Saturday 22 July 2017

سورہٴ آلِ عمران: ۱٤ - چوتھا حصّہ

تیسری حکمت، اور وہی یہاں سب سے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان چیزوں کی محبّت  طبعی طور پہ انسان کے دل میں پیدا کر کے اس کا امتحان لیا جائے کہ کون سا انسان ان چیزوں کی محبّت میں مبتلا ہو کے آخرت کو بھلا بیٹھتا ہے اور صرف ان ہی کو اصل مقصود اور ساری تگ و دو کا حاصلِ اصلی سمجھ بیٹھتا ہے، اور کون ہے جو ان چیزوں کی اصل حقیقت اور ان کے فانی اور ناپائیدار ہونے کو سمجھتا ہے، اور اس لیے ان کی بقدرِ ضرورت فکر اور حاصل کرنے کی کوشش تو کرتا ہےلیکن ساتھ ہی ساتھ ان کو آخرت کی بہتری کے لیے استعمال کرتا ہے۔ قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ خود اس تزئین کی یہی حکمت بتلائ گئ ہے۔ 

اِنَّا جَعَلۡنَا مَا عَلَى الۡاَرۡضِ زِيۡنَةً لَّهَا لِنَبۡلُوَهُمۡ اَ يُّهُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلاً۔ (۱۸: ۷)


"ہم نے بنایا جو زمین پر ہیں زمین کی زینت، تا کہ ہم لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں سے کون اچھا عمل کرتا ہے۔"


جس نے صرف ان دنیاوی نعمتوں کو ہی مقصودِ اصلی سمجھا اس کے لیے یہ دنیاوی نعمتیں حیاتِ آخرت کی بربادی اور دائمی عذاب کا سبب بن گئیں، اور جس نے ان کی اصلیت کو سمجھا اور ان کو صحیح طریقے سے استعمال کیا اس نے دنیا میں ان نعمتوں سے فائدہ اٹھایا اور انشاٴ الّٰلہ یہی نعمتیں آخرت میں بھی اس کی کامیابی کا سبب بنیں گی۔

جاری ہے۔۔۔

No comments:

Post a Comment