Friday 31 March 2017

کیا تمہیں ان لوگوں کا حال معلوم نہیں ہوا جو موت سے بچنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل آئے تھے، اور وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ چنانچہ الّٰلہ نے ان سے کہا” "مر جاؤ"، پھر انہیں زندہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ الّٰلہ لوگوں پر بہت فضل فرمانے والا ہے، لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ (سورہ البقرہ: ۲۴۳)

تیسرا حصّہ

تفسیرِ قرطبی میں ہے کہ حضرت فاروقِ اعظمؓ نے ایک دفعہ ملکِ شام کے قصد سے سفر کیا۔ سرحد کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ شام میں سخت طاعون پھیلا ہوا ہے۔ فاروقِ اعظم ؓ نے طاعون کی شدّت کی خبر سنی تو اسی مقام پہ ٹھہر کر صحابہٴ کرام ؓ سے مشورہ کیا کہ ہمیں ملکِ شام میں اس وقت جانا چاہئے یا واپس ہونا مناسب ہے۔ حضرت عبادالرحمٰن بن عوفؓ نے اطلاع دی کہ رسول الّٰلہ ﷺ کا ارشاد اس معاملے کے متعلّق یہ ہے:

"رسول الّٰلہ ﷺ نے (طاعونی گلٹی کے) درد کا ذکر کیا تو فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے جس سے بعض امتّوں کو عذاب دیا گیا تھا، پھر اس کا کچھ بقیہ رہ گیا۔ اب اس کا یہ حال ہے کبھی چلا جاتا ہے اور پھر آ جاتا ہے۔ تو جو شخص یہ سنے کہ فلاں خطّہٴ زمین میں یہ عذاب آیا ہوا ہے تو اس کو چاہئے کہ اس خطّہٴ زمین میں نہ جائے، اور جو شخص اس خطّے میں پہلے سے موجود ہے تو طاعون سے بھاگنے کے لئے وہاں سے نہ نکلے۔" (بخاری)

حضرت فاروقِ اعظم ؓ نے جب یہ حدیث سنی تو رفقاء کو واپسی کا حکم دے دیا۔ حضرت ابو عبیدہؓ نے سنکر فرمایا، "اے امیر المومنین، کیا آپ الّٰلہ تعالیٰ کی تقدیر سے بھاگنا چاہتے ہیں؟" فاروقِ اعظم ؓ نے جواب میں فرمایا، اے ابو عبیدہ! کاش یہ بات کوئ اور کہتا (یعنی تمہاری زبان سے ایسی بات قابلِ تعجّب ہے)، اور پھر فرمایا، "بیشک ہم الّٰلہ کی تقدیر سے الّٰلہ ہی کی تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں۔"

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

Thursday 30 March 2017

کیا تمہیں ان لوگوں کا حال معلوم نہیں ہوا جو موت سے بچنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل آئے تھے، اور وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ چنانچہ الّٰلہ نے ان سے کہا” "مر جاؤ"، پھر انہیں زندہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ الّٰلہ لوگوں پر بہت فضل فرمانے والا ہے، لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ (سورہ البقرہ: ۲۴۳)

دوسرا حصّہ

اس آیت سے دوسرا مسئلہ یہ مستنبط ہوا کہ جس شہر میں کوئ وبائ مرض طاعون وغیرہ پھیل جائے وہاں سے بھاگ کر دوسری جگہ جانا جائز نہیں۔ رسول کریم ﷺ کے ارشاد میں اس پر اتنا اور اضافہ ہے کہ باہر سے دوسرے لوگوں کو  وہاں جانا بھی درست نہیں۔ حدیث شریف میں ہے:

ترجمہ: "اس بیماری (طاعون) کے ذریعہ الّٰلہ تعالیٰ نے تم سے پہلی قوموں پر عذاب نازل فرمایا ہے، سو جب تم یہ سنو کہ کسی شہر میں طاعون وغیرہ وبائ مرض پھیل رہا ہے تو وہاں نہ جاؤ، اور اگر کسی بستی میں یہ مرض پھیل جائے اور تم وہاں موجود ہو تو وہاں سے بھاگ کر نہ نکلو۔"

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ
مسلمان بھائ بھائ ہیں ۔ پہلا حصّہ

"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے کے ساتھ زیادتی کرے تو اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کر رہا ہو، یہاں تک کہ وہ الّٰلہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ چنانچہ اگر وہ لوٹ آئے، تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرا دو، اور (ہر معاملے میں) انصاف سے کام لیا کرو، بیشک الّٰلہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان بھائ بھائ ہیں، اس لئے اپنے دو بھائیوں کے درمیان تعلّقات اچھے بناؤ، اور الّٰلہ سے ڈرو تا کہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا جائے۔" (سورہ الحجرات: ۹۔۱۰)

قرآن و سنّت میں غور کرنے سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول ﷺ کو مسلمانوں کے باہمی جھگڑے کسی قیمت پر پسند نہیں۔ مسلمانوں کے درمیان لڑائ ہو یا جھگڑا ہو، یا ایک دوسرے سے کھچاؤ اور تناؤ کی صورت پیدا ہو، یا رنجش ہو، یہ الّٰلہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ حتیٰ الامکان اس آپس کی رنجشوں اور جھگڑوں کو، باہمی نفرتوں اور عداوتوں کو کسی طرح ختم کرو۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از بیان "بھائ بھائ بن جاؤ"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Wednesday 29 March 2017

کیا تمہیں ان لوگوں کا حال معلوم نہیں ہوا جو موت سے بچنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل آئے تھے، اور وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ چنانچہ الّٰلہ نے ان سے کہا” "مر جاؤ"، پھر انہیں زندہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ الّٰلہ لوگوں پر بہت فضل فرمانے والا ہے، لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ (سورہ البقرہ: ۲۴۳)

پہلا حصّہ

تفسیر ابنِ کثیر میں اس آیت کی تفسیر میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس آیت میں ایک ایسی قوم کے قصّے کی طرف اشارہ ہے جو طاعون کے خوف سے اپنا شہر چھوڑ کر ایک اور جگہ جا کر مقیم ہو گئے تھے لیکن موت نے انہیں وہاں بھی نہ چھوڑا۔ 

حضرت مفتی محمد شفیع ؒ نے اس آیت کی تفسیر میں پہلا مسئلہ یہ بیان فرمایا ہے کہ طاعون سے یا جہاد وغیرہ سے بھاگنا جان بچانے کا ذریعہ نہیں ہو سکتا، اور نہ ان میں قائم رہنا موت کا باعث ہو سکتا ہے۔ بلکہ موت کا ایک وقت معّین ہے، اس میں نہ کمی ہو سکتی ہے اور نہ زیادتی۔ ورنہ جس آدمی کے پاس وسائل ہوں وہ ہر بیماری کی جگہ سے اور لڑائ کی جگہ سے بھاگ جایا کرے، اور اسے کبھی موت ہی نہ آئے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہر شخص کو اپنا وقت پورا ہونے پہ موت آنی ہے چاہے اس کا بہانہ کچھ بھی بنے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

Saturday 25 March 2017

ناپ تول میں کمی ۔ سولھواں اور آخری حصّہ

خلاصہ یہ ہے کہ تطفیف (کم ناپنا اور کم تولنا) کے اندر وہ تمام صورتیں داخل ہیں جس کے اندر ایک شخص اپنا حق تو پورا پورا وصول کرنے کے لئے ہر وقت تیّار رہے، لکن اپنے ذمّے دوسروں کے جو حقوق واجب ہیں ان کو ادا کرنے کی فکر نہ کرے۔ الّٰلہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے قرآن کریم میں دردناک عذاب کی وعید سنائ ہے۔

ایک حدیث شریف میں رسول الّٰلہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ترجمہ: "تم میں سے کوئ شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائ کے لئے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔" (صحیح بخاری، کتاب الایمان)

جب ہم دوسرے کے ساتھ کوئ برا معاملہ کر رہے ہوں تو یہ سوچیں کہ اگر یہی معاملہ کوئ دوسرا شخص میرے ساتھ کر رہا ہوتا تو مجھے کتنا گراں اور ناگوار گزرتا، میں اس کو اپنے اوپر ظلم سمجھتا۔ تو اگر میں ایسا ہی معاملہ کسی دوسرے کے ساتھ کروں گا تو اس کو بھی اس سے ناگواری اور پریشانی ہو گی، اس پر ظلم ہو گا، اس لئےمجھے اس کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہئے۔

ماخوذ از بیان "ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
نکاح و طلاق کی شرعی حیثیت ۔ چھٹا اور آخری حصّہ 

"اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دے دی ہو، اور وہ اپنی عدّت کے قریب پہنچ جائیں، تو یا تو ان کو بھلائ کے ساتھ (اپنی زوجیت میں) روک رکھو، یا انہیں بھلائ کے ساتھ چھوڑ دو۔ اور انہیں ستانے کی خاطر اس لئے روک کر نہ رکھو کہ ان پر ظلم کر سکو۔۔۔" (سورہ البقرہ: ۲۳۱)

جس طرح  قرآن نے "امساک" کے ساتھ "بمعروف" کی قید لگا کر یہ ہدایت فرما دی کہ رجعت کر کے بیوی کو روکا جائے تو حسنِ سلوک کے ساتھ روکا جائے، اسی طرح "تسریح" کے ساتھ "باحسان" کی قید لگا کر یہ ہدایت دے دی کہ طلاق ایک معاملے کا فسخ ہے۔ شریف انسان کا کام یہ ہے کہ جس طرح معاملہ اور معاہدہ خوش دلی اور حسنِ سلوک کے ساتھ کیا جاتا ہے، اسی طرح اگر معاہدے کو ختم کرنے کی نوبت آجائے تو اس کو بھی غصّے یا لڑائ جھگڑے کے ساتھ نہ کریں، بلکہ وہ بھی احسان و سلوک کے ساتھ کریں کہ رخصت کے وقت مطلّقہ بیوی کو کچھ تحفہ کپڑے وغیرہ کا دے کر رخصت کریں۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہ البقرہ، از مفتی محمد شفیع ؒ
ناپ تول میں کمی ۔ پندرھواں حصّہ

ایک وقت تھا کہ مسلمانوں کا طرّہ امتیاز یہ تھا کہ وہ تجارت میں کبھی دھوکہ و فریب نہیں دیتے، ناپ تول میں کبھی کمی نہیں کرتے، ملاوٹ نہیں کرتے، اور امانت اور دیانت کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ حضورِ اکرم ﷺ نے دنیا کے سامنے ایسا ہی معاشرہ پیش کیا اور صحابہٴ کرام کی شکل میں ایسے ہی لوگ تیّار کئے جنہوں نے تجارت میں بڑے سے بڑے نقصان کو گوارہ کر لیا، لیکن دھوکہ اور فریب دینے کو گوارہ نہیں کیا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ الّٰلہ تعالیٰ نے دنیا میں ان کا بول بالا کیا اور انہوں نے دنیا سے اپنی طاقت اور قوّت کا لوہا منوایا۔

آج ہمارا حال یہ ہے کہ وہ مسلمان بھی جو پانچ وقت کی نماز پابندی سے پڑھتے ہیں، دوسری عبادات کا بھی اہتمام کرتے ہیں، اور اپنے آپ کو مذہبی بھی سمجھتے ہیں، وہ بھی جب بازار میں جاتے ہیں تو گویا شریعت کے سب احکام بھول جاتے ہیں اور ایسا رویّہ اختیار کرتے ہیں کہ گویا الّٰلہ تعالیٰ کے سارے احکام صرف مسجد تک کے لئے ہیں، بازار کے لئے نہیں۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از بیان "ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
نکاح و طلاق کی شرعی حیثیت ۔ پانچواں حصّہ 

لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اصلاحِ حال کی تمام کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں، اور تعلقِ نکاح کے مطلوبہ ثمرات حاصل ہونے کے بجائے طرفین کا ساتھ رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے۔ ایسی حالت میں اس ازدواجی تعلّق کا ختم کر دینا ہی طرفین کے لئے راحت اور سلامتی کی راہ ہو جاتی ہے۔ اس لئے شریعتِ اسلام نے یہ بھی نہیں کیا کہ رشتہٴ ازدواج ہر حال میں ناقابلِ فسق ہی رہے، بلکہ طلاق اور فسخِ نکاح کا قانون بنایا۔ طلاق کا براہِ راست اختیار تو مرد کو دیا، لیکن اس کے ساتھ عورت کو بھی بالکل اس حق سے محروم نہیں رکھا کہ وہ شوہر کے ظلم و ستم سہنے ہی پر مجبور ہو جائے۔ اس کو یہ حق دیا کہ وہ حاکمِ شرعی کی عدالت میں اپنا معاملہ پیش کر کے اور شکایات کا ثبوت دے کر نکاح فسخ کرا سکے۔

پھر الّٰلہ تعالیٰ نے مرد کو طلاق کا آزادانہ اختیار تو دے دیا، مگر اوّل تو یہ کہہ دیا کہ اس اختیار کا استعمال کرنا الّٰلہ کے نزدیک بہت مبغوض اور مکروہ ہے، صرف مجبوری کی حالت میں اجازت ہے۔ حدیث میں ارشادِ نبوی ہے:

ترجمہ: "حلال چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض اور مکروہ الّٰلہ کے نزدیک طلاق ہے۔"

دوسری پابندی یہ لگائ کہ غصّے کی حالت میں، یا کسی وقتی اور ہنگامی ناگواری میں اس اختیار کو استعمال نہ کریں۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہ البقرہ، از مفتی محمد شفیع ؒ

Friday 24 March 2017

ناپ تول میں کمی ۔ چودھواں حصّہ

اسی طرح ساری زندگی میں بیوی کا ایک ہی مالی حق شوہر کے ذمّے ہوتا ہے، وہ ہے مہر۔ اور بہت سے شوہر وہ بھی ادا نہیں کرتے۔ ساری زندگی تو مہر ادا کیا نہیں، اب مرنے کا وقت قریب آیا تو بسترِ مرگ پہ پڑے ہیں۔ اس وقت بیوی سے کہتے ہیں کہ مہر معاف کر دو۔ اب اس وقت بیچاری کیا کہے، کہ میں معاف نہیں کرتی؟ چنانچہ اس کو معاف کرنا پڑتا ہے۔ ساری عمر تو اس سے حقوق طلب کرتے رہے، اور اس کا ایک مالی حق بھی ادا نہ کیا۔ مالی معاملات میں ایسی معافی جو دل کی خوشی سے نہ ہو وہ قابلِ اعتبار بھی نہیں ہوتی۔

اسی طرح نان نفقہ کے اندر شریعت کا حکم یہ ہے کہ اس کو اتنا نفقہ دیا جائے کہ وہ آزادی اور اطمینان کے ساتھ گزارہ کر سکے۔ اگر اس میں کمی کرے گا تو یہ بھی کم ناپنے اور کم تولنے کے اندر شامل ہے۔

خلاصہ ساری بات کا یہ ہے کہ جس کسی کا کوئ حق دوسرے کے ذمّے واجب ہو وہ اس کو پورا ادا کرے، اس میں کمی نہ کرے۔ ورنہ اس عذاب کا مستحق ہو گا جس کی وعید الّٰلہ نے اس آیت (جو پہلے حصّے میں درج ہے) میں بیان فرمائ ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از بیان "ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Thursday 23 March 2017

نکاح و طلاق کی شرعی حیثیت ۔ چوتھا حصّہ 

زوجین کے ہر معاملے اور ہر حال کے لئے جو ہدایتیں قرآن و سنّت میں مذکور ہیں ان سب کا حاصل یہی ہے کہ یہ رشتہ زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا جائے، ٹوٹنے نہ پائے۔ ناموافقت کی صورت میں پہلے افہام و تفہیم کی، اور پھر زجر و تنبیہ کی ہدایتیں دی گئیں۔ اور اگر بات بڑھ جائے اور اس سے بھی کام نہ چلے تو خاندان ہی کے چند افراد کو حکم اور ثالث بنا کر معاملہ طے کرنے کی تعلیم دی۔ آیت حَكَمً۬ا مِّنۡ أَهۡلِهِۦ وَحَكَمً۬ا مِّنۡ أَهۡلِهَآ (سورہٴ النساء: ۳۵) میں خاندان ہی کے افراد کو ثالث بنانے کا ارشاد کس قدر حکیمانہ ہے، کہ اگر معاملہ خاندان سے باہر گیا تو بات بڑھ جانے اور دلوں میں دوری پیدا ہو جانے کا خطرہ ہے۔ 

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہ البقرہ، از مفتی محمد شفیع ؒ

Wednesday 22 March 2017

ناپ تول میں کمی ۔ تیرہواں حصّہ

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

رسول الّٰلہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"خیار کم خیار کم لنساء ھم" (ترمذی، کتاب الرضاع)

"تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہو۔"

ایک دوسری حدیث میں حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"استوصو بالنساء خیراً" (صحیح بخاری، کتاب النکاح)

"عورتوں کے حق میں بھلائ کرنے کی نصیحت کو قبول کر لو"
یعنی ان کے ساتھ بھلائ کا معاملہ کرو۔

الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول تو خواتین کے حقوق کی ادائیگی کی اتنی تاکید فرما رہے ہیں، لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنی عورتوں کے پورے حقوق ادا کرنے کو تیّار نہیں۔ یہ سب کم ناپنے اور کم تولنے کے اندر داخل ہے، اور شرعاً حرام ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از بیان "ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
نکاح و طلاق کی شرعی حیثیت ۔ تیسرا حصّہ 

نکاح کی حقیقت کو سمجھنے کے بعد طلاق کی حیثیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ طلاق کا حاصل نکاح کے معاملے اور معاہدے کو ختم کرنا ہے۔ جس طرح شریعتِ اسلام نے نکاح کے معاملے اور معاہدے کو ایک عبادت کی حیثیت دے کر عام معاملات و معاہدات کی سطح سے بلند رکھا ہے اور بہت سی پابندیاں اس پر لگائ ہیں، اسی طرح اس معاملے کا ختم کرنا بھی عام لین دین کے معاملات کی طرح آزاد نہیں رکھا کہ جب چاہے جس طرح چاہے اس معاملے کو فسخ کر دے، اور دوسرے سے معاملہ کر لے، بلکہ اس ے لئے ایک خاص حکیمانہ قانون بنایا ہے۔

اسلامی تعلیمات کا اصل مقصود یہ ہے کہ نکاح کا معاملہ اور معاہدہ عمر بھر کے لئے ہو، اس کے توڑنے اور ختم کرنے کی کبھی نوبت نہ آئے، کیونکہ اس معاملے کو ختم کرنے کا اثر صرف فریقین پر نہیں پڑتا، بلکہ نسل و اولاد کی تباہی اور بربادی اور بعض دفعہ خاندانوں میں فساد تک کی نوبت پہنچتی ہے، اور پورا معاشرہ اس س ے بری طرح متاثّر ہوتا ہے۔ اس لئے جو اسباب اور وجوہ اس معاملے کو توڑنے کا سبب بن سکتے ہیں قرآن و سنّت کی تعلیمات نے ان تمام اسباب کو راہ سے ہٹانے کا پورا انتظام کیا ہے۔ 

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہ البقرہ، از مفتی محمد شفیع ؒ

Tuesday 21 March 2017

ناپ تول میں کمی ۔ بارہواں حصّہ

اسی طرح آج شوہر بیوی سے تو سارے حقوق وصول کرنے کو تیّار ہے۔ وہ ہر بات میں ا سکی اطاعت بھی کرے، کھانا بھی پکائے، گھر کا انتظام بھی کرے، بچوّں کی پرورش بھی کرے، ان کی تربیت بھی کرے، شوہر کے ماں باپ کی خدمت بھی کرے، اور اس کے چشم و آبرو کے ہر اشارے کی منتظر رہے۔ یہ سارے حقوق وصول کرنے کو شوہر تیّار ہے۔ لیکن جب بیوی کے حقوق ادا کرنے کا وقت آتا ہے تو اس کو بہت سارے شوہر شریعت کا حصّہ ہی نہیں سمجھتے، اور یہ نہیں سمجھتے کہ بیوی کے حقوق ادا کرنے میں غفلت برتنا بھی شدید گناہ ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں الّٰلہ تعالیٰ نے شوہروں کو حکم فرما دیا ہے کہ:

وَعَاشِرُوهُنَّ بِٱلۡمَعۡرُوفِ‌ۚ (سورہٴ النساء: ۱۹)

ترجمہ: "بیویوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرو۔" (سورہٴ النساء: ۱۹)

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از بیان "ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Monday 20 March 2017

ناپ تول میں کمی ۔ گیارہواں حصّہ

حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے۔ ایک مرتبہ ان کے پاس کپڑے کا ایک تھان آیا جس میں کوئ عیب تھا۔ آپ نے اپنے ملازموں کو کہہ دیا کہ یہ تھان فروخت کرتے وقت گاہک کو بتا دیا جائے کہ اس کے اندر یہ عیب ہے۔ چند روز کے بعد ایک ملازم نے وہ تھان فروخت کر دیا لیکن وہ عیب بتانا بھول گیا۔ چند روز کے بعد ملازم نے وہ تھان فروخت کر دیا۔ جب امام صاحب نے پوچھا تو اس نے اقرار کیا کہ وہ عیب کے بارے میں بتانا بھول گیا تھا۔ امام ابو حنیفہ ؒ نے پورے شہر کے اندر اس گاہک کی تلاش شروع کر دی جو وہ عیب دار تھان خرید کر لے گیا تھا۔ کافی تلاش کے بعد وہ گاہک مل گیا تو آپ نے اس کو بتایا کہ جو تھان آپ میری دکان سے خرید کر لائے ہیں اس میں فلاں عیب ہے، اس لئے وہ تھان آپ مجھے واپس کر دیں اور اگر اسی عیب کے ساتھ رکھنا چاہیں تو آپ کی خوشی۔ 

ماخوذ از بیان "ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
نکاح و طلاق کی شرعی حیثیت ۔ پہلا حصّہ 

نکاح کی ایک حیثیت تو ایک باہمی معاملے اور معاہدے کی ہے جیسے خرید و فروخت اور لین دین کے معاملات ہوتے ہیں، اور دوسری حیثیت ایک سنّت اور عبادت کی ہے۔ اس پر تو تمام امّت کا اتّفاق ہے کہ نکاح عام معاملات و معاہدات سے بالا تر ایک عبادت و سنّت کی شرعی حیثیت رکھتا ہے، اس لئے نکاح کے منعقد ہونے کے لئے با اجماعِ امّت کچھ ایسی شرائط ضروری ہیں جو خرید و فروخت کے عام معاملات و معاہدات میں لاگو نہیں ہوتیں۔ 

پہلی بات تو یہ کہ الّٰلہ تعالیٰ نے خود یہ طے فرما دیا کہ کس سے نکاح ہو سکتا ہے اور کس سے نہیں ہو سکتا۔ یہ معاملہ انسان کی مرضی پہ نہیں چھوڑا اور ایک مستقل قانون طے فرما دیا۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہ البقرہ، از مفتی محمد شفیع ؒ
نکاح و طلاق کی شرعی حیثیت ۔ دوسرا حصّہ 

دوسرے یہ کہ شریعت میں اور تمام معاملات و معاہدات کے منعقد ہونے کے لئے کوئ گواہی شرط نہیں۔ یہ پسندیدہ تو ہے کہ دو لوگ جب کوئ مالی معاہدہ کریں تو اس کو لکھ لیں اور اس پہ گواہ مقرّر کر لیں، لیکن اس کے بغیر بھی دو لوگ آپس میں معاہدہ کر لیں تو ایسا معاہدہ شرعاً صحیح ہوتا ہے۔ گواہوں کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب فریقین میں اختلاف ہو جائے۔ لیکن نکاح کے لئے یہ قرار دے دیا گیا کہ اس کے منعقد ہونے کے لئے بھی اس کا گواہوں کے سامنے ہونا شرط ہے۔ اگر مرد اور عورت بغیر گواہوں کے آپس میں نکاح کر لیں، اور دونوں میں کوئ فریق کبھی اختلاف و انکار بھی نہ کرے، اس وقت بھی شرعاً وہ نکاح باطل اور کالعدم ہے جب تک گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول نہ ہو۔ اور اصل سنّت یہ ہے کہ نکاح اعلانِ عام کے ساتھ کیا جائے۔

حضرت ابو حنیفہ ؒ اور بہت سے دوسرے آئمہ حضرات کے نزدیک تو نکاح میں معاملے اور معاہدے کی حیثیت سے زیادہ عبادت و سنّت کی حیثیت غالب ہے، اور قرآن و سنّت کے شواہد اس پر قائم ہیں۔ 

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہ البقرہ، از مفتی محمد شفیع ؒ

Sunday 19 March 2017

ناپ تول میں کمی ۔ دسواں حصّہ

ایک مرتبہ حضور ِ اقدس ﷺ بازار تشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے دیکھا کہ ایک شخص گندم بیچ رہا ہے۔ آپ اس کے پاس قریب تشریف لے گئے اور گندم کی ڈھیری میں اپنا ہاتھ ڈال کر اس کو اوپر نیچے کیا تو یہ دیکھا کہ اوپر تو اچھا گندم ہے اور نیچے بارش اور پانی کے اندر گیلا ہو کر خراب ہونے والا گندم ہے۔ اب دیکھنے والا جب اوپر سے دیکھتا ہے تو اس کو یہ نظر آتا ہے کہ گندم بہت اچھا ہے۔ حضور اقدس ﷺ نے اس شخص سے فرمایا کہ تم نے یہ خراب والا گندم اوپر کیوں نہیں رکھا تا کہ خریدار کو معلوم ہو جائے کہ یہ گندم ایسا ہے؟ وہ لینا چاہے تو لے لے، نہ لینا چاہے تو چھوڑ دے۔ اس شخص نے جواب دیا کہ یا رسول الّٰلہ! بارش کی وجہ سے کچھ گندم خراب ہو گئ تھی، ا سلئے میں نے اس کو نیچے کر دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو بلکہ اس کو اوپر کر دو۔

پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:

"من غش فلیس منا" (صحیح مسلم، کتاب الایمان)

ترجمہ: "جو  شخص دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔"

ماخوذ از بیان "ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
"اور ان عورتوں کو معروف طریقے کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے (مردوں کو) ان پر حاصل ہیں۔ ہاں مردوں کو ان پر ایک درجہ فوقیت ہے۔ اور الّٰلہ غالب اور حکمت والا ہے" (سورہ البقرہ: ۲۲۸)

تیسرا حصّہ

قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ یہی مضمون اور بھی وضاحت کے ساتھ مذکور ہے:

مَنۡ عَمِلَ صَـٰلِحً۬ا مِّن ذَڪَرٍ أَوۡ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤۡمِنٌ۬ فَلَنُحۡيِيَنَّهُ ۥ حَيَوٰةً۬ طَيِّبَةً۬‌ۖ وَلَنَجۡزِيَنَّهُمۡ أَجۡرَهُم بِأَحۡسَنِ مَا ڪَانُواْ يَعۡمَلُونَ ۔ (سورہٴ النحل: ۹۷)

"جو مرد و عورت نیک عمل کرے اور وہ مومن بھی ہو تو ہم اس کو پاکیزہ زندگی عطا کریں گے۔"

مزید یہ کہ اس آیت میں الّٰلہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ "ان کے حقوق مردوں کے ذمّہ ہیں جیسے کہ ان کے ذمّے مردوں کے حقوق ہیں۔" اس میں عورتوں کے حقوق کا ذکر مردوں کے حقوق سے پہلے کیا۔ حضرت مفتی شفیع ؒ نے فرمایا کہ غالباً اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مرد تو اپنی قوّت اور طاقت کے بناء پر عورتوں سے اپنے حقوق وصول کر ہی لیتا ہے، فکر عورتوں کے حقوق کی ہونی چاہیے کہ وہ عادتاً اپنے حقوق زبردستی وصول نہیں کر سکتیں۔ دوسرا اشارہ اس میں یہ بھی ہے کہ مردوں کو عورتوں کے حقوق ادا کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔

یہاں جو لفظ "مثل" کے ساتھ دونوں کے حقوق کی مساوات اور برابری کا ارشاد ہے اس سے مراد یہ ہے کہ دونوں کے حقوق کی ادائیگی یکساں طور پر واجب ہے، اور اس میں کوتاہی اور غلطی کی سزا بھی یکساں ہے۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Saturday 18 March 2017

ناپ تول میں کمی ۔ نواں حصّہ

اسی طرح اگر بیچے جانے والے سامان میں کوئ عیب ہو تو وہ عیب خریدار کو بتا دینا چاہیے، تا کہ اس شخص کو اختیار ہو کہ اگر وہ اس عیب کے ساتھ اس کو خریدنا چاہتا ہے تو خرید لے ورنہ چھوڑ دے۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :

ترجمہ: "جو شخص عیب دار چیز فروخت کرے اور اس عیب کے بارے میں وہ خریدار کو نہ بتائے کہ اس کے اندر یہ خرابی ہے تو ایسا شخص مسلسل الّٰلہ کے غضب میں رہے گا، اور ملائکہ ایسے آدمی پر مسلسل لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔" (ابن ماجہ، ابواب التجارات)

ماخوذ از بیان "ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
"اور ان عورتوں کو معروف طریقے کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے (مردوں کو) ان پر حاصل ہیں۔ ہاں مردوں کو ان پر ایک درجہ فوقیت ہے۔ اور الّٰلہ غالب اور حکمت والا ہے" (سورہ البقرہ: ۲۲۸)

دوسرا حصّہ

قرآن کریم میں احکامِ شرعیہ اور اعمال کی جزا و سزا اور ثواب و عذاب کے بیان میں اگرچہ حسبِ تصریح قرآن کریم عورتیں اور مرد بالکل برابر ہیں، اور جن احکام میں کچھ فرق ہے ان کو مستقل طور پر وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے، لیکن عام طور پر خطاب مردوں کو کیا گیا ہے، اور صیغے مذکّر کے استعمال کیے گئے ہیں۔ جب امّ الموٴمنین حضرت ام سلمہ رضی الّٰلہ عنہ نے آنحضرت ﷺ سے اس بات کا اظہار کیا تو سورہٴ احزاب کی یہ آیت نازل ہو ئ۔


انَّ ٱلۡمُسۡلِمِينَ وَٱلۡمُسۡلِمَـٰتِ وَٱلۡمُؤۡمِنِينَ وَٱلۡمُؤۡمِنَـٰتِ وَٱلۡقَـٰنِتِينَ وَٱلۡقَـٰنِتَـٰتِ ۔۔۔ (سوہ الاحزاب: ۳۵)  

"بیشک فرماں بردار مرد ہوں یا فرماں بردار عورتیں، مومن مرد ہوں یا مومن عورتیں، عبادت گزار مرد ہوں یا عبادت گزار عورتیں، سچے مرد ہوں یا سچی عورتیں، صابر مرد ہوں یا صابر عورتیں، دل سے جھکنے والے مرد ہوں یا دل سے جھکنے والی عورتیں، صدقہ کرنے والے مرد ہوں یا صدقہ کرنے والی عورتیں، روزہ دار مرد ہوں یا روزہ دار عورتیں، اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والے مرد ہوں یا حفاظت کرنے والی عورتیں، اور الّٰلہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد ہوں یا ذکر کرنے والی عورتیں، ان سب کے لیے الّٰلہ نے مغفرت اور شاندار اجر تیار کر رکھا ہے۔ (سورہٴ الاحزاب: ۳۵)

اس آیت میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا مستقل ذکر کر کے واضح کر دیا گیا کہ طاعت و عبادت اور اس کی وجہ سے الّٰلہ تعالیٰ کے قرب و رضا اور درجاتِ جنّت میں عورتوں کا درجہ مردوں سے کچھ کم نہیں۔ (یہ روایت نسائ، مسندِ احمد، اور تفسیرِ ابنِ جریر وغیرہ میں مفصّل مذکور ہے)

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Friday 17 March 2017

ناپ تول میں کمی ۔ آٹھواں حصّہ

اسی طرح "تطفیف" کے وسیع مفہوم میں یہ بات بھی داخل ہے کہ جو چیز فروخت کی وہ خالص فروخت نہیں کی بلکہ اس کے اندر ملاوٹ کر دی۔ یہ ملاوٹ کرنا کم ناپنے اور کم تولنے میں اس لحاظ سے داخل ہے کہ مثلاً ایک دکاندار نے ایک کلو آٹا فروخت کیا، لیکن اس ایک کلو آٹے میں خالص آٹا تو صرف آدھا کلو ہے، اور آدھا کلو کوئ اور چیز ملا دی ہے۔ اس ملاوٹ کا یہ نتیجہ نکلا کہ خریدار کا جو حق تھا کہ اس کو ایک کلو آٹا ملتا وہ حق اس کو پورا نہیں ملا، اس لیے یہ بھی حق تلفی میں داخل ہے۔

ماخوذ از بیان "ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
۔۔۔وَلَهُنَّ مِثۡلُ ٱلَّذِى عَلَيۡہِنَّ بِٱلۡمَعۡرُوفِ‌ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيۡہِنَّ دَرَجَةٌ۬‌ۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌO (سورہ البقرہ: ۲۲۸)

"اور ان عورتوں کو معروف طریقے کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے (مردوں کو) ان پر حاصل ہیں۔ ہاں مردوں کو ان پر ایک درجہ فوقیت ہے۔ اور الّٰلہ غالب اور حکمت والا ہے" (سورہ البقرہ: ۲۲۸)

پہلا حصّہ

حضرت مفتی محمد شفیع ؒ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اس آیت کی رو سے سب مردوں کا سب عورتوں سے افضل ہونا لازم نہیں آتا، کیونکہ الّٰلہ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت کا تمام تر مدار ایمان اور عملِ صالح پر ہے۔ وہاں کسی کے درجات کا بلند یا پست ہونا ایمان اور عمل کے درجات کے مطابق ہوتا ہے۔ اس لیے امورِ آخرت میں یہ ضروری نہیں کہ مردوں ہی کا درجہ عورتوں سے بلند رہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے، اور حسبِ تصریحِ آیات اور روایات ایسا ہو گا بھی، کہ بعض عورتیں اپنی طاعت و عبادت کے ذریعے بہت سے مردوں سے افضل ہو جائیں گی، ان کا درجہ بہت سے مردوں سے بڑھ جائے گا۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Thursday 16 March 2017

"۔۔۔اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا کہ مردوں کا ان پر حق ہے دستور کے موافق۔۔۔" (سورہ البقرہ: ۲۲۸)

دوسرا حصّہ

اس آیت کے ضمن میں یہ معلوم ہوا کہ قرآن کریم نے میاں بیوی کو ان کے ذمّہ عائد ہونے والے فرائض بتلائے کہ مردوں کے ذمّے عورتوں کے حقوق ادا کرنا ایسا ہی فرض ہے جیسے کہ عورتوں پر مردوں کے حقوق کا ادا کرنا فرض ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ دونوں کو اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کے بجائے اپنے فرائض پر نظر رکھنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا کر لیں   تو حقوق کے مطالبے کا قضیہٴ ہی درمیان میں نہ آئے کیونکہ مرد کے فرائض ہی عورت کے حقوق ہیں، اور عورت کے فرائض ہی مرد کے حقوق ہیں۔ جب دونوں نے اپنے فرائض ادا کر لیے تو دوسرے کے حقوق خود بخود ادا ہو جائیں گے۔

آج کل دنیا کے سارے جھگڑوں کی جڑ ہی یہیں سے شروع ہوتی ہے کہ ہر فرد یا گروہ جس شدّت سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا ہے، اسی شدّت سے اپنے فرائض کی ادائیگی پر توجّہ نہیں دیتا۔ اس کا نتیجہ حقوق کی ایک کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ ہوتی ہے۔ قرآن کریم نے اس زاویہٴ نگاہ کو اس طرح سے بدلا کہ ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے فرائض پورا کرنے کا اہتمام کرے، اور اپنے حقوق کے بارے میں مساہلت اور عفو و درگذر سے کام لے۔ اگر اس قرآنی تعلیم پر دنیا میں عمل ہونے لگے تو گھروں اور خاندانوں بلکہ قوموں کے بھی تنازعات ختم ہو جائیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Wednesday 15 March 2017

دوسروں کو اپنے رزق میں شریک کرنا

ایک حکایت ہے کہ ایک غریب شخص تھا جو ہمیشہ مفلسی کے ہاتھوں پریشان رہتا تھا۔ ایک دن اس نے تنگ آ کے الّٰلہ تعالیٰ سے عرض و معروض کی کہ میرا جتنا بھی عمر بھر کا رزق ہے مجھے اگلے تین دن میں دے دیجیے تا کہ میں یہ تین دن تو فراغت اور آسانی سے گزار لوں۔ اس کے بعدجو بھی ہو گا دیکھا جائے گا۔ جواب ملا کہ تمہارا تمام رزق فلاں کوٹھڑی میں ہے اور تین دن بعد یہ ختم ہو جائے گا۔ 

اس شخص نے وہ کوٹھڑی کھولی تو وہ اناج سے بھری ہوئ تھی۔ اس نے تمام گاؤں والوں کو دعوت پہ بلایا اور ان سے کہا کہ جتنا کھانا ہے کھاؤ۔ اس سے اگلے دن اور پھر تیسرے دن بھی اس نے یہی کیا۔ چوتھے دن اس نے سوچا کہ اب تو کوٹھڑی خالی ہو گئ ہو گی لیکن جب اس نے کوٹھڑی کھولی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ اب بھی اناج سے بھری ہوئ تھی۔ اس نے عرض کیا کہ یا الّٰلہ! یہ کیا ماجرا ہے؟ میں تو سمجھا تھا کہ میرا تمام عمر کا رزق مجھے پچھلے تین دن میں دے دیا گیا ہے۔ جواب ملا کہ تم صحیح سمجھے تھے۔ وہ تمہارا تمام عمر کا رزق تھا لیکن تم نے اس میں تمام گاؤں والوں کو شریک کر لیا اور ان کے رزق کو اپنے ذمّے کر لیا۔ اب یہ ان کا رزق ہے جو تمہارے ذریعے  سے ان کو مل رہا ہے۔ 

جاری ہے۔۔۔

یہ تو محض ایک حکایت ہے لیکن اس حکایت کو سنانے کا ایک مقصد ہے۔ وہ یہ کہ علم دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ علم ہوتا ہے جس کو حاصل کرنے کا مقصود خود وہ علم ہی ہوتا ہے۔ اور دوسرا وہ علم ہوتا ہے جس کو حاصل کرنے کا مقصد اس پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ اگر اس پہ عمل نہ کیا جائے تو وہ علم ضائع تو نہیں ہوتا لیکن اس کا اصلی مقصد بھی حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن اگر اس پر عمل کیا جائے تو الّٰلہ تعالیٰ اس عمل کے ذریعے ہی مزید اور بہت سے علوم عطا فرماتے ہیں جو اس عمل کے بغیر حاصل نہیں ہوتے۔

یہ میں جتنی بھی پوسٹ لکھتا ہوں یہ اس دوسری قسم کے علم سے تعلّق رکھتی ہیں۔ جیسے پچھلے دنوں بہت سی پوسٹس درود شریف کے فضائل کے بارے میں آئ تھیں۔ بیشک یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ درود شریف پڑھنے کے کیا فضائل ہیں لیکن وہ فضائل اسی وقت حاصل ہوں گے جب انسان یہ عادت ڈال لے کہ دن و رات میں کم از کم ایک دفعہ درود شریف ضرور پڑھے۔ اس کے بعد الّٰلہ تعالیٰ جو نعمتیں عطا فرماتے ہیں ان کا ادراک اسی وقت ہوتا ہے جب انسان کچھ عرصے تک اس معمول پر عمل کرے۔

اس حکایت کو سنانے کا بھی یہی مقصد ہے۔ انسان اپنے ارد و گرد میں دیکھے اور جو بھی ایک ضرورت مند انسان یا خاندان نظر آئے اس کا رزق اپنے ذمّے کر لے اور اس کو عمر بھر نباہے۔ پھر الّٰلہ تعالیٰ اس کے رزق میں وہ برکت عطا فرماتے ہیں اور اس کو وہاں سے رزق عطا فرماتے ہیں جہاں سے الّٰلہ تعالیٰ کے اپنے وعدے کے مطابق اس کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ دوسروں کو اپنے رزق میں شریک کرنے سے ہمیشہ انسان کا رزق بڑھتا ہے، کبھی کم نہیں ہوتا۔ لیکن جیسے کہ میں نے اوپر عرض کیا بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو حال کی ہوتی ہیں، قیل و قال کی نہیں، اور جن کا علم ان کو کرنے سے حاصل ہوتا ہے، بولنے سے نہیں۔

ختم شد
۔۔۔ وَلَهُنَّ مِثۡلُ ٱلَّذِى عَلَيۡہِنَّ بِٱلۡمَعۡرُوفِ‌ۚ ۔۔۔ (سورہ البقرہ:۲۲۸)

"۔۔۔اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا کہ مردوں کا ان پر حق ہے دستور کے موافق۔۔۔"

اس آیت کی تفسیر میں حضرت مفتی محمد شفیعؒ نے عورتوں کے وہ کچھ حقوق بیان فرمائے ہیں جو اسلام نے پہلی دفعہ ان کو دیے۔ آج کے دور میں یہ کوئ بڑی بات نہیں لگتی لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ حقوق اسلام نے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے عورتوں کو عطا فرمائے تھے جب عورتوں کے حقوق کی جدوجہد شروع ہونے میں تقریباً تیرہ چودہ سو سال باقی تھے۔

  • عورتوں کے حقوق مردوں پہ ایسے ہی لازم کیے جیسے عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں۔
  • عورت کو آزاد و خود مختار قرار دیا۔ عورت اپنے جان و مال کی ایسی ہی مالک قرار دی گئ جیسے کہ مرد۔
  • یہ حکم دے دیا گیا کہ کوئ مرد، خواہ وہ باپ دادا ہی کیوں نہ ہو، کسی بالغ عورت کو کسی شخص کے ساتھ نکاح پر مجبور نہیں کر سکتا۔ اگر بلا اس کی اجازت کے نکاح کر دیا جائے تو وہ اس کی اجازت پر موقوف رہتا ہے۔ اگر عورت نامنظور کر دے تو وہ نکاح باطل ہو جاتا ہے۔  
  • عورت کے اموال میں کسی مرد کو اس کی رضا و اجازت کے بغیر کسی تصرّف کا کوئ حق نہیں۔
  • یہ قرار دے دیا گیا کہ شوہر کے مرنے یا طلاق دینے کے بعد عورت خود مختار ہے، کوئ اس پر جبر نہیں کر سکتا۔
  • عورتوں کو میراث میں حصّہ ملنا شروع ہوا۔
  • عورت پر خرچ کرنے کو اور اس کے راضی رکھنے کو شریعت نے ایک عبادت قرار دیا۔
  • اگر شوہر بیوی کے حقوقِ واجبہ ادا نہ کرے تو اس کو حق دے دیا گیا کہ وہ اسلامی عدالت کے ذریعے اس کو ادائے حقوق پر ورنہ طلاق پر مجبور کر سکتی ہے۔
ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Tuesday 14 March 2017

قرض دینے کی فضیلت

(یہ تحریر حضرت تھانوی ؒ کے ایک ملفوظ سے ماخوذ ہے گو کافی الفاظ میرے ہیں۔ الّٰلہ تعالیٰ کسی نادانستہ غلطی کو معاف فرمائیں۔ آمین)

بہت سےلوگوں کو یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ کسی کو قرض دینے کا ثواب صدقہ دینے سے بہت زیادہ ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ قرض دینے کا ثواب دس گنا تک زیادہ ہے۔ اسی طرح یہ بھی حکم آیا ہے کہ جو لوگ سفید پوش ہوں اور خود سے سوال نہ کرتے ہوں ان کی حاجات کو رفع کرنے کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ 

بعض دفعہ لوگوں کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے پاس تو زائد از ضرورت مال ہے ہی نہیں، ہم کسی اور کو قرض کیسے دیں؟ بزرگوں نے فرمایا کہ ہر شخص کے پاس کچھ نہ کچھ مال زائد از ضرورت ضرور ہوتا ہے چاہے وہ ایک روپیہ ہی کیوں نہ ہو۔ جس کے پاس صرف سو روپیے ہوں اس کے لیے ایک روپیہ صدقہ کرنے کا ثواب اتنا ہی ہے جتنا اس شخص کے لیے ہزار روپیہ صدقہ کرنے کا جس کے پاس ایک لاکھ روپئے ہوں۔ جب کوئ قرض مانگے تو انسان یہ دیکھے کہ اس کے پاس کتنا مال ایسا ہے جو اگر واپس نہ آئے تو اسے تنگی نہیں ہوگی۔ پھر اس کے بعد قرض خواہ سے یہ کہے کہ بھائ تمہیں جتنا مال درکار ہے میں وہ سارے کا سارا تو نہیں دے سکتا، میں اتنا دے سکتا ہوں۔ قرض مانگنے والے کی عموماً کچھ نہ کچھ ضرورت تو اس سے پوری ہو ہی رہی ہوتی ہے اس لیے وہ عموماً انکار نہیں کرتا۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک کام اور یہ بھی کرے کہ یہ بھی کہہ دے کہ اس کی واپسی کے لیے اپنے آپ کو تنگی میں مت ڈالنا۔ جب الّٰلہ تعالیٰ توفیق دے واپس کر دینا، نہیں تو اگر عمر بھر تمہیں واپسی کی توفیق نہ ہوئ تو میں نے تمہیں معاف کیا اور انشاء الّٰلہ قیامت کے دن میں اس کا بدلہ نہیں لوں گا۔ اس کے لیے ضروری ہے جو راقم نے اوپر عرض کیا کہ پہلے اس کا حساب کر لے کہ میری ملکیت میں کتنا مال ایسا ہے کہ واپس نہ آئے تو مجھے تنگی اور دشواری نہیں ہو گی۔ بزرگوں کا یہ بھی معمول رہا ہے کہ اپنی آمدنی کا ایک حصّہ، مثلاً پانچ فیصد، ہر مہینے آمدنی آتے ہی مصارفِ خیر میں خرچ کرنے کی نیّت سے الگ نکال کے رکھ لیتے تھے۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کسی کی ضرورت سامنے آنے پر سوچنا نہیں پڑتا، بلکہ وہ مال الگ پڑا یاد دلاتا رہتا ہے کہ میرے لیے کوئ مصرف تلاش کرو۔ 

انسان ایک دفعہ اس پر عمل کرنا شروع کرے تو انشاٴالّٰلہ اسے عمر بھر کبھی کسی قرض مانگنے والے کو انکار نہیں کرنا پڑے گا۔
دوسرا حصّہ

"۔۔۔اور لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ (الّٰلہ کی خوشنودی کے لیے) کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجیے کہ جو تمہاری ضرورت سے زائد ہو۔۔۔" (سورہ البقرہ: ۲۱۹)

بعض صحابہ سے منقول ہے کہ انہوں نے صدقے کا ثواب سن کر اپنی ساری پونجی صدقہ کر دی یہاں تک کہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے کچھ نہ چھوڑا، اور گھر والے بھوکے رہ گئے۔ اس آیت نے بتلایا کہ صدقہ وہی درست ہے جو اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضرورت پوری کرنے کے بعد کیا جائے، چنانچہ آنحضرت ﷺ نے متعدّد احادیث میں اس پر زور دیا ہے کہ صدقہ اتنا ہونا چاہیے کہ گھر والے محتاج نہ ہو جائیں۔

ماخوذ از آسان ترجمہٴ قرآن، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Monday 13 March 2017

ناپ تول میں کمی ۔ ساتواں حصّہ

اسی طرح مثلاً ایک شخص کسی محکمے یا دفتر میں آٹھ گھنٹے کا ملازم ہے، تو گویا یہ آٹھ گھنٹے اس نے اس محکمے کے ہاتھ فروخت کر دیے اور یہ معاہدہ کر لیا کہ میں آٹھ گھنٹے آپ کے پاس کام کروں گا، اور اس کے عوض اس کو اجرت اور تنخواہ ملے گی۔ اب اگر وہ اجرت تو پوری لیتا ہے لیکن اس آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی میں کمی کر لیتا ہے، اور اس میں سے کچھ وقت اپنے ذاتی کاموں میں صرف کر لیتا ہے تو اس کا یہ عمل بھی "تطفیف" کے اندر داخل ہے اور حرام ہے۔ یہ بھی اسی طرح گناہ گار ہے جس طرح کم ناپنے اور کم تولنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔ وہ اجرت کے وقت اجرت تو پوری لے رہا ہے لیکن جب دوسرے کے حق دینے کا وقت آیا تو کم دے رہا ہے، لہذا تنخواہ کا وہ حصّہ حرام ہو گا جو اس نے اپنے ذاتی کاموں میں صرف کیا۔

ماخوذ از بیان "ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
...وَيَسۡـَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ ٱلۡعَفۡوَ‌ۗ... (سورہ البقرہ: ۲۱۹)

"۔۔۔اور لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ (الّٰلہ کی خوشنودی کے لیے) کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجیے کہ جو تمہاری ضرورت سے زائد ہو۔۔۔" (سورہ البقرہ: ۲۱۹)

ضروریات سے زائد مال کے خرچ کرنے کا جو حکم اس آیت میں ہے اس کو حضرت ابو ذر غفّاری رضی الّٰلہ عنہ اور بعض دوسرے حضرات نے حکمِ وجوبی (واجب) قرار دیا کہ اپنی ضروریات سے زیادہ مال زکوٰة اور تمام حقوق ادا کرنے کے بعد بھی اپنی ملکیت میں جمع کر کے رکھنا جائز نہیں، ضروریات سے زیادہ جو کچھ بھی ہے سب کا صدقہ کر دینا واجب ہے۔ مگر جمہورِ صحابہؓ و تابعین ؒ اور آئمہء دین اس پر متّفق ہیں کہ اس ارشادِ قرآنی کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ الّٰلہ کی راہ میں خرچ کرنا ہو وہ ضروریات سے زائد ہونا چاہیے، یہ نہیں کہ ضرورت سے زائد جو کچھ ہو اس کو صدقہ کر دینا ضروری یا واجب ہے۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ
ناپ تول میں کمی ۔ چھٹا حصّہ

مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ الّٰلہ علیہ فرماتے تھے کہ بالفرض ایک آدمی نے ایک ملازم رکھا اور اس سے یہ معاملہ طے کیا کہ تمہیں ماہانہ اتنی تنخواہ دی جائے گی اور روز دو وقت کا کھانا دیا جائے گا۔ لیکن جب کھانے کا وقت آیا تو خود تو خوب پلاؤ اور زردے اڑائے، اعلیٰ درجے کا کھانا کھایا، اور بچا کچا کھانا جس کو ایک معقول اور شریف آدمی پسند نہ کرے، وہ نوکر کے حوالے کر دیا۔ حضرت تھانوی ؒ فرماتے تھے کہ یہ بھی "تطفیف" ہے، اس لیے کہ جب تم نے اس کے ساتھ دو وقت کا کھانا طے کر لیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس کو اتنی مقدار میں ایسا کھانا دو گے جو ایک معقول آدمی پیٹ بھر کر کھا سکے۔ لہذا اب اس کو بچا کچا کھانا دینا اس کی حق تلفی اور اس کے ساتھ نا انصافی ہے۔

ماخوذ از بیان "ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Friday 10 March 2017

ناپ تول میں کمی ۔ پانچواں حصّہ

یہ کم ناپنا اور کم تولنا صرف تجارت کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ مثلاً ایک آقا مزدور سے پورا کام لیتا ہے، اس کو ذرا سی سہولت بھی دینے کو تیّار نہیں ہے، لیکن تنخواہ دینے کے وقت اس کی جان نکلتی ہے۔ یا تو پوری تنخواہ نہیں دیتا، یا صحیح وقت پر نہیں دیتا اور ٹال مٹول کرتا ہے۔ یہ بھی ناجائز اور حرام ہے اور تطفیف میں داخل ہے۔

حضور ﷺ کا ارشاد ہے، ترجمہ: "مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔" (ابن ماجہ، ابواب الاحکام) اس لیے کہ جب تم نے اس سے مزدوری کروا لی، کام لے لیا، تو اب معاوضہ دینے میں تاخیر کرنا جائز نہیں۔ 

ماخوذ از بیان "ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
حرمتِ شراب ۔ ساتواں حصّہ

جامع ترمذی میں حضرت انس رضی الّٰلہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے شراب کے بارے میں دس آدمیوں پر لعنت فرمائ، ۱۔ نچوڑنے والا، ۲۔ بنانے والا، ۳۔ پینے والا، ۴۔ پلانے والا، ۵۔ اس کو لاد کر لانے والا، ۶۔ جس کے لیے لائ جائے، ۷۔ اس کا بیچنے والا، ۸۔ خریدنے والا، ۹۔ اس کو ہبہ کرنے والا، اور ۱۰۔ اس کی آمدنی کھانے والا۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ
حرمتِ شراب ۔ چھٹا حصّہ

پھر جس طرح ابتداء تحریم ِ (حرام قرار دینا) شراب میں آہستگی اور تدریج  سے کام لینا حکمت کا تقاضہ تھا، اسی طرح حرام کر دینے کے بعد اس کی ممانعت کے قانون کو پوری شدّت کے ساتھ نافذ کرنا بھی حکمت کا ہی تقاضہ تھا۔ اسی لیے رسولِ کریم ﷺ نے شراب کے بارے میں سخت وعیدیں عذاب کی بتلائیں۔

ارشاد فرمایا کہ شراب امّ الخبائث اور امّ الفواحش ہے۔ اس کو پی کر آدمی برے سے برے گناہ کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ شراب اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے۔ یہ روایتیں نسائ میں سے لی گئ ہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Wednesday 8 March 2017

ناپ تول میں کمی ۔ چوتھا حصّہ

حرام مال اور حرام کھانے کے بارے میں قرآن کریم میں الّٰلہ تعالیٰ نے فرمایا:

"جو لوگ یتیموں کا مال ظلماً کھاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں۔" (سورہ النساء: ۱۰)

یہ جو لقمے حلق سے اتر رہے ہیں یہ حقیقت میں آگ کے انگارے ہیں اگر چہ دیکھنے میں وہ روپیہ پیسہ اور مال و دولت نظر آ رہا ہے، کیونکہ یہ پیسے الّٰلہ کے حکم کی خلاف ورزی کر کے اور الّٰلہ کی معصیت اور نافرمانی کر کے حاصل کیے گئے ہیں۔ یہ پیسے اور یہ مال و دولت دنیا میں بھی تباہی کا سبب ہے اور آخرت میں بھی تباہی کا سبب ہے۔ 

ماخوذ از بیان "ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
حرمتِ شراب ۔ پانچواں حصّہ

پھر ایک اور واقعہ پیش آیا۔ حضرت عتبان بن مالکؓ نے چند صحابہٴ کرام ؓ کی دعوت کی جن میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بھی شامل تھے۔ کھانے کے بعد حسبِ دستور شراب کا دور چلا اور عرب کی عام عادت کے مطابق شعر و شاعری اور اپنے اپنے مفاخر کا بیان شروع ہوا۔ سعد بن ابی وقاص ؓ نے ایک قصیدہ پڑھا جس میں انصارِ مدینہ کی ہجو اور اپنی قوم کی مدح و ثناء تھی۔ اس پر ایک انصاری جوان کو غصّہ آ گیا اور اس نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈّی سعد رضی الّٰلہ عنہ کے سر پر دے ماری جس سے ان کو شدید زخم آگیا۔ حضرت سعدؓ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس انصاری جوان کی شکایت کی۔ اس وقت آنحضرت ﷺ نے دعاء فرمائ، جس کا ترجمہ یہ ہے"یا الّٰلہ شراب کے بارے میں ہمیں کوئ واضح بیان اور قانون عطا فر مادے"۔ اس پر شراب کے متعلّق تیسری آیت سورہٴ مائدہ کی نازل ہو گئ جس میں شراب کو مطلقاً حرام قرار دے دیا گیا۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے:

"اے ایمان والو! شراب، جوا، بتوں کے تھان، اور جوئے کے تیر، یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہذا ان سے بچو، تا کہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے، اور تمہیں الّٰلہ کی یاد اور نماز سے روک دے۔ اب بتاؤ کہ کیا تم (ان چیزوں سے) باز آ جاؤ گے؟" (سورہ المائدہ: ۹۰۔۹۱)

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Tuesday 7 March 2017

ناپ تول میں کمی ۔ تیسرا حصّہ

الّٰلہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک اور جگہ فرمایا:

"یہ ان کی بستیاں دیکھو، جو ان کی ہلاکت کے بعد آباد بھی نہیں ہو سکیں، مگر بہت کم، ہم ہی ان کے سارے مال و دولت اور جائیداد کے وارث بن گئے۔" (سورہ قصص: ۵۸)

یعنی وہ تو یہ سمجھ رہے تھے کہ کم ناپ کر، کم تول کر، ملاوٹ کر کے، دھوکہ دے کر ہم اپنے مال و دولت میں اضافہ کریں گے، لیکن وہ ساری دولت دھری کی دھری رہ گئ۔ 

ماخوذ از بیان "ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
حرمتِ شراب ۔ چوتھا حصّہ

ایک روز یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی الّٰلہ عنہ نے صحابہٴ کرام میں سے اپنے چند دوستوں کی دعوت کی۔ کھانے کے بعد حسبِ دستور شراب پی گئ۔ اسی حال میں نمازِ مغرب کا وقت آ گیا۔ سب نماز کے لیے کھڑے ہو گئے تو ایک صاحب کو امامت کے لیے آگے بڑھا یا گیا۔ انہوں نے شراب کے اثر میں جو تلاوت شروع کی تو سورہ الکافرون کو غلط پڑھا۔ اس پر شراب سے روکنے کے لیے دوسرا قدم اٹھایا گیا اور یہ آیت نازل ہوئ:

"اے ایمان والو تم نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ۔" (سورہ النساء: ۴۳)

اس آیت میں خاص اوقاتِ نماز کے اندر شراب کو قطعی طور پہ حرام کر دیا، باقی اوقات میں اجازت رہی۔ جن حضراتِ صحابہ نے پہلی آیت نازل ہونے کے بعد شراب کو نہ چھوڑا تھا اس دوسری آیت کے نازل ہونے کے بعد شراب کو مطلقاً ترک کر دیا کہ جو چیز انسان کو نماز سے روکے اس میں کوئ خیر نہیں ہو سکتی۔ مگر چونکہ اوقاتِ نماز کے علاوہ شراب کی حرمت اب بھی صاف طور پر نہیں نازل ہوئ تھی اس لیے بعض اصحاب اب بھی پیتے رہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Monday 6 March 2017

ناپ تول میں کمی ۔ دوسرا حصّہ

حضرت شعیب علیہ السلام جب اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے اس وقت ان کی قوم جہاں اور بہت سی معصیتوں اور نافرمانیوں میں مبتلا تھی، ان کے علاوہ خاص طور سے کم ناپنے اور تولنے میں مشہور تھی۔ وہ لوگ تجارت کرتے تھے لیکن اس میں لوگوں کا حق پورا نہیں دیتے تھے۔ دوسری طرف وہ ایک انسانیت سوز حرکت یہ کیا کرتے تھے کہ مسافروں کو راستے میں ڈرایا کرتے اور ان پر حملہ کر کے لوٹ لیا کرتے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے ان کو توحید کی دعوت دی، اور کم ناپنے کم تولنے اور مسافروں کو راستے میں ڈرانے اور ان پہ حملہ کرنے سے منع کیا۔ اس قوم نے حضرت شعیب علیہ السلام کی بات ماننے کے بجائے ان سے یہ پوچھا:

"کیا تمہاری نماز تمہیں اس بات کا حکم دے رہی ہے کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے آباؤ اجداد عبادت کرتے تھے، یا ہم اپنے مال میں جس طرح چاہیں تصرّف کرنا چھوڑ دیں۔" (سورہ ہود: ۸۷)

یعنی یہ ہمارا مال ہے۔ ہم اسے جس طرح چاہے حاصل کریں، چاہے کم تول کر حاصل کریں یا کم ناپ کر حاصل کریں، یا دھوکہ دے کر حاصل کریں۔ تم ہمیں روکنے والے کون ہو؟ آخر جب یہ لوگ باز نہیں آئے تو الّٰلہ تعالیٰ نے ان پر ایسا عذاب بھیجا جو شاید کسی اور قوم کی طرف نہیں بھیجا گیا۔

ماخوذ از بیان "ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
حرمتِ شراب ۔ تیسرا حصّہ

اس آیت میں شراب کو صاف طور پر حرام تو نہیں کہا گیا مگر اس کی خرابیاں اور مفاسد بیان کر دیے گئے کہ شراب کی وجہ سے انسان بہت سے گناہوں اور خرابیوں میں مبتلا ہو سکتا ہے، گویا کہ اس کے ترک کرنے کے لیے ایک قسم کا مشورہ دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بعض صحابہٴ کرام تو اس مشورہ ہی کو قبول کر کے اسی وقت شراب چھوڑ بیٹھے، اور بعض نے یہ خیال کیا کہ اس آیت نے شراب کو حرام تو کیا نہیں، بلکہ مفاسدِ دینی کا سبب بننے کی وجہ سے اس کو سببِ گناہ قرار دیا ہے۔ ہم اس کا اہتمام کریں گے کہ وہ مفاسد واقع نہ ہوں، تو پھر شراب میں کوئ حرج نہیں اس لیے وہ پیتے رہے۔ 

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Sunday 5 March 2017

ناپ تول میں کمی ۔ پہلا حصّہ

"بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ لوگوں سے خود کوئ چیز ناپ کر لیتے ہیں تو پوری پوری لیتے ہیں، اور جب وہ کسی کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں۔ کیا یہ لوگ نہیں سوچتے کہ انہیں بڑے زبردست دن میں زندہ کر کے اٹھایا جائے گا؟ جس دن سب لوگ ربّ العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔" (سورہ المطفّفین: ۱ّّّ۔۶)

عربی میں کم ناپنے اور کم تولنے کو "تطفیف" کہا جاتا ہے، اور یہ تطفیف صرف تجارت اور لین دین کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ تطفیف کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ وہ یہ کہ دوسرے کا جو بھی حق ہمارے ذمّے واجب ہے، اس کو اگر اس کا حق کم کر کے دیں تو یہ تطفیف کے اندر داخل ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از بیان "ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
"لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ بھی ہے، اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں، اور ان دونوں کا گناہ ان کے فائدے سے زیادہ بڑھا ہوا ہے۔" (سورہ البقرہ: ۲۱۹)

حرمتِ شراب ۔ دوسرا حصّہ

صحابہٴ کرام رضی الّٰلہ عنہما میں بھی کچھ حضرات ایسے تھے جنہوں نے حلال ہونے کے زمانے میں بھی کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا۔ مدینہ طیّبہ پہونچنے کے بعد چند حضرات صحابہؓ کو شراب کے مفاسد کا اور زیادہ احساس ہوا۔ حضرت فاروقِ اعظمؓ، حضرت معاذ بن جبل ؓ اور چند انصاری صحابہ اسی احساس کی بناء پر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ شراب اور قمار انسان کی عقل کو بھی خراب کرتے ہیں، اور مال بھی برباد کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں آپ ﷺ کا کیا ارشاد ہے؟ اس سوال کے جواب میں آیتِ مذکورہ نازل ہوئ۔ یہ پہلی آیت ہے جس میں شراب اور جوئے سے مسلمانوں کو روکنے کا ابتدائ قدم اٹھایا گیا۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Saturday 4 March 2017

اتّباعِ سنّت کی اہمیت۔ دوسرا حصّہ 

حقیقت یہ ہے کہ اصل چیز نبی کریم ﷺ کی سنّت ہے۔ اگر یہ حاصل ہے تو پھر انشاء الّٰلہ نبی کریم ﷺ کا قرب بھی حاصل ہے۔ خدا نہ کرے، اگر یہ چیز حاصل نہیں تو آدمی چاہے کتنا ہی قریب پہنچ جائے، روضہ اقدس کی جالیاں تو کیا بلکہ حجرہ اقدس کے اندر بھی چلا جائے، تب بھی حضورِ اقدس ﷺ کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا۔ الّٰلہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اتّباعِ سنّت کی دولت عطا فرمادے۔ آمین

ماخوذ از بیان "درود شریف: ایک اہم عبادت"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
يَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلۡخَمۡرِ وَٱلۡمَيۡسِرِ‌ۖ قُلۡ فِيهِمَآ إِثۡمٌ۬ ڪَبِيرٌ۬ وَمَنَـٰفِعُ لِلنَّاسِ وَإِثۡمُهُمَآ أَڪۡبَرُ مِن نَّفۡعِهِمَا‌ۗ ...(سورہ البقرہ:۲۱۹)

"لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ بھی ہے، اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں، اور ان دونوں کا گناہ ان کے فائدے سے زیادہ بڑھا ہوا ہے۔" (سورہ البقرہ: ۲۱۹)

حرمتِ شراب ۔ پہلا حصّہ

ابتداء اسلام میں عام رسومِ جاہلیت کی طرح شراب خوری بھی عام تھی۔ جب رسولِ کریمﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ میں بھی شراب اور قمار یعنی جوا کھیلنے کا رواج تھا۔ لیکن عادة الّٰلہ یہ بھی ہے کہ ہر قوم اور ہر خطّے میں کچھ عقل والے بھی ہوتے ہیں جو عقل کو طبیعت پہ غالب رکھتے ہیں اور کوئ طبعی خواہش اگر عقل کے خلاف ہو تو وہ ا س طبعی خواہش کے پاس نہیں جاتے۔ اس معاملے میں نبی کریم ﷺ کا مقام تو بہت ہی بلند تھا کہ جو چیز کسی وقت حرام ہونے والی تھی آپ کی طبیعت اس سے پہلے ہی نفرت کرتی تھی۔ 

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ
اتّباعِ سنّت کی اہمیت۔ حصّہ اوّل

ایک بزرگ کا واقعہ ہے کہ وہ جب بھی روضہ اقدس پہ حاضر ہوتے تو کبھی روضہ اقدس کی جالی کے قریب نہیں جاتے تھے بلکہ ہمیشہ جالی کے سامنے کے ستون سے لگ کر کھڑے ہو جاتے، اور اگر کوئ آدمی کھڑا ہوتا تو اسکے پیچھے جا کر کھڑے ہو جاتے۔ 

ایک دفعہ ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید میں بڑا شقی القلب ہوں، اسی وجہ سے جالیوں کے قریب ہونے کی کوشش نہیں کر رہا، اور یہ الّٰلہ کے بندے ہیں جو جالی کے قریب ہونے اور اس سے چمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور سرکارِ دو عالم ﷺ کا جتنا قرب حاصل ہو جائے وہ نعمت ہی نعمت ہے، لیکن میں کیا کروں کہ میرا قدم آگے بڑھتا ہی نہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ جیسے ہی مجھے یہ خیال آیا اسی وقت یہ محسوس ہوا کہ روضہ اقدس کی طرف سے یہ آواز آ رہی ہے کہ:

"یہ بات لوگوں تک پہنچا دو کہ جو شخص ہماری سنّتوں پہ عمل کرتا ہے وہ ہم سے قریب ہے خواہ ہزاروں میل دور ہو،  اور جو شخص ہماری سنّتوں پہ عمل پیرا نہیں ہے وہ ہم سے دور ہے، خواہ وہ ہماری جالیوں سے چمٹا کھڑا ہو۔"

چونکہ اس میں یہ حکم بھی تھا کہ "لوگوں تک یہ بات پہنچا دو" اس لئے وہ اپنی تقاریر اور خطبات میں یہ بات لوگوں کے سامنے بیان فرماتے تھے، لیکن یہ نہیں بتاتے تھے کہ میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا، بلکہ یہ فرماتے کہ ایک زیارت کرنے والے نے جب روضہ اقدس کی زیارت کی تو اس کو روضہ اقدس پہ یہ آواز سنائ دی۔ ان کے انتقال کے بعد لوگوں کو ان کی اولاد کے ذریعے پتہ چلا کہ یہ واقعہ ان کے ساتھ ہی پیش آیا تھا۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از بیان "درود شریف: ایک اہم عبادت"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Friday 3 March 2017

تیسرا حصّہ

"لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ (الّلہ کی خوشنودی کے لیے) کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجیے کہ جو مال بھی تم خرچ کرو وہ والدین، قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہونا چاہیے۔ اور تم بھلائ کا جو کام بھی کرو، الّلہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔" (سورہ البقرہ:۲۱۵) 

تیسری ہدایت اس آیت سے یہ حاصل ہوئ کہ نفلی صدقات میں اس کی رعایت ضروری ہے کہ جو مال اپنی ضروریات سے زائد ہو وہی خرچ کیا جائے۔ اپنے اہل و عیال کو تنگی میں ڈال کر اور ان کے حقوق کو تلف کر کے نفلی صدقات میں خرچ کرنا ثواب نہیں۔ اسی طرح اگر کسی کے ذمّے کسی کا قرض ہے تو الّلہ تعالیٰ کے نزدیک یہ پسندیدہ نہیں کہ وہ قرض خواہ کا قرض ادا نہ کرے اور اس مال کو نفلی صدقات و خیرات میں خرچ کر دے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Thursday 2 March 2017

درود شریف پڑھنے پر آخرت میں جو نیکیاں اور اور جو اجر و ثواب ملنا ہے وہ تو ملے گا ہی لیکن دنیا میں اس کا فائدہ یہ ہے کہ جو شخص جتنی کثرت سے درود شریف پڑھے گا اتنا ہی حضورِ اقدس ﷺ کی محبّت میں اضافہ ہو گا، اور جتنی حضورِ اقدس ﷺ کی محبّت بڑھے گی اتنے ہی انسان پر صلاح و فلاح کے دروازے کھلتے جائیں گے۔ 

حدیث شریف میں ہے کہ ایک صحابی نے پوچھا کہ یا رسول الّلہ ﷺ! قیامت کب آئیگی؟ آپ نے پوچھا کہ تم نے اس کی  کیا تیّاری کر رکھی ہے؟ صحابی نے فرمایا کہ یا رسول الّلہ! میں نے بہت زیادہ نفلی نمازیں یا نفلی روزے تو نہیں رکھے لیکن میں الّلہ اور الّلہ کے رسول سے محبّت رکھتا ہوں۔ حضور اقدسﷺ نے جواب میں فرمایا:

"المرء مع من احب" (ترمذی، کتاب الزہد، باب ماجا ء ان المرء مع من احب)

یعنی انسان آخرت میں اسی کے ساتھ ہو گا جس کے ساتھ اس نے دنیا میں محبّت کی۔ لہذا جو شخص حضورِ اقدس ﷺ سے محبّت رکھتا ہو گا آخرت میں الّلہ تعالیٰ اس کو حضور اقدس ﷺ کی معیّت بھی عطا فرمائیں گے۔ 

ماخوذ از بیان "درود شریف: ایک اہم عبادت"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
حصّہ دوئم

"لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ (الّلہ کی خوشنودی کے لیے) کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجیے کہ جو مال بھی تم خرچ کرو وہ والدین، قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہونا چاہیے۔ اور تم بھلائ کا جو کام بھی کرو، الّلہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔" (سورہ البقرہ:۲۱۵) 

دوسری ہدایت اس آیت سے یہ حاصل ہوئ کہ ماں باپ اور دوسرے اعزاء و اقرباء کو جو کچھ بطورِ ہدیہ دیا اور کھلایا جاتا ہے اگر اس میں بھی  الّلہ تعالیٰ کا حکم بجا لانے کی نیّت ہو تو وہ بھی موجبِ اجر و ثواب اور انفاق فی سبیل الّلہ میں داخل ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ