Monday 10 April 2017

چھٹا حصّہ ۔  (آیت الکرسی)

تیسرا جملہ ہے "سِنَةٌ۬ وَلَا نَوۡمٌ۬‌ۚ"۔ لفظ سِنَةٌ۬ اونگھ کو کہتے ہیں جو نیند کے ابتدائ آثار ہوتے ہیں، اور نَوۡمٌ۬‌ۚ مکمل نیند کو۔ پچھلے جملے میں لفظ 'قیّوم' نے جب انسان کو یہ بتلایا کہ الّٰلہ تعالیٰ سارے آسمانوں، زمینوں، اور ان میں سمانے والی تمام کائنات کو تھامے اور سنبھالے ہوئے ہیں تو ایک انسان کا خیال اپنی جبلّت و فطرت کے مطابق اس طرف جانا ممکن ہے کہ جو ذاتِ پاک اتنا بڑا کام کر رہی ہے اس کو کسی وقت تھکان بھی ہونا چاہئے، کچھ وقت آرام اور نیند کے لئے بھی ہونا چاہیے۔ اس جملے میں محدود علم و بصیرت اور محدود قدرت رکھنے والے انسان کو اس پر متنبّہ کر دیا کہ الّٰلہ جل شانہ کو اپنے یا دوسری مخلوقات پر قیاس نہ کرے، اپنے جیسا نہ سمجھے۔ وہ مثل و مثال سے بالاتر ہے۔ اس کی قدرتِ کاملہ کے سامنے یہ سارے کام نہ کچھ مشکل ہیں، نہ اس کے لئے تکان کا سبب ہیں، اور اس کی ذاتِ پاک تمام تاثرات اور تھکان، نیند اور اونگھ سے بالاتر ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment