Tuesday 11 April 2017

ساتواں حصّہ ۔  (آیت الکرسی)

چوتھا جملہ ہے  "لَهُ  مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلۡأَرۡضِ‌"۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تمام چیزیں جو آسمانوں یا زمین میں ہیں سب الّٰلہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں، وہ مختار ہے، جس طرح چاہے ان میں تصرّف فرمائے۔

پانچواں جملہ ہے "مَن ذَا ٱلَّذِى يَشۡفَعُ عِندَهُ ۥۤ إِلَّا بِإِذۡنِهِ"۔ یعنی "ایسا کون ہے جو اس کے آگے کسی کی سفارش کر سکے بدون اس کی اجازت کے"۔  

اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب الّٰلہ تعالیٰ تمام کائنات کا مالک ہے، کوئ اس سے بڑا اور اس کے اوپر حاکم نہیں، تو کوئ اس سے کسی کام کے بارے میں باز پرس کرنے کا بھی حقدار نہیں۔ وہ جو حکم جاری فرمائیں اس میں کسی کو چون وچراں کی مجال نہیں۔ ہاں یہ ہو سکتا تھا کہ کوئ شخص کسی کی سفارش و شفاعت کرے۔ سو اس کو بھی واضح فرما دیا کہ بارگاہِ عزّت و جلال میں کسی کو بغیر اجازت بولنے کا بھی اذن نہیں۔ ہاں کچھ خاص بندے ہیں جن کو خاص طور پر کلام اور شفاعت کی اجازت دے دی جائے گی، غرض بلا اجازت کوئ کسی کی سفارش و شفاعت بھی نہ کر سکے گا۔ حدیث میں ہے کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ محشر میں سب سے پہلے میں ساری امّتوں کی سفارش کروں گا۔ اسی کا نام مقامِ محمود ہے جو حضور ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment