Tuesday 4 April 2017

تیسرا حصّہ ۔ "کون ہے جو الّٰلہ کو اچھے طریقے پر قرض دے، تا کہ وہ اسے اس کے مفاد میں اتنا بڑھائے چڑھائے کہ وہ بدرجہا زیادہ ہو جائے؟ اور الّٰلہ ہی تنگی پیدا کرتا ہے، اور وہی وسعت دیتا ہے، اور اسی کی طرف تم سب کو لوٹایا جائے گا۔" (سورہٴ  البقرہ: ۲۴۵)

جب یہ آیت نازل ہوئ تو حضرت ابوالدّحاح ؓ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا، "اے الّٰلہ کے رسول ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ کیا الّٰلہ تعالی ہم سے قرض مانگتے ہیں، حالانکہ وہ قرض سے مستغنی ہیں؟" آپ ﷺ نے فرمایا، "ہاں، الّٰلہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ اس کے ذریعے سے تم کو جنّت میں داخل کر دیں۔" ابو الدّحاح ؓ نے یہ سن کر کہا، "اے الّٰلہ کے رسول ہاتھ بڑھائیں۔" آپﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ ابوالدّحاحؓ نے کہنا شروع کیا، "میں کھجور کے دو باغوں کا مالک ہوں۔ اس کے علاوہ میری ملک میں کچھ نہیں۔ میں اپنے یہ دونوں باغ الّٰلہ تعالیٰ کو قرض دیتا ہوں۔"

آپﷺ نے ان سے فرمایا، "ایک باغ الّٰلہ کے راستے میں وقف کردو اور دوسرا اپنے اہل و عیال کی معاشی ضروریات کے لئے باقی رکھو۔" حضرت ابو الدّحاح نے کہا، "آپ گواہ رہیے۔ ان دونوں میں سے بہترین باغ جس میں کھجور کے چھ سو درخت ہیں، اس کو میں الّٰلہ کے راستے میں خرچ کرتا ہوں۔" آپ ﷺ نے فرمایا، "الّٰلہ تعالیٰ اس کے بدلے میں تمہیں جنّت عطا کریں گے۔"

ابو الدّحاح ؓ اپنے گھر آئے اور بیوی کو اس کی اطلاع دی تو وہ بھی ان کے اس بہترین سودے پر بہت خوش ہوئیں۔

رسول کریم ﷺ نے فرمایا، "کھجوروں سے لبریز بے شمار درخت اور کشادہ محلّات کس قدر ابو الدّحاح ؓکے لئے تیّار ہیں (یعنی جنّت میں)۔" (قرطبی)

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment