، از مفتی محمّد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Sunday 19 June 2016

حقوق العباد کی اہمیت

کسی مسلمان کو تکلیف پہنچانا گناہ کبیرہ ہے۔ یہ ایسا ہی گناہ ہے جیسے شراب پینا، ڈاکہ ڈالنا، چوری کرنا گناہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریم سرکارِ دو عالم ﷺ ایک مرتبہ بیت الّٰلہ شریف کا طواف فرما رہے تھے۔ حضرت عبدالّٰلہ ابن مسعود ؓ ساتھ تھے۔ حضرت عبدالّٰلہ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ کعبہ کو خطاب کر کے فرما رہے ہیں، اے الّٰلہ کے گھر! تو کتنی حرمت والا ہے، کتنی عظمت والا ہے، کتنے تقدّس والا ہے، کتنا مقدس ہے۔ حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے بعد رسول الّٰلہ ﷺ نےپھر کعبتہ الّٰلہ سے خطاب کر کے فرمایا کہ لیکن ایک چیز ایسی ہے جس کی عظمت، جس کا تقدّس تجھ سے بھی زیادہ ہے۔ حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ایکدم سے میرے کان کھڑے ہو گئے اور میں چونکا کہ وہ کونسی چیز ہے جس کی عزّت و حرمت اور جس کی عظمت بیت الّٰلہ سے بھی زیادہ ہے؟ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ چیز ہے ایک مسلمان کی جان، اس کا مال اور اس کی آبرو۔

اس کا کیا مطلب کہ ایک مسلمان کی جان، اس کے مال اور اس کی آبرو کی حرمت کعبتہ الّٰلہ سے بھی زیادہ ہے؟ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئ شخص ناجائز طور پر کسی مسلمان کی جان پر حملہ آور ہوا؛ اس میں جان سے مارنا، زخمی کرنا، نقصان پہنچانا، تکلیف پہنچانا، کوئ بھی جسمانی تکلیف پہنچائ جائے، سب داخل ہیں۔ تو اس نے اتنا ہی بڑا گناہ کیا جیسے کوئ شخص کعبہ کو ڈھا دے، منہدم کر دے۔ 

آج ہم نے چند ظاہری عبادتوں کا نام دین رکھ لیا ہےکہ نماز پڑھی، روزہ رکھا، کچھ زکوٰة دے دی، کچھ نہیں دی، حج کرنے اور عمرہ کرنے کی دولت مل گئ۔ یہ عبادتیں اپنی جگہ بڑی دولتیں ہیں لیکن دین ان میں منحصر نہیں۔ دین کا وہ علم جسے فقہ کہتے ہیں اس کے چار حصّے ہیں۔ ان میں سے ایک حصّہ عبادات سے متعلّق ہے اور تین حصّے حقوق العباد سے متعلّق ہیں۔  لیکن ہم نے حقوق العباد کو دین سے بالکل خارج کر دیا ہے۔ کسی کو تکلیف پہنچا کر کسی کو خیال تک نہیں آتا کہ میں نے کوئ گناہ کا کام کیا، یا کوئ ناجائز کام کیا، یا الّٰلہ تبارک و تعالیٰ کو ناراض کرنے والا کام کیا۔ اگر کسی نے کسی کو ناحق کوئ تکلیف پہنچائ تو اس کی توبہ کی کوئ شکل نہیں جب تک کہ وہ صاحب ِ حق اس کو معاف نہ کردے۔

ماخوذ از بیان "دولتِ قرآن کی قدروعظمت"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

دوسروں کو تکلیف سے بچانا

حضرت نے ایک مدرسے میں تقریر کے دوران فرمایا، "ابھی مدرسہ دیکھنے کے لیے بالائ حصّہ پہ جانا ہوا۔ ماشأالّٰلہ بڑا کام ہو رہا ہے۔ لیکن جب اوپر بیٹھا تو لاؤڈ اسپیکر کی آواز اتنی تیز کان میں آ رہی تھی، باہر بھی، اوپر بھی، کہ چاروں طرف اس کا شور مچ رہا تھا۔ میں نے گزارش کی کہ اس کی آواز ہلکی کرنی چاہیے۔ اور ساتھ یہ بھی گزارش کی کہ کسی ایک جگہ پہ بات چیت سننے کے لیے لوگ جمع ہوں تو شریعت کا حکم یہ ہے کہ آواز اتنی ہی ہونی چاہیے جتنی حاضرین کو پہنچانے کے لیے کافی ہو، لیکن سارے محلّہ کو سارے شہر کو سنانا جائز نہیں۔ 

سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کوئ الّٰلہ کا بندہ کسی گھر میں بیمار ہے، سونا چاہتا ہے لیکن اس آواز کی وجہ سے سو نہیں سکتا اور اس کی بیماری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یا کوئ اور شخص ہے جو بیمار تو نہیں لیکن سونا چاہتا ہے اور اس آواز کی وجہ سے اس کی نیند میں خلل آ رہا ہے، اس کی نیند خراب ہو رہی ہے۔ ہم خوش ہیں کہ ہماری تقریر کی آواز دور دور تک پہنچ رہی ہے لیکن قیامت کے دن پوچھ ہو گی کہ میرا ایک بندہ تمہاری وجہ سے تکلیف میں تھا، بتاؤ تمہارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ 

حدیث میں نبی کریم سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان سے اور ہاتھ سے دوسرے تمام مسلمان محفوظ رہیں۔ اس کے ہاتھ سے بھی دوسرے مسلمان کو کوئ تکلیف نہ پہنچے، اس کی زبان سے بھی کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ ہم اپنے زعم میں دین کی بات کر رہے ہیں لیکن دین کی بات کرنے کا بھی شریعت نے طریقہ بتایا ہے۔ اور وہ طریقہ یہ ہے کہ ایک شخص آپ کی بات نہیں سننا چاہتا، آپ اس کے کان کے اوپر لاؤڈ اسپیکر لگا کر زبردستی اس کو بات سنائیں، اس کا شریعت میں کوئ جواز نہیں۔"

ماخوذ از بیان "دولتِ قرآن کی قدر و عظمت"، از مفتی محمّد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Saturday 18 June 2016

مفلس کون ہے؟

حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے دریافت فرمایا کہ یہ بتاؤ مفلس کس کو کہتے ہیں؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، یا رسول الّٰلہ ﷺ! مفلس تو اس کو کہتے ہیں جس کے پاس دینار و درہم نہ ہوں، دولت نہ ہو۔ حضور ﷺ نے فرمایا وہ حقیقی مفلس نہیں۔ حقیقی مفلس وہ ہے کہ جب قیامت کے دن الّٰلہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو نیکیوں سے اس کا میزانِ عمل کا پلّہ بھرا ہوا تھا۔ بہت سی نیکیاں لے کر آیا تھا۔ نمازیں پڑھی تھیں، روزے رکھے تھے، تسبیحات پڑھی تھیں، الّٰلہ کا ذکر کیا تھا، تعلیم کی تھی، تبلیغ کی تھی، دین کی خدمات انجام دی تھیں، بہت ساری نیکیاں الّٰلہ تبارک و تعالیٰ کے دربار میں لے کر آیا تھا۔

لیکن جب اعمال پیش ہوئے تو پتہ چلا کہ نیکیاں تو بہت کی تھیں لیکن بندوں کے حقوق ادا نہ کیے تھے۔ کسی کو مارا تھا، کسی کو برا کہا تھا، کسی کا دل دکھایا تھا، کسی کو تکلیف پہنچائ تھی، کسی کی غیبت کی تھی، کسی کی جان پہ حملہ آور ہوا تھا، کسی کا مال کھایا تھا، کسی کی آبرو پہ حملہ آور ہوا تھا۔ ساری عبادتیں کی تھیں لیکن لوگوں کو اپنے ہاتھ سے، اپنی زبان سے، اور مختلف طریقوں سے تکلیف پہنچائ تھی۔

اب جب الّٰلہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوا، وہاں تو عدل ہے، انصاف ہے، اس لیے جن کے حق مارے تھے ان سے کہا گیا کہ تم اس سے اپنا حق وصول کرو۔ اب وہاں کا سکّہ روپیہ پیسہ تو ہے نہیں۔ وہاں کا سکّہ تو نیکیاں ہیں لہذا انہیں کے ذریعے تبادلہ ہو گا۔ چنانچہ جس کے پیسے کھائے تھے اس سے کہا جائے گا اس کی نیکیاں اس کے اعمال سے لیلو۔ اس نے بہت ساری نفلی نمازیں پڑھی تھیں وہ سب ایک صاحبِ حق کو مل گئیں، دوسری نمازیں دوسرا صاحبِ حق لے گیا، روزے تیسرا صاحبِ حق لے گیا، حج چوتھا صاحبِ حق لے گیا۔ جتنے نیک اعمال کیے تھے ایک ایک کر کے لوگ لے جاتے رہے یہاں تک کہ ساری نیکیاں ختم ہو گئیں۔ لیکن لوگ پھر بھی کھڑے ہیں کہ پروردگار ہمارا حق تو رہ گیا ہے، ہمارے بھی پیسے کھائے تھے، ہماری بھی غیبت کی تھی، اس سے ہمارا بھی بدلہ دلوائیے۔ الّٰلہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اب راستہ یہ ہے کہ تمہارے جو گناہ ہیں وہ تمہارے نامہ اعمال سے مٹا کر اس کے نامہ اعمال میں ڈال دیے جائیں۔ 

تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نیکیوں کا ڈھیر لے کر آیا اتھا لیکن بندوں کے حقوق کا معاملہ ہوا تو بجائے اس کے کہ وہ نیکیاں باقی رہتیں اور لوگوں کے گناہ بھی اس کی گردن پر ڈال دیے گئے۔ رسول اّٰللہ ﷺ نے فرمایا کہ حقیقت میں مفلس وہ ہے جو نیکیاں لے کر آیا تھا اور گناہوں کا بوجھ لے کر جا رہا ہے۔

اس لیے یہ حقوق العباد بہت ڈرنے کی چیز ہیں۔ لوگوں کے حقوق مارنا خواہ پیسے کی شکل میں ہو، یا عزّت کی شکل میں، یا جان کی شکل میں، یہ اتنا خطرناک معاملہ ہے کہ اور گناہ تو توبہ سے معاف ہو جاتے ہیں لیکن حقوق العباد توبہ سے بھی معاف نہیں ہوتے جب تک کہ وہ صاحبِ حق معاف نہ کرے۔

ماخوذ از بیان "دولت ِ قرآن کی قدر و عظمت"، مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Tuesday 14 June 2016

جنّت اور دوزخ کے درمیان مناظرہ

حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنّت اور دوزخ کے درمیان آپس میں مناظرہ اور مباحثہ ہو گیا کہ دونوں میں کون بہتر ہے۔ دوزخ نے کہا کہ میری شان اونچی ہے، اس لیے کہ میرے اندر بڑے بڑے جبّار اور متکبّر لوگ آ کر آباد ہوں گے۔ یعنی جتنے جابر اور متکبّر لوگ ہیں، بڑے منصب والے، بہت زیادہ مال و دولت والے، اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والے، بڑا کہنے والے، وہ سب میرے اندر آباد ہوں گے۔ اور اس بات پر اس نے فخر کیا۔ اس کے مقابلے میں جنّت نے کہا کہ میرے اندر کمزور اور مسکین قسم کے لوگ آباد ہوں گے۔ اور جنّت نے اس پر فخر کیا۔ پھر ان دونوں کے درمیان الّٰلہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا اور جنّت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تو جنّت ہے اور میری رحمت کا نشان اور علامت اور اس کا مورد ہے۔ تیرے ذریعے سے میں جس پر چاہوں گا اپنی رحمت نازل فرما دوں گا۔ اور دوزخ سے خطاب کرکے فرمایا کہ تو دوزخ ہے جو میرے عذاب کا نشان اور علامت اور اس کا مورد ہے۔ اور تیرے ذریعے سے میں جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا۔ اور دونوں سے میں میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں تم دونوں کو بھروں گا۔ جنّت کو ایسے لوگوں سے بھروں گا جن کے اوپر میری رحمت نازل ہوئ، اور دوزخ کو ایسے لوگوں سے بھروں گا جن کے اوپر میرا عذاب نازل ہو گا۔ 

حضرت نے مزید فرمایا کہ اس حدیث میں ایک بات جو خاص طور پر عرض کرنے کی ہے وہ یہ کہ نبی کریم ﷺ نے دو لفظ استعمال فرمائے، ایک "ضعفأ" اور دوسرے "مساکین"۔ ضعفأ کے معنی یہ ہیں کہ جسمانی اعتبار سے کمزور، مالی اعتبار سے کمزور، رتبے کے اعتبار سے کمزور، منصب کے اعتبار سے کمزور۔ اور مساکین جمع ہے مسکین کی۔ اور مسکین کے دو معنی آتے ہیں۔ ایک تو مسکین اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس پیسےنہ ہوں اور جو مفلس ہو۔ دوسرے مسکین اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس پیسے ہوں یا نہ ہوں، لیکن اس کے مزاج میں مسکینی ہو۔ چاہے اس کے پاس پیسے ہوں اور وہ مالدار بھی ہو، لیکن طبیعت میں تکبّر پاس سے نہیں گزرا، مسکینوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے، مسکینوں کو اپنے قریب رکھتا ہے، اس کی طبیعت میں عاجزی ہے، تکبّر کی بات کبھی نہیں کرتا، ایسا شخص مسکین کے زمرے میں داخل ہے۔

لہذا یہ شبہ نہ ہونا چاہیے کہ اگر کسی کے پاس مال ہے اور وہ خوش حال ہے تو وہ ضرور جہنّم میں جائے گا۔ الّٰلہ تعالیٰ بچائے ایسا نہیں ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر الّٰلہ تعالیٰ نے اس کو مال دیا ہے، دولت عطا فرمائ ہے، لیکن اگر طبیعت میں مسکینی اور عاجزی ہے، تکبّر نہیں ہے، دوسروں کے ساتھ برتاؤ اچھا ہے، اور الّٰلہ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق پوری طرح ادا کرتا ہے تو وہ بھی انشأالّٰلہ مسکین کے زمرے میں داخل ہے۔ 

ماخوذ از بیان "غریبوں کی تحقیر نہ کیجیے"، مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Monday 13 June 2016

جہنّم الّٰلہ تعالیٰ نے متکبّرین سے بھر دی ہے۔ اس واسطے کہ متکبّر وہ شخص ہے جو دوسروں پر اپنی بڑائ جتائے، اپنے آپ کو بڑا سمجھے، اور دوسروں کو چھوٹا سمجھے، اپنے آپ کو عظیم سمجھے،اور دوسروں کو حقیر سمجھے۔ اور الّٰلہ تعالیٰ کو یہ تکبّر اور بڑائ ایک لمحے کے لیے بھی پسند نہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ الّٰلہ تعالیٰ نے فرمایاکہ بڑائ تو درحقیقت میری چادر ہے۔ جو شخص مجھ سے اس میں جھگڑا کرے گا، میں اس کو آگ میں ڈال دوں گا۔

ماخوذ از بیان "غریبوں کی تحقیر نہ کیجیے"، مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Sunday 12 June 2016

اہل ِ جنّت اور اہل ِ جہنّم کون لوگ ہیں؟

حضور ِ اقدس ﷺ نے صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ جنّتی کون ہے؟ پھر فرمایا کہ ہر وہ شخص جو کمزور ہے اور لوگ بھی اس کو کمزور سمجھتے ہیں، (یا تو جسمانی اعتبار سے کمزور ہو، یا مالی اعتبار سے کمزور ہو، یا حیثیت یا رتبے کے اعتبار سے کمزور ہو یعنی دنیا والے اس کو کم حیثیت اور کم رتبہ والا سمجھتے ہوں) لیکن وہ کمزور شخص الّٰلہ کے یہاں اتنا محبوب ہے کہ اگر وہ الّٰلہ کے اوپر کوئ قسم کھا لے تو الّٰلہ تعالیٰ اس کی قسم کو پورا کر دیتے ہیں (یعنی اگر وہ شخص یہ قسم کھا لے کہ فلاں کام اس طرح ہو گا تو الّٰلہ تعالیٰ وہ کام اسی طرح فرما دیتے ہیں)۔

اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو اہل ِ جہنم کے بارے میں نہ بتلاؤں کہ اہلِ جہنّم کون لوگ ہیں؟ پھر آپ نے فرمایا کہ: "کل عتل جواظ مستکبر"۔ 
لفظ "عتل" کے معنی ہیں سخت مزاج، درشت مزاج اور کھردرا آدمی جو بات کرے تو لٹھ مارے، اور بات کرتے وقت نرمی سے بات نہ کرے، سختی سے بات کرے، غصہ سے بات کرے، اور دوسروں کو حقیر سمجھے۔ ایسے شخص کو عتل کہا جاتا ہے۔
دوسرا لفظ فرمایا "جواظ"۔ اس کے معنی ہیں نک چڑھا۔ جس کی پیشانی پہ ہر وقت بل پڑے رہتے ہوں، اور معمولی قسم کے آدمی سے بات کرنے کو تیّار نہیں۔ کمزور، کم حیثیت، کم رتبہ آدمی سے بات کرنے میں اپنی توہین سمجھتا ہو، ہر وقت اکڑتا ہو، شیخی باز ہو۔
تیسرا لفظ فرمایا "مستکبر" جو تکبّر کرنے والا ہو، اپنے کو بڑا سمجھنے والا ہو، اور دوسروں کو چھوٹا سمجھنے والا ہو۔ 
ان صفات والوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ جہنّم والے ہیں، اس لیے کہ اپنے کو بڑا سمجھنے والے ہیں۔

ماخوذ از بیان "غریبوں کی تحقیر نہ کیجیے"، از مفتی محمد تقی عثمانیؒ

Saturday 11 June 2016

جہیز کی شرعی حیثیت

جہیز کے معاملے میں سب سے زیادہ ذمّہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو کھاتے پیتے، امیر اور دولت مند گھرانے کہلاتے ہیں۔ اس عذاب سے نجات اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کھاتےپیتے اور امیر کہلانے والے لوگ اس بات کا اقدام نہ کریں کہ ہم اپنے خاندان میں شادی اور نکاح سادگی کے ساتھ کریں گے اور ان غلط رسموں کو ختم کریں گے۔ اس لیے کہ ایک غریب آدمی تو یہ سوچتا ہے کہ مجھے اپنی سفید پوشی برقرار رکھنے کے لیے اور اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے یہ کام کرنا ہی ہے۔ اگر لڑکی کو جہیز نہیں دیں گے تو سسرال والے طعنے دیں گے کہ کیا لے کر آئ تھی۔ 

آج جہیز کو شادی کا ایک لازمی حصہ سمجھ لیا گیا ہے۔ گھر گھرہستی کا سامان مہیا کرنا جو شوہر کے ذمے واجب تھا، وہ آج بیوی کے باپ کے ذمے واجب ہے۔ گویا کہ وہ باپ اپنی بیٹی اور اپنے جگر کا ٹکڑا بھی شوہر کو دے دے، اور اس کے ساتھ لاکھوں  روپیہ بھی دے، گھر کا فرنیچر مہیا کرے اور اس طرح وہ دوسرے کا گھر آباد کرے۔ شریعت میں اس کی کوئ اصل موجود نہیں۔ بس یہاں تک ٹھیک ہے کہ اگر کوئ باپ اپنی بیٹی کوئ چیز دینا چاہتا ہے تو وہ سادگی کے ساتھ دے دے۔ بہر حال جو متمول اور کھاتے پیتے گھرانے کہلاتے ہیں ان پر یہ ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے کہ جب تک وہ اس سادگی کو نہیں اپنائیں گے اور اس کو ایک تحریک کی شکل میں نہیں چلائیں گے اس وقت تک اس عذاب سے نجات ملنی مشکل ہے۔ الّٰلہ تعالیٰ اپنی رحمت سے یہ بات ہمارے دلوں میں ڈال دے۔ آمین

ماخوذ از بیان "شوہر کے حقوق"، مفتی محمد تقی عثمانیؒ

Monday 6 June 2016

ایک انسان کے حقوق کسی دوسرے انسان کے فرائض ہیں

آج کی دنیا حقوق کے مطالبے کی دنیا ہے۔ ہر شخص اپنا حق مانگ رہا ہے، اس کے لیے مطالبہ کر رہا ہے، تحریکیں چلا رہا ہے، مظاہرے کر رہا ہے، ہڑتال کر رہا ہے۔ گو یا کہ اپنا حق مانگنے اور اپنے حق کا مطالبہ کرنے کے لیے دنیا بھر کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس کے لیے باقاعدہ انجمنیں قائم کی جا رہی ہیں جن کا نام انجمن ِ تحفظّ ِحقوقِ فلاں رکھا جاتا ہے۔ لیکن آج کی دنیا میں "ادائیگی فرض" کے لیے کوئ انجمن موجود نہیں۔ کسی بھی شخص کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ جو فرائض میرے ذمّے عائد ہیں میں وہ ادا کر رہا ہوں کہ نہیں؟ مزدور کہتا ہے کہ مجھے میرا حق ملنا چاہیے۔ سرمایہ دار کہتا ہے کہ مجھے میرا حق ملنا چاہیے۔ لیکن دونوں میں سے کسی کو یہ فکر نہیں ہے کہ میں اپنا فرض کیسے ادا کروں۔ مرد کہتا ہے کہ مجھے میرے حقوق ملنے چاہیئیں، اور عورت کہتی ہے کہ مجھے میرے حقوق ملنے چاہیئیں۔ اور اس کے لیے کوشش اور جدّوجہد جاری ہے۔ لڑائ ٹھنی ہوئ ہے۔ جنگ جاری ہے۔ لیکن کوئ خدا کا بندہ یہ نہیں سوچتا کہ جو فرائض میرے ذمّے عائد ہو رہے ہیں وہ میں ادا کر رہا ہوں یا نہیں؟

الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسولﷺ کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے فرائض کی ادائیگی کی طوف توجّہ کرے۔ اگر ہر شخص اپنے فرائض ادا کرنے لگے تو سب کے حقوق ادا ہو جائیں۔ اگر مزدور اپنے فرائض صحیح طور سے ادا کرنے لگے تو سرمایہ دار اور مالک کے حقوق ادا ہو جائیں، اور اگر سرمایہ دار اور آجر اپنے فرائض ادا کرنے لگیں تو مزدور کے حقوق ادا ہو نے لگیں۔ اگر شوہر اپنے فرائض ادا کرنے لگے تو بیوی کے حقوق ادا ہو جائیں۔ اور اگر بیوی اپنے فرائض ادا کرنے لگے تو شوہر کے حقوق ادا ہو جائیں۔ شریعت کا اصل مطالبہ یہی ہے کہ ہر انسان اپنے فرائض ادا کرنے کی فکر کرے۔ اس سے دوسرے انسانوں کے حقوق خود بخود ادا ہونے شروع ہو جائیں گے۔

ماخوذ ازبیان "شوہر کے حقوق" از مفتی محمد تقی عثمانیؒ

Sunday 5 June 2016

حسن اخلاق کیا ہے؟

حقیقت میں اخلاق دل کی ایک کیفیت کا نام ہے جس کا مظاہرہ اعضا اور جوارح سے ہوتا ہے۔ وہ کیفیت یہ ہے کہ دل میں ساری مخلوقِ خدا کی خیر خواہی ہو اور ان سے محبت ہو خواہ وہ دشمن اور کافر ہی کیوں نہ ہو۔ دل میں یہ سوچ رکھنے سے کہ یہ میرے مالک کی مخلوق ہے لہذا مجھے اس سے محبت رکھنی چاہیےاور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے اولاً دل میں یہ محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور پھر اس جذبے کے ماتحت اعمال صادر ہوتے ہیں اور انسان دوسروں کے ساتھ خیر خواہی کرتا ہے۔ اب اس جذبے کے بعد چہرے پہ جو مسکراہٹ اور تبسم آتا ہے وہ بناوٹی نہیں ہوتااور وہ دوسروں کو اپنا گرویدہ کرنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی دلی خواہش اور دلی جذبے کا ایک لازمی اور منطقی تقاضہ ہوتا ہے۔ 

ماخوذ از بیان بیوی کے حقوق، مولانا مفتی محمد تقی عثمانیؒ

Saturday 4 June 2016

اسراف (فضول خرچی) کیا ہے؟

حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ ایک "گھر" وہ ہوتا ہے جو "رہائش" کے قابل ہو۔ مثلاً جھونپڑی ڈال دی یا چھپر ڈال دیا، اس میں بھی آدمی رہائش اختیار کر سکتا ہے۔ یہ تو پہلا درجہ ہے جو بالکل جائز ہے۔ 

دوسرا درجہ یہ ہے کہ رہائش بھی ہو اور ساتھ میں "آسائش" بھی ہو، مثلاً پختہ مکان ہو، اور اس میں آسائش کے لیے کوئ کام کیا جائے مثلاً کوئ شخص اپنے گھر میں پنکھا اور بجلی اس لیے لگاتا ہے کہ تا کہ اس کو آرام حاصل ہو تو اس کی ممانعت نہیں ہے اور یہ اسراف میں داخل نہیں۔

تیسرا درجہ یہ ہے کہ مکان میں آسائش کے ساتھ "آرائش" بھی ہو۔ آرائش کا مطلب یہ ہے کہ دیکھنے میں اچھا معلوم ہو، دیکھ کر دل خوش ہو جائے، مثلاً ایک شخص کا پختہ مکان بنا ہوا ہے، پلاستر کیا ہوا ہے، بجلی بھی ہے، پنکھا بھی ہے، لیکن اس مکان پر رنگ نہیں کیا ہوا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ رہائش تو ایسے مکان میں بھی ہو سکتی ہے لیکن رنگ و روغن کے بغیر آرائش نہیں ہو سکتی، اب اگر کوئ شخص آرائش کے لیے مکان پر رنگ و روغن کرائے تو شرعاً وہ بھی جائز ہے۔

اس کے بعد چوتھا درجہ ہے "نمائش"۔ اب جو کام کر رہا ہے اس سے نہ تو آرام مقصود ہے، نہ آرائش مقصود ہے۔ بلکہ اس کام کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگ مجھے بڑا دولت مند سمجھیں کہ اس کے پاس بہت پیسہ ہے، اور تا کہ اس کے ذریعے دوسروں پہ فوقیت جتاؤں اور اپنے آپ کو بلند ظاہر کروں۔ یہ سب "نمائش" کے اندر داخل ہے اور یہ شرعاً ناجائز ہے اور اسراف میں داخل ہے۔

ماخوذ از بیان "بیوی کے حقوق"، از حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانیؒ