Saturday 15 April 2017

قرضدار کو سہولت دینے کی اہمیت

حضرت عائشہ رضی الّٰلہ عنھا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور اقدس ﷺ گھر میں تشریف فرما تھے۔ اتنے میں باہر سے دو آدمیوں کے جھگڑنے کی آواز سنی۔ جھگڑا اس بات کا تھا کہ ان میں سے ایک آدمی نے دوسرے سے قرضہ لیا تھا۔ قرض خواہ قرضدار سے مطالبہ کر رہا تھا کہ میرا قرضہ واپس کرو۔ مقروض یہ کہہ رہا تھا کہ اس وقت میرے پاس سارا قرضہ واپس کرنے کی حیثیت نہیں ہے، تم کچھ قرضہ لیلو، کچھ چھوڑ دو۔ اس جھگڑنے کے اندر دونوں کی آوازیں بھی بلند ہو رہی تھیں۔ جھگڑنے کے دوران اس قرض خواہ نے یہ قسم کھا لی کہ خدا کی قسم میں قرضہ کم نہیں کروں گا۔

اس دوران حضور اقدس ﷺ گھر سے باہر تشریف لے آئے اور آ کر آپ نے پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے جو الّٰلہ کی قسم کھا کر یہ کہہ رہا ہے کہ میں نیک کام نہیں کروں گا؟ اسی وقت وہ قرض خواہ آگے بڑھا اور کہاں کہ میں ہوں یا رسول الّٰلہ۔ اور پھر فوراً دوسرا جملہ یہ کہا کہ یہ شخص جتنا چاہے اس قرض میں سے کم دیدے، میں چھوڑنے کے لئے تیّار ہوں۔

صحابہٴ کرام رضی الّٰلہ عنہما کی اطاعت کی یہ حالت تھی کہ کہاں تو قرض چھوڑنے کو تیّار نہیں تھے، اور کہاں جیسے ہی رسول الّٰلہ ﷺ کی زبان ِ مبارک سے یہ سن لیا کہ یہ نیکی کا کام ہے تو فوراً اس کو چھوڑ دیا۔

ماخوذ از بیان "بھائ بھائ بن جاؤ"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment