Friday 21 April 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷

ٱلَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهۡدَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعۡدِ مِيثَـٰقِهِۦ وَيَقۡطَعُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦۤ أَن يُوصَلَ وَيُفۡسِدُونَ فِى ٱلۡأَرۡضِ‌ۚ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُمُ ٱلۡخَـٰسِرُونَ۔ 

"وہ جو الّٰلہ سے کئے ہوئے عہد کو پختہ کرنے کے بعد بھی توڑ دیتے ہیں، اور جن رشتوں کو الّٰلہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں کاٹ ڈالتے ہیں، اور زمین میں فساد مچاتے ہیں، ایسے ہی لوگ بڑا نقصان اٹھانے والے ہیں۔"

پہلا حصّہ

اس آیت میں پچھلی آیت کے مضمون کی مزید تشریح ہےکہ قرآن کی ان مثالوں سے جن پر مشرکین نے اعتراض کیا ہے صرف وہی لوگ گمراہ ہوتے ہیں جو حق تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری سے سرکشی کرتے ہیں، جس کی دو وجوہات ہیں۔

اوّل یہ کہ ایسا کرنے والے اس ازلی معاہدے کو توڑ ڈالتے ہیں جو تمام انسانوں نے اپنے رب سے باندھا تھا، جبکہ تمام انسانوں کی اس عالم میں پیدائش سے پہلے حق تعالیٰ نے تمام پیدا ہونے والے انسانوں کی ارواح کو جمع کر کے ایک سوال فرمایا تھا کہ "الست بربّکم" یعنی "کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟" اس پر سب نے یک زبان ہو کر کہا تھا "بلیٰ" یعنی آپ ہمارے رب کیوں نہ ہوتے۔ اس عہد میں بڑی تاکید کے ساتھ اس کا اقرار ہے کہ الّٰلہ جل شانہ ہمارے رب اور پروردگار ہیں۔ اور اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کی اطاعت سے سرِ مو تجاوز نہ کریں۔ اب جس انسان نے اس معاہدے کو ہی توڑ ڈالا، اس سے کیا توقّع کی جا سکتی ہے کہ وہ کسی پیغمبر یا آسمانی کتاب سے فائدہ اٹھائے؟

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ 

No comments:

Post a Comment