Monday 17 April 2017

سورہ البقرہ: ۲۶

پہلا حصّہ

إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَسۡتَحۡىِۦۤ أَن يَضۡرِبَ مَثَلاً۬ مَّا بَعُوضَةً۬ فَمَا فَوۡقَهَا‌ۚ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَيَعۡلَمُونَ أَنَّهُ ٱلۡحَقُّ مِن رَّبِّهِمۡ‌ۖ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ ڪَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِهَـٰذَا مَثَلاً۬‌ۘ يُضِلُّ بِهِۦ ڪَثِيرً۬ا وَيَهۡدِى بِهِۦ كَثِيرً۬ا‌ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِۦۤ إِلَّا ٱلۡفَـٰسِقِينَ۔ 

"بیشک الّٰلہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ (کسی بات کو واضح کرنے کے لئے) کوئ بھی مثال دے، چاہے وہ مچھر (جیسی معمولی چیز) کی ہو، یا کسی ایسی چیز کی جو مچھر سے بھی زیادہ (معمولی) ہو، اب جو لوگ مومن ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ایک حق بات ہے جو ان کے پروردگار کے طرف سے آئ ہے۔ البّہ جو لوگ کافر ہیں، وہ یہی کہتے ہیں کہ بھلا اس (حقیر) مثال سے الّٰلہ کا کیا مطلب ہے؟ (اس طرح) الّٰلہ اس مثال سے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے، اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے۔ (مگر) وہ گمراہ انہی کو کرتا ہے جو نافرمان ہیں۔" (سورہ البقرہ: ۲۶)

اس آیت میں منکرینِ قرآن کا ایک شبہ ذکر کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے۔ شبہ یہ تھا کہ قرآن کریم میں مکھی اور مچھر جیسے حقیر جانوروں کا ذکر آیا ہے۔ یہ الّٰلہ کی اور اس کے کلام کی عظمت کے خلاف ہے۔ اگر یہ الّٰلہ تعالیٰ کا کلام ہوتا تو اس میں ایسی حقیر چیزوں کا ذکر نہ ہوتا۔

اس آیت میں جواب دیا گیا کہ جب کسی حقیر وذلیل چیز کی مثال دینی ہو تو کسی ایسی ہی حقیر چیز سے مثال دینا مقتضائے عقل و بلاغت ہے۔ اور یہ بھی بتلا دیا گیا کہ ایسے احمقانہ اعتراضات ان ہی لوگوں کو ہوتے ہیں جن کے قلوب اور دماغ سے ان کے کفر کی وجہ سے سمجھنے بوجھنے کی صلاحیت مفقود ہو گئ، ایمان والوں کو کبھی ایسے شبہات نہیں ہوتے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment