Sunday 23 July 2017

سورہٴ آل عمران: ۱٤- پانچواں اور آخری حصّہ

قرآن کریم میں ایسے ہی لوگوں کے متعلّق ارشاد ہے:

فَلَا تُعۡجِبۡكَ اَمۡوَالُهُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُهُمۡ‌ؕ اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمۡ بِهَا فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَتَزۡهَقَ اَنۡفُسُهُمۡ وَهُمۡ كٰفِرُوۡنَ۔ (۹: ۵۵)

"آپ ان کافروں کے مال اور اولاد سے متعجّب نہ ہوں کیونکہ ان نافرمانوں کو مال، اولاد دینے سے کچھ ان کا بھلا نہیں ہوا، بلکہ یہ اموال و اولاد آخرت میں تو ان کے لیے عذاب بنیں گے ہی، دنیا میں بھی رات دن کی فکروں اور مشاغل کے باعث عذاب ہی بن جاتے ہیں۔"

اس کا مطلب یہ نہیں کہ مال و اولاد اپنی ذات میں بری چیزیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ الّٰلہ تعالی نے انسان کو جو دنیاوی نعمتیں عطا فرمائ ہیں، شریعت کے مطابق اور اعتدال کے ساتھ ان کو جمع کرنا اور خرچ کرنا دنیا و آخرت کی فلاح ہے، لیکن ناجائز ذرائع سے ان کو جمع کرنا، الّٰلہ تعالی کی نافرمانیوں میں اس کو خرچ کرنا، یا جائز طریقوں میں  بھی اس قدر غلو اور انہماک ہو جانا کہ جس کے سبب انسان کی توجّہ فرائض و واجبات سے ہٹ جائے، باعثِ ہلاکت ہے۔

مولانا روم ؒ نے اس کی مثال مثنوی میں یوں بیان فرمائ ہے:

آب اندر زیرِ کشتی پستی است
آب در کشتی ہلاکِ کشتی است

یعنی دنیا کا سازوسامان پانی کے مانند ہے اور انسان کا دل کشتی کے مانند ہے۔ جب تک پانی کشتی کے نیچے اور اس کے آس پاس موجود رہے گا تو کشتی کے لیے مفید و معین ہے اور اس کے مقصدِ وجود کو پورا کرنے والا ہے۔ لیکن اگر وہی پانی کشتی کے اندر داخل ہو جائے تو اس کی بربادی اور ہلاکت کا سامان ہو جاتا ہے۔

ختم شد

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

No comments:

Post a Comment