Sunday 2 April 2017

پہلا حصّہ ۔ مَّن ذَا ٱلَّذِى يُقۡرِضُ ٱللَّهَ قَرۡضًا حَسَنً۬ا فَيُضَـٰعِفَهُ ۥ لَهُ ۥۤ أَضۡعَافً۬ا ڪَثِيرَةً۬‌ۚ وَٱللَّهُ يَقۡبِضُ وَيَبۡصُۜطُ وَإِلَيۡهِ تُرۡجَعُونَ۔ (سورہ البقرہ: ۲۴۵) 

"کون ہے جو الّٰلہ کو اچھے طریقے پر قرض دے، تا کہ وہ اسے اس کے مفاد میں اتنا بڑھائے چڑھائے کہ وہ بدرجہا زیادہ ہو جائے؟ اور الّٰلہ ہی تنگی پیدا کرتا ہے، اور وہی وسعت دیتا ہے، اور اسی کی طرف تم سب کو لوٹایا جائے گا۔" (سورہٴ  البقرہ: ۲۴۵)

اس آیت میں "قرض دینا" سے مراد نیک عمل کرنا اور الّٰلہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ہے۔ اس کو قرض مجازاً کہہ دیا، ورنہ سب کچھ الّٰلہ تعالی ہی کی ملک ہے، الّٰلہ تعالیٰ کو کون قرض دے سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے قرض کا عوض دیا جانا ضروری ہے اسی طرح تم الّٰلہ کی راہ میں جو خرچ کرو گے اس کا عوض ضروری ملے گا۔ اور "بڑھانے" کا بیان ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک خرما الّٰلہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا جائے تو خدا تعالیٰ اس کو اتنا بڑھاتے ہیں کہ وہ احد پہاڑ سے بڑا ہو جاتا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment