Tuesday 27 September 2016

حسد کا علاج

حسد کا پہلا علاج تو یہ ہے کہ انسان یہ تصوّر کرے کہ الله تعالیٰ نے اس کائنات میں اپنی خاص حکمتوں اور مصلحتوں سے انسانوں کے درمیان اپنی نعمتوں کی تقسیم فرمائ ہے۔ کسی کو صحت کی نعمت دے دی، کسی کو مال و دولت کی نعمت دے دی، کسی کو عزّت کی نعمت دے دی، کسی کو حسن و جمال کی نعمت دے دی ، تو کسی کو چین و سکون کی نعمت دے دی۔ اس دنیا میں کوئ انسان ایسا نہیں ہے جس کو کوئ نہ کوئ نعمت میسّر نہ ہو، اور کسی نہ کسی تکلیف میں مبتلا نہ ہو۔ لہذا حسد کا علاج یہ ہے کہ حسد کرنے والا یہ سوچے کہ اگر کسی دوسرے شخص کو کوئ بڑی نعمت حاصل ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے دل میں کڑھن پیدا ہو رہی ہے، تو ہو سکتا ہے کہ الله تعالیٰ نے اس سے کہیں بڑی نعمتیں ہمیں دے رکھی ہوں اور اس کو نہ دی ہوں۔ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ الله تعالیٰ نے اس کو ایسی بڑی تکالیف دے رکھی ہوں جن سے ہمیں بچا رکھا ہو۔ ان باتوں کو سوچنے سے حسد میں کمی آتی ہے۔ 

حسد کی بیماری کا دوسرا علاج یہ ہے کہ حسد کرنے والا یہ سوچے کہ میری خواہش تو یہ ہے کہ جس شخص سے میں حسد کر رہا ہوں اس سے وہ نعمت چھن جائے اور اس کا نقصان ہو، لیکن معاملہ ہمیشہ اس خواہش کے برعکس ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ حسد کی لازمی خاصیت یہ ہے کہ یہ انسان کو غیبت پر، عیب جوئ پر، چغل خوری پر، اور دوسرے بیشمار گناہوں پر آمادہ کرتا ہے، اور یوں حسد کرنے والے کی نیکیاں اس شخص کے نامہ اعمال میں منتقل ہوتی چلی جاتی ہیں جس سے وہ حسد کرتا ہے۔ یوں جس کو وہ نقصان میں دیکھنا چاہتا تھا اس کا فائدہ کرتا چلا جاتا ہے۔

حسد کی بنیاد ہے دنیا کی محبّت اور جاہ یعنی دنیاوی عزّت، منصب اور مرتبے کی محبّت۔ اس لئے حسد کا تیسرا علاج یہ ہے کہ انسان اپنے دل سے دنیا اور جاہ نکالنے کی محبّت نکالنے کی فکر کرے۔ اور اس کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان سوچے کہ یہ دنیا کتنے دن کی ہے۔ ایک دن آئے گا جب انسان کی آنکھ بند ہو جائے گی۔ پھر اس کے بعد تمام مال و دولت، دنیاوی عزّت، منصب، مرتبہ، سب یہیں پڑے رہ جائیں گے اور نیک اعمال کے سوا کوئ چیز آگے ساتھ نہیں جائے گی۔ ایسا بار بار سوچتے رہنے سے دنیا کی محبّت میں کمی ہونے لگتی ہے۔ اور جب دنیا کی محبّت کم ہو جائے گی تو دوسروں کو دنیا کی نعمتیں ملنے پہ جلن ہونا بھی کم ہو جائے گی۔

ماخوذ از بیان "حسد ایک مہلک بیماری" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

حسد کی بیماری کے اسباب

حسد کی بیماری کے دو اسباب ہیں۔ اس کا پہلا سبب دنیا کے مال و دولت کی محبّت، اور جاہ و منصب کی محبّت ہے۔ اس لئے کہ ایسا انسان ہمیشہ چاہتا ہے کہ میرا مرتبہ سب سے بلند رہے، میں سب سے اونچا رہوں۔ اب اگر دوسرا شخص آگے بڑھتا ہے تو یہ اس کو گرانے کی فکر کرتا ہے۔ 

حسد کی بیماری کا دوسرا سبب  بغض اور کینہ ہے۔ مثلاً کسی کے لئے دل میں بغض اور کینہ پیدا ہو گیا۔ اس بغض کے نتیجے میں اس دوسرے کی راحت سے تکلیف ہوتی ہے، اور اس کی خوشی سے رنج پیدا ہوتا ہے۔ جب دل میں یہ دو باتیں ہوں گی تو لازماً حسد پیدا ہو گا۔

ماخوذ از بیان "حسد ایک مہلک بیماری" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

حسد کے تین درجات

فرمایا کہ حسد کےتین درجات ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ دل میں یہ خواہش ہو کہ مجھے بھی ایسی نعمت مل جائے۔ اب اگر اس کے پاس رہتے ہوئے مل جائے تو بہت اچھا ہے، ورنہ اس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے۔ 

حسد کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ جو نعمت دوسرے کو ملی ہوئ ہے، وہ نعمت اس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے۔ اس میں پہلے قدم پہ یہ خواہش ہے کہ اس سے چھن جائے، اوردوسرے قدم پہ یہ خواہش ہے کہ مجھے مل جائے۔

حسد کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ دل میں یہ خواہش ہو کہ یہ نعمت اس سے کسی طرح چھن جائے، اور اس نعمت کی وجہ سے اس کو جو امتیاز اور مقام حاصل ہوا ہے، اس سے وہ محروم ہو جائے۔  پھر چاہے وہ نعمت مجھے ملے یا نہ ملے لیکن اس دوسرے سے چھن جائے۔ یہ حسد کا سب سے بدترین درجہ ہے۔ الله تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

ماخوذ از بیان "حسد ایک مہلک بیماری" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Monday 26 September 2016

حسد کیا ہے؟

جس طرح الله تعالیٰ نے ہمارے ظاہری اعمال میں بعض کاموں کو فرض و واجب قرار دیا ہے، اور بعض کاموں کو گناہ قرار دیا ہے، اسی طریقے سے ہمارے باطنی اعمال میں بہت سے اعمال فرض ہیں، اور بہت سے اعمال گناہ اور حرام ہیں۔ ان باطنی گناہوں سے بچنا اور اجتناب کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا ظاہر کے کبیرہ گناہو ں سے بچنا ضروری ہے۔ انہی باطنی گناہوں میں سے ایک گناہ حسد کا گناہ ہے۔ 

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حسد سے بچو اس لئے کہ یہ حسد انسان کی نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو یا سوکھی گھاس کو کھا جاتی ہے۔ (راوی کو شک ہے کہ آپ نے لکڑی کا لفظ بیان فرمایا تھا یا سوکھی گھاس کا لفظ بیان فرمایا تھا۔)

حسد کی حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کو دیکھا کہ اس کو کوئ نعمت ملی ہوئ ہے، چاہے وہ نعمت دنیا کی ہو یا دین کی۔ اس نعمت کو دیکھ کر اس کے دل میں جلن اور کڑھن پیدا ہوئ کہ اس کو یہ نعمت کیوں مل گئ، اور دل میں یہ خواہش ہوئ کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے تو اچھا ہے۔ یہ حسد ہے۔ بعض دفعہ دوسرے کی نعمت دیکھ کر انسان کا دل چاہتا ہے کہ مجھے بھی یہ نعمت مل جائے، مثلاً کسی کا مکان اچھا ہے، یا اس کی ملازمت اچھی ہے تو انسان سوچے کہ ایسا مکان یا ایسی ملازمت مجھے بھی مل جائے۔ یہ حسد نہیں رشک ہے، اس پر کوئ گناہ نہیں۔ لیکن اگر یہ خواہش دل میں پیدا ہو کہ دوسرے سے یہ نعمت چھن جائے تب یہ رشک حسد میں بدل جاتا ہے اور بہت بڑا گناہ ہے۔

ماخوذ از بیان "حسد ایک مہلک بیماری" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Saturday 24 September 2016

ترکِ وطن اور ہجرت کی مختلف قسمیں۔ حصہ دوم

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔

جو سفر کسی چیز کی طلب و جستجو کے لئے کیا جائے اس کی نو قسمیں ہیں۔

۱۔ سفرِ عبرت: یعنی دنیا کی سیّاحت و سفر اس کام کے لئے کرنا کہ کہ الله تعالیٰ کی مخلوقات اور قدرتِ کاملہ کا اور اقوامِ سابقہ کا مشاہدہ کر کے عبرت حاصل کرے۔ قرآن کریم نے ایسے سفر کی ترغیب دی ہے۔ 

۲۔ سفرِ حج: اس کا چند شرائط کے ساتھ فرضِ اسلامی ہونا سب کو معلوم ہے۔

۳۔ سفرِ جہاد: اس کا بھی فرض یا واجب یا مستحب ہونا سب مسلمانوں کو معلوم ہے۔

۴۔ سفرِ معاش: جب کسی شخص کو اپنے وطن میں ضرورت کے مطابق معاشی سامان حاصل نہ ہو سکےتو اس پر لازم ہے کہ وہاں سے سفر کر کے دوسری جگہ تلاشِ روزگار کرے۔

۵۔ سفرِ تجارت: یعنی قدرِ ضرورت سے زائد مال حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا۔ یہ بھی شرعاً جائز ہے۔ الله تعالیٰ نے سفرِ حج میں بھی تجارت کی اجازت دی ہے تو تجارت کے لئے ہی سفر کرنا بدرجہٴ اولیٰ جائز ہوا۔ 

۶۔ طلبِ علم کے لئے سفر: اس کا بقدرِ ضرورتِ دین فرضِ عین ہونا، اور زائد از ضرورت کا فرضِ کفایہ ہونا معلوم و معروف ہے۔

۷۔ کسی مقام کو مقدّس اور متبرّک سمجھ کر اس کی طرف سفر کرنا: قرطبی اور ابنِ عربیؒ کی رائے ہے کہ یہ بجز تین مسجدوں کے درست نہیں، ایک مسجدِ حرام (مکّہ مکرمہ)، دوسرے مسجدِ نبوی (مدینہ منوّرہ)، اور تیسرے مسجدِ اقصیٰ (بیت المقدّس)۔ دوسرے اکابر علماءِ سلف و خلف نے عام مقاماتِ متبرّکہ کی طرف سفر کرنے کو بھی جائز قرار دیا ہے۔ (مفتی محمد شفیع ؒ)

۸۔ اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے لئے سفر:جس کو رباط کہا جاتا ہے۔ احادیثِ کثیرہ میں اس کی بڑی فضیلت مذکور ہے۔

۹۔ عزیزوں اور دوستوں سے ملاقات کے لئے سفر: حدیث میں اس کو بھی باعثِ اجر و ثواب قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں اقرباء و احباب کی ملاقات کے لئے سفر کرنے والے کے لئے فرشتوں کی دعا کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ (یہ جب ہے کہ ان کی ملاقات سے الله تعالیٰ کی رضا مقصود ہو، کوئ مادّی غرض نہ ہو) والله اعلم۔

ختم شد۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از تفسیرِ سورہ نحل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ

ترکِ وطن اور ہجرت کی مختلف قسمیں۔ حصّہ اوّل

امام قرطبی نے بحوالہٴ ابنِ عربی لکھا ہے کہ وطن سے نکلنا اور زمین میں سفر کرنا کبھی تو کسی چیز سے بھاگنے اور بچنے کے لئے ہوتا ہے، اور کبھی کسی چیز کی طلب و جستجو کے لئے۔ پہلی قسم کا سفر جو کسی چیز سے بھاگنے اور بچنے کے لئے ہو اس کو ہجرت کہتے ہیں، اور اس کی چھ قسمیں ہیں۔

اوّل، دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف جانا۔ یہ قسِم عہدِ رسالت میں بھی فرض تھی، اور قیامت تک بشرطِ استطاعت و قدرت فرض ہے (جبکہ دارالکفر میں اپنے جان و مال اور آبرو کا امن نہ ہو، یا دینی فرائض کی ادائیگی ممکن نہ ہو۔ مفتی محمد شفیعؒ)۔ اس کے باوجود دارالحرب میں مقیم رہا تو گناہ گار ہو گا۔

دوسرا، دارالبدعت سے نکل جانا۔ ابنِ قاسم کہتے ہیں کہ میں نے امام مالکؒ سے سنا ہے کہ کسی مسلمان کے لئے اس مقام میں قیام کرنا حلال نہیں جس میں سلف صالحین پر سب و شتم کیا جاتا ہو۔ 

تیسرا سفر وہ ہے کہ جس جگہ پہ حرام کا غلبہ ہو وہاں سے نکل جانا، کیونکہ طلبِ حلال ہر مسلمان پر فرض ہے۔

چوتھا، جسمانی اذیّتوں سے بچنے کے لئے سفر۔ یہ سفر جائز اور الله تعالیٰ کی طرف سے انعام ہے کہ انسان جس جگہ دشمنوں سے جسمانی اذیّت کا خطرہ محسوس کرے وہاں سے نکل جائے تا کہ اس خطرے سے نجات ہو۔

پانچواں سفر آب و ہوا کی خرابی اور امراض کے خطرے سے بچنے کے لئے ہے۔ شریعتِ اسلام نے اس کی بھی اجازت دی ہے، جیسا کہ رسول الله ﷺ نے کچھ چرواہوں کو مدینہ سے باہر جنگل میں قیام کرنے کا ارشاد فرمایا کیونکہ شہری آب و ہوا ان کو موافق نہ تھی۔

چھٹا سفر اپنے مال کی حفاظت کے لئے ہے۔ جب کوئ شخص کسی مقام میں چوروں، ڈاکوؤں کا خطرہ محسوس کرے تو وہاں سے منتقل ہو جائے۔ شریعت ِ اسلام نے اس کی بھی اجازت دی ہے کیوانکہ مسلمان کے مال کا بھی ایسا ہی احترام ہے جیسا اس کی جان کا ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة نحل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ

Tuesday 20 September 2016

تواضع کیسے پیدا کی جائے؟

فرمایا کہ تواضع اگرچہ دل کا عمل ہے کہ آدمی اپنے آپ کو دل میں بے حقیقت سمجھے، لیکن دل میں اس بات کو بٹھا لینے اور ہمیشہ حاضر رکھنے کے لئے آدمی عملاً یہ کرے کہ کسی بھی کام سے اپنے آپ کو بلند نہ سمجھے اور اس کو کسی بھی کام میں عار نہ ہو۔ کوئ بھی کام کرنے کے بارے میں یہ نہ سوچے کہ یہ کام میرے مرتبے کا نہیں بلکہ ہر چھوٹے سے چھوٹے عمل کے لئے بھی تیّار رہے۔ 

دوسرے یہ کہ آدمی اپنی نشست و برخاست میں، انداز و ادا میں، چلنے پھرنے میں ایسا طریقہ اختیار کرے جس میں تکبّر نہ ہو، بلکہ عاجزی و انکساری ہو۔ اگر چہ ساری تواضع اس پہ منحصر نہیں لیکن یہ بھی تواضع کے حصول کا ایک طریقہ ہے کہ اگر انسان ظاہری افعال کے اندر عاجزی و انکساری اختیار کر لے گا تو پھر انشاء الله دل میں بھی تواضع پیدا ہو جائے گی۔

ماخوذ از بیان "تواضع رفعت اور بلندی کا ذریعہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

شکر کثرت سے کیا کرو

حضرت ڈاکٹر عبد الحئ  رحمت الله علیہ فرماتے تھے کہ الله تعالیٰ کا شکر کثرت سے کیا کرو۔ جتنا شکر کرو گے انشاء الله  تواضع پیدا ہو گی، الله تعالیٰ کی رحمت سے تکبّر دور ہو گا، امراضِ باطنہ کی جڑ کٹے گی۔ 

اور جب شکر کرو تو ذرا سوچ سمجھ کر کرو کہ شکر کے معنی کیا ہیں؟ شکر کے معنی یہ ہیں کہ میں تو اس نعمت کا مستحق نہیں تھا، مگر الله تعالیٰ نے اپنے فضل سے عطا فرمائ۔ اس کا نام تواضع ہے۔ اگر اپنے آپ کو مستحق سمجھا تو تواضع کیا ہوئ؟ پھر شکر کیا ہوا؟ مثلاً ایک آدمی نے کسی سے قرض لیا تو مقروض پر واجب ہے کہ وہ قرض خواہ کو قرض لوٹائے، کیونکہ قرض خواہ اس رقم کا مستحق ہے۔ اب جس وقت مقروض یہ رقم قرض خواہ کو لوٹائے گا تو اس وقت قرض خواہ پر شکر ادا کرنا واجب نہیں ہو گا، ا سلئے کہ اس کی رقم واپس کر کے مقروض نے کوئ احسان نہیں کیا۔ شکر کا موقع تو اس وقت ہوتا ہے جب انسان یہ سمجھے کہ میں اس چیز کا مستحق تو نہیں تھا، مجھے میرے استحقاق سے زیادہ چیز دی گئ۔ لہذا جب کسی نعمت پر شکر ادا کرو تو ذرا سوچ لیا کرو کہ یہ نعمت میرے استحقاق میں نہیں تھی، الله تبارک و تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے مجھے عطا فرمائ۔ بس یہی سوچتے رہنے سے انشاء الله تواضع حاصل ہو جائے گی۔ 

ماخوذ از بیان "تواضع رفعت اور بلندی کا ذریعہ" از مفی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

عبادت کی قبولیت کی علامت

حاجی امداد الله مہاجر مکّی رحمت الله علیہ سے کسی نے سوال کیا کہ حضرت! اتنے دن سے نماز پڑھ رہا ہوں۔ معلوم نہیں الله تعالیٰ کے ہاں قبول ہوتی ہے کہ نہیں۔ حضرت نے جواب میں فرمایا، ارے بھائ، اگر پہلی نماز قبول نہ ہوتی تو دوسری بار پڑھنے کی توفیق نہ ہوتی۔  جب تم نے ایک عبادت کر لی اور اس کے بعد الله تعالیٰ نے وہی عبادت دوبارہ کرنے کی توفیق دے دی تو یہ انشاء الله اس بات کی علامت ہے کہ پہلی عبادت قبول ہو گئ۔ اس وجہ سے نہیں کہ اس عبادت کی کوئ خصوصیت تھی بلکہ اس وجہ سے کہ اس نے تمہیں توفیق دی، اس لئے اپنی نماز اور اپنی عبادتوں کو کبھی حقیر نہ سمجھو۔

مولانا رومی ؒ نے مثنوی میں ایک بزرگ کا قصّہ لکھا ہے کہ وہ بہت دن تک نمازیں پڑھتے رہے، روزے رکھتے رہے، اور تسبیح و ذکر کرتے رہے۔ ایک دن دل میں یہ خیال آیا کہ میں اتنے عرصے سے یہ سب کچھ کر رہا ہوں لیکن الله میاں کی طرف سے کوئ جواب وغیرہ تو آتا نہیں ہے۔ پتہ نہیں الله تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ اعمال قبول ہوتے بھی ہیں یا نہیں؟ آخر کار اپنے شیخ سے جا کر عرض کیا کہ حضرت! اتنے دن سے میں عبادت کر رہا ہوں لیکن الله تعالیٰ کی طرف سے کوئ جواب نہیں آتا۔ یہ سن کر شیخ نے فرمایا کہ ارے بےوقوف! یہ جو تمہیں الله الله کرنے کی توفیق ہو رہی ہے، یہ ہی ان کی طرف سے جواب ہے۔ اس لئے کہ اگر تمہارا عمل قبول نہ ہوتا تو تمہیں الله الله کرنے کی توفیق نہ ہوتی۔ کسی اور جواب کے انتظار میں رہنے کی ضرورت نہیں۔
کہ گفت آں الله تو لبّیک ماست
زیں نیاز و درد و سوزک ماست
یعنی یہ جو تو الله الله کر رہا ہے یہ الله الله کرنا ہی ہماری طرف سے لبّیک کہنا ہے۔ یہ تیرے الله الله کا جواب ہے کہ ایک مرتبہ کرنے کے بعد دوسری مرتبہ کرنے کی توفیق دے دی۔

ماخوذ از بیان "تواضع رفعت اور بلندی کا ذریعہ" از مفت محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Saturday 17 September 2016

حضرت با یزید بسطامی رحمة الله علیہ ایک جلیل القدر بزرگ گزرے ہیں۔ ان کا واقعہ مشہور ہے کہ انتقال کے بعد کسی نے ان کو خواب میں دیکھا تو ان سے پوچھا کہ حضرت! الله تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیسا معاملہ فرمایا؟ جواب دیا کہ ہمارے ساتھ بڑا عجیب معاملہ ہوا۔ جب ہم یہاں پہونچے تو الله تعالی نے پوچھا کہ کیا عمل لے کر آئے ہو؟ میں نے سوچا کہ کیا جواب دوں، اور اپنا کون سا عمل پیش کروں، اس لئے کہ کوئ بھی عمل اس قابل نہیں ہے کہ ان کے سامنے پیش کیا جائے۔ لہذا میں نے جواب دیا کہ یاالله! میں کچھ بھی نہیں لایا، خالی ہاتھ آیا ہوں، آپ کے کرم کے سوا میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ الله تعالیٰ نے فرمایا، ویسے تو تم نے بڑے بڑے عمل کئے لیکن تمہارا ایک عمل ہمیں بہت پسند آیا۔ وہ عمل یہ ہے کہ ایک رات جب تم اٹھے تو تم نے دیکھا کہ ایک بلّی کا بچّہ سردی کی وجہ سے ٹھٹھر رہا ہے۔ تم نے اس پر ترس کھا کر اس کو اپنے لحاف میں جگہ دیدی اور اس کی سردی دور کر دی، اور اس بلّی کی بچّے نے آرام کے ساتھ ساری رات گزاری۔ ہمیں تمہارا یہ عمل اس قدر پسند آیا کہ اس عمل کی بدولت ہم نے تمہاری مغفرت کر دی۔ 

حضرت بایزید بسطامی ؒ فرماتے ہیں کہ دنیا میں جو بڑے بڑے علوم اور معارف حاصل کئے تھے وہ سب دھرے کے دھرے رہ گئے۔ وہاں تو صرف ایک عمل پسند آیا، وہ تھا مخلوق کے ساتھ حسنِ اخلاق۔

ماخوذ از بیان "تواضع رفعت اور بلندی کا ذریعہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
ایک مرتبہ سید احمد کبیر رفاعی رحمتہ الله علیہ، جو بڑے اونچے درجے کے اولیاءالله میں سے تھے، بازار میں تشریف لے جا رہے تھے۔ انہوں نے سڑک پر ایک بیمار کتّا دیکھا جس سے بیماری کی وجہ سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔ آپ کو اس کتّے پہ ترس اور رحم آیا اور آپ اس کو اٹھا کر گھر لے آئے۔ پھر ڈاکٹر کو بلا کر اس کا علاج کروایا، اور روزانہ اس کی مرہم پٹی کرتے رہے۔ جب الله تعالیٰ نے اس کو تندرست کر دیا تو آپ نے اپنے کسی ساتھی سے کہا کہ اگر کوئ شخص روزانہ اس کو کھلانے پلانے کا ذمّہ لے تو اس کو لے جائے، ورنہ پھر میں ہی اس کو رکھتا ہوں اور اس کو کھلاؤں گا۔ اس طرح آپ نے اس کتّے کی پرورش کی۔ 

اس واقعے کے کچھ عرصے بعد ایک روز سید احمد کبیر رفاعی ؒ کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ بارش کا موسم تھا۔ کھیتوں کے درمیان جو پگڈنڈی ہوتی ہے اس پر سے گزر رہے تھے۔ دونوں طرف کیچڑ تھی۔ سامنے سے ایک کتّا آ گیا۔ وہ پگڈنڈی اتنی پتلی تھی کہ ایک وقت میں یا تو وہ گزر سکتے تھے، یا کتّا گزر سکتا تھا۔ دونوں میں سے ایک کو کیچڑ میں اترنا پڑتا۔ 

اس وقت سید احمد کبیر رفاعی ؒ کا اس کتّے سے مکالمہ ہوا۔ اب یہ الله ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ مکالمہ کس طرح ہوا لیکن روایت میں اس مکالمے کی تفصیل کچھ اس طرح آتی ہے۔ حضرت سید احمد کبیر ؒ نے کتّے سے کہا کہ تم نیچے اتر جاؤ تا کہ میں پگڈنڈی کے اوپر سے گزر جاؤں۔ کتّے نے جواب میں کہا، میں نیچے کیوں اتروں؟ تم تو بڑے درویش اور الله کے ولی بنے پھرتے ہو، اور الله کے ولیوں کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ وہ ایثار کے پیکر ہوتے ہیں، دوسروں کے لئے قربانی دیتے ہیں۔ تم کیسے الله کے ولی ہو کہ مجھے نیچے اترنے کا حکم دے رہے ہو، خود کیوں نہیں اتر جاتے؟

حضرت شیخ نے جواب میں فرمایا کہ بات دراصل یہ ہے کہ میں مکلّف ہوں اور تو مکلّف نہیں۔ مجھے نماز پڑھنی ہے، تجھے نہیں پڑھنی۔ اگر نیچے اترنے کی وجہ سے تیرا جسم گندا ہو گیا تو تجھے غسل اور طہارت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اگر میں اتر گیا تو میرے کپڑے ناپاک ہو جائیں گے اور میری نماز میں خلل آئے گا۔

کتّے نے جواب میں کہا، اگر آپ کے کپڑے گندے ہو گئے تو ان کا علاج یہ ہے کہ انہیں اتار کر دھو لینا، وہ پاک ہو جائیں گے۔ لیکن اگر میں نیچے اتر گیا تو تمہارا دل ناپاک ہو جائے گا۔ وہ اس لئے کہ تمہارے دل میں یہ خیال آجائے گا کہ میں اس کتّے سے افضل ہوں، میں انسان ہوں اور یہ کتّا ہے، اور اس خیال کی وجہ سے تمہارا دل ایسا ناپاک ہو جائے گا کہ اس کی پاکی کا کوئ ذریعہ نہیں۔ یہ سن کر حضرت شیخ کے دل پہ ایسا اثر ہوا کہ وہ کیچڑ میں اتر گئے اور کتّے کو راستہ دے دیا۔ 

اس کے بعد الله تعالیٰ کی طرف سے حضرت سید احمد کبیر رفاعی ؒ کو الہام ہوا کہ اے احمد کبیر! آج ہم نے تم کو ایک ایسے علم کی دولت سے نوازا کہ سارے علوم ایک طرف اور یہ علم ایک طرف۔ اور یہ درحقیقت تمہارے اس عمل کا انعام اور بدلہ ہے کہ تم نے چند روز پہلے ایک کتّے پہ ترس کھا کر اس کا علاج اور دیکھ بھال کی تھی، اور اسی لئے ہم نے تمہیں اسی کے ہم قوم کے ذریعے یہ علم عطا کیا۔ وہ علم یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو کتّے سے بھی افضل نہ سمجھے اور کتّے کو بھی اپنے مقابلے میں حقیر خیال نہ کرے۔ 

ماخوذ از بیان "تواضع رفعت اور بلندی کا ذریعہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

الله کی مخلوق سے محبّت

فرمایا کہ الله کے جو نیک بندے ہوتے ہیں ان کو الله کی مخلوق سے بھی بے پناہ شفقت اور محبّت ہوتی ہے، اور یہ محبّت اور شفقت اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ان کو الله تعالیٰ سے خصوصی تعلّق ہے۔ اسی کو مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں:
زتسبیح و سجّادہ و دلق نیست
طریقت بجز خدمتِ خلق نیست
یعنی طریقت تسبیح، مصلّیٰ اور گدڑی کا نام نہیں، بلکہ طریقت خدمتِ خلق کے بغیر کچھ بھی نہیں۔

حضرت ڈاکٹر عبدالحئ رحمتہ الله علیہ فرماتے تھے کہ جب کوئ بندہ الله تعالی سے محبت کرتا ہے، اور الله تعالیٰ کو بھی اس سے محبت ہو جاتی ہے، تو الله تعالیٰ اس کے دل میں مخلوق کی محبّت ڈال دیتے ہیں جس کے نتیجے میں الله والوں کو انسانوں، بلکہ جانوروں تک سے اتنی محبّت ہو جاتی ہے کہ ہم اور آپ اس کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔

ماخوذ از بیان "تواضع رفعت اور بلندی کا ذریعہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

تواضع کی حقیقت

رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا:

من تواضع لله رفعه الله

ترجمه: جو شخص الله تعالیٰ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے، الله تعالیٰ اس کو بلندی سے سے نوازتے ہیں۔

تواضع عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی ہیں "اپنے آپ کو کم درجہ سمجھنا"۔ مثلاً انسان یہ سمجھے کہ میری تو کوئ حیثیت، کوئ حقیقت نہیں۔ اگر میں کوئ اچھا کام کر رہا ہوں تو یہ محض الله تعالیٰ کی توفیق ہے۔ اس کی عنایت اور مہربانی ہے۔ اس میں میرا کوئ کمال نہیں۔ یہ ہے تواضع کی حقیقت۔ جب یہ حقیقت حاصل ہو جائے تو اس کے بعد چاہے زبان سے انسان اپنے آپ کو ناچیز، ناکارہ، یا حقیر کہے یا نہ کہے اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا کیونکہ تواضع کی حقیقت اپنے آپ کو حقیر کہنا نہیں، حقیر سمجھنا ہے۔

ماخوذ از بیان "تواضع رفعت اور بلندی کا ذریعہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Wednesday 14 September 2016

حضرت ابوالدرداء رضی الّٰلہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ جامع مسجد دمشق کے منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا، "اے اہلِ دمشق! کیا تم اپنے ایک ہمدرد خیرخواہ بھائ کی بات سنو گے؟ سن لو کہ تم سے پہلے بہت بڑے بڑے لوگ گزرے ہیں، جنہوں نے مال و متاع بہت جمع کیا، اور بڑے بڑے شاندار محلّات تعمیر کیے، اور دور دراز کے طویل منصوبے بنائے۔ آج وہ سب ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان کے مکانات ان کی قبریں ہیں، اور ان کی طویل امیدیں سب دھوکہ اور فریب ثابت ہوئیں۔ قومِ عاد تمہارے قریب تھی جس نے اپنے آدمیوں سے، اور ہر طرح کے مال و متاع سے، اور اسلحہ اور گھوڑوں سے، ملک کو بھر دیا تھا۔ آج کوئ ہے جو ان کی وراثت مجھ سے دو درہم میں خریدنے کو تیّار ہو جائے؟

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة حجر، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

شکر اور صبر

شکر کی حقیقت کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان الّٰلہ تعالیٰ کی دی ہوئ نعمتوں کو اس کی نافرمانی اور حرام و ناجائز کاموں میں خرچ نہ کرے، اور زبان سےبھی الّٰلہ تعالی کا شکر ادا کرے، اور اپنے افعال و اعمال کو بھی الّٰلہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق بنائے۔

صبر کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان خلافِ طبع  امور پر پریشان نہ ہو، اپنے قول و عمل میں ناشکری سے بچے، الّٰلہ تعالیٰ کی رحمت کا دنیا میں بھی امیدوار رہے اور آخرت میں صبر کے اجرِ عظیم کا یقین رکھے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة ابراہیم، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Sunday 11 September 2016

گناہ کا بدلہ طاعت ہے

فرمایا کہ

یدرؤن بالحسنة السیئة

کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ گناہ کا بدلہ طاعت سے ادا کرو۔ اگر کبھی کوئ گناہ سرزد ہو جائے تو فوراً توبہ کرو اور کے بعد الّٰلہ تعالیٰ کی عبادت میں لگ جاؤ۔ اس سے تمہارا پچھلا گناہ بھی معاف ہو جائے گا۔ 

حضرت ابو ذر غفّاری ؓ نے فرمایا کہ رسولِ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب تم سے کوئ برائ یا گناہ سرزد ہو جائے تو اس کے بعد تم نیک عمل کر لو۔ اس سے وہ گناہ مٹ جائے گا۔ (اس نیک عمل کی شرط یہ ہے کہ پچھلے گناہ سے توبہ کر کے نیک عمل اختیار کرے۔)

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة رعد، تالیف مفتی محمد شفیع ؒ

برائ کا جواب بھلائ ہے

حضرت مفتی محمد شفیع ؒ نے معارف القرآن میں فرمایا کہ

یدرؤن بالحسنة السیئة

سے معلوم ہوا کہ اسلا م کا طریقہ یہ نہیں کہ برائ کا جواب برائ سے دے کر دفع کیا جائے، بلکہ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ برائ کو بھلائ کے ذریعے دفع کرو۔ جس نے تم پر ظلم کیا ہے تم اس کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرو۔ جس نے تمہارے تعلّق کا حق ادا نہیں کیا تم اس کا حق ادا کرو۔ جس نے  تم پر غصّہ کیا تم اس کا جواب حلم و بردباری سے دو۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ دشمن بھی دوست ہو جائے گا اور شریر بھی آپ کے سامنے نیک بن جائے گا۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة رعد، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

الّٰلہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا

حضرت مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ نے فرمایا کہ:

وانفقو مما رزقنھم سرا و علانیه

سے معلوم ہوا کہ الّٰلہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا خفیہ اورعلانیہ دونوں طرح سے درست ہے۔ البتّہ افضل یہ ہے کہ صدقات واجبہ زکوةٰ، صدقةالفطر وغیرہ کو علانیہ ادا کرے  تا کہ دوسرے مسلمانوں کو بھی ادائیگی کی ترغیب ہو، اور صدقاتِ نافلہ جو واجب نہیں ان کو خفیہ ادا کرے تا کہ ریا کاری اور نام و نمود کے شبہ سے نجات ہو۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة رعد، تالیف مفتی محمد شفیع ؒ

Saturday 10 September 2016

صلہٴ رحمی

حضرت انس رضی الّٰلہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ الّٰلہ تعالیٰ اس کے رزق میں وسعت اور کاموں میں برکت عطا فرمادیں تو اس کو چاہیے کہ صلہٴ رحمی کرے۔ صلہٴ رحمی کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں سے رشتہ داری کے خصوصی تعلّقات ہیں ان کی خبر گیری اور بقدرِ گنجائش امداد و اعانت کرے۔ 

حضرت عبدالّٰلہ ابنِ عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ صلہٴ رحمی صرف یہ نہیں کہ تم دوسرے عزیز کے احسان کا بدلہ ادا کردو، اور اس نے تمہارے ساتھ کوئ احسان کیا ہے تو تم اس پر احسان کردو۔ بلکہ اصل صلہٴ رحمی یہ ہے کہ تمہارا رشتہ دار عزیز تمہارے حقوق میں کوتاہی کرے، تم سے تعلّق نہ رکھے، تم پھر بھی محض الّٰلہ کے لئے اس سے تعلّق کو قائم رکھو اور اس پر احسان کرو۔

صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ بڑی صلہٴ رحمی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے انتقال کے بعد ان کے دوستوں سے وہی تعلّقات قائم رکھے جو باپ کے سامنے تھے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیر سورة رعد، تالیف مفتی محمد شفیع ؒ

حقوق کی ادائیگی ضروری ہے

حضرت مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ نے فرمایا کہ:

والذین یصلون ما امر الّٰلہ به ان یوصل

سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیم راہبانہ انداز سے ترکِ تعلّقات کی نہیں، بلکہ ضروری تعلّقات کو قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ماں باپ کے حقوق، اولاد، بیوی اور بہن بھائیوں کے حقوق، دوسرے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق الّٰلہ تعالیٰ نے ہر انسان پر لازم کئے ہیں۔ ان حقوق کو نظر انداز کر کے نفلی عبادت میں یا کسی دینی خدمت میں لگ جانا بھی جائز نہیں، تو دوسرے دنیاوی کاموں میں لگ کر ان کو بھلا دینا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ 

از معارف القرآن، تفسیر سورة رعد، تالیف مفتی محمد شفیع ؒ

الّٰلہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان ہوتا ہے

الذین امنو و تطمئن قلوبھم بذکرالّٰلہ، الا بذکر الّٰلہ تطمئن القلوب۔ (سورة رعد:۲۸)

یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں، اور جن کے دل الّٰلہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو کہ صرف الّٰلہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔

ترجمہ از آسان ترجمہء قرآن، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

عہد شکنی حرام ہے

حضرت مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ نے معارف القرآن میں فرمایا کہ:

الذین یوفون بعھدالّٰلہ ولا ینقضون المیثاق

سے ثابت ہوا کہ جو معاہدہ کسی سےکر لیا جائے اس کی پابندی فرض اور اس کی خلاف ورزی حرام ہے، خواہ وہ معاہدہ الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول ﷺ سے ہو جیسے عہدِ ایمانی، یا مخلوقات میں سے کسی سے ہو، خواہ مسلمان سے یا غیر مسلم سے۔ عہد شکنی ہر حال میں حرام ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ، تفسیرِ سورة رعد۔

Tuesday 6 September 2016

حضرت عمر فاروق رضی الّٰلہ عنہ اور غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت

حضرت عمر فاروق رضی الّٰلہ عنہ کے دور کا واقعہ ہے کہ بیت المقدّس میں غیر مسلموں سے جزیہ کی شکل میں ٹیکس وصول کیا جاتا تھا کہ ان کے جان مال اور آبرو کا تحفّظ کیا جائے۔ ایک موقع پر بیت المقدّس سے فوج بلا کر کسی اور محاذ پر بھیجنے کی ضرورت پیش آئ۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے کہا کہ بیت المقدّس میں جو غیر مسلم رہتے ہیں ہم نے ان کے تحفّظ کی ذمّہ داری لی ہے۔ اگر ہم اپنی فوج کو یہاں سے ہٹا لیں گے تو ان کا تحفّظ کون کرے گا؟ ہم نے ان سے اس کام کے لئے جزیہ لیا تھا لیکن ضرورت بھی شدید ہے۔ چنانچہ انہوں نے سارے غیر مسلموں کو بلا کر کہا کہ ہم نے تمہاری حفاظت کی ذمّہ داری لی تھی، اس کی خاطر تم سے ٹیکس بھی وصول کیا تھا۔ اب ہمیں فوج کی ضرورت پیش آ گئ ہے جس کی وجہ سے ہمیں فوج کہیں اور بھیجنی ہے اور ہم تمہارا تحفّظ نہیں کر سکتے۔ اس لئے جو ٹیکس تم سے لیا تھا وہ سارا تم کو واپس کیا جاتا ہے۔ 

ماخوذ از بیان "اسلام اور انسانی حقوق" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

اولاد کی اصلاح کرنا واجب ہے

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا فرمائ جس کا ایک حصّہ یہ ہے:
..."ومن ذرّیاتنا امة مسلمة لک"

اے الّٰلہ ہماری آنے والی نسل کو بھی مسلمان بنائیے، اس کو بھی اپنے تابع فرمان بنائیے۔ اس میں اشارہ اس بات کی طرف کر دیا کہ ایک مسلمان کا کام صرف خود مسلمان بن کر ختم نہیں ہوتا۔ اس کے فرائض میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اپنی اولاد کی فکر کرے۔ آج ہم مسلمانوں کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو خود تو نماز کے پابند ہیں، صفِ اوّل کے پابند ہیں، تلاوتِ قرآن کے پابند ہیں، لیکن ان کے ذہنوں میں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ اولاد کہاں جا رہی ہے۔ 

قرآن کریم کا ارشاد ہے:
یا یھاالذین امنو قو انفسکم و اھلیکم نارا

اے ایمان والو! اپنے آپ کو بھی آگ سے بچاؤ اور اپنے گھر والوں  کو بھی بچاؤ۔ جس طرح خود مسلمان بننا فرض ہے، اسی طرح آنے والی نسل کو بھی مسلمان بنانا اور ان کی اصلاح کی فکر کرنا بھی فرض ہے۔

ماخوذ از بیان "حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تعمیر بیت الّٰلہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Monday 5 September 2016

اسلام اور انسانی حقوق۔ ۵۔ عقیدے کا تحفّظ

قرآن کریم کی آیت ہے کہ "لا اکراہ فی الدین"۔ دین میں کوئ جبر نہیں۔ دین میں کوئ زبردستی نہیں۔ اگر کسی مسلم مملکت کے اندر ایک عیسائ عیسائ رہنا چاہے، یہودی یہودی رہنا چاہے، تو اس کو دعوت تو دی جا سکتی ہے لیکن اس کے اوپر کوئ زبردستی نہیں کی جا سکتی کہ وہ مسلمان ہو جائے۔ اس کو زبردستی اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کرنا جائز نہیں۔ 

جو غیر مسلم کسی مسلمان ریاست کے باشندے ہوں اسلام نے ان کے جان و مال،  عزّت و آبرو اور حقوق کے تحفّظ کو اسلامی ریاست کی ذمّہ داری قرار دیا ہے۔ اس بات کی پوری رعایت رکھی گئ ہے کہ انہیں نہ صرف اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہو، بلکہ انہیں روزگار، تعلیم اور حصولِ انصاف میں برابر کے مواقع حاصل ہوں۔ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کیا جائے، اور ان کی دلآزاری سے مکمّل پرہیز کیا جائے۔ اسی طرح اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو شائستگی کے دائرے میں اپنے مذہبی تہوار منانے کا پورا حق حاصل ہے، اور حکومت کی ذمّہ داری ہے کہ وہ اس میں نہ خود کوئ رکاوٹ ڈالے، اور نہ دوسروں کو ڈالنے دے۔

قرآن کریم نے فرمایا ہے: "الّٰلہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے دین کے معاملے مہں تم سے جنگ نہیں کی ، اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، ان کے ساتھ تم نیکی کا یا انصاف کا معاملہ کرو۔ یقیناً الّٰلہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔" (سورة ممتحنہ، آیت ۸)

ماخوذ از بیان "اسلام اور انسانی حقوق" اور "مذہبی رواداری" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Sunday 4 September 2016

اسلام اور انسانی حقوق: ۴۔ معاش کا تحفّظ

حدیث شریف میں ہے: "معیشت کو حلال طریقے سے حاصل کرنا انسان کے فرائض کے بعد دوسرے درجے کا اہم فریضہ ہے۔"

دنیا میں انسان کو زندہ رہنے لئے معاش کی ضرورت ہے، روزگار کی ضرورت ہے، اس لئے اسلام میں معاش کی تلاش انسان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے اور اس کی حفاظت کی گئ ہے۔ اس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کسی انسان کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی  کہ وہ اپنی دولت کے بل بوتے پہ دوسروں کے لئے معاش کے دروازے بند کرے۔ 

ویسے تو اسلام کی معاشی تعلیمات کے بارے میں پوری پوری کتابیں لکھی گئ ہیں، لیکن مختصراً اسلام میں اور سرمایہ دارانہ نظام میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلام میں معاہدے کی آزادی (Freedom of contract) کو مادر پدر آزاد نہیں چھوڑا گیا اور اس کے بارے میں فرمایا گیا کہ ہر وہ معاہدہ جس کے نتیجے میں معاشرے میں خرابی آتی ہو، اور جس کے نتیجے میں دوسرے آدمی پر رزق کا دروازہ بند ہوتا ہو، وہ حرام ہے۔  رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو چھوڑ دو کہ الّٰلہ تعالیٰ ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعے رزق عطا فرمائیں گے۔

اسلام میں منافع کمانے کی آزادی پر تین طرح کی پابندیاں عائد کی گئ ہیں لیکن ان کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism) یا اشتراکیت (Communism) کے برعکس اسلام صرف ایک معاشی نظام نہیں ہے، بلکہ ایک مکمّل ضابطہء حیات ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کامیابی کا واحد معیار پیسہ ہے۔ جو لاکھ روپے کما رہا ہے، اس کی زندگی اس سے زیادہ کامیاب ہے جو ہزار روپے کماتا ہے، جو کروڑ روپے کماتا ہے اس کی زندگی اس سے زیادہ کامیاب ہے جو لاکھ روپے کماتا ہے۔ لیکن اسلام میں کامیابی کا اصل معیار یہ ہے کہ انسان نے اپنے وقت کو، اپنی صحت کو، اور اپنی دولت کو اپنی آخرت اور عاقبت کو اچھی بنانے کے لئے کس طرح استعمال کیا۔ جس کا خاتمہ اچھا ہوا اس کی زندگی کامیاب ہوئ چاہے وہ کتنا ہی غریب ہو۔ جس کا خاتمہ برا ہوا، اس کی زندگی ناکام ہوئ چاہے اس نے اپنے اکاؤنٹ میں کتنے ہی اربوں کھربوں چھوڑے ہوں۔ 

دوسری طرف یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام میں رہبانیت کی تعلیم نہیں دی گئ۔ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایماندار تاجر آخرت میں انبیاء، صدّیقین اور شہداء کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ فقہ کی مشہور کتاب "ہدایہ" کی چار جلدیں ہیں جن میں سے آخری دو جلدیں تمام تر معاشی تعلیمات پر مشتمل ہیں۔ حکم یہ ہے کہ دنیا میں رہنا بھی جائز ہے، اس کو برتنا بھی جائز ہے، اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، اس سے لطف اندوز ہونا بھی جائز ہے، لیکن اس کے لطف اور مزے کو ہی اپنی تمام تر کوششوں کا محور سمجھ لینا اور اپنی تمام توانائیاں اور تمام وقت اس میں صرف کر دینا جائز نہیں۔

اس بنیادی بات کو سمجھنے کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام نے کسبِ معاش کی کوششوں پہ کس طرح کی پابندیاں عائد کی ہیں۔

۱۔ شرعی یا دینی پابندی
الّٰلہ تعالی اور رسول الّٰلہ ﷺ کا حکم ہے کہ رزق کمانےاور نفع کمانے کے لئے دو انسان آپس میں جس طرح کا معاہدہ چاہے کر سکتے ہیں لیکن بعض صورتیں ایسی ہیں جس میں دونوں کی مکمّل رضامندی سے بھی معاہدہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔

اس کی آج کے دور میں سب سے بڑی مثال سود ہے جس کی آمدنی کو الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلانِ جنگ قرار دیا گیا ہے۔ سود کی حرمت کے بارے میں پوری کتابیں لکھی گئ ہیں لیکن مختصراً سود کے نظریئے کی بنیاد اس بات پہ ہے کہ ایک شخص کی آمدنی یقینی اور دوسرے کی غیر یقینی ہے۔ اس کے برعکس شریعت کا حکم یہ ہے کہ ادھار دینے والا اور لینے والا دونوں منافع اور نقصان دونوں میں شراکت دار ہوں اور شراکت داری کی شرح اصل رقم پر نہیں بلکہ منافع یا نقصان کی شرح پر طے ہو۔ مثلاً یہ کہ اگر منافع ہوا تو اس منافع کا پچیس فیصد ایک اور پچھتر فیصد دوسرے کو ملے گا۔ اس کے برعکس اگر نقصان ہوا تو دونوں اسی شرح سے نقصان برداشت کریں گے۔ اس طرح سے دولت معاشرے میں تقسیم ہوتی ہے اور محض چند ہاتھوں میں مرتکز نہیں ہوتی۔

اسی طرح اسلام نے قمار (جوا) کو حرام قرار دیا ہے۔ قمار اس کو کہا جاتا ہے کہ انسان محض پیسہ جیتنے کی امید پر پیسہ لگائے۔ اس میں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک یا چند آدمی تو بہت بڑی رقم جیت جاتے ہیں لیکن لیکن لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی جمع پونجی سے محروم ہو جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ پھر وہی نکلتا ہے کہ دولت بہت سارے لوگوں کے ہاتھ سے نکل کر کچھ لوگوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔ 

شریعت نے "احتکار (ذخیرہ اندوزی) سے منع فرمایا ہے۔ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئ شہری کسی دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے۔ مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ ان دونوں کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ اس سے معاشرے میں گرانی بڑھتی ہے اور عام آدمی کی مشکلات اور بڑھ جاتی ہیں۔ اس طرح شریعت نے "اکتناز" (پیسہ اس طرح جوڑ جوڑ کر رکھنا کہ انسان پہ جو مالی فرائض مثلاً زکوةٰ اور دوسرے جو مالی حقوق عائد ہیں ان کو بھی ادا نہ کرے) کو حرام اور ناجائز قرار دیا ہے۔ 

اوپر درج کی گئ تمام صورتیں وہ ہیں جن میں بیشک معاہدہ کرنے والوں کی رضامندی شامل بھی ہو، تب بھی وہ شریعت میں حرام قرار دی گئ ہیں۔ 

۲۔ اخلاقی پابندی
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا اسلام میں کامیابی اور ناکامی کا دارومدار صرف اس پر نہیں کہ کس نے زیادہ پیسہ کمایا، بلکہ اس پہ ہے کہ کس نے الّٰلہ تعالیٰ کو زیادہ راضی کیا۔ اسی لئے اسلام میں بہت جگہ ایسے مصارف میں پیسہ خرچ کرنے کی ترغیب دی گئ ہےجس سے الّٰلہ کی مخلوق کا فاہدہ ہو ار اس کو آرام ملے۔ ایسے کاموں سے بیشک دنیاوی منافع تو کم ملتا ہے مگر اخروی منافع بہت زیادہ ملے گا۔ مثلاً ایک شخص دیکھتا ہے کہ میں فلاں کارخانہ لگاؤں گا تو اس میں مجھے بہت منافع ہو گا، لیکن اس وقت رہائشی ضرورت کے لئے کم آمدنی والے لوگوں کو مکانات کی ضرورت ہے۔ اس وقت اگر وہ ان لوگوں کے لئے مکانات بنائے گا تو بیشک دنیاوی منافع تو کم ہو گا لیکن شریعت کی اس اخلاقی پابندی پہ عمل کرنے کی وجہ سے وہ بہت زیادہ اخروی منافع کا حقدار ہوگا۔ 

۳۔ قانونی پابندی
اسلام نے اسلامی حکومت کو یہ اختیار دیا ہے کہ اگر کسی مرحلے پہ حکومت یہ محسوس کرے کہ معاشرے کو کسی خاص سمت پہ ڈالنے کے لئے کوئ خاص پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے تو ایسے وقت میں حکومت وہ حکم جاری کر سکتی ہے اور وہ حکم اس مملکت میں رہنے والے تمام لوگوں کے لئے قابلِ احترام ہو گا۔

ماخوذ از بیان "اسلالم اور انسانی حقوق" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Saturday 3 September 2016

اسلام اور انسانی حقوق: ۳۔ ۱ آبرو کا تحفّظ

اسلام میں انسان کا تیسرا بنیادی حق یہ ہے کہ اس کی آبرو، اس کی عزّت محفوظ ہو۔ اسلام نے اس معاملے میں اتنی سختی فرمائ ہے کہ سامنے تو درکنار کسی کے پیٹھ پیچھے بھی اس کی برائ کرنا جائز نہیں۔غیبت کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کو رسول الّٰلہ ﷺ نے اپنے مرے ہوئے بھائ کا گوشت کھانے کے مماثل فرمایا۔ ہم میں سے کون ہو گا جو اس کا تصوّر بھی کرے کہ اپنے مرے ہوئے بھائ کا گوشت کھائے۔

بعض صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول الّٰلہ ﷺ! اگر وہ بات سچ ہو تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ سچ ہو تو تب ہی تو وہ بات غیبت ہے۔ ورنہ تو وہ بہتان ہے۔ بہتان میں دو گناہ ہیں، ایک دوسرے کی برائ کرنے کا، دوسراجھوٹ بولنے کا۔ مختصر یہ کہ کسی انسان کے پیٹھ پیچھے اس کا برائ سے ذکر کرنا جائز نہیں، چاہے وہ سچ ہو یا جھوٹ ہو۔ صرف بعض خصوصی صورتوں میں اس کی اجازت ہے جس کی تفصیل ایک حالیہ تحریر میں آئ تھی۔ 

بعض لوگ غیبت کو جائز ثابت کرنے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ میں یہ بات اس کے منہ پہ کہہ سکتا ہوں۔ مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ کسی بات کے غیبت ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اگر اس آدمی کو پتہ چلے کہ میرے پیٹھ پیچھے میرے بارے میں یہ بات کہی گئ تو اس کو برا لگے، اس کے منہ پہ کہہ سکنے یا نہ کہہ سکنے کا اس سے کوئ تعلّق نہیں ۔ بلکہ منہ پہ برائ کرنے سے کسی انسان کی دلآزاری کا شدید گناہ الگ ہو گا۔

اسی طرح آج کل یہ بات بہت عام ہو گئ ہے کہ فلاں شخص کوئ عوامی شخصیت یا پبلک فیگر ہے، اس لئے اس کی بری باتیں سب کے سامنے بیان کرنا نا صرف جائز ہے بلکہ بہت اچھا ہے۔ اسلام میں عوامی یا نجی شخصیت کی کوئ تخصیص نہیں۔ کسی عوامی شخصیت  کی غیبت کرنا بھی ایسا ہی گناہ ہے جیسے کسی نجی شخصیت کی۔ بلکہ اگر کسی سے منسوب باتیں بلا تحقیق آگے بیان کر دی جائیں تو ایک الگ گناہ ہے۔ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائ باتیں بلا تحقیق آگے بیان کر دے۔

اسی طرح سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو آدمی عام طور سے گناہ گار، فاسق و فاجر مشہور ہو اس کی غیبت کرنا سب کے لئے جائز ہے۔ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ الّٰلہ تعالیٰ نے ہر انسان کے حقوق کی الگ الگ حفاظت کی ہے۔ ایک محفل میں لوگ حجّاج بن یوسف کی غیبت کر رہے تھے۔ ایک بزرگ نے فرمایا کہ جس طرح الّٰلہ تعالیٰ حجّاج سے ان تمام بے گناہ مسلمانوں کے خون کا حساب لے گا جن کا خون اس کی گردن پر ہے، اسی طرح ان تمام لوگوں سے حجّاج کی غیبت کا حساب لے گا جنہوں نے اس کی غیبت کی ہے۔

پس مختصر یہ کہ شریعت میں ہر انسان کی آبرو کی حفاظت کی بہت سختی سے حفاظت کی گئ ہے اور انسان کو اپنے منہ سے کسی کے بارے میں بھی کوئ بری بات نکالتے ہوئے سوچ لینا چاہئے کہ ایک دن الّٰلہ تعالیٰ کے سامنے اس کا حساب دینا ہو گا۔

ماخوذ از بیان "اسلام اور انسانی حقوق" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم