Monday 10 April 2017

بدلے کی امید مت رکھو

اسی طرح حضرت تھانوی رحمتہ الّٰلہ علیہ نے دوسرا اصول یہ بیان فرمایا کہ جب تم کسی کے ساتھ کوئ نیکی کرو، یا اچھا سلوک کرو، تو صرف الّٰلہ کو راضی کرنے کے لئے کرو۔ مثلاً کسی کی مدد کرو، یا کسی کی سفارش کرو، یا کسی کی عزّت کرو، تو یہ سوچ کر کرو کہ میں یہ کام صرف الّٰلہ کو راضی کرنے کے لئے کر رہا ہوں، اور اپنی آخرت سنوارنے کے لئے کر رہا ہوں۔

ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس رواج یہ ہو گیا ہے کہ ہم جب کسی کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرتے ہیں، یا احسان کرتے ہیں، تو اب بیٹھ کر اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ یہ ہمارے احسان کا بدلہ کب دے گا۔ اور بالفرض کوئ ایسا موقع آیا کہ اس سے امید ہوئ کہ اب یہ جواباً ہماری مدد کرے گا، اور اس نے نہیں کی، تو اب شکایتوں کا انبار شروع ہو جاتا ہے کہ جب اس کا وقت تھا تو ہم نے تو اس کے ساتھ ایسا ایسا کیا تھا، لیکن اب جب ہماری مدد کرنے کا وقت آیا تو اس نے احسان فراموشی کا معاملہ کیا اور ہمارے احسان کا بدلہ نہیں دیا۔ پھر پہلے دل میں شکایت ہوتی ہے، پھر زبانی شکوہ کلامی ہوتی ہے، اور کبھی کبھی لڑائ جھگڑے اور تعلّقات کے ختم ہونے کی نوبت آ جاتی ہے۔ 

اسی لئے حضرت تھانوی ؒ فرما رہے ہیں کہ بندے سے امید ہی مت رکھو۔ بدلے کی امید صرف الّٰلہ تعالیٰ سے رکھو۔ جب کسی کے ساتھ اچھا سلوک صرف الّٰلہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیّت سے کرو گے تو کسی کے برے سلوک سے آئندہ کبھی شکایت نہیں ہو گی۔

ماخوذ از بیان "بھائ بھائ بن جاؤ"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment